دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

18 March 2010

نفس داخلی دشمن : شیطان خارجی دشمن

نفس داخلی دشمن : شیطان خارجی دشمن
  ملفوظات شیخ العرب وا لعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم
Wednesday, March 17th, 2010
مرتبہ: سید عشرت جمیل میر
 بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشنِ اقبال کراچی


آخرت کی یاد دلانے والا ایک مضمون

ارشاد فرمایا کہ آج کل آخرت کی یاد دلانے کے لیے ایک عنوان اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے کہ دنیا سے مت چپکو اور اپنے گھر سے بھی مت چپکو کیونکہ اس گھر سے ایک دن آپ کا خروج نہیں ہوگا اِخراج ہوگا، خروج تو جب ہو جب اپنی مرضی سے نکلو، جب روح کا خروج ہوگا تو گھر والے ہی تم کو گھر سے نکالیں گے، اس کا نام اِخراج ہے، خروج اور ہے اخراج اور ہے، خروج کے معنیٰ نکلنا اور اخراج کے معنیٰ نکالنا، بیوی بچے ہی کہیں گے کہ بابا کوجلدی قبرستان لے جاو لہٰذا دل کسی سے مت لگاو۔

حکیم الامت فرماتے ہیں کہ ہر اعضاءکی غذا اللہ نے الگ رکھی ہے، کان کی غذا اچھی آواز ہے، آنکھ کی غذا اچھے نظارے ہیں، زبان کی غذا ذائقے دار کھانے ہیں، ناک کی غذا خوشبو ہے اور دل کی غذا محبت ہے۔ غذا ناقص ہوگی تو صحت خراب ہوجائے گی، اسی طرح اگر ناقص محبوب سے دل لگاوگے تو دل کی صحت خراب ہوجائے گی، دل بے چین رہے گا، اور سارے عالم کے محبوب ناقص ہیں کیونکہ ان سب کو موت آنی ہے، بیماری آنی ہے اور جب بیماری آتی ہے تو حسن کا جغرافیہ خراب ہوجاتا ہے تو یہ سب ناقص محبوب ہیں، بس حلال کی بیوی سے گذارا کرلو۔ جائز کاروبار، مکان، ماں باپ، بیوی بچے ان سب سے تو اللہ کے لیے محبت کرو لیکن اللہ کی محبت کو سب پر غالب رکھو، دنیا سے دل کو کاٹنے کا حکم نہیں ہے، بس دنیا کی محبت پر اللہ تعالیٰ کی محبت کو غالب رکھنے کا حکم ہے جیسے کشتی کے لیے پانی ضروری ہے مگر پانی نیچے رہے اور کشتی پانی کے اوپر رہے، اگر پانی کشتی میں داخل ہوجائے تو کشتی ڈوب جائے گی اسی طرح دنیا تو رکھو، مکان بھی ضروری ہے، کپڑا بھی ضروری ہے، کھانا بھی ضروری ہے مگر ان سب کو دل کے باہر رکھو، کاروبار بھی دل کے باہر اور کار بھی دل کے باہر، دل میں بس یار ہو یعنی اللہ دل میں ہو مگر اس کے لیے مشق ہے، زبانی جمع خرچ کافی نہیں ہے۔ اہل اللہ کی صحبت سے اس محبت کو غالب کرنا سیکھا جاتا ہے، اگر صحبت ضروری نہ ہوتی تو قرآن کافی ہوجاتا لیکن جب کتاب اللہ نازل ہوئی اس کے ساتھ رجال اللہ یعنی انبیاءبھی اللہ نے پیدا کیے کہ کتاب تو نازل کردی لیکن کتاب پر عمل کر نے کی تربیت ہمارے پیغمبر دیں گے اور جب پیغمبر دنیا سے چلے گئے تو اللہ نے ان کے نائبین یعنی علماءاور اولیاءاللہ بھیجے جیسے صدر چلا جاتا ہے تو نائب صدر دستخط کرتا ہے۔

حسینوں کو دیکھنا بھی بت پرستی ہے

ارشاد فرمایا کہ ایک بات کہتا ہوں کہ جہاں دیکھنے سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوں ایسی صورتوں کو مت دیکھو چاہے کتنا ہی عمدہ ڈیزائن ہو اس کو فوراً ریزائن دو، ڈیزائن کو ریزائن کر دو تو اللہ تعالیٰ کے قرب کے خزائن برسیں گے اور اگر تم نے ان کے ڈیزائن کو دیکھا تو رام نرائن ہوجاو گے مطلب یہ کہ ان حسینوں کو دیکھنا بھی بت پرستی ہے۔ اس کو میں نے قرآنِ پاک سے ثابت کیا ہے، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بت پوجنے سے پتھر کے بت پوجنا ہی مراد ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو اپنی بری خواہش پر عمل کرتا ہے یہ بھی بت پرست ہے، غیر الٰہ پر ست ہے، اس نے لا الٰہ کا حق ادا نہیں کیا۔ اب یہ آیت دیکھئے: اَفَرَایْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ ھَوَاہ
 (سورة الجاثیة،آیت:۳۲)
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے دیکھا کہ انہوں نے اپنی نفس کی خواہش کو الٰہ بنایا ہوا ہے، اپنا معبود بنایا ہوا ہے، نفس کی وہ خواہش جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہو وہ الٰہ ہے۔ قرآنِ شریف سے ثابت ہے کہ بعض لوگوں نے اپنے نفس کی خواہش کو الٰہ بنایا ہوا ہے ان کو ہمارے حکم کا خیال ہی نہیں اور میرا حکم ان کو یاد بھی نہیں آتا یعنی یَغُضُّوا مِن اَبصَارِھِم کا حکم جو قرآنِ پاک میں ہے، اس کو بھلا کر حسینوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے انتہائی انٹرنیشنل گدھا ہو جسے کچھ پتہ ہی نہیں کہ میں کس کا بندہ ہوں، کس کی زمین پر کھڑا ہوں اور کس کے آسمان کے نیچے ہوں۔ اَفَرَایْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ ھَوَاہ کیا یہ آیت میرے مدعا کو ثابت نہیں کررہی ہے کہ جو لوگ اپنی خواہش کو خدا بنائے ہوئے ہیں یعنی جس طرح خدا کے حکم پر عمل کرنا چاہیے یہ اس طرح اپنی بری خواہشوں کی پیروی کرنے میں پاگل ہوجاتے ہیں، اُس وقت یہ ظالم اللہ کو یاد بھی نہیں کرتے اور یاد بھی کرتے ہیں تو اللہ کی محبت کو مغلوب اور معمولی رکھتے ہیں اور غلبہ اسی بت کا رہتا ہے کہ اسی کو دیکھتے رہتے ہیں بلکہ قصداً مولیٰ کو بھلا دیتے ہیں، بعض لوگ گناہ کرنے کے لیے، قصداً اللہ کو بھلانے کے لیے دماغ سے نکالتے ہیں کہ ابھی اس وقت خدا یاد نہ آئے تا کہ میں اس گناہ سے حرام مزہ لوٹ لوں اور تسبیح بھی جیب میںرکھ لیتے ہیں اور جلد توبہ بھی نہیں کرتے کہ ابھی تو اور ٹیڈیوں کو دیکھنا ہے، دیر سے توبہ کرتے ہیں، دیر سے توبہ کرنے والے کی چالاکی یہی ہے کہ ابھی کچھ اور حرام مزے لوٹ لو ورنہ توبہ کے بعد دوسرا گناہ کیسے کریں گے لہٰذا اللہ تعالیٰ کو دیر تک ناراض رکھنے پر یہ نالائق صابر ہے، یہ نفس پر صبر نہیں کرتا اپنے مولیٰ پر صبر کرلیتا ہے۔ صاحبِ قونیہ جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں

اے کہ صبرت نیست از فرزند وزن
صبر چوں داری ز رب ذوالمنن

تم کو اپنے بیوی بچوں پر صبر نہیں آتا اور احسان کرنے والا مولیٰ جس نے تم کو پیدا کیا اس کی جدائی پر صبر کرتے ہو۔ اور جس کے بیوی بچے نہیں ہیں وہ اپنے دوسرے مرغوبات کو سامنے رکھے، مولانا کا یہ شعر اس کے لیے کیسے مفید ہوگا جس کے پاس فرزند و زن نہیں ہے لہٰذا وہ اپنی ہری مرچ کو اور اپنے برف کے پانی اور دیگر مرغوباتِ طبعیہ کو سامنے رکھے کہ ان مرغوباتِ طبعیہ پر صبر نہیں تو اللہ پر کیسے صبر کرتے ہو۔

نفس کی چار تعریف

کسی نے حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ سے پوچھا کہ نفس کی تعریف کیا ہے؟ قرآنِ پاک میں جگہ جگہ نفس کا تذکرہ ہے اور بزرگ بھی کہتے ہیں کہ نفس کی اتباع مت کرو تو یہ نفس ہے کیا چیز؟
تو حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں مرغوباتِ طبعیہ غیرِ شرعیہ یعنی طبیعت کی وہ رغبت، وہ خواہش جس پر عمل کرنے کی اللہ تعالیٰ کی اجازت نہ ہو اسی کا نام نفس ہے۔
 اور شرح مشکوٰة میں ملا علی قاری محدثِ عظیم لکھتے ہیں کہ نفس نہ تو کثیف ہے نہ لطیف ہے، یہ روح اورجسم کے درمیان میں ہے، روح لطیف ہے اور جسم کثیف ہے ان کے درمیان میں نفس رہتا ہے، اگر نیک عمل کر لیے، روحانی اعمال کرلیے تو لطیف ہو جاتا ہے، روح جیسا ہوجاتا ہے اور اگر گناہ کرلیا تو جسم جیسا کثیف ہوجاتا ہے، اللہ کی فرمانبرداری سے نفس میں لطافت آجاتی ہے اور روح بھی ولی اللہ ہو جاتی ہے۔


نفس اور شیطان کی دشمنی کا فرق


انسان کے دو دشمن ہیں، ایک نفس ایک شیطان، نفس داخلی دشمن ہے شیطان خارجی دشمن ہے۔
ان دونوں دشمنوں میں فرق کیا ہے؟
 نفس وہ دشمن ہے جو اصلاح کے بعد ولی اللہ بھی ہوسکتا ہے لیکن شیطان وہ دشمن ہے جو مردودِ دائمی ہے، یہ کبھی ولی اللہ نہیں ہوسکتا۔
دونوں دشمنوں کا یہ فرق اللہ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا، میں نے کتابوں میں کہیں نہیں دیکھا حالانکہ دونوں دشمن نصِ قطعی سے ہیں، دونوں دشمنوں کا ثبوت قرآنِ پاک اور حدیثِ پاک میں ہے لیکن دونوں دشمنوں میں فرق یہ ہے کہ تھوڑی سی محنت کرلو تو نفس ولی اللہ ہوجاتا ہے اور شیطان پر کتنی محنت کرو یہ کبھی ولی اللہ نہیں ہوسکتا یہ ہمیشہ مردود رہے گا،یہ فرق ہے دونوں دشمنوں میں۔

تو مشکوٰة شریف سے ملا علی قاری کی شرح ہوگئی کہ نفس متوسطہ ہے، بین الروح والجسم ہے یعنی روح لطیف ہے اور جسم کثیف ہے، اگر عمل اچھا ہوا تو اس میں لطافت آجاتی ہے یہاں تک کہ اسی نفس کے ساتھ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے یعنی ولی اللہ ہوگئے، عبادت یہ نفس ہی تو کرتا ہے، کام تو اسی ظالم سے لینا ہے، یہ تو مزدور ہے، گھوڑا ہے، اسی پر بیٹھ کر اللہ تک پہنچنا ہے، مگر ایسا گھوڑا جو سوار کو گرا دے وہ منزل تک نہیں پہنچنے دیتا لہٰذا نفس کو اتنا مسٹنڈا مت کرو، اتنا مرغ وماہی مت کھلاو کہ جس سے نفس تم پر سواری کرلے، سواری پر سوار ہونا چاہیے نہ کہ سواری ہی سوار پر سوار ہوجائے، تو جو نفس کی بات مانتا ہے اوراللہ کی نافرمانی کرتاہے یہ دلیل ہے کہ نفس کی سواری اس پر سواری کررہی ہے۔


اگر آپ گھوڑے پر جارہے ہیں اور دوہزار گز گہری کھائی آگئی اور نیچے ہری ہری گھاس ہے، سبزہ اُگا ہوا ہے تو اگر آپ نے نہ روکا تو گھوڑا گھاس کے لالچ میں کھائی میں کود کر جان دے دے گا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر آپ روکتے ہیں تو چونکہ گھوڑا بھوکا ہے اور ہری گھاس کا عاشق ہے، لگام کھینچنے کے باوجود بے تابی سے کھائی میں کودنے کی کوشش کرے گا، سوار کو چاہیے کہ اس وقت پوری طاقت سے لگام کھینچے چاہے گھوڑے کا گال پھٹ جائے، اگر سوار پوری طاقت سے اسے روکنے کی کوشش نہیں کرے گا تو گھوڑا بھی مرے گا اور سوار بھی مرے گا لہٰذا ہمت سے کام لو اور لگام پوری قوت سے کھینچو، زیادہ سے زیادہ گھوڑے کاگال پھٹ جائے گا، اس کی اصلاح آسان ہے، مویشی کے ڈاکٹر کے یہاں لے جاو، وہ مرہم پٹی کردے گا، انجکشن وغیرہ لگا دے گا لیکن اگر تم نے اس کے گالوں کی فکر کی تو تمہارا کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہوگا، تم ہلاک ہوجاو گے۔ تو جو لوگ گناہ میں نفس کی لگام ہلکی رکھتے ہیں وہ گناہ کر بیٹھتے ہیں اور اللہ کے قہر اور عذاب کے گڈھے میں نفس بھی گرتا ہے اور خود بھی گرتے ہیں لہٰذا جسم کی فکر نہ کرو کہ گناہ چھوڑنے سے اس کو غم پہنچے گا بلکہ ان شاءاللہ تعالیٰ اپنے نام کی برکت سے اللہ تعالیٰ جسم کو صحت مند کردیں گے۔ تو یہ مثال کیسی ہے، اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو کہے گا کہ گھوڑے کو گھاس کھانے کھائی میں کود جانے دو، عقلمند سوار گھوڑے کو پوری طاقت سے روکے گا۔ بس گناہ سے بچنے میں بھی دانت پیس کے پوری طاقت سے ارادہ کرلو کہ گناہ نہیں کرناہے

نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے انہیں ہرگز نہ دیکھیں گے
کہ جن کے دیکھنے سے رب مرا ناراض ہوتا ہے

نہیں ناخوش کریں گے رب کو اے دل تیرے کہنے سے
اگر یہ جان جاتی ہے خوشی سے جان دے دیں گے

اور پھر یہ شعر پڑھیں

جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

نفس کی تیسری تعریف علامہ آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں بیان کی ہے:

﴾ فَاِنَّ النَّفسَ کُلَّھَا ظُلمَة وَسِرَاجُھَا التَّوفِیقُ ﴿

نفس ابتداءتا انتہاءپورا پورا اندھیرا ہے اور نفس کے اندھیروں کے لیے روشنی کا چراغ کیا ہے؟ تو فیق خداوندی۔ اور
 توفیق کی تین قسمیں ہیں:
نمبر۱۔تَسھِیلُ طَرِیقِ الخَیرِ وَتَسدِیدُ طَرِیقِ الشَّرِّ بھلائی اور نیکی کے راستے سامنے آجائیں اور برائیوں کے راستوں کو اللہ بند کردے،
 نمبر۲۔ تَوجِیہُ الاَسبَابِ نَحوَ المَطلُوبِ الخَیرِ بھلائی اور نیکی کے اسباب سامنے آجائیں جیسے کوئی مصیبت آگئی اب کسی اللہ کے ولی سے دعا کرانے گیا اور وہاں اس کا دل لگ گیا او راس کی صحبت سے ولیاللہ ہوگیا تو یہ مصیبت جو کسی اللہ والے تک لے گئی یہ اس کے لیے مصیبت نہیں نعمت ہے جس نے اسے اللہ سے ملا دیا

آپ تک لائی جو موجِ رنج و غم
اُس پہ قرباں سینکڑوں ساحل ہوئے

دردِ عشقِ حق بھی تم حاصل کرو
لاکھ تم عالم ہوئے فاضل ہوئے

اخترِ بسمل کی تم باتیں سنو
جی اٹھو گے تم اگر بسمل ہوئے

مولانا رومی فرماتے ہیں

بر سر مقطوع اگر صد خندق است
پیشِ دردِ او مزاح مطلق است

اللہ کے عشق سے جن کی روح بسمل ہوئی وہ مجاہدات سے نہیں ڈرتے، جس مرغ کی گردن کاٹ دی گئی ہو اور اس کے سامنے سینکڑوں خندقیں ہوں تو وہ بھی اس مرغ کے درد کے سامنے کچھ نہیں ہیں۔ جب اللہ کی محبت دل میں آجاتی ہے تو پھر نافرمانی کی جتنی بھی خندقیں ہیں سب اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، وہ ہر وقت اللہ کو راضی کرتا ہے، جب تک اللہ کو راضی کرنے کا جذبہ عطا نہ ہو تو ایسا شخص مٹی کا ڈھیلا ہے کیونکہ یہ ڈھِیلا ہے۔
 واہ! یہ حکیم الامت کا جملہ ہے کہ جو ڈھِیلا ہے تو سمجھ لو کہ یہ مٹی کا ڈھیلا ہے۔

اور توفیق کی تیسری تعریف ہے خَلقُ القُدرَةِ عَلَی الطَّاعَةِ اللہ عبادت کی طاقت پیدا کر دے اور سستی اور کاہلی دور کر دے یعنی فرمانبرداری کی طاقت دے، پست ہمتی، ضعف ہمتی اور لومڑیت ختم ہوجائے۔


اللہ کے راستے میں شیرانہ چال چلو

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ایمان والو!جب تک تم لومڑی رہو گے تم کو استقامت نصیب نہیں ہوگی، لومڑی بے وفا ہوتی ہے، وقت پر راہِ فرار اختیار کرتی ہے، جب مصیبت آتی ہے یا جب شکاری شکار کے لیے کہتا ہے تو وہ ہگنے لگتی ہے لہٰذا وَلاَ یَرُوغُ رَوغَانَ الثَّعَالِبِ لومڑیوں کی طرح اللہ کے راستے میں مت چلو، شیرانہ چلو، مالک کی مرضی پر جان دینا سیکھو، یہ کیا کہ ذرا سانمک سامنے آیا اور پاگل ہوگئے، تم کیوں پاگل ہوتے ہو؟ تمہیں اس وقت خدا یاد نہیں رہتا؟ ابھی کوئی غنڈہ تمہیں دس جوتے ماردے اس وقت تمہیں کیوں ہوش آجاتا ہے، ایک جوتا کس کے پڑے تو وہاں سے بلبلا کر بھاگو گے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ مجھ میں نظر بچانے کی ہمت نہیں ہے، صاحب میں حسینوں کو دیکھ کر پاگل ہوجاتا ہوں لیکن سوچ لو کہ ایک بس اسٹاپ پر کوئی شخص کسی لڑکے یا لڑکی کو دیکھ رہا ہے اچانک وہاں کالا سانپ نکل آیا، اب کیوں دُم دبا کے بھاگتے ہو؟ تو معلوم ہوا کہ سانپ کا خوف ہے کیونکہ جان کی محبت ہے، جب اللہ کی محبت ہوگی تو ان شاءاللہ تعالیٰ گناہ سے اسی طرح بھاگوگے اور رووگے کہ اے خدا ہمیں لومڑیانہ مزاج سے نجات عطا فرما، ہم ایک لمحہ بھی آپ کو ناراض کرنے سے پناہ چاہتے ہیں، پھر ان شاءاللہ زندگی میں زندگی آجائے گی، جو زندگی خالقِ زندگی پر فد اہوتی ہے اس کی زندگی پر بے شمار زندگی برستی ہے اور جو خالقِ حیات کو ناراض کر کے حرام لذتِ حیات کو درآمد کرتا ہے اس کی حیات پر بے شمار موت برستی ہے۔ کسی کے جسم کے لباس کو مت دیکھو، اس کے منہ میں کباب کو مت دیکھو، جو گناہوں میں مبتلاءہے اس کے منہ میں کباب ہے لیکن دل پر عذاب ہے، اس نے چین کا خواب بھی نہیں دیکھا
۔ اس وقت پوری دنیا بے چین ہے، جو حسینوں کو دیکھتا ہے اسی وقت اس کے قلب پر عذاب آتا ہے، جیسے ہی وہ گناہ کی طرف ایک اعشاریہ (زیرو پوائنٹ) آگے بڑھا تو گناہ کا نقطہ آغاز اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔


پُرلطف حیات پانے اور مُعذب حیات سے بچنے کا نسخہ

دیکھئے! فرمانبرداروں کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَلَنُحیِیَنَّہُ حَیٰوةً طَیِّبَةً
(سورة النحل، آیت:۷۹)

جو ہم کو ایمان واعمال صالحہ سے خوش رکھتے ہیں ہم ضرور بالضرور ان کو بالطف زندگی دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی طرف نسبت کی اور واحد نہیں فرمایا کہ” میں دوں گا“ بلکہ فرمایا کہ ” ہم دیں گے“ کیونکہ قرآن ِپاک شاہانہ کلام ہے، بادشاہ کبھی ”میں“ نہیں کہے گا، وہ کہے گا کہ ہم یہ کریں گے، ہمارا حکم یہ ہے، ہم نے یہ نازل کیا، ہم نے یہ حکم نافذ کیا، اگر اس نے ”میں“ کہا تو سمجھ لو کہ یہ بادشاہ نہیں ہے، اسے اچانک کہیں سے بادشاہت مل گئی ہے، خاندانی بادشاہت نہیں ہے تواللہ تعالیٰ جو مٹی کے انسانوں کو سلطانیت بخشتا ہے اس کا مزاجِ سلطانیت کیسا ہوگا لہٰذا فَلَنُحیِیَنَّہُ جمع نازل فرمایا کہ ہم ضرور بالضرور حَیٰوةً طَیِّبَةً دیں گے۔ اور جو میری نافرمانی کر کے حرام لذت چرائے گا، نمک چور، کام چور نوالہ حاضر، دسترخوان پر فوراً بیٹھے گا اور نماز میں سستی کرتا ہے اس کے لیے فرمایا:
 فَاِنَّ لَہ مَعِیشَةً ضَنکاً
(سورة الجاثیة، آیت:۴۲۱)

یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ہم ضرور بالضرور ان کی زندگی تلخ کردیں گے بلکہ فرمایا کہ ان کی زندگی تلخ کردی جائے گی، یہ شاہانہ کلام ہے، اس میں عظمتِ الٰہی ہے کہ جو سارے عالم کو شکر دیتا ہے وہ کڑوی بات کی نسبت اپنی طرف نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اختر کو یہ علمِ عظیم عطا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں زندگی کو کڑوی کرنے کی نسبت اپنی طرف نہیں کی، یہ عظمتِ کلامِ شاہی ہے جیسے ابا اگر عظیم الشان ہے تو بچوں سے یہ نہیں کہے گا میں ڈنڈے ماروں گا بلکہ یہ کہے گا کہ اگر تم نے نافرمانی کی تو تمہاری پٹائی کی جائے گی، تمہیں ڈنڈے مارے جائیں گے۔

تو نفس کی تین تعریفیں یاد کرلو
۔ پہلی تعریف حکیم الامت کی ہے یعنی مرغوباتِ طبعیہ غیرِ شرعیہ یعنی نفس کی وہ خواہشات جن پر عمل کرنے کی اللہ نےاجازت نہ دی ہو۔
 دوسری ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ کی تعریف اَلنَّفسُ مُتَوَسِّطَة بَینَ الرُّوحِ وَ الجِسمِ نفس جسم اور روح کے درمیان میں ہے، نہ کثیف ہے نہ لطیف ہے، انسان نیک عمل کرتاہے تو نفس لطیف ہوجاتا ہے اور گناہ کرتا ہے تو کثیف ہوجاتا ہے، نیک عمل سے روحانیت بڑھے گی، گناہ کرنے سے کثافت بڑھے گی۔
اور تیسری تعریف علامہ آلوسی کی کہ نفس از ابتداءتا انتہاءاندھیرا ہے اس کا چراغ تو فیقِ خداوندی ہے۔

تو نفس کی تین قسمیں ابھی پیش کردیں۔
 اب اختر کی تعریف سنئے!
 میں نے بھی نفس کی تعریف کی ہے مگر میری تعریف ذرا انگلش کی ہے کیونکہ یہ میںنے لندن اور امریکہ میں پیش کی تھی جب لوگوں نے پوچھا تھا کہ نفس کیا ہے؟
 نفس کا مزاج کیا ہے؟تو میں نے کہا کہ نفس کا مزاج ہے انٹر نیشنل پنچنگ ماسٹر یعنی گناہ کرنے سے جس کا پیٹ کبھی نہ بھرے، جو دوزخ کا مزاج ہے وہی نفس کا مزاج ہے۔

نفس کا مزاج دوزخ کا سا ہے

دوزخ میں سارے دوزخی ڈال کے اللہ پوچھے گا کہ تیرا پیٹ بھر گیا؟ ھَلِ امتَلَئتِ وہ کہے گی ھَل مِن مَّزِیدٍ اے اللہ کیا اور بھی کچھ مال ہے؟ اللہ تعالیٰ بے گناہوں کو دوزخ میں تھوڑی ڈالیں گے لہٰذا دوزخ پر اپنا قدم رکھیں گے یعنی اپنی ایک خاص تجلی نازل کریں گے تب دوزخ کہے گی قَط قَط قَط وَفِی رِوَایَةٍ قَط قَط یعنی بس بس بس اے خدا میرا پیٹ بھر گیا۔ ایک روایت میں دو دفعہ ہے اور ایک روایت میں تین دفعہ ہے۔


علامہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خدا تو جسم سے پاک ہے وہ دوزخ پر اپنا قدم کیسے رکھیں گے؟ لیکن حدیث پاک میں ہے فَلَمَّا یَضَعُ قَدَمَہ جب اللہ اپنا قدم رکھے گا تب دوزخ کا پیٹ بھرے گا تو علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ یہاں قدم سے مراد خاص تجلّی ہے۔ ایسے ہی جب انسان اللہ والوں کے پاس رہتا ہے، اللہ اللہ  کرتا ہے تو اس کے نفس پر اللہ تعالیٰ کی تجلی بِبَرَکَةِ ذِکرِ اللہ نازل ہوتی ہے پھر اس کے نفس کا پیٹ بھر جاتا ہے، پھر گناہ کے تقاضے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ اس پر اختر کا شعر ہے

وہ مالک ہے جہاں چاہے تجلی اپنی دکھلائے
نہیں مخصوص ہے اس کی تجلی طورِ سینا سے


حکیم الامت نے فرمایا کہ ساری دنیا کی حسینوں سے کوئی بدنظری کرلے پھر اس کے کان میں کوئی کہے کہ ابھی ایک حسین باقی ہے تو وہ کہے گا کہ وہ بھی دکھا دو۔ تو نفس کا مزاج یہ ہے، نفس کی خواہش قبر کی مٹی ہی ختم کرے گی، جب مٹی میں دفن کیا جائے گا تو مٹی ہی اس کا پیٹ بھرے گی لیکن اللہ والوں کا مزاج دنیا ہی میں اللہ کی تجلیات اور اللہ کے انوار وبرکات سے بدل جاتا ہے


اُف کتنا ہے تاریک گنہگار کا عالم
انوار سے معمور ہے ابرار کا عالم

انسان کا مقصدِ حیات کیا ہے؟

ارشاد فرمایا کہ دیکھو! ایک ریل جارہی ہے، اس ریل میں ہتھکڑی لگے ہوئے مجرمین بھی ہیں اور اسی ریل کے فرسٹ کلاس میں وزیر اعظم بھی جارہا ہے تو دنیا بھی ایک مسافر خانہ ہے، اسی دنیا میں پیغمبر ان اور اولیاءبھی رہتے ہیں اوراسی دنیا میں ایک سے ایک خبیث الطبع بدمعاش بھی ہے، یہ دنیا بھی ریل ہے جو خاموش سے چل رہی ہے، سورج چاند سیارات سب چل رہے ہیں مگر کسی کو احساس نہیں ہے۔


جنہوں نے امپورٹ ایکسپورٹ آفس کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھا ہے کہ کھائے جا، گو بنائے جا، یہ لوگ نہیں جانتے کہ ہم کس لیے پیدا ہوئے، رات کو امپورٹ کیا، صبح لیٹرین میں ایکسپورٹ کیا، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کے سب امپورٹ ایکسپورٹ آفیسر ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میںنے تم کو امپورٹ ایکسپورٹ آفیسر نہیں بنایا میں نے تم کواپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، یہ جوکھاتے پیتے ہو یہ وسیلہ حیات ہے لیکن مقصدِ حیات میری عبادت ہے، تم نے وسائل کو مقاصد سمجھ لیا، کپڑا مقصدِ حیات نہیں ہے وسیلہ حیات ہے، مکان بنانا وسیلہ حیات ہے، روٹی کا انتظام کرنا وسیلہ حیات ہے اور مقصدِ حیات اللہ کی فرمانبرداری پر جان دینا ہے۔ اور فرمانبرداری دو قسم کی ہے، ایک تو اللہ پاک جس سے خوش ہوں اس کام کو کرو اور جس سے ناخوش ہوں اس کام سے بچو، جن باتوں سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوتے ہیں ان سے نہ بچنا جرمِ محبت ہے، غداری ہے، وفاداری نہیں ہے۔ کیا وفاداری کے یہ معنیٰ ہیں کہ اپنے محبوب کو صرف خوش کرواور اس کی ناخوشی سے نہ بچو؟ ایک ہی تار سے روشنی چاہتے ہو، اگر منفی اور مثبت دونوں تار نہ ہوں تو بجلی کا بلب نہیں جلتا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ایمان کی روشنی کے لیے دو تار دیئے ہیں، نماز روزہ اور دیگر عبادات یہ مثبت تار ہے اور گناہ سے بچنا، حسین لڑکوں اور لڑکیوں سے سے بچنا، غیبت سے بچنا یہ منفی یعنی مائنس تار ہے، دونوں تاروں پر عمل کرو پھر بھول جاوگے ان سب مرنے والے حسینوں کی لاشوں کو۔