دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

10 March 2010

بیان :حقانیتِ اسلام

 حقانیتِ اسلام

شیخ العرب والعجم عارف بااللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کا  بیان
نَحمَدُہ وَنَستَعِینُہ وَنَستَغفِرُہ وَنُومِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیہِ وَنَعُوذُ بِااللہِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَا وَ مِن سَیِّئٰتِ اَعمَالِنَا وَمَن یَّھدِہِ االلہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہ وَمَن یُّضلِلہُ فَلاَھَادِیَ لَہ وَنَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ االلہُ وَحدَہ لاَ شَرِیَکَ لَہ وَنَشھَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَولاَ نَا مُحَمَّدًا عَبدُہ وَرَسُولُہ

فَاَعُوذُ بِااللہ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ بِسمِ االلہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

oالٓمٓ
 oغُلِبَتِ الرُّومُ
o فِی اَدنَی الاَرضِ وَہُم مِن مْ بَعدِ غَلَبِہِم سَیَغلِبُونَ
o فِی بِضعِ سِنِینَ لِللّٰہِ الاَمرُ مِن قَبلُ وَمِن مْ بَعدُ وَیَومَئِذٍ یَّفرَحُ المُومِنُونَ
(سورة الروم، آیات:۱-۲-۳-۴)

دین سے دوری …….. عقل سے محرومی

آج کل ہر وقت، ہر جگہ، ہر سڑک، ہر اسٹیشن پر عریانی اتنی بڑھ گئی ہے اور بے پردگی ایسا فیشن میں داخل ہوگئی ہے کہ اب مسلمان خواتین کو بھی بے پردگی سے شرم نہیں آتی۔ جب میں ناظم آباد میں تھا تو ایک بڑھیا جس کے منہ میں دانت نہیں تھے لیکن پیٹ میں آنت تھی وہ خود تو پورے برقع میں تھی لیکن اس کی اٹھارہ بیس سال کی لڑکی بالکل بے پردہ تھی۔ میں نے کہا کہ بڑی بی تم تو بڈھی ہو تم کو کون دیکھے گا، تمہارے منہ میں د انت نہیں، گال چپٹے ہورہے ہیں لیکن جس کو پردہ کرنا چاہیے اس کو تم نے بے پردہ کررکھا ہے۔ کیا کہیں عقل کھوپڑی سے غائب ہوگئی ہے، عقل بھی بزرگوں کی صحبت سے ملتی ہے

نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

آپ خود بتائیں کہ جوان لڑکی کو پردے کی ضرورت ہے یا بڑھیا کھوسٹ کو جس کے گیارہ نمبر کا چشمہ لگا ہوا ہے، گال پچکے ہوئے ہیں، منہ میں دانت بھی نہیں ہیں، اس کو کون دیکھے گا؟ جس کو کوئی نہ دیکھے وہ تو پردے میں ہے اور جس ( کوسب دیکھیں وہ بے پردہ ہے، کیا حماقت کی بات ہے۔ بتائیے! جس کی جیب میں ایک پیسہ نہیں ہے وہ تو زپ  لگائے  ہوئے ہے اور جیب پر ہاتھ بھی رکھے ہوئے ہے اور جس کی جیب میں نوٹوں کی گڈیاں ہیں وہ ململ کے باریک کرتے کی جیب سے اپنے نوٹوں کی نمائش کررہا ہے کہ اے جیب کترو! اے ڈاکوو! دیکھ لو یہ ہے مال۔

میرے شیخ ومرشد مولانا شاہ ابرار الحق صاحب فرماتے ہیں کہ تم آدھا کلو گوشت لے کر چلتے ہو تو تھیلے میں اندر رکھتے ہو تاکہ چیل اس کو اُڑا نہ لے جائے، گھر میں آدھا کلو دودھ رکھتے ہو تو ڈھک کے رکھتے ہو کہ بلی نہ پی جائے اور روٹیاں رکھتے ہو تو ڈھک کے رکھتے ہو کہ چوہے نہ کتر لیں۔ تو چوہوں سے روٹیوں کی حفاظت ضروری، بلی سے دودھ کی حفاظت ضروری، چیلوں سے گوشت کی حفاظت ضروری اور جیب کتروں سے نوٹوں کی حفاظت ضروری ہے تو کیا جوان بیٹیوں اور جوان بہووں کی حفاظت ضروری نہیں ہے؟

ناظم آباد کے ایک کالج کے باشرع پرنسپل نے بتایا کہ ایک لڑکی تین دن سے اپنے گھر نہیں گئی، ایک دن اس کے ابا نے آکرمجھ سے پوچھا کہ وہ پڑھنے آتی ہے؟ رجسٹر میں اس کی حاضری ہے یا نہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں صاحب ہر روز آتی ہے، پورے وقت پڑھتی ہے لیکن شام کو گھر نہیں جاتی، اپنے کسی کلاس فیلو کے یہاں جاتی ہے تو ابا جان کہتے ہیں کہ نوپرابلم(No Problem) پڑھتی تو ہے نا، بس ٹھیک ہے، پڑھنے کے بعد، تعلیم کے ٹائم کے علاوہ جہاں چاہے جائے مجھے کوئی غم نہیں، بس تعلیم میں نقصان نہ ہو۔ یہ ہے بابا جان کی غیرت اور ابا جان کی حیا و شرم کا جنازہ دفن ہونے کا قبرستان۔

جو شخص اللہ سے جتنا دور ہوگا اتنا ہی عقل سے محروم ہوگا کیونکہ عقل کا خالق اللہ ہے جو اس مالک کو راضی کو رکھتا ہے تو اس کے دماغ میں جو عقل ہے اس کا کنکشن اور رابطہ خالقِ عقل سے رہتا ہے اور جو خدا کو بھولے ہوئے ہیں ان کی کھوپڑی عقل سے محروم ہے۔ لہٰذا دیکھ لو جتنی بڈھیاں ہیں وہ خود تو برقع میں ہیں اور اپنی جوان بیٹیوں کی نمائش کر تی ہوئی لے جارہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ عقلِ سلیم عطا فرمائے۔ مشکوٰة شریف کی حدیث ہے، سرو رِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو لڑکیاں اور عورتیں بے پردہ نکلتی ہیں ان پر بھی اللہ کی لعنت ہے:
لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالمَنظُورَ اِلَیہِ (مشکوٰة المصابیح، کتاب النکاح
اللہ لعنت کرے اس پر جو (حرام کو مثلاً نامحرم لڑکی یا امرد کو ) دیکھتا ہے اور جو اپنے کو دِکھاتا ہے یا دِکھاتی ہے یعنی منظور اور منظورات دونوں پر لعنت برستی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو تو مار رہا ہے اوردوسری عورتوں سے دل لگا رہا ہے۔ یاد رکھو! اللہ کی نافرمانی کے ساتھ چین کا تصور کرنے والا بین الاقوامی گدھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:
 وَمَن اَعرَضَ عَن ذِکرِی فِاِنَّ لَہ مَعِیشَةً ضَنکاً (سورة طٰہ،آیت: ۴۲۱)

جو میری نافرمانی کرتا ہے اس کی زندگی تلخ کردی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت پر ایمان لانے کی توفیق دے اور مالک کو ناراض کر کے حرام لذتوں کی چوریوں اور کمینے پن سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

ابھی جو میر صاحب نے پڑھ کے سنایا کہ اللہ کے راستے میں، گناہ سے بچنے میں یعنی اللہ کی نافرمانی سے اپنے کو بچانے میں مثلاً بے پردہ عورتوں سے نظر بچانے وغیرہ جتنے بھی احکامِ شریعت ہیں انہیں بجا لانے میں اگر ایک ذرّہ غم دل کو پہنچ جائے تو سارے عالم کی خوشیوں سے اللہ کے راستے کا وہ ذرّہ غم اعلیٰ ہے
دامنِ فقر میں مرے پنہاں ہے تاجِ قیصری
ذرّہ درد و غم ترا دونوں جہاں سے کم نہیں

اگر اللہ کے راستے میں ایک کانٹا چبھ جائے تو وہ سارے عالم کے پھولوں سے افضل ہے، اللہ کے راستے کا ایک ذرّہ غم سارے عالم کی خوشیوں سے افضل ہے۔

تو میرے دوستو اور عزیزو! آج اللہ کی دوستی کا فقدان، اولیاءاللہ کی کمی کا سبب اللہ کی نافرمانی ہے، آج عبادات میں کمی نہیں ہے، آپ جا کے حرمین شریفین میں دیکھئے، آج سے چالیس پچاس سال پہلے اتنی تعداد نہیں تھی، آج دونوں حرم بھرے ہوئے ہیں، آج حج و عمرہ کرنے والوں کی تعداد جتنی ہے پہلے اتنی نہیں تھی، آج نفلی عبادات کی کمی نہیں ہے، اگر کمی ہے تو گناہوں سے بچنے کی کمی ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنی دوستی کی بنیاد کثرتِ عبادت پر نہیں گناہوں سے بچنے میں رکھی ہے کہ جو گناہوں سے بچے گا، مجھ کو ناراض نہیں کرے گا وہ میرا دوست ہوگا۔

ولی اللہ بننا بہت آسان ہے

اور گناہوں سے بچنا اصل میں کام نہ کرنا ہے، بتائیے! کام نہ کرنا مشکل ہے یا کام کرنا مشکل ہے؟ مالک کا کرم دیکھو کہ کام نہ کرنے پر اپنی ولایت کا تاج عطا فرما رہے ہیں یعنی کوئی نامناسب کام مت کرو، کام نہ کر کے میرے ولی بن جاو، اتنا سستا نسخہ اور کہاں ملے گا؟ دنیا کے لوگ تو کہتے ہیں کہ پاپڑ بیلنے پڑیں گے، اتنے کا م کرنے پڑیں گے تب میں دوست بناوں گا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بس تم نامناسب کام نہ کرو جو تمہارے لیے مضر بھی ہے اور ذلت وخواری کا سبب بھی ہے، تم اپنے کو رُسوا مت کرو، اپنی آبرو کو ذلیل مت کرو، اچھے کام تو کرو مگر برے کام سے بچو، میں تمہیں اپنا دوست بنالوںگا۔

بس تقویٰ کی بنیاد پر ہماری دوستی ہے لیکن لوگ آج کل اُس کو ولی اللہ سمجھتے ہیں جو رات بھر سوتا نہ ہو خواہ دن بھر کوئی عورت چھوڑتا نہ ہو۔ اگر اس کی کپڑے کی دکان ہے تو جو گاہک آتی ہے اس کو سرمہ لگا کر غور سے دیکھتا ہے، کم عمر کو بیٹی، کچھ زیادہ عمر کی ہو تو آپا اور بڑھیا کو خالہ اماں، ہر ایک کے لیے اس نے لقب تیار کر رکھا ہے۔ میں نے جامع کلاتھ مارکیٹ میں یہ الفاظ اپنے کانوں سے سنے، یہ آج سے تیس چالیس سال پہلے کی بات ہے،  اب تو شہر جانا ہی نہیں ہوتا سارے کام اللہ کی رحمت سے یہیں ہوجاتے ہیں۔ تو جو رات بھر سوتا نہیں ہے مگر دن بھر گناہوں کو چھوڑتا نہیں ہے تو بتائیے کیا یہ ”کھوتا“ نہیں ہے؟ کھوتا کے کئی معنیٰ ہیں ایک یوپی والے معنیٰ کہ زندگی کھوتا ہے یعنی ضایع کرتا ہے اور ایک یہاں کراچی کی خاص زبان میں گدھے کو کھوتا کہتے ہیں۔

تو اللہ تعالیٰ نے اپنا راستہ بہت آسان رکھا ہے اور اس راستے میں بہت چین ہے، گناہ سے بچنے میں انتہائی سکون، نہایت عزت ہے اور بڑی مزیدار میٹھی نیند آتی ہے کیونکہ دل ایک ہی ہے اور مولیٰ بھی ایک ہی ہے، ایک مولیٰ پر دل دینا آسان ہے اور لیلاوں کی تعداد بے شمار ہے، انہیں دیکھ کر ہر وقت کاش کاش کر و گے کہ کاش یہ میری بیوی ہوتی اور کاش کاش سے دل پاش پاش ہوتا رہے گا

اک حسیں ہوتو دل اسے دے دوں
سخت مشکل ہے ان ہزاروں میں

دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جس نے ہمارے قلب کو بے سکونی سے بچانے کے لیے غیرتِ جمالِ خدا وندی کے طور پر بدنظری کو حرام فرمایا کہ مجھ سے بھی محبت کرتے ہو اور غیروں کو بھی دیکھتے ہو، شرم نہیں آتی!

ایک عبرتناک فیچر

کل رات میرے قلب میں اللہ تعالیٰ نے ایک فیچر عطا فرمایا جس سے دنیاوی حسینوں سے دل اُچاٹ ہو جائے گا اور جب تک ان حسینوں سے دل اُچاٹ نہیں ہوگا آپ ان کی چاٹ سے بچ نہیں سکتے، جو ان حسینوں کی چاٹ سے بچنا چاہے اس کے دل کا ان سے اُچاٹ ہونا ضروری ہے مگر اپنی بیوی سے خوب محبت کرو، عورتیں گھبرائیں نہیں کہ یہ ہم سے بھی دل اُچاٹ کررہا ہے، میں سٹرکوں والیوں سے، بے پردہ غیر عورتوں سے دل اُچاٹ کررہا ہوں، اپنی بیویوں سے خوب محبت کرو کیونکہ ان کے لیےاللہ تعالیٰ کی سفارش بھی ہے۔

تو اب وہ جغرافیہ سن لو کہ ایک ہزار مربع گز کا پلاٹ ہے اور اس میں تالا لگا دیا گیا کہ کوئی باہر نہیں نکل سکتا اور اس میں چھوٹے چھوٹے خیمے بنے ہوئے ہیں۔ اس پلاٹ میں سو حسین ہیں، پچاس حسین لڑکیاں جو بین الاقوامی طور پر مقابلہ حسن میں اوّل آئیں او رپچاس حسین لڑکے اور سب کے سب اس بلا کے حسین ہیں کہ جن کو دیکھتے ہی اس شعر کو پڑھنا عاشقوں پر لازم ہوجائے

وہ سامنے ہیں نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں سکت ہے نہ عشق میں دم ہے

اور ان کے کھانے پینے کے لیے کباب بریانی تو بہت ہے لیکن قصداً بیت الخلاء(لیٹرین) نہیں بنایا گیا۔ ان کے جغرافیہ کو پیش کرنے کے یہ انتظام کیا گیا تا کہ اللہ کے بندوں کی تاریخ ضائع نہ ہو، اب خیمے میں ان حسینوں نے خوب بریانی کھائی اور ایک ہزار مربع گز میں چاروں طرف جو تھوڑی زمین خالی تھی سو حسین وہیں ہگ رہے ہیں۔ اب ہر دن ایکسپورٹنگ کا مال بڑھ رہا ہے اور جو عاشق بھی اس ایک ہزار مربع گز پلاٹ پر حسینوں کی زیارت کے لیے آرہا ہے تو کہتا ہے اُف کیا بات ہے، اتنی بدبو کیوں ہے؟ معلوم ہوا کہ ایکسپورٹ آفس نہیں ہے لہٰذا سب حسینوں کے پیٹ کا گو پلاٹ پر ہی اسٹاک ہورہا ہے۔ چند مہینے بعد اتنی بدبو بڑھے گی کہ وہاں کوئی داخل نہیں ہوسکتا۔ دیکھا آپ نے ان کے اندر کیا بھرا ہوا ہے، یہ ہے حسن کا انجام۔

ایک شخص نے حضرت حکیم الامت کو سرمہ دیا اور کہا کہ یہ سرمہ آنکھ کے لیے بہت مفید ہے، حضرت نے فرمایا کہ اس کے اجزاءبتاو میں اپنے خاندانی حکیم سے مشورہ لوں گا کہ اس کے اجزاءمیری آنکھوں کے لیے مفید ہیں یا نہیں۔ اس نے کہا کہ مولانا میں یہ سرمہ مفت میں دے رہا ہوں، پیسہ بھی نہیں لے رہا ہوں پھر اتنے ناز ونخرے کہ میں اجزاءبھی بتاوں۔ حضرت نے فرمایا کہ دیکھ تیر اسرمہ مفت کا ہے میری آنکھیں مفت کی نہیں ہیں لہٰذا حسینوں کو مفت بھی پاو تو کہہ دو کہ تمہارا حسن مفت کا ہے مگر میرا ایمان مفت کا نہیں ہے، مجھے جس نے پیدا کیا ہے اگر وہ ناراض ہوگیا تو ساری دنیا کے حسین میرا بلڈ کینسر اچھا نہیں کر سکتے، میرے گردے کا درد اچھا نہیں کر سکتے اور اگر اللہ میری ذلت کا ارادہ کرلے تو سارے عالم میں کوئی میرے کام نہیں آسکتا ۔

نافرمانی کا نقطہ آغاز عذابِ الٰہی کا نقطہ آغاز ہے

اب اختر کی ایک اہم بات سنئے! آدمی جس وقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا زیروپوائنٹ ،ابتداءاور نقطہ آغاز کرتا ہے اسی وقت اس کے دل پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نقطہ آغاز ہوتا ہے، گناہوں کا ماضی اور حال اور استقبال تینوں زمانے بھیانک، لعنتی، خطرناک، پریشان کن اور رسوا کنندہ ہیں۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ حسینوں کو ہینڈل کر نے کی کوشش مت کرو ورنہ کھوپڑی پر سینڈل پڑیں گے اور پھر اسکینڈل بنے گا، ہر وقت اس کا تذکرہ برائیوں کے ساتھ ہوگا کہ شکل دیکھو تو بایزید بسطامی بھی رشک کرے اور حرکتیں دیکھو تو شیطان شرماجائے، لہٰذا اگر چین سے رہنا ہے تو اللہ تعالیٰ کی یاد میں رہو۔

محبت کے دو حق

اور یاد کی دوقسمیں ہیں، نمبر۱۔ اللہ  تعالیٰ کو خوش کرتے رہو، نمبر۲۔اﷲ کو ناراض نہ کرو۔
بتاو! محبوب کے دو حق ہیں یا نہیں؟ جتنا اپنے محبوب کو خوش کرنا عاشقوں کو مطلوب ہوتا ہے اتنا ہی ان کی ناخوشی سے بچنا بھی مطلوب ہوتا ہے ورنہ پھر یہ محبت نہیں ہے، یہ شخص خود غرض اور بے وفاءہے۔ بدایوں کا ایک شاعر تھا فانی بدایونی، اس کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی، ایک دن بیوی ناراض ہوگئی تو اس کی نیند اُڑگئی۔ اس پر ظالم کا شعر دیکھو

ہم نے فانی ڈوبتے دیکھی ہے نبضِ کائنات
جب مزاجِ یار کچھ برہم نظر آیا مجھے

یعنی جب میری بیوی ذرا سی ناراض ہوتی ہے تو میری پوری کائنات اندھیری ہوجاتی ہے۔ کیوں صاحب! بیوی کی ناراضگی سے تو پوری کائنات اندھیری ہو اور مولائے کائنات، خالقِ کائنات اور اپنے پالنے والے کی ناراضگی میں سوال کرتے ہو کہ صغیرہ گناہ ہے کہ کبیرہ گناہ ہے، چھوٹا گناہ ہے کہ بڑا گناہ ہے، بیوی کی تھوڑی سی ناراضگی گوارا نہیں کرتے اور یہاں صغیرہ کبیرہ پوچھتے ہو۔ اللہ  کا عاشق ہر مکروہ کام سے بھی بچتا ہے کیونکہ مکروہ کام کرنے والا محبوب نہیں ہوسکتا اَلمَکرُوہُ ھُوَ ضِدُّ المَحبُوبِ مبارک ہیں وہ بندے جو ہر سانس کو اللہ پر فدا کرتے ہیں، مبارک ہیں وہ بندے جن کی آنکھیں اللہ کی یاد میں اشکبار ہیں، مبارک ہیں وہ لوگ جن کے دل اللہ کی محبت میں تڑپ رہے ہیں

دلِ مضطرب کا یہ پیغام ہے
ترے بن سکوں ہے نہ آرام ہے

تڑپنے سے ہم کو فقط کام ہے
یہی بس محبت کا انعام ہے

جو آغاز میں فکرِ انجام ہے
ترا عشق شاید ابھی خام ہے

بعض لوگ ڈاڑھی کے نقطہ آغاز ہی سے گھبراتے ہیں کہ لوگ کیا کہیںگے۔ ایک صاحب نے حکیم الامت کو لکھا کہ مجھے ڈر ہے ڈاڑھی رکھنے پر لوگ میرا مذاق اڑائیں گے۔ حضرت نے فرمایا کہ ارے ظالم! تو بھی تو لوگ ہے لُگائی تو نہیں ہے تو کیوں لوگوں سے ڈرتا ہے۔ اللہ کے راستے میں ہمتِ مردانہ چاہیے، عورتوں کی شکل بنانا یہ مردوں کے لیے نازیبا ہے، اپنی بیوی کے گال سے اپنے گال کیوں مشابہ کرتے ہو؟ اگریہ بال بیکار ہوتے تو اللہ تعالیٰ پیدا ہی نہ کرتے اور ہمارے گالوں کو عورتوں کے گال کی طرح چکنا پیدا کرتے لیکن اللہ نے عورتوں میں اور مردوں میں فرق رکھا ہے، جو داڑھی منڈاتا ہے وہ گویا اللہ پر اعتراض کرتا ہے کہ یہ بال آپ نے بیکار پیدا کیے ہیں اس لیے میں ان بیکار بالوں کو روزانہ اُڑاتا رہتا ہوں ۔ دیکھو کبھی کسی نبی نے ڈاڑھی نہیں منڈائی، کسی اللہ کے ولی نے ڈاڑھی نہیں منڈائی پھر تم اللہ کے دوستوں کا راستہ چھوڑ کر کہاں جارہے ہو؟ اللہ کے پیاروں کی شکل بناو پھر دیکھو اللہ کا پیار۔

اللہ کے پیاروں کی شکل بنانا اللہ کے پیار کا ذریعہ ہے

حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ قنوج میں ایک وکیل صاحب جارہے تھے، ان کا نام محمد میاں تھا، ایک بڑھیا نے کہا ارے بیٹا سنو! گرمی کا مہینہ ہے،شربت پی لو، انہوں نے شربت پی لیا کہ اسّی سال کی نانی اماں ہے مگر پھر پوچھا کہ آپ نے مجھے شربت کیوں پلایا؟ میری آپ کی تو جان پہچان نہیں ہے، اس نے کہا کہ تیری ہی شکل کا میرا بیٹا ملا یا میں رہتا ہے، دو تین سال ہوگئے وہ آیا نہیں ، اس کی یاد میں دل تڑپتا رہتا ہے، تجھے دیکھ کر میری محبت جوش میں آگئی۔ تو معلوم ہوا کہ جب بیٹا پیارا ہے اور پیارے کی شکل والے کو اس بڑھیا نے شربت پلایا تو جو اللہ کے پیاروں کی شکل میں رہیں گے ان پر بھی اللہ کا پیار جو ش میں آئے گا لہٰذا اللہ کے مغضوب اور نافرمانوں کی شکل مت اختیار کرو، ڈاڑھی منڈانا چوبیس گھنٹے کا گناہ ہے، نماز میں کھڑے ہو نافرمانی کی حالت میں ہو، سور ہے ہو نافرمانی کی حالت میں ہو اور ڈاڑھی رکھنے سے روزانہ کی مصیبت سے بھی چھوٹ جاو گے، روزانہ شیو کرنا، ایک کوٹ، ڈبل کوٹ اور آخر میں کھونٹی اُکھاڑ کوٹ۔ الحمد لللّہ ! اس مجمع میں بہت سے لوگوں نے ڈاڑھی رکھ لی ہے، اگر کسی کو بھی ڈاڑھی رکھنے کے بعد ندامت ہوئی ہو تو مجھے بتاو، جنہوںنے میری گذارش پر ڈاڑھی رکھ لی آج وہ خوشیاں منارہے ہیں۔

حق تعالیٰ کی غیر محدود رحمت

گناہوں کی معافی مانگنے والا ایسا ہے جیسے اس سے خطا ہوئی ہی نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
 اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنبِ کَمَن لاَّ ذَنبَ لَہ (سنن ابن ماجة، کتاب الزھد، باب ذکر التوبة، ص:۳۱۳)

جس نے معافی مانگ لی گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں، ایسے ہی جو ڈاڑھی رکھ لے اور تو بہ کر لے تو گویا اس نے کبھی ڈاڑھی منڈائی ہی نہیں۔ سبحان اللہ! کتنا بڑا انعام ہے، کیا کریم مالک ہے۔ اگر کسی کے ایک کروڑ گناہ بھی ہیں وہ ایک دفعہ کہہ دے کہ یا اللہ مجھے معاف کر دے اب آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا تو اللہ تعالیٰ سب معاف فرمادیتے ہیں، اللہ کی رحمت کا سمندر عظیم الشان ہے۔ اگر کراچی کے سمندر پر ایک چڑیا آئے اور چونچ میں چند قطرے پانی لے لے تو سمندر میں کوئی کمی ہوگی؟ اسی طرح ہمارے گناہوں کو معاف کرنے پر اللہ کی رحمت کا جو نزول ہوگا اس سے اللہ کی رحمت کے سمندر میں اتنی کمی بھی نہیں ہوگی۔ اسی لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا:
 یَا مَن لاَّ تَضُرُّہُ الذُّنُوبُ وَلاَ تَنقُصُہُ المَغفِرَةُ فَھَب لِی مَالاَ یَنقُصُکَ وَاغفِرلِی مَا لاَ یَضُرُّکَ (شعب الایمان للبیھقی)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں یَا مَن لاَّ تَضُرُّہُ الذُّنُوبُ ہمارے گناہوں سے اے خدا آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا وَلاَ تَنقُصُہُ المَغفِرَةُ اور آپ اگر ہم کو بخش دیں تو آپ کے خزانہ بخشش اور مغفرت میں کوئی کمی نہیں ہوگی فَھَب لِی مَالاَ یَنقُصُکَ پس آپ ہمیں بخش دیجئے وہ چیز کہ جس کی آپ کے خزانے میںکمی نہیں وَاغفِرلِی مَالاَ یَضُرُّکَ اور ہمارے ان گناہوں کو معاف فرمادیجیے جو آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچاتے یعنی آپ کے خزانے میں جب کمی نہیں ہے تو ہم کو معاف کر دیجئے او رمعاف کرنا آپ کو محبوب بھی ہے۔


بخاری شریف کی حدیث ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کوئی بندہ معافی مانگتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو فوراً معاف فرمادیتے ہیں کیونکہ معاف کر نے کا عمل اﷲ کو محبوب ترین عمل ہے، معاف کر نے میں ہم لوگوں کو تو تکلیف ہوتی ہے اور ستانے والے کومعاف بھی کر دیتے ہیں کہ چلو معاف کیا مگر دل پر تو غم ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کو کوئی غم نہیں ہوتا کیونکہ وہ تاثر سے پاک ہیں، اللہ تعالیٰ معافی دے کر خوش ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان کا محبوب عمل ہے جیسے کسی کو فاختہ کا شکار پسندہو، وہ جنگل گیا اور اس کے سامنے فاختہ آگئی تو بے ساختہ اس نے چھرّا مار دیا اور فاختہ بھی عجیب تھی کہ حواس باختہ ہو کر آسانی سے اس کے شکار میں آگئی، بھاگی بھی نہیں۔ بس سمجھ لو کہ اللہ کی رحمت عظیم الشان ہے، کوئی معافی مانگ کر تو دیکھے کہ کتنا جلد معاف کردیتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب کوئی گنہگار بندہ روتا ہے تو رحمت سے عرشِ الٰہی ہلنے لگتا ہے


عرش لرزد از انین المذنبین

گنہگاروں کے نالوں سے عرشِ الٰہی ہل جاتا ہے جب وہ رو رو کر اللہ  سے فریاد کرتے ہیں کہ اے اللہ  مجھے معاف کر دے، مجھ سے غلطیاں ہوگئیں، اگر آپ معاف نہیں کریں گے تو میں کہاں جاوں گا، میرا آپ کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے، میں آپ کے حضور میں نالائق ہوں لیکن آپ کے سوا میرا کوئی اللہ  نہیں ہے تو عرشِ الٰہی رحمت سے ہلنے لگتا ہے جس طرح بچے کے رونے سے ماں کانپنے لگتی ہے۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اللہ والوں کی توبہ کو اپنی توبہ کے برابر مت سمجھو، ان کی توبہ سے فرشتے رونے لگتے ہیں۔

تو دوستو! جو سبق آج سنایا گیا میں سارے عالم میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرو، سارے عالم میں اختر کا یہی پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرو مگر محبت کے دونوں حق ادا کرو، نیک عمل بھی کرو اور گناہوں سے بھی بچو، اپنے مالک کو ایک لمحہ کو بھی ناراض نہ کرو۔ اگر آپ کو کسی سے محبت ہے تو آپ اس کے دونوں حق ادا کریں گے یعنی آپ اپنے محبوب کو خوش بھی کریں گے اور اس کی ناراضگی سے بھی بچیں گے تو جو ظالم گناہ سے نہیں بچتا یہ اللہ تعالیٰ کے محبت کے حقوق میں بے وفا ہے اور لفظ بے وفا اہلِ محبت کے نزدیک جرمِ عظیم ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا وفا داری عطا فرمائے، آمین۔


باطل فرقوں کا رد کلام اللہ کا اعجاز ہے

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں الم۔ سارے عالم میں اس کے معنیٰ کوئی نہیں جانتا، تمام مفسرین لکھتے ہیں واللہ اعلم بمراد ذالک اللہ ہی کو اس کے معنیٰ معلوم ہیں۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے معنیٰ بیان نہیں فرمائے، ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ اللہ کے علم میں تھا کہ بعض گمراہ قوم پیدا ہوگی جو قرآنِ پاک کے بارے میں یہ بکواس کرے گی کہ بغیر معنیٰ سمجھے ہوئے تلاوت بیکار ہے، ایسے لٹریچر نویسوں اور گمراہ طبقے کے لیے اللہ نے جگہ جگہ ایسے الفاظ نازل فرمائے جس کے معنیٰ دنیا میں کوئی نہیں بتا سکتا یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے معنیٰ نہیں بتائے لیکن بغیر سمجھے پڑھنے پر بھی الم کے تین حروف پر تیس نیکیاں مل جائیں گی، الف پر دس، لام پر دس اور میم پر دس ۔


یہ اصل میں ردِّ فِرَقِ باطلہ ہے ورنہ اللہ کے لیے کیا مشکل تھا کہ اپنے نبی کو اس کے معنیٰ بتا دیتے چونکہ قرآن قیامت تک کے لیے ہدایت ہے لہٰذا علمِ الٰہی میں جتنے گمراہ فرقے ہیں ان کا رد اور بطلان بھی مقصود تھا۔ اس کی کئی مثالیں ہیں جیسے قرآن میں ایک جگہ ہے:
 اِنَّ اللہَ تَوَّاب رَّحِیم (سورة الحجرات، آیت:۲۱)

اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے توّاب کے بعد رحیم نازل کیا کیونکہ ایک فرقہ گمراہ تھا جو یہ کہتا تھا کہ تو بہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر معاف کر نا ضابطے سے لازم ہے۔ اس کا اللہ نے جواب دیا کہ میں ضابطہ اور قانون سے توبہ نہیں قبول کرتا، شانِ رحمت سے قبول کرتا ہوں۔ اس لیے علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمة اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ توّاب کے بعد فوراً رحیم نازل کیا تاکہ اس فرقہ ضالّہ اور گمراہ کا جواب ہوجائے حالانکہ جب قرآن پاک نازل ہورہا تھا اُس وقت یہ فرقہ نہیں تھا مگر خدا کو تو علم ہے کہ کون کون سے فرقے پیدا ہوں گے اس لیے میرا کلام قیامت تک کے لیے نازل ہورہا ہے اس میں ہر گمراہ فرقہ کا علاج موجود ہے لہٰذا الم سے اس فرقہ کا علاج ہوگیا جو کہتا ہے کہ خالی قرآن رٹنے سے کیا ہوتا ہے، قرآنِ پاک سمجھ کر پڑھنے پر ہی نیکیاں ملیں گی، الم سے اس باطل عقیدہ کا رد ہوگیا کیونکہ الم کے معنیٰ کوئی نہیں جانتا لیکن جب کوئی تلاوت کرے گا تو از روئے حدیث اس کو تیس نیکیاں مل جائیں گی۔

حقانیتِ اسلام کی عظیم الشان دلیل

جو آیت تلاوت کی تھی اب اس کی تفسیر کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
غُلِبَتِ الرُّومُ (سورة الروم، آیت:۲)

روم کے لوگ مغلوب ہوگئے۔ رومیوں پر ایرانیوں کے غالب آنے کا یہ واقعہ قرآنِ پاک، اسلام، اللہ تعالیٰ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و حقانیت کا عظیم الشان واقعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ خبر دے رہے ہیں غُلِبَتِ الرُّومُ اہلِ روم مغلوب ہوگئے، شکست کھا گئے اور اہلِ فارس جیت گئے۔ چونکہ اہلِ روم عیسائی تھے، صاحبِ کتاب تھے چنانچہ مکہ شریف کے مسلمان چاہتے تھے کہ اہلِ کتاب جیت جائیں، اگرچہ وہ بھی کافر تھے مگر مسلمانوں سے نسبتاً قریب تھے، ان کے پاس آسمانی کتاب انجیل تو تھی، مگر کافر چاہ رہے تھے کہ اہلِ فارس جیت جائیں کیونکہ وہ مشرک تھے، آگ کو پوجنے والے تھے۔ چنانچہ جب رومی شکست کھاگئے تو مشرکین نے خوشیاں منائیں اور مسلمانوں کو طعنہ دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے طعنے کا جواب عطا فرمایا کہ یہ شکست چند دن کے لیے ہے، جلد ہی میں رومیوں کو پھر غالب کردوں گا غُلِبَتِ الرُّومُ فِی اَدنَی الاَرضِ وَہُم مِنم بَعدِ غَلَبِہِم سَیَغلِبُونَ اہلِ روم مغلوب ہوگئے لیکن مغلوب ہونے کے بعد عنقریب پھر غالب آجائیں گے۔ اس آیت کی وجہ سے مشرکین نے کتنے دانت پیسے ہوںگے کہ کاش قرآنِ پاک کی یہ آیت سچی نہ ہو، رومی ہمیشہ مغلوب رہیں اور ان کو کبھی فتح نہ ہو، ساری دنیا کے کافروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ قرآن پاک غلط ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت اور قدرت کے سامنے قرآن پاک کو کون غلط کرسکتا تھا چنانچہ قرآنِ پاک کی صداقت ظاہر ہوئی اور پھر کچھ دن کے بعد رومیوں کو اللہ نے فتح دے دی اور مشرکین دانت پیس کے رہ گئے۔ آگے اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں:لِللّٰہِ الاَمرُ مِن قَبلُ وَمِنْھُمْ بَعدُ

اللہ ہی کی حکومت اور اختیار تھا اُس وقت بھی جب ان کو شکست ہوئی اور جب اُنہیں فتح دوں گا تو یہ بھی میری ہی حکومت اور اختیار سے ہوگا، پہلے بھی میرے ہی حکم سے وہ مغلوب ہوئے اور آئندہ میرے ہی حکم سے جیتیں گے۔ اس فتح اور شکست کا راز یہ تھا کہ اُ س زمانے میں فارس اور روم کفار کی دو بڑی طاقتیں تھیں، اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ دونوں کافر آپس میں لڑ کر کمزور ہوجائیں اور میرے نبی کے لیے فتح مکہ کا راستہ ہموار ہوجائے، اللہ تعالیٰ کے یہ سب تکوینی راز ہیں۔


تو جب یہ آیات نازل ہوئیں جن میں پیشین گوئی تھی کہ رومیوں کو اللہ تعالیٰ فتح دے گا تو صدیقِ اکبر نے مارے خوشی کے مجامع الاسواق (بازار) میں جاکر جہاں لوگ بیٹھتے تھے اعلان کردیا کہ اے مشرکو اے کافرو! خوشیاں مت مناو، اللہ تعالیٰ جلد اہلِ روم کو جو اہل کتاب ہیں پھر فتح دیں گے۔

حضرت صدیقِ اکبر کا یہ اعلان سن کر ابی ابن خلف جو مسلمانوں کا بہت ہی شدید دشمن تھا بولا کہ اے صدیق تم جھوٹ بولتے ہو، رومیوں کو ہرگزفتح نہیں ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کے دشمن تو ہی جھوٹا ہے، اگر تین سال کے اندر رومی غالب نہ ہوئے تو میں تم کو دس اونٹ دوں گا اور اگر میرے اللہ کا اعلان صحیح ہواتو دس اونٹ تم کو دینا پڑیں گے۔ چونکہ اس وقت تک قمار یعنی جوا حرام نہیں ہوا تھا اس لیے صدیقِ اکبر نے یہ شرط لگائی۔ جب صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے تو عرض کیا کہ میں نے ایک کافر کو یہ چیلنج کیا ہے۔ آپ نے فرمایاکہ میں نے تو تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تین سال کے اندر فتح ہوگی، اللہ  تعالیٰ نے فِی بِضعِ سِنِینَ نازل فرمایا ہے، بِضعِ تین سال سے نو سال کا زمانہ کہلاتا ہے لہٰذا دوبارہ جاو اور اس سے کہو کہ میں دس اونٹوں کے بجائے سو کی شرط لگاتا ہوں اور مدت تین سال کی بجائے نو سال مقرر کرتا ہوں کہ نو سال کے عرصہ میں رومیوں کو فتح حاصل ہوجائے گی۔ اگر نوسال کے اندر اندر رومیوں کو فتح نہ ہوئی تو ابو بکر تم کو سو اونٹ دے گا اور اگر اس عرصہ میں رومی غالب ہوگئے تو تم کو سو اونٹ دینا پڑیں گے۔ ابی ابن خلف اس معاہدہ پر راضی ہوگیا۔

کچھ عرصہ بعد جب ہجرت کا حکم ہوا تو ابی ابن خلف کافر نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر تم مدینہ چلے گئے اور تمہارا قول غلط ہوگیا اور تمہارے اللہ کاکلام صحیح نہ ہوا تو سو اونٹ کون دے گا؟ آپ نے کہا کہ میرا بیٹا عبد الرحمن دے گا، اس کے بعد ابی ابن خلف نے بھی اپنے بیٹے کو کفیل بنا لیا کہ اگر میں مر گیا تو میرا بیٹا سو اونٹ دے گا۔ اللہ کی شان کہ نو سال پورے نہیں ہوئے تھے کہ ساتویں برس اللہ نے رومیوں کو فتح دے دی جبکہ ساری دنیائے کفر دانت پیس رہی تھی اور سر توڑ کوشش کررہی تھی کہ یہ جنگ میں کبھی نہ جیتیں تا کہ اسلام کا چراغ بجھ جائے لیکن حضور صلی اللہ  علیہ وسلم کا چراغ اللہ کا چراغ ہے۔اللہ نے ساتویں سال رومیوں کو فتح دے دی۔

بتاو! ساری دنیائے کفر کیوں نہ اپنے گھوڑوں اور تلواروں سے ایرانیوں کی مدد کو پہنچی تاکہ رومیوں کو نہ جیتنے دیتی اور قرآن پاک کا دعویٰ غلط کردکھاتی لیکن قیامت تک کسی میں یہ طاقت نہیں جو اللہ کے حکم کو نافذ ہونے سے روک سکے۔ اللہ کے کلام کی زبردست صداقت ہمارے ایمان ویقین کا ذریعہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رومیوں کو جتا دیا تو اس وقت ابی ابن خلف مرچکا تھا۔ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شرط کے مطابق اس کے لڑکے سے سواونٹ وصول کرلیے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اونٹ لے کر حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان اونٹوں کو صدقہ کردو۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس وقت جوا کی حرمت کی آیت نازل نہیں ہوئی تھی لیکن جو چیز آئندہ حرام ہونے والی تھی وہ بھی صدیقِ اکبر کی شان کے مناسب نہیں تھی اور قمار(جوا) کی حرمت سے قبل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی قمار کو پسند نہیں فرمایا۔ جس طرح شراب سابقہ زمانے میں حلال تھی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے اُس زمانے میں بھی جبکہ شراب حرام نہیں تھی کبھی شراب نہیں پی۔ آہ

حسن کا انتظام ہوتا ہے
عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے

آج یہ واقعہ میں نے اس لیے بیان کیاکہ یہ سورة مسلمانوں کے ایمان و یقین بڑھانے کا زبردست ذریعہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ حضرت صدیقِ اکبر کو کلام اللہ کی صداقت اور اسلام کی حقانیت پر کیسا یقین تھا کہ شرط بھی لگا دی کہ ضرور تین سال سے لے کر نو سال کے عرصے میں رومی جیتیں گے، قرآن کیسے غلط ہوجائے گا۔

تو دوستو! اس زمانے میں اسی چیز کی فکر کرلو کہ جو عمرہ کرنے جانے والے ہیں اگر مکہ شریف میں کوئی عورت سامنے اچانک نظر آجائے تو فوراً نظر نیچی کر کے کہو کہ یااللہ مکہ شریف میں، تیرے شہر میں، یہ عورت تیری مہمان ہے لہٰذا یہ میری ماں سے زیادہ معزز ہے، اپنے نفس سے کہو کہ مکہ جانے والی خواتین جو حج و عمرہ کرنے جاتی ہیں میری ماں سے زیادہ محترم ہیں، خدا محترم ہے لہٰذ اس کا مہمان بھی محترم ہے خواہ عورت ہو یا مرد ہو۔ اور مطاف کے قریب نہ بیٹھو کیونکہ طواف میں لڑکیاں بھی ہوتی ہیں اور مرد بھی لہٰذا مطاف سے تھوڑا فاصلے سے بیٹھو تا کہ نظر کے زاوئیے میں کوئی حسن آئے ہی نہیں، قریب بیٹھنے میں اندیشہ ہے کہ نظر اِدھر اُدھر پڑجائے اور حرام کی مرتکب ہوجائے۔ اور جب مدینے شریف جاو تو وہاں بھی کوئی عورت سامنے آئے مصر کی، انڈونیشیا کی، اُردن کی کوئی گذر جائے تو فوراً نظر بچا کر یہی کہو کہ اے اللہ یہ مدینے پاک کی مہمان ہے، اس کو ڈبل عزت حاصل ہے کہ اے اللہ یہ تیری بھی مہمان ہے اور تیرے رسول کی بھی مہمان ہے کیونکہ مدینہ شریف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے۔ بس پھر دیکھو کیسا عمرہ ادا ہوتا ہے اور کیسا نور عطا ہوتا ہے، حلاوتِ ایمانی سے دل بھر جائے گا ان شاءاللہ تعالیٰ۔

جنہوں نے پرچے دیئے ہیں اور جن لوگوں کے دل میں جو حاجت ہے سب لوگ نیت کرلو کہ ان پرچوں میں جو حاجتیں ہیں اور ہم سب کے دل میں جتنی بھی نیک مرادیں ہیں اللہ اپنی رحمت سے سب پورا فرما دے اور جس کو جو پریشانی، جو غم ہے خواہ روحانی بیماری ہو یا جسمانی اللہ تعالیٰ سب کو شفاءدے د ے، جسمانی بیماری کو بھی شفاءدے دے اور روحانی بیماری کو بھی شفاءدے دے۔ جس کو غیر اللہ کے عشق ومحبت کا مرض ہے خدائے تعالیٰ ہمارے قلب کو اس غیر اللہ کے کینسر سے پاک فرماد ے۔ ان حسینوں کے عارضی ڈسٹمپر بول و براز اور گندگی سے بھرے ہوئے ہیں۔ دوستو! اپنی بیوی کے علاوہ کسی کو نظر اٹھا کر مت دیکھو پھر دیکھو دل میں اللہ کیسا چین دیتا ہے۔ آہ! دردِ دل سے کہتا ہوں کہ مالک پر مر کر تو دیکھو، وہ ارحم الراحمین ہے

نیم جاں بستاند و صد جاں دہد
آنچہ در وہمت نیاید آں دہد

اللہ مجاہدے میں آدھی جان لے کر سو جان دیتا ہے۔ یہ کہنے والا جلال الدین رومی ہے، صاحبِ قونیہ شاہ خوارزم کا نواسہ ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار کہنے والا۔ قونیہ کے جس جنگل میں مولانا رومی کے ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار ہوئے اختر نے جاکر اس جنگل کی زیارت کی ہے۔ دوستو! یہ عرض کرتا ہوں کہ اللہ پر آدھی جان دے دو اﷲ سو جان عطا کرے گا اور آدھی جان جو بچی ہے وہ الگ رہی تو آدھی جان جو گئی اس کے بدلے میں سو جان پاگئے اور آدھی جان پلس (Plus) میں رہی، لہٰذا نفع ہی نفع میں رہو گے اور اللہ کو جان دینے کا زمانہ کب ہے؟ کیا مرنے کے بعد جان دو گے؟ مرنے کے بعد جان دینے کی فیلڈ چِھن جائے گی لہٰذا اس کریم مالک پر ابھی اسی زندگی میں اپنی جان فدا کر دو۔ یااللہ ہمیں جسمانی روحانی شفا دے دے، دونوں جہاں کی نعمتیں ہم فقیروں کو بخشش کردے، آمین۔

وَاٰخِرُ دَعوَانَا اَنِ الحَمدُ ِلِللّٰہِ  رَبِّ العٰلَمِینَ۔

وَصَلَّی االلہُ عَلَی النَّبِیِّ الکَرِیمِ۔