دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

31 January 2010

شک سے یقین زائل نہیں ہوتا

شک سے یقین زائل نہیں ہوتا

ایک مرتبہ صحابہ کرام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جنگل سے گذر رہے تھے کہ پانی کا تالاب نظر آیا، حضرت عمر نے فرمایا یہ پانی پاک ہے، اس سے وضو وغیرہ کرلو، صحابہ نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین یہاں بھڑئیے، کتے وغیرہ پانی پیتے ہوںگے، تو فرمایا کیا تم نے انہیں پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے؟ ہر چیز کو پاک سمجھو جب تک اس کی ناپاکی یقینی نہ معلوم ہوجائے۔ ایسے ہی بعض لوگوں کو ہر وقت وضو کاشبہ رہتا ہے تو فقہاءنے لکھاہے کہ جب تک قسم نہ کھالو کہ خداکی قسم میرا وضو ٹوٹ گیاتب سمجھو کہ ٹوٹا ہے ورنہ شک و شبہ ہے اور محض شک و شبہ سے وضو نہیں ٹوٹتا، وضو تو یقینی کیا اور یقین شک سے نہیں ٹوٹتا، لوہے کو لوہا کاٹے گا، جب اتنا یقین ہوجائے کہ قسم کھالو کہ خدا کی قسم میرا وضو نہیں رہا، اب بے شک وضو کرو، ورنہ شیطان وسوسہ ڈالتا رہے گا۔ ایسے ہی بعض لوگوں کو شیخ کے بارے میں وسوسہ ہوتا ہے کہ شیخ آج کل ناراض ہے، تو میرے شیخ نے مجھے لکھا کہ جب تک قسم نہ کھا سکوکہ خدا کی قسم شیخ ناراض ہے تب تک سمجھو کہ شیخ راضی ہے۔

حرام خواہشات کے انہدام سے نسبت مع اللہ کی تعمیر ہوتی ہے

حرام خواہشات کے انہدام سے نسبت مع اللہ کی تعمیر ہوتی ہے

یہ بتائیے کہ اگر آپ کا ایک ٹوٹا ہوا جھونپڑا ہے جس میں لیٹرین بھی نہیں ہے، گندگی سے بھرا ہوا ہے اور کوئی کریم اور مہربان بادشاہ کہتا ہے کہ اگر تم اپنے اس مکان کو ڈھا دو تو ہم تمہیں ایک نئی شاندار عمارت بنا کردیں گے یاسعودی حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ ہم مسجدِ نبوی کے قریب کے مکانات ڈھانا چاہتے ہیں اور مسجدِ نبوی کی توسیع کرنا چاہتے ہیں اور اگر تمہارا مکان ایک لاکھ کا ہے تو ہم تم کو پچاس لاکھ دیں گے تو آپ لوگ تمنا کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں کہ مسجدِ نبوی کی توسیع کے لیے ہمارا مکان حکومت کی نظر میں آجائے تاکہ ایک لاکھ کے پچاس لاکھ ملیں تو اللہ تعالیٰ نے ہماری خواہشات کے مکانوں کو گرانے کا جو حکم دیا ہے کہ جو بری بری خواہشات اور گندے گندے تقاضے ہیں مثلاً عورتوں کو دیکھنے کے، لڑکوں کو دیکھنے کے، عشقِ مجازی کے، جھوٹ بولنے کے، بے جا غصہ کے، ان خبیث مادّوں کو اگر تم گرا دو یعنی دل میں بری خواہشات کے مکان کو ڈھا دو تو اس سے کچھ دن کے لیے تو تمہیں ایسا محسوس ہوگا کہ دل ویران ہوگیا لیکن میں اس ویرانی میں اپنی محبت کا اور نسبت مع اللہ کا خزانہ رکھ دوں گا

یہ صحنِ چمن، یہ لالہ و گل ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں
تخریبِ جنوں کے پردے میں تعمیر کے ساماں ہوتے ہیں

اہم ارشادات : قومیت و صوبائیت اور رنگ و زبان کے تعصب کی اصلاح

اہم ارشادات : قومیت و صوبائیت اور رنگ و زبان کے تعصب کی اصلاح




Book: Morning & Evening Duas

Book: Morning & Evening Duas
Shaikh ul Arab wal Ajam, Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Muhammad Akhtar Saheb (db) has been published with the title “Morning & Evening Duas”. This is a translation of an urdu book.

A topic from this book:
Protection from the Evil of All Creations
(Recite thrice)
It is reported from Hadhrat Abdullah Ibn Khubaib that once on a dark rainy night, we went out in search of Rasulullah (sallellaho alaihe wasallam), and we found him. Rasulullah (sallellaho alaihe wasallam) said, “Say” I enquired, “What should I say?” He said, “Read…
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلْ هُوَ اللهﹸ أَحَدٌ ○اَللهﹸ الصَّمَدُ ○ لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُولَدْ ○ وَ لَمْ يَكُنْ لَّه كُفُوًا أَحَدٌ ○
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ○مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ○ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ○وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ ○وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ○

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ○مَلِكِ النَّاسِ ○إِلٰهِ النَّاسِ ○مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ○الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِي صُدُوْرِ النَّاسِ○مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ

thrice every morning and evening, it will suffice (as protection) from everything.” (Mishkaat p.188)

Note:Mullah Ali Qari (rahmatullah alaihe) has quoted Allamah Tibi (rahmatullah alaihe) in his Mirqaat (vol. 4 p.370), that the meaning of Hadith

تكفيك من كل شي

is
ای تكفيك من كل شر او من كل ورد

that these three surahs are sufficient for the protection from all evil, and if the reader does not read any other wazifah besides this, it would suffice him.
Commentary:

Today, many Muslims have problems. Some say black magic(jadoo) has been done on them, their families or on their businesses. If we read this simple wazifah, Allah Ta’ala will save us from all calamities.

Other Topics
1.Protection from the Evil of All…

2.Salvation from the Worries of Both…

3.The Last Verses of Surah Hashr

4.Protection from the Calamities…

5.For Protection of One’s Religion,…

6.Protection from Insanity, Leprosy,…

7.Protection from All Fatal Diseases

8.Dua for Increasing the Gardens…

9.Salaatan Tunjina

10.Protection from Black Magic

11.Protection from Evil Destiny and…

12.Dua for Guidance and Protection…

13.Dua for Deliverance from Shirk…

14.Sayyidul Istighfaar

15.A Comprehensive Dua that Consists…

16.Dua for the Fulfillment of Debts…

17.Dua for Continuous Wellbeing and…

18.Salaatul Hajaat

19.Dua for Steadfastness on Deen

27 January 2010

سوانح حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

 A Glance at Biography Hazrat wala db in urdu :
سوانح حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

Sunday, December 27th, 2009
مرتبہ: سید عشرت جمیل میر
(گذشتہ سے پیوستہ)


حضرت والا کو بچپن ہی سے مثنوی سے جو شغف تھا اس پر ایک واقعہ یاد آیا۔ حضرت جب مدرسہ بیت العلوم میں پڑھتے تھے تو ایک رات حضرت کے قلب مبارک پر مثنوی کے بعض اشعار کی خاص تشریح وارد ہوئی اور حضرت رات ہی کو فجر کے قریب اپنے شیخ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمةاﷲ علیہ کی خدمت میں پھولپور حاضر ہوئے اور فجر کی نماز پھولپور میں پڑھی۔ مدرسہ بیت العلوم پھولپور سے پانچ میل پر ہے۔ حضرت شیخ حضرت کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ اتنے سویرے کیسے آئے؟ عرض کیا کہ حضرت مثنوی کے بعض اشعار کے معانی دل میں آئے ہیں حضرت کی تصدیق کے لیے حاضر ہوا ہوں کہ میں صحیح سمجھا ہوں یا نہیں؟ حضرت شیخ پھولپوری فجر کے بعد تلاوت ،مناجات واذکار کرتے تھے اور اشراق کی نماز پڑھ کر فارغ ہوتے تھے۔ اس دن حضرت شیخ نے اپنے تمام معمولات ملتوی کردئیے اور فرمایا کہ سناو۔ حضرت نے فجر کے بعد تشریح شروع کی یہاں تک کہ دن کے گیارہ بج گئے تقریباً پانچ گھنٹے حضرت پھولپوری مسلسل سنتے رہے اور حضرت شیخ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے
وہ چشم ناز بھی نظر آتی ہے آج نم
اب تیرا کیا خیال ہے اے انتہائے غم
یہ واقعہ سنا کر حضرت دامت برکاتہم نے یہ شعر احقر کو سنایا تھا۔ حضرت پھولپوری رحمة اﷲعلیہ مثنوی کے عاشق تھے، حضرت کی تشریح سن کر حضرت پھولپوری رحمة اﷲ علیہ نے خوش ہوکر فرمایا کہ بتاو!آج کیا کھاوگے؟ حضرت نے عرض کیا کہ جو حضرت کھلا دیں گے۔ حضرت گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ آج حکیم اختر کے لیے تہری پکاو۔ تہری پیلے رنگ کی ہوتی ہے، چاولوں سے بنائی جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت سے مثنوی کی جو عظیم الشان خدمت لی ہے ایسی شرح کی مثال نہیں ملتی اور یہ سب ان بزرگوں کا فیض ہے جن کی جوتیاں حضرت والا نے اٹھائی ہیں۔
یہ باتیں تو درمیان میں آگئیں میں حضرت والا کے بچپن کے حالات کا ذکر کررہا تھاکہ ماں کی گود سے ہی حضرت کو اﷲ تعالیٰ کی طرف جذب تھا۔ حضرت والا ترجمة المصنف میں تحریر فرماتے ہیں :

”احقر ایام طفولیت ہی سے اپنی روح میں حق تعالیٰ کی طرف ایک خاص جذب محسوس کرتا تھا اور دل کو دنیا سے اچاٹ پاتا تھا
نہ میں دیوانہ ہوں اصغر نہ مجھ کو ذوق عریانی
کوئی کھینچے لیے جاتا ہے خود جیب وگریباں کو

عشق خود در جان ما کاریدہ اند
ناف ما بر مہرِ خود ببریدہ اند


حضرت رومی فرماتے ہیں کہ اپنی محبت کا بیج میری جان میں بو دیا ہے اور اپنی محبت کے شرط ایفاءپر مجھے وجود بخشا ہے“
ترجمة المصنف میں ایک اور جگہ پر تحریر فرماتے ہیں کہ :
”احقر کو رات کی تنہائیوں میں آسمان کی طرف نظر کرنے اور چاند ستاروں کے مناظر سے بہت سکون ملتا اور ان مصنوعات سے صانع حقیقی کی یادمیں دیر تک مشغول رہتا اور پھر تھک کر سو جاتا حضرت مولانا محمد احمد صاحب پھولپوری کا یہ شعر اس حالت کا صحیح ترجمان ہے
ان کے جلووں کی رنگیں بہاریں
دیکھتے دیکھتے سو گئے ہم
بچپن میں حضرت کی دینی فہم کا ایک واقعہ
حضرت کے بھانجے محمد احمد صاحب نے یہ واقعہ سنایا جو ان کی والدہ صاحبہ نے ان کو سنایا تھا کہ ہماری دادی مُردوں کو ایصالِ ثو اب کے لیے فاتحہ دیا کرتی تھیں اور مسجد کے موذن کو بلا کر فاتحہ دلواتی تھیں اور اس کو کھانا بھی دیتی تھیں۔ حضرت اگرچہ اس وقت بچے تھے لیکن دادی کو منع کرتے تھے کہ فاتحہ نہ دیا کریں لیکن وہ نہیں مانتی تھیں۔ ایک بار جب انہوں نے کھانا پکا کر موذن کو فاتحہ کے لیے بلایا تو حضرت نے دادی سے کہا کہ یہ موذن ثواب اپنے مُردوں کو پہنچاتا ہے آپ کے مُردوں کو نہیں پہنچاتا آپ کا سارا کھانا بے کار جاتا ہے۔ یہ سن کر دادی نے موذن کو بھگا دیا او رگھر سے یہ بدعت ہمیشہ کوختم ہوگئی۔

تحصیل طب یونانی
ترجمة المصنف میں حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ ” درجہ ہفتم پاس کرنے کے بعد والد صاحب کا تبادلہ پھر ضلع سلطان پور ہوگیا اور وہاں احقر نے جامع مسجد کے خطیب مولانا قاری صدیق صاحب سے فارسی شروع کی۔ کریما مکمل اور گلستاں کے کچھ باب پڑھ کر احقر نے پھر دیوبند جانے کی اجازت چاہی مگر والد صاحب نے میری مرضی کے خلاف طبیہ کالج الٰہ آباد میں داخل کردیا اور فرمایا طب سے فارغ ہوکر عربی شروع کرنا۔ بڑی مشکل سے پھر یہ دن گذارنے پڑے ۔ اس وقت الٰہ آباد میں حضرت مولانا سراج احمد صاحب امروہوی اسٹیشن کے قریب عبد اﷲ والی مسجد میں درس تفسیر دیا کرتے تھے احقر وہاں حاضری دیا کرتا ۔ اس محلہ پر جہاں قیام تھا تقریباً ایک میل پر کچھ صحرا تھا وہاں ایک مسجد تھی جو جنوں کی مسجد مشہور تھی۔ اسی مسجد میں گاہے گاہے حاضر ہوتا اور مناجات مقبول ہمراہ لے جاتا اور اس مسجدمیں خوب تنہائی کا موقعہ پا کر اپنے رب سے دونوں جہاں کا دکھڑا رو لیا کرتا
دونوں جہاں کا دکھڑا مجذوب روچکا ہے
اب اس پہ فضل کرنا یارب ہے کام تیرا“
حضرت نے فرمایا طیبہ کالج میں داخلہ اس وقت مجھے بہت گراں گذرا تھا لیکن میرے والد صاحب نے فرمایا تھا کہ میں تمہیں طب کی تعلیم اس لیے دے رہا ہوں تا کہ دین تمہارا ذریعہ معاش نہ ہو اور دین کی خدمت تم صرف اﷲ کے لیے کرو۔حضرت فرماتے ہیں کہ آج والد صاحب کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ واقعی اس سے بہت فائدہ ہوا کہ آج کوئی اس قسم کا الزام نہیں لگا سکتا کیونکہ میرا اپنا دواخانہ اور کتب خانہ ہے۔ طب پڑھنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے یہ اندازہ ہوگیا کہ اپنے احباب کو اس قدر وظیفہ و ذکر بتایا جائے کہ جس سے وہ غیر معتدل نہ ہوں کیونکہ آج کل اکثر لوگ اعصابی دباو اور ڈیپریشن میں مبتلاءہیں اس لیے مختصر ذکر بتاتا ہوں کیونکہ ولایت کثرت ذکر پر نہیںگناہوں سے بچنے پر موقوف ہے۔ اس سے الحمد ﷲ احباب کو روحانی وجسمانی دونوں فائدے ہیں۔

الٰہ آباد میں حضرت کو حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب کے بارے میں علم ہوا جو حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی کے سلسلہ کے خلیفہ تھے اور بڑے صاحب نسبت بزرگ تھے، ان کی زیارت کے لیے حضرت ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مولانا علمائے ندوہ کے محضر میں بڑے درد سے یہ شعر پڑھ رہے تھے

دل مضطرب کا یہ پیغام ہے
ترے بن سکوں ہے نہ آرام ہے
تڑپنے سے فقط ہم کو کام ہے
یہی بس محبت کا انعام ہے
جو آغاز میں فکر انجام ہے
ترا عشق شاید ابھی خام ہے

حضرت نے فرمایا کہ مولانا کو دیکھ مولانا سے بہت محبت ومناسبت محسوس ہوئی مولانا سراپا محبت سراپا جمال تھے اور سینہ میں درد بھرا دل رکھتے تھے۔ حضرت طبیہ کالج سے فارغ ہوکر روزانہ شام پانچ بجے سے رات کے گیارہ بجے تک مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمة اﷲ علیہ کی خدمت میں رہتے ۔ پندرہ سال کی عمر سے اٹھارہ سال کی عمر تک تین سال مسلسل شاہ محمدا حمد رحمة اﷲ علیہ کی خدمت میں رہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ میں تو اﷲ والوں کی گود میں بالغ ہوا ہوں۔ کالج سے فارغ ہو کر میرے ساتھی شام کو دریائے جمنا پر جاتے تھے نہاتی ہوئی عورتوں کو دیکھنے اور میں مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمة اﷲ علیہ کی خدمت میں جاتا تھا۔ مولانا بھی حضرت سے بہت ہی شفقت اور محبت فرماتے تھے۔ کبھی حضرت مولانا اپنے وطن پھولپور تشریف لے جاتے تو حضرت آپ کی ملاقات کے لیے پھولپور حاضر ہوتے اور وہاں قیام فرماتے تو مولانا گھر سے اپنا بستر لے کر مہمان خانے میں تشریف لے آتے اور فرماتے کہ یہاں بڑے بڑے علماءآتے ہیں میں کسی کے لیے اپنا بستر باہر نہیں لاتا لیکن صرف آپ کے لیے گھر سے باہر آکر سوتا ہوں۔ ایک بار الٰہ آباد سے حضرت مولانا محمد احمد صاحب نے حضرت کو کراچی خط بھیجا تھا جس میں لکھا تھا کہ آپ مجھ سے جیسی محبت کرتے ہیں دنیا میں ایسی محبت مجھ سے کوئی نہیں کرتا ۔ حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب رحمة اﷲ علیہ نے مفتی محمود الحسن گنگوہی مفتی اعظم ہند رحمة اﷲ علیہ سے پوچھا کہ ہندوستا ن میں سلسلہ نقشبندیہ میں سب سے قوی النسبت بزرگ کون ہیں تو حضرت مفتی صاحب نے جواب دیا کہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب۔ حضرت نے اپنے شیخ اوّل حضرت پھولپوری سے عرض کیا کہ ایک بزرگ مولانا شاہ محمد احمد صاحب ہیں جن کی خدمت میں میں بچپن سے حاضر ہوتا ہوں اﷲ کی محبت میں بالکل جلے بھنے ہیں تو حضرت پھولپوری نے فرمایا کہ ہم بھی ان سے ملیں گے۔ حضرت پھولپوری مولانا سے ملنے پھولپور تشریف لے گئے (مولانا شاہ محمد احمد صاحب کے وطن کا نام بھی پھولپورہے) اور مولانا سے ملاقات کی مولانا جب چائے لینے گھر کے اندر تشریف لے گئے تو حضرت پھولپوری نے زمین کی طرف دیکھا پھر آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ مولانا محمد احمد صاحب کا نور مجھے زمین سے آسمان تک نظر آرہا ہے اور ایک بار فرمایا کہ مولانا محمد احمد صاحب سراپا محبت ہیں۔ آغاز جوانی ہی میں حضرت والا کو ایسے بزرگ کی صحبت نصیب ہوئی جو اﷲ کی محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ مولانا زبردست عاشق خدا تو تھے ہی لیکن اﷲکے عاشق تو بہت دیکھے مگر اﷲ کے بندوں سے ایسی محبت کرنے والا نہیں دیکھا۔ مولانا کے مہمان اور مریدین جب آتے تھے تو حضرت بہت خوش ہو جاتے تھے اور کچھ دن رہ کر جب وہ رخصت ہوتے تھے تو جہاں تک وہ نظر آتے تھے مولانا دور تک ان کو دیکھتے رہتے تھے اور ان کے رہنے کی جگہ اور ان کے برتنوں کو دیکھ کر اشکبار ہوتے تھے کہ یہاں میرے مہمان رہتے تھے اور ان برتنوں میں کھاتے تھے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ مولانا کی مجلس میں میں نے کبھی دنیا کا ذکر نہیں سنا، ہر وقت یادِ الٰہی میں سرشار اور اﷲ کی محبت میں مولاناکے درد بھرے اشعار، مولانا کی مجلس اشعار کی مجلس ہوتی تھی۔ حضرت مولانا کی آواز بھی ایسی درد ناک تھی جیسے بانسری بج رہی ہو۔ ہر بزرگ کے یہاں نسبت منتقل ہونے کے طریقے مختلف ہیں، مولانا کے یہاں نسبت اشعار سے منتقل ہوتی تھی۔ بعض دفعہ ایسا ہوا ہے کہ عشاءکے بعد اشعار کی مجلس شروع ہوئی مولانا کیف ووجد کے عالم میں اشعار پڑھ رہے ہیں اور سامعین پر بے خودی طاری ہے یہاں تک کہ نصف شب ہوگئی لوگوں نے تہجد پڑھی تہجد کے بعد پھر مجلس شروع ہوگئی اور حضرت فجر تک درد بھرے ترنم سے اشعار پڑھتے رہے لوگوں نے مسجد میں جماعت سے نماز ادا کی اور پھر آگئے اور پھر مجلس شروع ہوگئی اور اشراق کی نماز پڑھ کر لوگ گھر گئے اور نصف شب کے قریب اگر کسی نے گھڑی دیکھ لی تو مولانا کو سخت تکلیف ہوتی تھی اور فرماتے تھے کہ نصف شب کے بعد جب مجھ پہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو لوگوں کو نیند آنے لگتی ہے اور بہت درد بھرے انداز میں یہ شعر پڑھتے
داستاں عشق کی ہم کس کو سنائیں آخر
جس کو دیکھووہی دیوار نظر آتاہے
اور حضرت سے فرماتے کہ میری مجلس میں کبھی آپ کی آنکھ نہیں جھپکتی۔
حضرت والا کو اﷲ تعالیٰ نے شعر وسخن کا فطری ذوق عطا فرمایا ہے اس کی تربیت مولانا محمد احمد کی صحبت سے ہوئی لیکن حضرت فرماتے ہیں کہ شاعری میں میرا کوئی استاد نہیںمیںنے کسی سے ردیف قافیہ نہیں سیکھا شاعری میں میرا درد میرا ستاد ہے۔ چنانچہ آغاز جوانی میں حضرت کی زندگی کا پہلا شعر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی کہنہ مشق استاد کا ہے اور حضرت کے سینہ میںمنجانب اﷲ جو آتش محبت ودیعت ہوئی ہے اس کا ترجمان ہے، وہ شعر یہ ہے
درد فرقت سے مرا دل اس قدر بے تاب ہے
جیسے تپتی ریت میں اک ماہی بے آب ہے
پاکستان آنے کے سولہ سال بعد جب حضرت اپنے شیخ ثانی حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمةاﷲ علیہ کی خدمت میں پہلی بار ہندوستان گئے تو شاہ ابرار الحق صاحب نے تمام اکابر اور دیگر احباب ومتعلقین کو اطلاع کر دی حضرت مولانا محمد احمد صاحب الٰہ آباد سے تشریف لائے اور مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی مغربی بنگال میں تھے جہاں ان کی آنکھوں کا آپریشن ہوا تھا لیکن مفتی صاحب تشریف لائے اور حضرت سے فرمایاکہ ڈاکٹر مجھ کو سفر سے منع کررہے تھے کہ سفر نہ کریں آنکھ کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے لیکن میں آپ کی محبت میں آگیا۔

ہردوئی میں قیام کے دوران حضرت مولانا ابرار الحق صاحب نے حضرت کو وعظ کہنے کا حکم دیا۔ حضرت مفتی محمودحسن صاحب بھی مجلس میں موجود تھے حضرت نے فرمایا کہ مفتی صاحب کی موجودگی میں ان کے علم کے اکرام کی وجہ سے مجھے جھجھک ہورہی تھی۔ میںنے مفتی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت آپ اپنے کمرے میں تشریف لے جا کر آرام فرمائیں تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ اچھا آپ مجھے اپنے وعظ سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ غرض حضرت نے بیان فرمایا جس سے تمام سامعین پر وجد طاری تھا اور اکابر بھی اشکبار تھے۔ بیان کے بعد حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے حضرت کو سینہ سے لگالیا اور فرمایا کہ اﷲ کسی کو زبان دیتا ہے تو دل نہیں دیتا کسی کو دل دیتا ہے تو زبان نہیں دیتا۔ آپ کو مبارک ہو کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دل اور زبان دونوں عطا فرمائے ہیں۔
ایک او رسفر میں حضرت جب ہردوئی تشریف لے گئے تو مولانا محمد احمد صاحب سے حضرت والا کے تعلق کی وجہ سے شیخ نے حکم دیا کہ الٰہ آباد میں مولانا محمد احمد صاحب آپ کے منتظر ہیں جا کر ان سے مل آئیے۔ مولانا نے وہاں حضرت کا بیان کرایا۔ بیان کے بعد فرمایا کہ روح المعانی کے حوالوں سے توبہت سے علماءبیان کرتے ہیں لیکن آپ جو روح المعانی سے بیان کرتے ہیں اس کا مزہ ہی کچھ او رہے یعنی اﷲ تعالیٰ نے جو درد آپ کو عطا فرمایا ہے وہ روح المعانی کی لذت بڑھا دیتا ہے۔
اور مکہ معظمہ میں ایک بار حج کے موقع پر حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب کا ساتھ ہوگیا۔ حج کے بعد اپنے حجرہ میں مولانا کی طبیعت کچھ مضمحل تھی حضرت سے فرمایا کہ کچھ سنائیے۔ حضرت نے مثنوی کے اشعار کی تشریح فرمائی تو مولانا شاہ محمد احمد صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میرے سر میں شدید درد تھا آپ کی تقریر سے بالکل جاتا رہا اور طبیعت بالکل ٹھیک ہوگئی۔
خیر میں تو حضرت والا کے زمانہ طفولیت کے حالات بیان کررہا تھا کہ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ترتیب باقی نہ رہی اور ترتیب مقصود بھی نہیں،مقصود تو حضرت والا کے حالات بیان کرنا ہے ۔

حکیم الامت تھانوی سے سلسلہ مکاتبت برائے بیعت

طبیہ کالج کے زمانے میں حضرت حکیم الامت مجدد الالملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اﷲ علیہ کا وعظ راحت القلوب مل گیا جس کے مطالعہ سے حضرت حکیم الامت سے عقیدت ہوگئی اور طے کیا کہ اسی سلسلہ میں داخل ہونا ہے۔ ترجمة المصنف میں حضرت تحریر فرماتے ہیں:
” اسی زمانے میں حضرت تھانوی رحمة اﷲ علیہ کا ایک وعظ راحت القلوب ہاتھ لگ گیا۔ اس کے مطالعہ نے میری بڑی رہبری کی اور صحیح راہ دکھا دی حضرت اقدس تھانوی رحمة اﷲ علیہ سے بیعت ہونے کے لیے سلسلہ مکاتبت شروع کیا۔ افسوس کہ حضرت اس وقت اپنی زندگی کے آخری ایام میں تھے مولانا شبیر علی صاحب نے لکھا کہ حضرت والا علیل ہیں خلفاءمیں سے کسی مصلح کا انتخاب کرلیا جاوے چند دن بعد خبر معلوم ہوئی کہ حضرت حکیم الامت تھانوی کا وصال ہوگیا۔ طبیہ کالج میں چھٹی ہوگئی۔ روتا ہوا گھر آیا اور آہ و بکا کے ساتھ کچھ تلاوت کر کے ایصال ثواب کیا۔ دل پر سخت صدمہ تھا۔ مثنوی نالہ غمناک پڑھنا شروع کی اور خوب جی بھر کے رویا۔ صرف دو اشعار اس کے اب بھی یاد ہیں
جو تھے نوری وہ گئے افلاک پر
مثل تلچھٹ رہ گیا میں خاک پر
بلبلوں سے گھر کیا گلشن میں جا
بوم ویرانے میں ٹکراتا رہا
(جاری ہے۔)

26 January 2010

Click Here For Book : Ulama Karam Ki Azmat















24 January 2010

اچھے اخلاق کثرتِ عبادت کا نام نہیں

Taken from alabrar.khanqah.org
بکھرتے موتی - ملفوظات حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہمؒ

Friday, January 22nd, 2010


مرتبہ: سید عشرت جمیل میر

بندیوں کے حق میں اﷲ تعالیٰ کی سفارش

تو یہ عرض کررہا ہوں کہ سب سے بڑا کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں لہٰذا آج سے ارادہ کرلو کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے خاص کر اپنی بیویوں کے معاملہ میں جن کے لیے اﷲ تعالیٰ نے سفارش نازل کی: وَعَاشِرُوھُنَّ بِالمَعرُوفِ(سورة النسائ، آیة:۹۱)

اے ایمان والو! اپنی بیویوں سے بھلائی سے پیش آو، اگر تم نے بیویوں کو رُلایا اور ان کی آہ نکلوائی تو یاد رکھو یہ آہ تمہارے اوپر گرے گی، گردہ خراب ہوجائے گا یا کینسر ہوگا یا کوئی اور عذاب نازل ہوجائے گا۔ اختر نے یہ بات اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے اتنی زیادہ دیکھی ہے کہ جنہوں نے اپنی بیویوں کو رُلایا، ان کی آہ نکلوائی وہ سخت عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ وہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر، بھائیوں کو چھوڑ کر اﷲ کی شریعت و قانون کے مطابق اپنی ساری زندگی ہمیں سونپ دیتی ہیں تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ جب ان کے ماں باپ، ان کے بہن بھائی ان کے پاس نہیں ہیں تو ہم ان کی دل جوئی کرنے کی کوشش کریں۔

اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنی بندیوںکی سفارش نازل فرمائی ہے: وَعَاشِرُوھُنَّ بِالمَعرُوفِ


(سورة النسائ، آیة:۹۱)


اپنی بیویوںسے بھلائی سے پیش آو۔
 کیوں صاحب! اگر کسی ملک کا وزیرِ اعظم آپ کو خط لکھ دے کہ تم اپنی بیوی سے اچھے اخلاق سے پیش آنا کیونکہ تمہاری بیوی میری بیٹی کے ساتھ پڑھی ہوئی ہے تو آپ اپنی بیوی کو ستا سکتے ہیں؟ بولیے! تو اﷲ تعالیٰ کی سفارش کے بعد اپنی بیویوں کو ستانے کی ہمت کیسے ہوتی ہے۔ بیوی چاہے جوان ہو چاہے بڈھی ہو، منہ میں اس کے دانت نہ ہو، دانت ٹوٹ گئے ہوں، جب جوانی تھی تو خوب پیار کیا، جب بیچاری کے دانت ٹوٹ گئے، گال پچک گئے اب اس کو حقیر سمجھ رہے ہو، یہ ٹھیک نہیں ہے، اس بڈھی کا بھی خیال کرو کیونکہ تمہارے ساتھ بڈھی ہوئی ہے، اُس وقت طبیعت سے پیار کرتے تھے اب اﷲ کا حکم سمجھ کر اس کے ساتھ شفقت کرو، اگر اس کے سر میں درد ہوجائے تو دوا لے آو۔ غرض اس کے ساتھ رحمت کا معاملہ کرو۔

اچھے اخلاق کثرتِ عبادت کا نام نہیں


حضور صلی اﷲعلیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سب سے اچھے اخلاق اس کے ہیں جس کے اپنی بیوی کے ساتھ اخلاق اچھے ہیں، ہم دوستوں میں تو خوب ہنسیں گے، خوب لطیفے سنائیں گے اور بیوی کے پاس منہ سکوڑے ہوئے جائیں گے یا سنجیدہ بزرگ بن جائیں گے، جیسے ہنسنا جانتے ہی نہیں۔ اب وہ بےچاری تعجب میں ہے کہ یا اﷲ میں دن بھر منتظر تھی کہ رات کو میرا شوہر آئے گا تو اس کے ساتھ ہنسوں بولوں گی، بیویوں کے ساتھ ہنسنا بولنا عبادت میںداخل ہے، دوستوں میں رات بھر جاگنا اور بیوی سے بات نہ کرنا صحابہ کی سنت کے خلاف ہے۔


حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضرت ابودرداءرضی اﷲ تعالیٰ عنہ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں، نہ بیوی کے پاس جاتے ہیں نہ لوگوں سے ملتے جُلتے ہیں تو حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان کے گھر گئے، جب حضرت ابو درداءنے ان کی خدمت میں کچھ کھانے کے لیے پیش کیا تو انہوں نے فرمایاکہ تم بھی کھاو، حضرت ابو درادءنے عرض کیا کہ میں روزہ سے ہوں، اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر تم نہیں کھاو گے تو میں بھی نہیں کھاوں گا اور پھر یہ حدیث پیش کی:

اِنَّ لِضَیفِکَ عَلَیکَ حَقًّا
تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے۔ اور فرمایا کہ میں تمہارا مہمان ہوں مجھ سے باتیں کرو، اس کے بعد فرمایا اچھا جاو کچھ نفلیں پڑھو، جب نفلیں پڑھ لیں تو فرمایا:

اِنَّ لِزَوجَتِکَ عَلَیکَ حَقًَّّا


تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔ (سنن النسائی الکبری،ج:۲،ص:۸۲۱، دارالکتب العلمیة)


پس جاو اپنی بیوی کا بھی حق ادا کرو، اس سے بھی باتیں کرو۔

اسی لیے حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے کے لیے سفارش نازل کی ہے تو جو خدا کی سفارش کو رد کردے، یہ حکیم الامت کے الفاظ ہیں میں نہیں کہہ رہا، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی اپنے زمانے کے مجدد تھے، وہ فرماتے ہیں کہ جو اپنی بیویوں کو ستائے اور اﷲ تعالیٰ کی سفارش کو رد کردے، ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش نہ آئے تو یہ بے غیرت مرد ہے کیونکہ وہ بے چاری کمزور ہے، اس کے ماں باپ اور بھائی اس سے دور ہیں، وہ تمہارے قبضہ میں ہے، دو تین بچوں کے بعد وہ اور بھی کمزور بھی ہوجاتی ہیں اور مرد صاحب مسٹنڈے رہتے ہیں، انڈے کھا کھا کر ڈنڈے دِکھاتے ہیں اور کہتے ہیں صاحب کیا کروں میں تو غصے سے پاگل ہوجاتا ہوں، کہتا ہوںتولیہ دھو، اس نے تولیہ نہیں دھویا۔ ارے بھائی! کیوں تم نے اس کو خادمہ سمجھ رکھا ہے اپنا تولیہ خود دھولو، بیوی اس لیے تھوڑی دی گئی ہے کہ تمہارے کپڑے دھوتی رہے، خود دھولو لیکن اس کو مت ستاو ۔

غصہ عقل مند ہوتا ہے
کراچی میں ہمارے ایک دوست تھے وہ کہتے تھے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم غصے سے پاگل ہوجاتے ہیں بالکل غلط کہتے ہیں، غصہ کبھی پاگل نہیں ہوتا، غصہ بہت ہوشیار ہوتا ہے، جب سیر بھر طاقت والے کے پاس سوا سیر والا آجائے اور ڈنڈا اور چھرا اور چاقو دکھائے تب اس وقت غصہ کہتاہے کہ معاف کردینا۔ اب غصہ کو یہ عقل کہا ں سے آگئی؟ خوب سن لو دوستو! سیر بھر طاقت والا غصہ آدھے سیر والے پر پاگل ہوتا ہے، اپنے سے کمزور پر پاگل ہوتا ہے لیکن جب سوا سیر والا آگیا، محمد علی کلے نے بوکسنگ کا ایک ہاتھ دکھایا تو وہاں ہاتھ جوڑ کر بلی بن گئے۔ معلوم ہوا کہ غصہ میں کوئی پاگل نہیں ہوتا، یہ سب بیوقوفی اور مکاری کی باتیں ہیں پھر بھی میں غصہ کا علاج بتائے دیتا ہوں۔

غصہ کا علاج
جدہ سے میرے پاس ایک خط آیا کہ میری بیوی میں، میرے بچوں میں، سارے خاندان میں غصہ بہت ہے، غصہ کا یہ مرض ایک عذاب بنا ہوا ہے۔ میں نے ان کو لکھا کہ جب دسترخوان بچھاو تو سب لوگ مل کر کھاو اور کھانے پر سات مرتبہ بِسمِ اﷲِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِپڑھ کر دم کرو اور دم کرتے وقت تھوڑا ساتھوک بھی گر جائے مگر ذرّہ کے برابر یہ نہیں کہ ایک تولہ تھوک دیا۔ ملا علی قاری مشکوٰة کی شرح مرقاة میں لکھتے ہیں:



خُرُوجُ البُزَاقِ مِنَ الفَمِ
بزاق کے معنیٰ ہیں کہ تھوک کے تھوڑے سے ذرات گرجائیں۔ تو انہوں نے اس پر عمل کیا، ایک مہینے کے بعد خط لکھا کہ اﷲ کے رحمن اور رحیم نام کے صدقہ میں ہم سب پر شانِ رحمت آگئی، ہمارے غصے ختم ہوگئے اور ہم معتدل مزاج کے ہوگئے۔ اس لیے اپنے دوستوں سے کہتا ہوںکہ کسی بزرگ سے مشورہ کرلو، آج ہم نے بزرگوں سے، اﷲ والوں سے تعلق چھوڑ دیا، اپنا علاج خود ہی کرنے لگے، روحانی بیماری کا کوئی مرض ایسا نہیں جو اچھا نہ ہوسکے، پوچھ کر عمل کرکے دیکھو۔

پُرسکون زندگی حاصل کرنے کا طریقہ
بعض لوگ اپنے ماں باپ کو ستاتے ہیں، اپنے شیخ کو ستا تے ہیں، اپنی بیویوںکو ستا تے ہیں، اپنے بچوں کی بے جا پٹائی کر تے ہیں، گلاس گرگیا تو مار مار کر ہڈی توڑ دی اور بچہ کو ہسپتا ل میں داخل کرنا پڑا جبکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جیسے تمہاری زندگی ہے برتنوں کی بھی زندگی ہے، ان کی بھی موت لکھی ہوتی ہے جس دن گرنا ہے گر کررہے گا، اس لیے ذرا نرمی سے تنبیہ کردو کہ مضبوط ہاتھوں سے برتن پکڑو، یہ نہیں کہ مار، پٹائی اور ظلم و تشدد شروع کردیا، یہ اسی کا عذاب ہے کہ آج ہم سکون سے نہیں ہیں۔

بیوی کو ستانے کا عذاب
بیویوں کا دل اتنا حساس ہوتا ہے کہ ان کو ذرا سا جھڑک دو کہ آج ہم بہت تھکے گئے ہیں، تم کیا کام کرتی ہو دن بھر آرام سے پڑی رہتی ہو، اب وہ بے چاری رات بھر رو رہی ہے کہ یا اﷲ میں اس ظالم کے پیار کی بھوکی تھی کہ گھر آئے گا، مسکرائے گا، کچھ بولے گا، یہ تو ایسا تھکا ماندہ آیا ہے کہ آتے ہی سوگیا، ان مظلوموں کی آہ براہِ راست آسمان پر جاتی ہے، اﷲ ان کے آنسووں کو دیکھتا ہے، ایسے ظالم شوہروں کو میں نے سخت عذاب میں مبتلا پایا۔

ایک صاحب کی بیوی کالی رنگت کی تھی، انہوں نے اسے چھ بچوں کی ماں ہونے کے باوجود طلاق دے دی کہ ہم بہت حسن پرست ہیں، ہمیں بہت خوبصورت بیوی چاہیے، میری ماں نے غلطی کی جو ایسی عورت سے میری شادی کردی۔ یہ بات انہوں نے خود مجھ سے کہی، یہ سنا سنایا قصہ نہیں آنکھوں دیکھا حال ہے، انہوں نے کہا کہ اب مجھ سے گذارہ نہیں ہوگا۔ میں نے ان کو بہت سمجھایا کہ ایسا نہ کرو لیکن وہ نہیں مانے۔ اس عورت نے کہا کہ جب میں آپ کو پسند نہیں تھی تو یہ چھ بچے کہاں سے آگئے؟ اُسی وقت طلاق دے دیتے تو میری شادی آسانی سے ہوجاتی، اب چھ بچوں والی بنا کر مجھے طلاق دے رہے ہیں، ان صاحب نے کہا کہ نہیں میں مجبور ہوں، اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، میں کسی حسین عورت سے شادی کروں گااور اسے طلاق دے دی، جب وہ چھ بچوں کو لے کر گھر سے نکلی تو سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور بزبانِ حال یہ شعر پڑھا
ہم بتاتے کسے اپنی مجبوریاں

رہ گئے جانبِ آسماں دیکھ کر
اس کے بعد شوہر صاحب نے ایک خوبصورت لڑکی سے شادی کرلی، چھ مہینے بھی نہیں گذرے تھے کہ ان پر فالج گر گیا، اس کے بعد تقریباً دس سال تک زندہ رہے اور چارپائی پر پاخانہ پھرتے رہے اور وہ حسین لڑکی بھی بھاگ گئی کہ ایسے شخص سے میرا گذارہ کیسے ہوگا؟ دیکھا آپ نے یہ ہوتا ہے خدا کی بندیوں کو ستانے کا انجام! اس لیے عرض کرتا ہوں کہ اپنی مظلوم بیویوں کی آہ مت خریدو۔

بیوی پر مہربانی کرنے کا انعام


حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خَیرُکُم خَیرُکُم لِاَھلِہ تم میں سب سے اچھے اخلاق اس کے ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ مہربانی کرتا ہے، ان کی خطاوں کو معاف کرتا ہے۔
 حکیم الامت تھانوی نوّر اﷲمرقدہ فرماتے ہیں کہ ایک مزدور نے بڑی محنت کرکے پسینہ گرا کر پیسے جمع کیے اور مرغی لایا، بھوک بھی سخت لگی ہوئی تھی مگر کھانے میں بیوی سے نمک اتنا تیز ہوگیا کہ اس سے کھایا نہیں گیا، مگر بیوی کو کچھ نہیں کہا، اﷲوالا آدمی تھا، اس نے سوچا کہ اگرمیری بیٹی کے ہاتھ سے نمک تیز ہوجاتا تو میں کبھی نہ چاہتا کہ میرا داماد اس کو جوتے مارے تو میری بیوی بھی کسی کی بیٹی ہے، ہم اپنی بیٹیوں کے لیے تو تعویذ مانگتے ہیں کہ مولانا صاحب تعویذ دے دو تاکہ میرا داماد میری بیٹی کو پیار محبت سے رکھے، خطاءہوجائے تو اس کو معاف کردے، اسے گالیاں نہ دے، جوتے نہ مارے، اس سے منہ نہ پھلائے، اپنی بیٹی کے لیے تعویذ لیتے ہیں یانہیں؟ اور آپ کی بیویاں بھی تو کسی کی بیٹیاں ہیں یا نہیں؟ بولو بھئی! تو کھانے میں نمک تیز ہوجانے کے باوجود شوہر نے بیوی کو معاف کردیا اور کہا کہ یااﷲ آپ کی بندی سمجھ کر اس کو معاف کر تا ہوں جو چند دن کے لیے مجھے ملی ہے، پھر نہ ہم ہوں گے نہ یہ ہوگی، سب قبروں میں لیٹے ہوںگے، میں آپ کو خوش کرنے کے لیے آپ کی اس بندی کی خطاءکو معاف کرتا ہوں۔ حکیم الامت مجدد الملت اپنے وعظ میں بیان کرتے ہیں کہ جب اس کا انتقال ہوگیا تو اس کو ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اے بھائی! اﷲ کے یہاں تیرا کیا معاملہ ہوا؟ اس نے کہا کہ میرے بڑے گناہ تھے لیکن اﷲ نے فرمایا کہ تو نے جو نمک تیز کرنے پر میری بندی کو معاف کردیا تھا اس کے بدلہ میں میں تجھ کو معاف کرتا ہوں۔

اکمل ایمان کیسے حاصل کریں؟
آج ایک حدیث سن لیجئے، ان شاءاﷲ اس کی برکت سے ایمان کامل نہیں اکمل ہوجائے گا، بس فرض، واجب، سنت موکدہ پڑھ لو، زیادہ نفل، حج، عمرہ بہت زیادہ تسبیح اور نفلی عبادات چاہے کم ہوں مگر اخلاق اچھے کرلو تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس کے اخلاق مخلوقِ خدا کے ساتھ اچھے ہوں گے قیامت کے دن اس کا ایمان کامل ہی نہیں اکمل ہوگا۔ علامہ بدر الدین عینی رحمة اﷲ علیہ ایک حدیث نقل فرماتے ہیں:


اَلمُسلِمُ مَن سَلِمَ المُسلِمُونَ مِن لِّسَانِہ وَیَدِہ


(صحیح البخاری،کتاب الجماعة والامامة، ج،۵، ص:۹۷۳۲، دار ابن کثیر۔الیمامة)


کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے۔ یہاں علامہ بدر الدین عینی نے ایک علمی اِشکال کیا ہے کہ کیا پیر سے مارنے کی اجازت ہے؟ کیونکہ حدیث میں صرف دو باتیں ہیں زبان سے تکلیف نہ دو اور ہاتھ سے تکلیف نہ دو مگر پیر کا ذکر نہیں فرمایا لہٰذا کیا زبان اور ہاتھ کو بچاو اور دو لات لگا دو؟ تو علامہ بدر الدین عینی اس کا جواب دیتے ہیں کہ جو اعضاءتکلیف پہنچانے میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں وہ دو ہیں زبان اور ہاتھ، لات کی نوبت تو بہت کم آتی ہے تو جب زیادہ استعمال ہونے والے اعضاءکی حفاظت کی مشق ہوجائے گی تو لات کی تو نوبت ہی نہیں آئے گی، اس کو قابو کرنا بالکل آسان ہوجائے گا۔

علامہ ایک اِشکال اور کرتے ہیں کہ زبان سے تکلیف ہوتی ہے یا زبان کے الفاظ سے تکلیف ہوتی ہے، زبان میں تو ہڈی بھی نہیں ہے، وہ تو ملائم گوشت کا ٹکڑا ہے۔ اگر آپ غصہ میں اپنی بیوی کے گال پر زبان کو زور سے رگڑیں تو کیا وہ کہے گی کہ ہائے میں مرگئی؟ اسی لیے علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے یہ کیوں نہیں فرمایا اَلمُسلِمُ مَن سَلِمَ المُسلِمُونَ مِن اَلفَاظِ لِسَانِہ یعنی مسلمان وہ ہے جس کے الفاظ سے لوگوں کو اذیت نہ پہنچے، زبان بے چاری کیا تکلیف پہنچائے گی۔ علامہ بدر الدین عینی اس کا جواب دیتے ہیں کہ بعض وقت بغیر الفاظ کے بھی زبان سے تکلیف دی جاسکتی ہے۔ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کوعلمِ نبوت میں کمالِ بلاغت دیا گیا تھا، آپ نے لسان اس لیے فرمایا تاکہ اس میں وہ لوگ بھی داخل ہوجائیں: لِیَدخُلَ فِیہِ الَّذِ ی یَخرُجُ لِسَانَہ#¾ اِستِھزَائً (المرقاة، ج:۱،ص:۷۳۱، دارالکتب العلمیة)

جو کسی کا مذاق اُڑانے کے لیے زبان کو باہر نکالتے ہیں اور ہلا کر بھاگ جاتے ہیں، اس میں کوئی لفظ بھی نہیں نکلتا، بچے اکثر ایسا کرتے ہیں، جب دیکھتے ہیں کہ پِٹائی ہو رہی ہے اور بدلہ نہیں لے سکتے تو بچے زبان نکال کر، منہ چڑا کر بھاگ جاتے ہیں اور بعضے بڑے بھی ایسا کرتے ہیں تو علامہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم نے مِن لِّسَانِہ اس لیے فرمایا تاکہ وہ ظالم، وہ موذی، وہ تکلیف دینے والے بھی اس حدیث میں شامل ہوجائیں جو زبان کو نکال کر ہلا کر مذاق اڑادیتے ہیں اور بولتے کچھ نہیں ۔

مخلوق پر احسان کرنا اچھے اخلاق کی نشانی ہے

شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمة اﷲ علیہ اپنے ایک ملازم کو ڈانٹ رہے تھے، اس نے کہا حضور خطا ہوگئی معاف کردیجیے، فرمایا تم نے ایک درجن خطائیں کی ہیں، میں کتنا بھگتوں؟ یعنی کتنا برداشت کروں تو تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس صاحب رحمة اﷲ علیہ اس وقت پاس بیٹھے ہوئے تھے جو شیخ الحدیث مولانازکریا رحمة اﷲ علیہ کے سگے چچا بھی تھے، انہوں نے شیخ الحدیث کے کان میں فرمایا کہ قیامت کے دن جتنا اپنا بھگتوانا ہو، جتنی اپنی خطاوں کی معافی کرانی ہو اتنا یہاں بھگت لواور اﷲ کے بندوں کو معاف کردو۔



صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے بھانجے حضرت مسطح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ناراض ہوگئے اور قسم اُٹھائی کہ اب میں ان کو کبھی کچھ نہیں دوں گا۔ حضرت مسطح بدری صحابی تھے، بدری صحابہ اﷲ کے مقبولین میں سے ہیں اور اﷲ ایک دفعہ جس کو قبول کرتا ہے پھر اس کو کبھی مردود نہیں کرتا، ہم لو گ تو اس لیے مردود کردیتے ہیں کہ ہم کو مستقبل میں کسی کی وفاداری کا علم نہیں ہوتا لیکن اﷲ تعالیٰ اُسی کو مقبول بناتے ہیں جو علم الٰہی میں ہمیشہ مقبول ہوتا ہے، ماضی، حال، مستقبل اﷲ تعالیٰ کو سب کا علم ہے چنانچہ جس کو ایک مرتبہ قبول کر لیتے ہیں پھر کبھی اس کو مردود نہیں فرماتے لہٰذا اﷲتعالیٰ نے حضرت ابو بکر سے حضرت مسطح کے لیے سفارش نازل فرمائی:

اَلاَ تُحِبُّونَ اَن یَّغفِرَا ﷲُ لَکُم (سورة النور، آیة:۲۲)

اے ابو بکر صدیق! کیا تم محبوب نہیں رکھتے کہ میرے اس بدری صحابی کو جس نے بدر میں جنگ لڑی تھی اور میں نے اس کو اپنا مقبول بنا لیا تھا، جس سے بے شک غلطی ہو گئی لیکن میں اس کو معاف کرتا ہوں اگر تم اس کو پسند کرتے ہو کہ اﷲ تم کو بخش دے تو تم میرے مسطح کو معاف کردو۔ یہ تفسیر جو میں پیش کر رہا ہوں روح المعانی میں اس آیت کے شانِ نزول میں موجود ہے۔ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ اے اﷲ! میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ آپ مجھے قیامت کے دن بخش دیں، میں آپ کے اس بندہ کو معاف کرتا ہوں بلکہ اس پر پہلے سے بھی زیادہ احسان کروں گا۔

20 January 2010














19 January 2010

Book:Asli Peeri Mureedi Kiya Hay ( Sachay Allahwalay ki pahchaan)

  Click Here>              Book:Asli Peeri Mureedi Kiya Hay ( Sachay Allahwalay ki pahchaan)


Wali Ullah Banany Walay 5 Amaal

Wali Ullah Banany Walay 5 Amaal
5 Actions to become Friend Of Allah









Presentation: 14 Harms of Casting Evil Glances

 Click Here to Have Full Reading



18 January 2010

اصلاحی خطوط اور ان کے جوابات

اصلاحی خطوط اور ان کے جوابات
 عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

حال: اللہ تعالیٰ عزوجل شانہ اپنے بندوں سے امتحان کیوں لیتا ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ کون اچھا عمل کرتا ہے تو کیا اس کو پتہ نہیں؟
جواب: تاکہ بندوں کو دکھائے کہ اللہ کے نیک بندے ایسے ہوتے ہیں اور نافرمان بندے ایسے ہوتے ہیں اور دونوں کا عمل قیامت کے دن خود ان پر حجت ہو اللہ تعالیٰ کو تو ازل سے ابد تک کا سب علم ہے۔
حال: بلکہ اس نے تقدیر میں پہلے سے سب کچھ لکھ لیا ہے اور اس اعتبار سے کہ تقدیر میں اس نے خود سب کچھ لکھا ہے تو پھر بے بس انسان عذاب کا کیوںکر مستحق ہے۔ کیونکہ انسان لکھے ہوئے تقدیر پر ہی چلایا جاتا ہے چلتا نہیں۔
جواب: تقدیر کے لکھے کی مثال ایسی ہے جیسے ریل کا ٹائم ٹیبل۔ کیا ٹائم ٹیبل میں لکھے ہوئے کی وجہ سے ریل مجبور ہوتی ہے اسٹیشن پر پہنچنے کے لیے، بلکہ ریل جہاں جہاں جانے والی ہے اپنے علم کے اعتبار سے لکھ دیا گیا ہے لیکن انسان کا علم چونکہ ناقص ہے اس لیے اس میں کبھی تخلف ہوجاتا ہے اور ریل کا ٹائم آگے پیچھے ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ عالمِ مطلق ہیں اور ازل سے ابد تک کا علم رکھتے ہیں لہٰذا بندے اپنے اختیار سے جو اعمال کرنے والے تھے ان کو اللہ نے لکھ دیا۔ پس تقدیر علم الٰہی کا نام ہے امرِالٰہی کا نام نہیں ہے جو کچھ ہم کرنے والے تھے اللہ نے اپنے علم کامل کی وجہ سے اس کو لکھ دیا ہے لکھے جانے کی وجہ سے وہ عمل صادر نہیں ہوتا، ہم جو کرنے والے تھے وہ تقدیر میں لکھا گیا ہے۔
حال: دوسرا وسوسہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ماضی پر عالم ہے تو امتحان کیوں لیتا ہے کیونکہ امتحان تو ماضی میں آزمانے کا نام ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ماضی پر عالم ہے۔
جواب: اس کا جواب تو اوپر دیا جاچکا ہے اللہ تعالیٰ امتحان اپنے جاننے کے لیے نہیں لیتے کیونکہ ان کو توماضی حال مستقبل سب کا علم ہے اﷲ تعالیٰ امتحان بندوں پر حجت قائم کرنے کے لیے لیتے ہیں کہ تم نے یہ اعمال کیے تھے جن کی یہ جزا یا سزا ہے۔
حال: اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ نعوذ باﷲ اللہ تعالیٰ ماضی پر عالم نہیں بلکہ قادر ہے یعنی جس وقت ماضی میں وہ جو کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ تو کیا یہ آدمی کافر ہوا۔ اگر کسی کے دل میں صرف وسوسہ آجائے تو یہ بھی کافرہوا۔
جواب: کفریہ عقیدہ رکھنے سے کافر ہوتا ہو، وسوسہ سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔ وسوسہ تو ایمان کی علامت ہے۔ وسوسہ آئے تو بس اس پر عمل نہ کریں آپ پکے مومن ہیں۔ وسوسہ کی مثال کتے کی سی ہے وہ بھونکتا رہے آپ اپنا راستہ چلتے رہیں تو آپ کا کوئی نقصان نہیں لیکن اگر اس سے الجھو گے یا اس کو چپ کرنے کی کوشش کرو گے تو اور بھونکے گا۔ وسوسہ کا علاج عدم التفات ہے یعنی نہ اس میں مشغول ہوں نہ اس کو بھگانے کی کوشش کریں کسی مباح کام میں لگ جائیں۔
حال: کیااللہ تعالیٰ کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ کل میرا بندہ میری عبادت کرے گا۔
جواب: اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے واللہ بکل شئی علیم۔
حال: تیسرا وسوسہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے یا پسند ہے کہ ساری مخلوق ہدایت پر آجائے۔ لیکن مخلوق آتی نہیں۔ تو کیا اللہ تعالیٰ اس پر قادر نہیں ہے کہ ساری مخلوق کو ہدایت کرے۔
جواب: بالکل قادر ہے لیکن اگر ہر ایک کو ہدایت دے دیں تو امتحان کس چیز کا ہو۔ دنیاوی امتحان میں کیا ممتحن ہر ایک کو پاس کرنے پر قادر نہیں لیکن گر پاس کردے تو امتحان کس چیز کا۔ اس لیے ہدایت کا اختیار بندوں کو دے دیا کہ جو چاہے عمل کرکے جنت لے لے اور جو چاہے اس پر عمل نہ کرکے جہنم خرید لے۔ ہدایت کو قبول کرنے اور نہ کرنے پر جزا اور سزا ہے فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یرہ ومن یعمل مثقال ذرة شراً یرہ۔ بندوں کا عمل ان پر حجت ہوگا۔
حال: توپھر کیوں نہیں کرتا؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کہتے ہیں کہ انسان خود ہدایت پر آجائے تو کیا انسان اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کوئی کام کرسکتا ہے۔
جواب: جو ہدایت کا ارادہ کرتا ہے اس کو توفیق بھی عطا فرمادیتے ہیں۔
حال: ان وساوس کے ہاتھوں میری نماز میں وہ مزہ نہیں جو کبھی تھا۔
جواب: یہ اس لیے ہے کہ آ پ کو شیطان نے اس مسئلہ میں الجھا دیا جس پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس پر غوروخوض کرنے کو منع فرمایا گیا ہے۔ بس کہہ دو اٰمنت باﷲ و رسلہ اور مطمئن رہو۔
حال: لہٰذا جہاں تک ہوسکے عقلی دلائل سے رحم فرمائیں تاکہ میرا دل بھی مطمئن ہوجائے اور بعض جاہل لوگوں کا جواب بھی بن جائے۔ ورنہ پھر ہم ویسے بھی کہتے ہیں کہ امنت باﷲ ورسلہ ۔ میں حضرت والا سے بیعت ہوں۔
جواب: عقلی دلائل سے کام نہیں بنتا بے دلیل اﷲ و رسول کے احکام کو ماننے سے کام بنتا ہے ۔ ایمان پر قائم رہنے کا اور ایمان پر مرنے کا یہی راستہ ہے دلائل والا راستہ نہیں۔ آپ لوگوں کی فکر نہ کریں اپنی فکر کریں کوئی آپ سے الجھے تو کہہ دو کہ کسی عالم سے رجوع کرو میں عالم نہیں ہوں۔
……………………….
حال: بندہ مجموعہ رذائل و امراض ہے ، کس مرض کا ذکر کروں اللہ کاشکر ادا کرتا ہوں کہ اتنے عظیم شخص سے باوجود اپنی نااہلیت و سفاہت کے ملاقات ہوگئی محض اﷲ کا فضل سمجھتا ہوں لیکن حضور والا سے براہ راست بالمشافہ ملاقات کی ہمت نہیں ہوتی اس لیے اکثر خدمت میں حاضر نہیں ہوپاتا۔ بعض سے سنا کہ ہچکچانا بھی عظمتِ شیخ کی دلیل ہے۔ لیکن ایک محترم خلیفہ جو میرے انتہائی مشفق ہیں ان سے سنا کہ نہ ملنا قلت محبت ہے تو یہ جملہ سننے کے بعد اب میرا کوئی ٹھکانہ نہیں الٰہی یہ کہاں آکر اٹک گیا ہوں…. سچ عرض کرتا ہوں میں اپنی نالائقیوں کے سبب ملنے سے کتراتا ہوں الحمدﷲ پاکستان کے تمام بزرگوں سے ملاقات کرتا ہوں کبھی ایسی حالت نہ ہوتی تھی جیسی ہیبت مجھ پر یہاں آکر طاری ہوجاتی ہے۔ معلوم نہیں میری قسمت کا کیا بنے گا۔ مجھے معاف کردیں حضور دعا فرمادیں کہ یہ حجاب پر ے ہٹ جاوے الحمدﷲ مجھے کبھی کبھار لگتا ہے کہ یہ عظمتِ شیخ ہی ہے۔
جواب: عظمتِ شیخ تو مبارک حال ہے لیکن محبت ایسی ہو جو عظمتوں کی رعایت کے ساتھ محبوب کی ملاقات پر مجبور کردے۔ عاشق کا تو یہ حال ہوتا ہے
حیا طاری ہے تیرے سامنے میں کس طرح آﺅں
نہ آﺅں تو دل مضطر کو لے کر پھر کہاں جاﺅں
حال: الحمدﷲ! بدنظری وغیرہ سے اجتناب کرتا ہوں لیکن قلبی میلان میں بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات مبتلا رہتا ہوں اگر کبھی کسی حسین یا حسینہ سے نظر بچا لیتا ہوں تو سوچتا رہتا ہوں کہ وہ کیا سوچ رہا ہوگا یا ہوگی۔ بلکہ اگر کوئی حسین پیچھے کھڑا ہو تو خیالات کا دائرہ پشت کی طرف ہوتا ہے اگرچہ عیناً نہیں دیکھتا۔ اس مرض کا ازالہ چاہتا ہوں۔
جواب: میلان تک تو گناہ نہیں لیکن اس کے بعد اس کا قصداً دھیان یا اس کی طرف توجہ رکھنا اقدام فاسقانہ اور دائرہ رحمت حق سے دور ہونا ہے کیونکہ یہ حسین سے صرف عیناً دوری ہے، قلباً اور قالباً اس سے قرب ہے لہٰذا ایسے مقامات سے جسم کو فوراً دور لے جاﺅ اور قلب کو بھی دور لے جاﺅ یعنی کسی مباح کام یا گفتگو میں لگادو۔
حال: میر ے لیے دعا فرمادیں کہ جس طرح کا دردِ محبت خداوند کریم نے حضور والا کو بخشا ہے حضور نے تو غم اٹھانے میں بہت ہی عمیق قسم کے زخم سہے ہیں اور ہمارا اتنا حوصلہ کہاں بس خداوند کریم اس جلے ہوئے کباب دل کی صحبت کی برکت سے ایک ذرہ دردِ محبت عطا کردے۔
جواب: دل سے دعا ہے۔
حال: مجلس میں حضور والا کی ایک نظر مبارک یکبارگی اچانک ٹکرائی اس کی کسک اور جلن اپنے قلب میں بڑی شدت سے محسوس ہوئی۔ اے کاش! اس نظرِ کرم کی برکت سے میرا بیٹرا پار لگ جائے۔
جواب: آپ کا مزاج عاشقانہ ہے آپ ذرا سی محنت کرلیں ان شاءاﷲ بہت جلد منزل مقصود تک پہنچوگے۔ شیخ سے محبت تمام مقامات کی مفتاح ہے۔
……………………….
بعد تسلیم بعد تعظیم کے گذارش خدمت سراپا خیروبرکت میں یہ ہے کہ مجھ میں بے صبری کا مرض ہے کسی بھی قسم کال صبر مجھ میں نہیں عبادات میں صبر نہیں دل غیر حاضر رہتا ہے کوئی بھی عمل کرتا ہوں اس پر دوام نہیں اور کسی عبادت میں دل نہیں لگتا۔
جواب: بہ تکلف عبادت کرنا بھی صبر ہے دل کو بار بار حاضر کرنا اور نماز و ذکر میں بہ تکلف دل لگانا بھی صبر ہے عبادت مطلوب ہے دل لگنا مطلوب نہیں بہ تکلف دل لگانا مطلوب ہے۔
حال: اور صبر کی یہ قسم تو مجھ میں نہیں یعنی گناہوں سے نفس کو روکنا یہ بڑا ہی مشکل کام ہے کئی کئی روز تک رکنے کے بعد پھر کوئی نہ کوئی غلطی ہوہی جاتی ہے اور گناہ ہوجانے کے بعد اس کی تلافی میں بھی سستی ہوتی ہے اور نہ ہی ندامت ہوتی ہے اور جس طرح توبہ کا حق ہے وہ بھی نہیں ہوتا اور گناہ سے بچنے کے لیے ہمت کو استعمال کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی اور تقویٰ کا عزم دل میں پیدا ہو ایسا بھی نہیں ہوتا۔ حضور نفس کو گناہوں سے بچانا مشکل کام ہے۔
جواب: مشکل ہے اس لیے تو اجر بھی عظیم ہے جب غلطی ہوجائے تو بہ تکلف توبہ کریں خواہ دل میں ندامت نہ محسوس ہو ندامت نہ محسوس ہونے پر جو قلق ہورہا ہے یہ بھی ندامت کی ایک قسم ہے۔ توبہ کا حق یہ ہے کہ بہ تکلف توبہ کریں تقویٰ کا عزم پیدا ہونا ضروری نہیں عزم کرنا ضروری ہے۔
حال: اور مصیبتوں پر بھی صبر نہیں ہوتا دل میں اعتراض پیدا ہونے لگتا ہے اور زیادہ پریشانی میں اس مصیبت کو لوگوں سے شکایت کرنا بھی ہوجاتا ہے اور اگر کوئی شخص میری طبیعت کے خلاف کچھ کہہ دے تو اس پر صبر نہیں ہوتا غصہ بھڑک اٹھتا ہے۔
جواب: اعتراض کا وسوسہ آنا اور ہے اعتراض اور ہے اگر وسوسہ ہو یا اعتراض پیدا ہو تو اپنے اعمال کو یاد کریں کہ جو سر آگ برسنے کے قابل تھا اس پر ہلکی مصیبت آئی اﷲ نے ہلاکت سے بچالیا۔ دل ہلکا کرنے کے لیے اپنے ہمدرد سے اپنی پریشانی کو بیان کرنا بھی شکایت نہیں بس اﷲ تعالیٰ پر اعتراض نہ کرو راضی برضا رہو طبیعت کے خلاف بات اگر حق ہے تو پھر اس پر غصہ کرنا تکبر ہے، لہٰذا اگر سچی بات ہے تو قبول کرو اور اپنی غلطی کا اعتراف کرو۔
……………………….
حال:بعد سلام مسنون بندہ ناچیز تقریباً ۸ سال سے خانقاہ سے متعلق ہے اور مجلس میں بھی آتا جاتا ہے مواعظ بھی پڑھتا ہے اور تین خطوط بھی لکھ چکا ہے جس سے بندہ نے اپنے زندگی میں ایک انقلاب محسوس کیا ہے اور کبھی تو سوچتا ہے کہ اگر یہ تعلق نہ ہوتا تو پتہ نہیں ہمارا کیا حال ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود جب دوسرے پہلوﺅں سے سوچتا ہوں کہ دوسرے لوگ تھوڑی مدت میں کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتے ہیں اور میں وہیں کا وہیں کھڑا ہوں۔
جواب: پچھلی حالت پر غور کرو کہ گناہ کم ہوئے یا نہیں؟ اگر کم ہوئے تو یہ کامیابی نہیں ہے؟ رفتہ رفتہ ہی بندہ اﷲ تک پہنچتا ہے ترقی ہوتی رہتی ہے پتہ نہیں چلتا۔ مطمئن رہیں۔
حال: اس کے وجوہات جو میرے ذہن میں ہیں پہلا تو یہ کہ خط و کتابت کی سستی بہت ہے دوسری یہ کہ بندہ نے تقریباً چار پانچ مرتبہ دس دس دن وغیرہ خانقاہ میں لگائے ہیں لیکن حضرت والا سے جو تعلق پیدا ہونا چاہیے تھا وہ پیدا نہ کرسکا اور جس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ جب حضرت والا سے ملنے کا ارادہ کرتا ہے تو دل میں فوراً یہ بات آجاتی ہے کہ میرے اس عمل سے حضرت والا کو تکلیف ہوگی جس کی وجہ سے حضرت والا سے ملاقات بھی بہت کم ہوجاتی ہے اور دل میں خدمت کا جذبہ بھی ہے لیکن مذکورہ بالا وجہ سے رک جاتا ہوں براہ کرم میری ایسی رہنمائی فرمائیں جس سے میرا استفادہ کرنا آسان ہو اور حضرت والا کو بھی تکلیف اور بار خاطر نہ ہو۔
جواب: ملاقات سے کیوں تکلیف ہوگی جیسے اور لوگ آتے ہیں آپ کو بھی آنا چاہیے اجازت لے کر خدمت بھی کرسکتے ہو ادب کے ساتھ کوئی عمل بار خاطر نہیں ہوتا۔
حال: حضرت والا بندہ اپنے اصلاح کا طالب ہے اور اﷲ تعالیٰ کا تعلق چاہتا ہے اور آپ سے عاجزانہ اور مودبانہ عرض ہے کہ بندہ کی رہنمائی فرمائیں تاکہ وصول الی اﷲ آسان ہوجائے اس میں حضرت والا جو حکم فرمائیں گے بندہ کو انشاءاﷲ مطیع پائیں گے۔
جواب: اصلاح کا یہی طریقہ ہے جو آپ نے اپنا یا ہوا ہے یعنی مجلس میں حاضری، اطلاع حالات اور اتباع تجویزات لیکن پابندی کریں، سستی نہ کریں۔
……………………….
حال: حضرت میں خود محسوس کرتی ہوں معمولات میں وہ اخلاص نہیں رہا۔ کیونکہ معمولات میں کوئی مزہ نہیں آتا مجبوراً کرتی ہوں۔
جواب: مزہ نہ آنا عدم اخلاص کی دلیل نہیں، جب مخلوق کو دکھانے کی نیت نہیں ہے تو اخلاص ہے۔ انشراح نہیں ہے جس میں کوئی حرج نہیں۔
حال: مجھے لگتا ہے میرے سارے تعلق ختم ہوگئے ہیں حضرت شیخ سے عقیدت اور محبت کا تعلق جو پہلے محسوس ہوتا تھا وہ بھی اب اس حد تک محسوس نہیں ہوتا ۔
جواب: اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ کبھی اﷲ تعالیٰ سے تعلق اور محبت بہت محسوس ہوتی ہے اور کبھی کم محسوس ہوتی ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو شیخ سے اگر محبت کم محسوس ہوتو کیا تعجب ہے، شیخ نعوذباﷲ کیا اﷲ تعالیٰ سے زیادہ ہے۔ تعلق کم محسوس ہونا تعلق کم ہونے کی دلیل نہیں۔
حال: حضرت میرے دیور پچھلے دنوں عید پر سعودی عرب سے آئے۔ مجھے ڈرتھا پردہ کیسے کروں گی مشکل ہوگی، ساس ناراض ہوگی۔ الحمدﷲ پردہ بھی ہوگیا اور کوئی ناراض بھی نہیں ہوا۔ کبھی کبھی سامنا ہوگیا جس کی بڑی شرمندگی ہوئی وہ(دیور) ۰۲ دن رہے دو دفعہ ایسا ہوا کہ کھانا ایک ہی دسترخوان پر کھانا پڑا لیکن الحمدﷲ سامنا نہیں ہوا اور میں چند لقموں کے بعد ہی اٹھ گئی۔ اس کے بعد میرے شوہر نے بہت کہا کہ کچھ نہیں ہوتا تم نقاب کرلینا لیکن میں نے ساتھ نہیں کھایا۔
جواب: الحمد ﷲ تعالیٰ۔ جو اﷲ تعالیٰ کو راضی رکھنے کا ارادہ کرتا ہے ا ﷲتعالیٰ مدد فرماتے ہیں ۔
……………………….
حال: حضرت والا یہاں ہمارا خواتین کا مدرسہ ہے جہاں ایک قاری صاحب ہیں وہاں سے میں نے نو پارے ناظرہ پڑھے ہیں اب گھر میں بچوں کی مصروفیت کی وجہ سے مدرسہ نہیں جاسکتی۔
جواب: ہمارے بزرگوں نے عورتوں کا مردوں سے پردہ سے پڑھنا بھی پسند نہیں فرمایا۔اگر پڑھنا ہے تو کسی قاریہ سے پڑھو۔
حال: میں چاہتی ہوں کہ اپنی بچی سے جس کی عمر بارہ سال ہے اسی مدرسہ سے ناظرہ پڑھ چکی ہے اور تیسرا پارہ حفظ کررہی ہے پڑھ لوں لیکن ہمارے قاری صاحب منع کرتے ہیں اور میں خود بھی مطمئن نہیں ہوتی کہ پتہ نہیں یہ غلطیاں صحیح نکالے گی یا نہیں بہت پریشان ہوں کہ پتہ نہیں پورا قرآن پاک کب صحیح ہوگا۔ قاری صاحب کہتے ہیں کہ کم عمر استاد سے قرآن پاک نہیں پڑھنا چاہیے۔
جواب: غلط کہتے ہیں۔ حضرت مفتی محمد حسن امرتسری خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ نے اپنے شاگرد سے قرآن پاک کے حروف کی تصحیح کی لیکن شرط یہ ہے کہ پڑھانے والے کی تجوید صحیح ہو۔
حال: حضرت والا قضائے عمری پہلے پڑھتی تھی اب مصروفیت کی وجہ سے نہیں پڑھ سکتی بہت پریشان ہوتی ہوں کیا کروں۔
جواب: کیسی مصروفیت ! نوافل و وظائف ضروری نہیں قضائے عمری ضروری ہے۔ ہر فرض نماز کے ساتھ ایک وقت کی قضا پڑھ لیں۔ فرض اور وتر کی قضا ہے سنتوں کی قضا نہیں ہے۔
……………………….
حال: حضرت اقدس ایک بات یہ دریافت کرنی تھی کہ اب گھر میں امی کے پاس میں ہوتی ہوں۔ امی کو بازار وغیرہ کبھی جانا پڑے تو لازماً نا چاہتے ہوئے بھی مجھے جانا پڑتا ہے حضرت والا میں دو تین بار گئی ہوں مگر جانے سے اتنی بری حالت ہوتی ہے کہ بیان سے باہر ہے اور حضرت والا مجھے لگتا ہے جیسے کوشش کے باوجود نظر کی حفاظت صحیح نہیں ہوئی عام چلتے پھرتے تو الحمدﷲ نظر جھکی رہی مگر جس دکان سے کچھ خریدا وہاں لگتا ہے جیسے نظر پڑ گئی اور حضرت والا نفس و شیطان دل میں ڈالتے ہیں کہ نظر اچانک پڑی ہے ارادہ نہیں تھا۔
جواب: بس استغفار کرلیں۔ اگر بار بار نظر پڑی تویہ پڑی نہیں نفس نے ڈالی ہے۔ دس نفل پڑھیں۔
حال: حضرت والا ایک بات یہ کہ مجھے لگتا ہے جیسے مجھے نیکی کا بڑازعم رہنے لگا ہے جیسے میں شرعی پردہ کرتی ہوں تو دل چاہتا ہے کہ میرے ہر انداز سے ظاہر ہو کہ میں شرعی پردہ کرتی ہوں حضرت والا یہ مجھے اس لیے لگا کہ ایک دن امی نے مجھے کہا کہ جیسے اور لڑکیاں Skinرنگ کے موزے پہنتی ہیں تم وہ پہن لیا کرو کالے رنگ کے نہ پہنا کرو اس پر میں نے کہا کہ امی جان مجھے ایسا کرنا ایک تو اچھا لگتا ہے دوسرا یہ کہ کالے رنگ کے موزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی پردہ کیا ہے Skinرنگ کے موزے تو لگتا ہے جیسے پہنے ہوئے ہی نہیں۔ حضرت والا تب سے مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں یہ سب شرعی پردہ کرنا دکھاوا ہی نہ ہوجائے…. حضرت والا دعا فرمادیں کہ اﷲ تعالیٰ اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائیں، آمین۔
جواب: اس زمانے میں شرعی پردہ کا اظہار کرنا جبکہ لوگ پردہ کو اچھا نہیں سمجھتے باعث اجر عظیم ہے ان شاءاﷲ تعالیٰ اور یہ دکھاوا مبارک ہے، دکھاوا وہ مذموم ہے جس میں مخلوق کی رضا کا قصد ہواور اکثر لوگ پردہ سے راضی نہیں تو دکھاوا کہاں ہوا۔
حال: حضرت والا دل میں مال و دولت کی محبت لگتی ہے حضرت والا کپڑوں کی محبت، زیب و زینت کی خواہش، پیسے والے کی عزت کرنا، دل ان سب باتوں سے بھرا ہوا لگتا ہے اپنے آپ کو امیر ظاہر کرنے کی خواہش بھی معلوم ہوتی ہے۔
جواب: دنیا کی فنائیت کو سوچا کریں کہ جو چیزیں چھوٹنے والی ہیں ان سے کیا دل لگانا۔ نہ عزت و تعریف کرنے والے رہیں گے، نہ مال و دولت رہے گا نہ میں رہوں گی۔
……………………….
حال: تربیتِ عاشقان خدا میں حضرت ڈاکٹر صاحب کے خطوط/ جوابات پڑھے دوبارہ سہ بارہ پڑھے ایک عجیب سا روحانی سرور ملا۔ میں کافی دنوں تک یہ پڑھتا رہا پھر اس کی فوٹو کاپی کراکے وہ حال/جواب جو مجھے بعینہ اپنے حال پر موزوں لگتے تھے انہیں مارکر سے انڈرلائن کیا ہے مثلاً یہ فقرہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ” ذکر کا ناغہ روح کا فاقہ ہے، معمولات کی ادائیگی کو زندگی کا سہارا سمجھیں تعلق مع اﷲ اور رضائے الٰہی کی دولت کو اپنا سرمایہ، باقی ایام و لیالی خالی ہی خالی ہیں۔ تدبیرِ مناسب، محنت اور دعا کرکے بے فکر رہیں اور نتیجہ کو حق تعالیٰ کے سپرد کرکے راضی بہ رضا رہیں۔ دعا ہی اصل سبب ہے پھر حق تعالیٰ کے فیصلے کے بعد اسباب خود دعا کرنے والے کو تلاش کرتے ہیں۔“ مندرجہ بالا احوال کے علاوہ حضرت ڈاکٹر موصوف کا یہ حال کہ حضرت والا کے والا نامہ کا انتظار رہتا ہے میرے حال کا ترجمان ہے۔ پھر آخر میں قابل رشک مقام وہ ہے جہاں آپ نے ڈاکٹر صاحب موصوف کی شیخ کی نسبت اور عقیدت اور اظہارِ محبت کی جھلک کو پرمسرت انداز میں دعاﺅں سے نوازا اور دعائیں بھی ایسی کہ بار بار پڑھ کر مجھے عجیب تسلی ہوتی ہے کہ ہمارے شیخ ہمارے لیے کتنی دعائیں کرتے ہیں اور بار بار حرمین شریفین کی حاضری کی دعا سے میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
جواب: آپ کے خط سے دل خوش ہوا احقر کے جوابات سے آپ کو جو نفع ہوا یہ احقر سے آپ کی مناسبت کی دلیل ہے اور نفع کا مدار مناسبت پر ہے کمالات پر نہیں۔
حال: خط ہر بار پوسٹ کرتے ہوئے خیال آتا تھا کہ نہ جانے حضرت والا خود خط پڑھتے ہوں گے علالت اور ضعف کی وجہ سے یا نہیں۔ مگر حضرت والا آپ کا یہ فقرہ کہ ”آپکا یہ محبت نامہ یہاں کے بعض خصوصی احباب کو دکھایا بہت مسرور ہوئے۔“ پڑھ کر حضرت ڈاکٹر صاحب موصوف اور ان کے تعلق شیخ کی مزید ترقی کے لیے دعا دل سے نکلی۔ پھر اپنی بھی ہمت بڑھی کہ اتباع شیخ میں ہمت کرو تو محبتِ کاملہ بھی تمہیں عطا ہوگی۔ آپ سے دعاﺅں کی درخواست ہے کہ مجھ جیسے کاہل ناکارہ کو حق تعالیٰ نفس پرستی اور شہوت پرستی کی زندگی سے چھٹکارا دیں اور نفس و شیطان کے شکنجے سے جان چھڑانے کی ہمت و توفیق عطا ہو۔
جواب: جملہ مقاصد حسنہ کے لیے دل و جان سے دعا ہے۔
……………………….
حال: اﷲ پاک سے دعا ہے کہ حضرت اقدس کو کامل صحت نصیب فرمائیں اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پہ سلامت رہے اور ہمیں آپ کی صحیح قدر کرنے کی توفیق نصیب ہو آمین۔ حضرت اقدس سے بیعت ہوئے مجھے ۴ سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔ بیعت کے وقت مجھے اس کا مقصد پتا نہ تھا۔ بس سنا کہ یہ سنت ہے تو سوچا کہ چلو سنت پوری کرلوں میں چونکہ دنیاوی تعلیم کافی حاصل کرچکی تھی اور وہ بھی بڑے بڑے اداروں میں ہوسٹلوں میں رہ کر میرے علم میں ایسے بیسیوں واقعات تھے کہ اولاد کس طرح والدین کو بے وقوف بنادیتی ہے۔ آج کل آدمی کس طرح اپنے محرم رشتوں کو پامال کررہے ہیں۔ لڑکیوں کے ساتھ خاندانوں میں کیا ہورہا ہے۔ والدین کو پڑھنے کا بتاکر اولاد کہاں جاتی ہے کیا کرتی ہے کمپیوٹر پر کیا ہورہا ہے میں چونکہ ایک بیٹے کی ماں بن گئی تھی باہر کے حالات کو کافی جانتی تھی اور یہ سوچتی تھی کہ جب یہ بچہ جوان ہوگا (انشاءاﷲ) تو میں اس کو کس طرح صحیح راستہ دے پاﺅں گی اور میں اپنے آپ کو اس بات کا اہل نہیں سمجھتی تھی کہ میں اس کی تربیت اکیلے کرسکوں گی۔ حضرت اقدس جس مضمون پر اتنا اچھا بیان کرتے ہیں وہ مجھے اپنے خوف کے عین مطابق لگا اور میں اس کو گود میں اٹھاکر اتوار کو خانقاہ آنا شروع ہوگئی۔ لیکن میں مسلسل نہیں آتی تھی کبھی آتی کبھی نہیں۔ ایک دھاگے سے زیادہ باریک تعلق میرا آپ سے تھا لیکن اﷲ پاک نے اپنے کرم سے وہ تعلق ٹوٹنے نہیں دیا۔ تقریباً ڈیڑھ سال پہلے میں نے ”سفر نامہ رنگون و ڈھاکہ“ پڑھا جس سے حضرت اقدس کی محبت اور عظمت میرے دل میں جم گئی اور مجھے احساس ہونے لگا کہ مجھے تو بن مانگے کوئی موتی مل گیا ہے۔ اور اب ۸،۹ ماہ پہلے بیان سنتے ہوئے میرے دماغ میں اچانک یہ خیال آیا کہ حضرت والا کیا باتیں کرتے ہیں یہ ”اﷲ کی محبت“ کیا چیز ہے، میں تو سمجھتی تھی کہ میرے پاس تو اﷲ کی ساری نعمتیں ہیں۔ پھر یہ کون سی نعمت ہے جو میرے پاس نہیں۔ میں اتنا عرصہ انتظار کرتی رہی اور آپ کو خط نہ لکھا کہ شاید یہ جذبہ وقتی ہو اور یہ ”محبت کرنے“ کی جھاگ بیٹھ جائے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ شوق کہ میں بھی ا ﷲ سے محبت کروں ابتداءمیں اتنا زیادہ نہ تھا جتنا اب بڑھ گیا ہے۔
جواب: مبارک حال ہے، بہت دل خوش ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کی لگن ہونا اس کے لیے کڑھن رہنا اور یہ حسرت ہونا کہ مجھے بھی محبت حاصل ہوجائے یہ سب اﷲ تعالیٰ کی محبت میں شامل ہے۔ جس کے دل میں اﷲ کی محبت کا ایک قطرہ آگیا وہ قطرہ بھی غیر محدود سمندر ہے۔
حال: میرے تین بچے ہیں میں صبح ۵ بجے سے رات کو ۰۱،۱۱ بجے تک ان ہی کے کسی نا کسی کام میں مصروف رہتی ہوں میں جب نماز پڑھتی ہوں تو کوئی میرے اوپر چڑھ جاتا ہے اور کوئی سامنے بیٹھ جاتا ہے۔ ذکر بھی ان ہی طرف توجہ میں ختم ہوجاتا ہے۔
جواب: کوئی مضائقہ کوئی حرج نہیں ایسی عبادت اﷲ کے یہاں اور زیادہ مقبول ہے کیونکہ زیادہ مجاہدہ کرنا پڑ رہا ہے۔
حال: لیکن مجھے کبھی بھی یکسوئی ملے تو پتا نہیں کیوں آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں اور یہ ہی کیفیت حضرت اقدس آپ کے یبان سنتے ہوئے بھی اکثر ہوتی ہے۔
جواب: ماشاءاﷲ مبارک حال ہے۔
حال: آپ سے دعا کی درخواست ہے کہ میں جلد از جلد اپنے بچوں کی تمام ذمہ داریوں سے عافیت و کامیابی سے عہدہ براءہوجاﺅں میری آنکھیں ان کی طرف سے ٹھنڈی رہیں اور میں دنیا کی ہر فکر سے آزاد ہوکر یکسوئی کے ساتھ اللہ سے اُس کا قرب مانگ سکوں۔
جواب: یکسوئی کا انتظار نہ کرو موجودہ حالت بھی قرب کی موجب ہے بلکہ زیادہ باعث قرب ہے۔
حال: آپ اللہ سے دعا کریں کہ میری زندگی کو اتنی مہلت ضرور ملے، مجھے مرنے سے پہلے کچھ عرصہ ایسا ضرور ملے جس میں میرا دل اللہ کے درد سے آشنا ہوجائے میں اللہ کی یاد میں گُم ہوجاﺅں کچھ تنہائیاں کچھ لمحے ایسے ضرور ملیں زندگی تو صرف ایک بار ملتی ہے اﷲ کی یاد میں آہ و فغاں کئے بغیر میں مرنا نہیں چاہتی۔
جواب: یہ اب بھی کرسکتی ہو رونا نہ آئے تو رونے والوں کا منہ بنالو آہ و فغاں کرنے والوں ہی میں شمار ہوگا حدیث پاک میں وعدہ ہے۔ جملہ مقاصد حسنہ کے لیے دل سے دعا ہے۔

اچھے اور برے اخلاق کون کون سے ھیں


اچھے اور برے اخلاق کون کون سے ھیں








مزید تفصیل کے لیے ملا حظہ فرمائیں : اصلا ح اخلاق