دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

صراطِ مستقیم

صراطِ مستقیم

ملفوظات حضرت پھولپوریؒ



مرتب: شیخ العرب والعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

Taken from Alabrar

صراط مستقیم کے متعلق حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دامت فیوضہم العالیہ



صدر دارالعلوم کراچی کی رائے


بسم اللہ الرحمن الرحیم

بر صراط مستقیم اے دل کسے گمراہ نیست



پورے قرآن کا خلاصہ سورۂ فاتحہ ہے اسی لیے اس کا نام قرآن عظیم بھی ہے اور اس کا خلاصہ بندہ کی طرف سے ایک درخواست ہے اور وہ درخواست صراط مستقیم کی ہے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ مقصود المقاصد تو رضائے حق یا جنت ہے درخواست اسی کی ہونا چاہیے تھی اس کے بجائے صراط مستقیم کی درخواست کو سب سے اہم قرار دے کر ہر نماز کی ہر رکعت میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ وجہ یہ ہے کہ اس جہان میں جو چیز نقد حاصل ہوتی ہے اور اس کا حصول انسان کو بھی معلوم ہوسکتا ہے وہ صراط مستقیم ہی ہے۔ رضائے الٰہی اور حصول جنت امر مخفی ہے جو صراط مستقیم کے لیے لازم ہے اس لیے درخواست اس چیز کی پیش کی گئی جو اس جہان میں نقد ملتی ہے یعنی صراط مستقیم یہی اس جہان کا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے۔ مگر افسوس ہے کہ نماز پڑھنے والے مسلمان بھی اکثر اس حقیقت سے واقف نہیں۔



مخدومی حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری دامت برکاتہم نے بڑا احسان فرمایا کہ اس موضوع پر ایک مختصر تصنیف میں ایک بے نظیر مضمون حوالہ قلم فرماکر رشد و ہدایت کا ایک عظیم دروازہ کھول دیا۔


مجھے امید ہے کہ اس رسالہ کو ہر دیکھنے والا اپنے قلب میں ایک نور محسوس کرے گا۔


واللہ الموافق والمعین

بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ


(۲۰؍صفر المظفر ۱۳۸۱ھ)








دنیا میں آنے کے بعد ادھر تو روح کے لیے عزیز و اقارب اور پڑوسیوں کی موت اس امر کو مقتضی تھی کہ


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے



دوسری طرف جسد عنصری کے تعلق کی وجہ سے نفسانی خواہشات یعنی غضب و شہوت کے تقاضے اپنے اندر محسوس ہوئے اور ان تقاضوں پر عمل کرنے کے صحیح اور غلط دونوں راستے سامنے نظر آئے مثلاً تقاضائے شہوت کی تکمیل کے لیے اپنی بیوی بھی سامنے ہے جو اس کا صحیح مصرف ہے اور غیر محرم عورتوں کا ہجوم بھی سامنے دیکھا جو اس کا غلط مصرف ہے۔



اسی طرح ہر خواہش کے سامنے پاکیزہ اور غیر پاکیز ہ دونوں راستے دیکھ کر روح کو سخت پریشانی اور کشمکش کا سامنا ہوا کیونکہ نفس کا داعیہ شر کی طرف جاذب تھا اور عقل کا داعیہ خیر کی طرف جاذب تھا اور عالمِ ارواح میں روح نے ایسی کش مکش کو نہ تو کبھی دیکھا تھا نہ کبھی سنا تھا۔ اسی طرح دنیا میں بہت سے تعلقات کے حقوق سر پر آپڑے، اللہ تعالیٰ کے حقوق کا لحاظ الگ ہے، والدین کے حقوق کی الگ فکر ہے بیوی اور بچوں کے حقوق کی الگ فکر ہے،اپنے نفس اور پڑوسیوں کے حقوق الگ سامنے ہیں، دوست احباب کے حقوق الگ پیش نظر ہیں، پھر ان تمام حقوق میں تعارض اور تقابل کے وقت وجہ ترجیح اور وجہ تقدیم و تاخیر کو سمجھنا ایک مستقل مسئلہ سامنے ہے۔ عالم ارواح میں روح کو چونکہ ان مراحل سے کبھی سابقہ نہ پڑا تھا اس لیے روح کو ایک تو سب سے بڑا غم اپنے اصلی وطن یعنی عالم ارواح سے جدائی کا تھا ہی اس پر مزید افکار اور ہموم و غموم حقوق مذکورہ کے رکھ اٹھے۔ ایسی صورت میں روح نے بزبانِ حال حق تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے میاں آپ نے ہمیں عالمِ ارواح سے اس عنصری قالب میں محبوس فرما کر ان جھگڑوں میں کیوں بھیج دیا۔ سوال کبھی زبان سے ہوتا ہے اور کبھی زبان تو چپ رہتی ہے لیکن اس کا حال اس کے سوال کی غمازی کرتا ہے۔ ہمارے خواجہ صاحب اسی کو فرماتے ہیں



بے سوالی بھی نہ خالی جائے گی

دل کی بات آنکھوں سے پالی جائے گی



روح کا زبانِ حال سے یہ سوال کرنا عین اقتضاءفطرت ہے کیونکہ جو شے اپنے مرکز سے کٹ کر جدا ہوتی ہے اس کو اضطراب ہونا طبعی امر ہے۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں کہ



ہر کسے کو دور ماند از اصلِ خویش

باز جوید روزگار وصلِ خویش



مولانا فرماتے ہیں کہ یہ قاعدہ کلیّہ ہے کہ جب کوئی شے اپنے اصل اور طبعی مرکز و مستقر سے کسی قسری اور قہری قدرت سے جدا کردی جاتی ہے تو وہ شے پھر اپنے زمانہ وصال کی متلاشی رہتی ہے جس طرح مچھلی اگر جبراً یا اتفاقاً پانی سے باہر آجاتی ہے تو وہ پھر پانی کی طرف عود کرنے کے لیے بے چین اور تڑپتی رہتی ہے۔ اسی طرح روح چونکہ عالم ارواح سے جدا ہوئی ہے اس لیے پھر اسی باغ و بہار کی طالب ہے۔ اب کوئی اعتراض کرسکتا ہے کہ کافر کی روح تو دنیا ہی کے بہار میں رہنا چاہتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شے کی خاصیت کا ظہور عدم موانع سے مشروط ہوتا ہے پس کفار کی ارواح سے بسبب ان کے کفر اور طغیانی اور سرکشی کے ان کی طبعی اور فطری خاصیت بالکلیّہ باطل ہوجاتی ہے یعنی مسلسل نافرمانیوں کی ظلمتوں سے روح کا وہ نورانی مزاج جو عالمِ ارواح سے منتقل ہونے کے بعد اس میں موجود تھا وہ فاسد ہوکر اپنی فطری خاصیت کا فاقد (یعنی ضائع کرنے والا) ہوجاتا ہے جیسے پائخانہ سونگھتے سونگھتے بھنگی کی ناک کا مزاج بدل جاتا ہے چنانچہ مثنوی شریف میں ایک بھنگی کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ اتفاق سے کسی عطار کی دکان سے گذرا اور عطر کی خوشبو سونگھتے ہی وہ بے ہوش ہوگیا۔ لوگوں نے اس پر گلاب چھڑکا اس کی بے ہوشی اور بڑھتی گئی اس کے بھائی کو جب خبر ہوئی تو وہ فوراً سمجھ گیا اور جلد ہی سے تھوڑا سا پائخانہ لاکر اس کی ناک پر رکھ دیا جب بدبو اس کے دماغ کو پہنچی تو فوراً اس کو ہوش آگیا اور اچھا ہوگیا تو معلوم ہوا کہ بدبو سونگھتے سونگھتے اس کی ناک اپنی اصل غذا یعنی خوشبو سے غیر مانوس اور متوحش ہوگئی تھی، اسی طرح کفار دنیا کی چند روزہ ظاہری زندگی کی فانی لذتوں میں مشغول ہوکر اور مسلسل نافرمانیوں میں غرق ہوکر اصل بہارِ آخرت سے غیر مانوس ہوگئے





وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کر گسوں میں

اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہ بازی



کر گس گِدھ کو کہتے ہیں جو مردار کھاتا ہے۔

اس کے برعکس اولیاءاللہ کی ارواح طاعات اور تقویٰ کے انوار سے اپنی فطری اور طبعی نورانی مزاج کی محافظ ہی نہیں ہوتیں بلکہ اپنی نورانیت میں ترقی کرکے ملائکہ سے بھی سبقت لے جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صالحین اور متقین بندے ہر وقت موت کے لیے متمنی رہتے ہیں، ان کا میلان ہروقت عالمِ آخرت کی طرف رہتا ہے۔ حضرت رومیؒ فرماتے ہیں



شد صفیر باز جاں در مرج دیں

نعرہائے لا احب الآفلیں



مولانا فرماتے ہیں کہ عارف بااللہ روح کی آواز دنیا میں یہ ہوتی ہے کہ میں فنا ہونے والی چیزوں سے محبت نہیں کرتی۔ موت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ



الموت جسر یوصل

موت ایک پل ہے جو ایک دوست



الحبیب الی الحبیب

کو اپنے دوست سے ملانے والا ہے



اور اس کے برعکس جب یہودیوں نے کہا کہ ہم لوگ اولیاءاللہ ہیں تو حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ



قل یا یہا الذین ہادوا ان زعمتم انکم اولیاءُ لِللّٰہِ من دون الناس فتمنوا الموت ان کنتم صادقین



o ولا یتمنونہ ابد ابماقدمت ایدیہم , واللہ علیم بالظالمین o



اے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ فرمادیجئے کہ اے یہودیو! اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ تم بلا شرکت غیر, اللہ تعالیٰ کے مقبول ہو تو اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کردو اور وہ لوگ بوجہ ان اعمال کے جو اپنے ہاتھوں سمیٹے ہیں کبھی اس کی (یعنی موت کی) تمنا نہ کریں گے اور اللہ کو ان ظالموں کی خوب اطلاع ہے۔



مشاہدہ ہے کہ نافرمانی سے ایک حجاب پیدا ہوجاتا ہے۔ دنیا میں اس کے نمونے موجود ہیں کہ جب کوئی غلام اپنے آقا کے ساتھ بغاوت اور سرکشی کرتا ہے تو پھر وہ آقا کے سامنے آنے سے خائف ہوجاتا ہے ہروقت اس کو یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ آقا کے ہاتھ میں اگر آگیا تو سیکڑوں جوتے سر پر برسیں گے۔ یہ خوف تو باغی اور سرکش کو ہوتا ہے اور کبھی فرماں بردار غلام سے بھی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں اس صورت میں بھی غلام کو آقا سے حجاب ہوتا ہے لیکن اس خوف کی شان دوسری ہوتی ہے اس خوف میں عفو کی امید بھی شامل رہتی ہے۔ ایسا غلام آقا کے سامنے تو جاتا ہے لیکن غلبہ ندامت سے اس پر سکوت کا عالم طاری رہتا ہے اور لطف اور راز و نیاز کی باتیں کچھ دن کے لیے ملتوی ہوجاتی ہیں یہی حال صدور معصیت کے بعد سالکین کا ہوتا ہے۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے





احب مناجاة الحبیب باوجہٍ

ولکن لسان المذنبین کلیلُ



(ترجمہ) میں محبوب کے ساتھ سرگوشی کو بہت سے عنوانات سے محبوب رکھتا ہوں لیکن گنہ گاروں کی زبان نافرمانیوں کے استحضار سے گونگی ہوجاتی ہے۔





یعنی کوتاہیوں کے بعد طاعات اور ذکر و مناجات میں ایک بستگی سی قلب میں محسوس ہونے لگتی ہے اور اتنے ہی سے سالکین پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے جس کو مولانا فرماتے ہیں



بر دلِ سالک ہزاراں غم بود

گرزباغِ دل خلالے کم بود



مولانا فرماتے ہیں کہ سالک پر ہزاروں غم ٹوٹ پڑتے ہیں جب اُن کو اپنے باغ دل میں ایک خلال کی بھی کمی نظر آتی ہے کیونکہ یہ خلال بھی بڑی مشقت سے ہاتھ لگا تھا، مجاہدات کے دریائے خون سے گذرے تھے جب یہ انوار قلب میں پیدا ہوئے تھے



عارفاں زانند ہردم آمنوں

کہ گذر کردند از دریائے خوں



مولانا فرماتے ہیں کہ عارفین ہر وقت امن اور چین میں اس سبب سے ہیں کہ انہوں نے رضائے حق کے لیے دریائے خون سے عبور کیا ہے یعنی نہ جانے کتنی کتنی مشقتیں نفسانی تقاضوں کو روکنے میں جھیلی ہیں اور استقامت علی الاعمال اور دوام ذکر کے لیے کیسی کیسی محنتیں کی ہیں۔



محرمِ ایں ہوش جز بے ہوش نیست

مرزباں رامشتری جزگوش نیست



مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ یہ ہوش یعنی تعلق مع اللہ کا غلبہ کس کو نصیب ہوتا ہے جو اس عالم سے بے ہوش ہوجاتا ہے۔ اس بے ہوشی کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ پاگل ہوجاتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تعلقاتِ ضروریہ کی حفاظت اور تعلقات غیر ضروریہ سے انقطاع اختیار کرتا ہے



واذکراسم ربک و تبتل الیہ تبتیلاً

(پارہ ۹۲ سورہ مزمل)



حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنے رب کا نام یاد کرتے رہیے اور سب سے قطع کرکے اسی کی طرف متوجہ رہیے۔

حق تعالیٰ نے اس آیت میں ذکراسم رب کو مقدم فرماکر یہ بتا دیا کہ تمام علائق سے دل خالی کرکے ہماری طرف بالکل متوجہ رہنے کی توفیق جبھی ہوتی ہے جب ہمارا نام لیا جائے۔ غلبہ ذکر سے تبتل کی قوت قلب میں پیدا ہوتی ہے کیونکہ میں ذاکر بندے کا، ہمنشین اور جلیس ہوتا ہوں کما ہو فی الحدیث انا جلیس من ذکرنی ”اور جب میں پاس ہوں گا تو میرے قرب کی نعمت تم کو میرے ماسوا سے بے پروا اور مستغنی کردے گی“۔ پس جس قدر ذکر کامل نصیب ہوگا اسی قدر تبتل کامل نصیب ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کو مطلقاً ترک کرے کسی پہاڑ کے غار میں جابیٹھیں، اسلام نے تو رہبانیت کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ مطلب یہ ہے کہ قلب میں تعلق مع اللہ کا غلبہ اس قدر رہے کہ غیراللہ دل میں داخل نہ ہوسکے۔ اسی کو حضرت عارف رومی فرماتے ہیں



آب درکشتی ہلاک کشی است

آب اندر زیرکشتی پشتی است



کشتی کے اندر پانی کا داخل ہوجانا کشتی کی ہلاکت کا سبب ہے لیکن کشتی کے نیچے پانی کا رہنا اس کی پشتی ہے۔

اس شعر کے اندر مولانا رومیؒ نے ایک علم عظیم رکھ دیا ہے، حق تعالیٰ نے ان کو معرفت کا بڑا حصہ عطا فرمایا تھا۔ اس شعر کے اندر ترکِ دنیا کا طریقہ ارشاد فرمادیا یعنی سب سے قطع کرکے حق تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ دل میں تعلقات ماسوی اللہ داخل نہ ہونے پائیں یعنی بقدر ضرورت کسبِ معاش کے لیے اسباب میں مشغولی تبتل کے خلاف نہیں ہے۔ جس طرح کہ پانی اگر کشتی کے نیچے بھی نہ رہے تو کشتی چلے کیسے؟ لیکن اگر دنیا کے تعلقات دل میں داخل ہوگئے تو اس صورت میں قلب کی ہلاکت ہے کیونکہ قلب ایک نازک آبگینہ ہے جو صرف شہنشاہ حقیقی کا مسکن ہے یہی وجہ ہے کہ دل کی غذا صرف ذکر اللہ ہے۔

الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ﴾پارہ ۳۱ سورہ رعد﴿

حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں خوب غور سے سن لو کہ دلوں کو چین صرف میری یاد سے نصیب ہوتا ہے۔



اسی کو حضرتِ عارف رومیؒ فرماتے ہیں



آں زجاجے کو ندارد نورِ جاں

بول قارورہ است قندیلش مخواں



جو آبگینہ یعنی قلب اپنے اندر نور جان یعنی تعلق مع اللہ نہیں رکھتا ہے وہ دل نہیں ہے وہ محض قارورہ کی شیشنی ہی جس میں مریض اپنا پیشاب حکیموں کے پاس لے جاتا ہے۔ دل کب دل ہوتا ہے جب اس کے اندر حق تعالیٰ کے ساتھ مستقل رابطہ قائم ہوجائے۔ اسی کو ایک بزرگ مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڈھی فرماتے ہیں



شکر ہے دردِ دل مستقل ہوگیا

اب تو شاید مرا دل بھی دل ہوگیا



اور ہمارے خواجہ صاحب مجذوب فرماتے ہیں



آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل

کچھ نہ پوچھو دل بہت مشکل سے بن پاتا ہے دل



الغرض روح نے غلبہ طبیعت کے سبب زبانِ حال سے اپنی جدائی کا غم بیان کیا تو حق تعالیٰ کی رحمت کو جوش ہوا۔ حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں



ہر کجا دردے دوا آنجا رود

ہرکجا رنجے شفا آنجارود



ہر کجا پستی است آب آنجارود

ہرکجا مشکل جواب آنجارود



جہاں درد ہوتا ہے وہیں اس کی دوا پہنچتی ہے، جہاں مرض ہوتا ہے وہیں اس کی شفا پہنچتی ہے، جہاں پستی ہوتی ہے اسی طرف پانی اپنا رخ کرتا ہے، جہاں مشکل ہوتی ہے وہیں اس کا جواب پہنچتا ہے



تشنگاں گر آب جویند از جہاں

آب ہم جوید بہ عالم تشنگاں



مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ جس طرح پیاسے جہاں میں پانی ڈھونڈتے ہیں اسی طرح پانی بھی اپنے پیاسوں کو ڈھونڈتا ہے۔



حاصل یہ کہ محبت طرفین سے ہوتی ہے یحبہم ویحبونہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ ان لوگوں سے (یعنی حضرات صحابہؓ سے) محبت کرتا ہے اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ یحبہم کو مقدم فرماکر یہ بتادیا کہ پہلے ہم تمہیں چاہتے ہیں پھر ہماری محبت کے فیض سے تمہارے دل ہمیں چاہنے لگتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے



مری طلب بھی کسی کے کرم کا صدقہ ہے



قدم یہ اٹھتے نہیں ہیں اٹھائے جاتے ہیں



اللہ تعالیٰ کے دریائے رحمت کو روح کی پریشانی اور غمِ ہجر پر جوش آیا اور روح کو اس بے کسی کے عالم میں لق و دق

میدان میں نفس کے حوالے ہوجانے سے نجات کا راستہ نازل فرمایا جس کا نام صراطِ مستقیم ہے۔ صراطِ مستقیم کا ترجمہ سیدھا راستہ ہے، صراط مستقیم وہ راستہ ہے جس پر چل کر بندہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا مقرب بندہ بن جاتا ہے۔ صراط مستقیم پر چلنا یہی روح کے لیے دوائے ہجر ہے اور صراط مستقیم نازل فرمانے سے پہلے ایک درخواست بندوں کی طرف نازل فرمائی کیونکہ بڑے دربار سے کوئی نعمت جب دی جاتی ہے تو کہا کرتے ہیں کہ درخواست لکھ کر لاﺅ حالانکہ نعمت دینے کی منظوری ہوچکی ہوتی ہے۔ حضرت مرشدیؒ فرمایا کرتے تھے دنیا کے یہ کارخانے عالم آخرت کے نمونے ہیں۔ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کے شایانِ شان بندے درخواست نہیں پیش کرسکتے تھے حق تعالیٰ کی تعریف کے لیے حق تعالیٰ کی معرفتِ کاملہ اور تمام صفات کا احاطہ ضروری ہے اور بندوں کی عقل محدود کے لیے صفات غیر متناہیہ کا احاطہ عقلاً محال ہے۔ بندوں کی اس عاجزی اور مجبوری کا چونکہ حق تعالیٰ کو علم تھا اور کیونکر ان کو علم نہ ہوتا جبکہ وہ پیدا فرمانے والے ہیں، پس حق تعالیٰ کی رحمت بندوں کی طرف سے وکیل بن گئی اور فرمایا کہ ہم تمہارے مولیٰ بھی ہیں اور وکیل بھی ہیں۔ نعم الوکیل فرمایا ہے یعنی ہم تمہارے بڑے اچھے کارساز ہیںِ ہمارے حضرت مرشدیؒ نے وکیل کا ترجمہ کارساز فرمایا ہے۔ اسی کو حضرت عارف فرماتے ہیں





کارسازِ ما بفکرِ کارما

فکر ما درکارما آزارِ ما



حضرت فرماتے تھے کہ میں نے مصرعہ اولیٰ میں ترمیم کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے فکر کا لفظ مناسب نہیں ہے۔ فکر مستلزم ہے تغیر کو اور ہر تغیر مستلزم ہے حدوث کو اور حدوث منافی ہے ذات واجب الوجود کے۔ مولانارومیؒ پر اس وقت محبت الٰہیہ کا حال غالب تھا اور مغلوب الحال معذور ہوتا ہے۔ میں نے اس میں یہ ترمیم کی ہے



کارساز ما بسازِ کارما

فکر ما درکار ما آزارِ ما



حق تعالیٰ نے وکالةً بندوں کی طرف سے صراط مستقیم کی ہدایت کے لیے درخواست نازل فرمائی جو سورہ فاتحہ میں مذکور ہے۔ اسی درخواست کی منظوری میں تیس پارے کا قرآنِ پاک نازل فرمایا گیا۔



صراطِ مستقیم بتاکر حق تعالیٰ نے روح کو یہ بتادیا کہ عالمِ ارواح سے جدا کرکے عالم ناسوت یعنی دنیا میں تجھے بھیجنے کا مقصد تجھ کو اپنے سے دور کرنا نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ تجھے ہم اپنی ایسی معرفت عطا فرمادیں جس کی بدولت تو میری دوستی کے قابل ہوجاوے۔ اندھا اگر مقرب ہی ہو تو اس کوقرب کا لطفِ تام حاصل نہ ہوگا۔ دنیا میں تجھے بینا بنانے کے لیے بھیجا ہے یہاں تیری آنکھیں ایمان اور تقویٰ کے نور سے بنائی جاویں گی اور عالمِ آخرت میں یہی بنی ہوئی آنکھیں کھول دی جائیں گی۔ عالمِ ارواح میں تم صرف بندے اور غلام رہتے اور اس عالم میں بھیج کر ایمان بالغیب اور تقویٰ کی برکت سے ہم تمہیں اپنا دوست بنالیں گے۔ کیا یہ معمولی انعام ہے کہ آقا اپنے بندے اور غلام کو دوست بنالے۔ دنیا میں اپنے غلام کو کوئی بادشاہ دوست بنانا تو بڑی بات ہے زبان سے بھی غلام کو دوست کہنے میں اپنی توہین سمجھتے ہیں حالانکہ سلاطین دنیا بشریت میں تمہارے ہم جنس ہیں یعنی تم بھی انسان ہو اور یہ شاہانِ دنیا بھی انسان ہیں لیکن ان کی وضعداری ان کو اس امر سے مانع ہوجاتی ہے کہ اپنے غلام کو دوست کے لقب سے یاد کریں۔ مگر میری عطا اور میرے کرم بے مثال کو دیکھو کہ ہم تمہارے خالق بھی ہیں اور مالک بھی ہیں، تمہارے جسم کے ظاہر اور باطن کا ہرذرہ ہمارا مملوک ہے، ہماری مخلوق ہے اور ہمارا پرورش کیا ہوا ہے، ہم نے تم کو عدم سے وجود بخشا ہے ہم نے تمہاری آنکھوں کو بینا بنایا ہے کانوں کو سننے والا بنایا ہے زبان کو گویائی بخشی ہے ناک میں سونگھنے کی قوت عطا فرمائی ہے دماغ میں عقل اور فہم کا خزانہ رکھا ہے۔ ہاتھ پاﺅں ایسے جوڑ دار بنائے ہیں جن سے مختلف کاموں کے وقت مختلف طرز سے تم کام لیتے ہو اور تمہارا ہر ذرہ ہر وقت ہماری قدرتِ قاہرہ اور قدرتِ غالبہ کے تحت ہے۔ فرماتے ہیں وہو القاہر فوق عبادہ اور وہ ذات پاک ہے اپنے بندوں پر غالب القدرة ہے اتنی عظمت اور جلالتِ شانِ الوہیت کے باوجود ہم اپنے کرم سے تمہیں اپنا دوست بنالیتے ہیں، ہم تمہارے ایسے مولیٰ ہیں جو تم غلاموں کو دوست بنالینے والے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تمام صفات میں ہماری ایک صفت ودود بھی ہے یعنی بہت محبت کرنے والا۔ پس ہماری شان محبت کا مقتضا یہ ہے کہ ہم غلاموں کو دوست کے خطاب سے نواز دیتے ہیں ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں وہو الغفور الودود۔ وہ یعنی اللہ بہت بخشنے والا اور بہت محبت فرمانے والا ہے۔ میں اس کا ترجمہ بزبان محبت میں یہ کیا کرتا ہوں کہ میاں بندوں کو اس آیت سے اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ ہم تمہیں کیوں بخش دیتے ہیں جانتے ہو؟ پھر خود ہی فرماتے ہیں کہ زیادہ محبت کی وجہ سے، تمہاری مغفرت کا سبب ہماری محبت کا اقتضاءہے۔ یہ عجیب ربط یہاں غفور اور ودود کا سمجھ میں آیا ہے۔ قرآن کے لطائف بھی عجیب ہیں







مخدرات سراپردہ ہائے قرآنی

چہ دلبرند کہ دل می برند پنہانی



ہماری محبت کا تقاضا تھا کہ ہم تمہیں عالمِ ارواح سے ایک مدت عمر کے لیے دنیا میں بھیج دیں تاکہ تمہاری عبدیت پر ہم اپنی ولایت یعنی دوستی کا تاج رکھ دیں۔ کیونکہ ہماری دوستی کے لیے دو شرطیں ہیں (۱)ایمان بالغیب اور (۲)تقویٰ۔ ارشاد فرماتے ہیں



الا ان اولیاء اللہ لاخوف علیہم ولا ہم یحزنون الذین اٰمنوا وکانوا یتقون۔



﴾بیان القرآن پارہ ۱۱ سورہ یونس﴿



ترجمہ: یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ناک واقعہ پڑنے والا ہے اور نہ وہ کسی مطلوب کے فوت ہونے پر مغموم ہوتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ ان کو خوفناک اور غمناک حوادث سے بچاتا ہے اور وہ اللہ کے دوست وہ ہیں جو ایمان لائے اور معاصی سے پرہیز رکھتے ہیں یعنی ایمان اور تقویٰ سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔





ہمارے مرشدی حضرت تھانویؒ نے اس مقام پر فائدہ کے تحت تحریر فرمایا ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے دوستوں سے جس خوف اور جس غم کی نفی فرمائی ہے اس خوف سے خوف حق اور غم سے غمِ آخرت مراد نہیں ہے بلکہ دنیوی خوف اور غم کی نفی مراد ہے جس کا احتمال دین کے مخالفین سے ایذاءرسانیوں سے ہوسکتا ہے وہ مومنین کاملین کو نہیں ہوتا کیونکہ ہر وقت ان کو اللہ تعالیٰ پر اعتماد ہوتا ہے، ہر واقعہ کی حکمت کا اعتقاد ہوتا ہے۔

(ازتفسیر القرآن)



اس آیت میں یتقون کا صیغہ مضارع کا ہے جس کے اندر خاصیت تجدد استمراری ہوتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ

اولیاء اللہ خوفِ حق سے اور غمِ آخرت سے ہروقت ڈرتے رہتے ہیں۔



اس آیت میں حق تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس بات کا پتہ بتادیا ہے کہ ہماری ولایت یعنی دوستی کا شرف تم کو کب نصیب ہوگا جب تم ان دو شرطوں کو پورا کردکھاﺅ گے اور وہ دو شرطیں کیا ہیں ایمان بالغیب اور تقویٰ۔





نحن اولیاءکم فی الحیوة الدنیا وفی الاٰخرة

حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اور ہم تمہارے رفیق تھے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی رہیں گے۔



اس آیت میں ولایت حیات دنیوی کی تقدیم سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کی رفاقت اور ولایت کے لیے دنیا کی حیات اول ظرف ہے یعنی اولاً دنیا میں ایمان بالغیب اور تقویٰ اختیار کرکے حق تعالیٰ کی ولایت یعنی دوستی سے بندہ مشرف ہوتا ہے پھر اسی عالمِ ناسوت کی یعنی دنیا کی دوستی آخرت میں بھی کام آتی ہے یعنی ولایت فی الآخرة دراصل ولایت فی الحیوٰة الدنیا ہی کا ثمرہ ہوتی ہے جو دنیا میں حق تعالیٰ کا ولی نہ ہوگا وہ آخرت میں بھی حق تعالیٰ کا ولی نہ ہوگا۔ ہمارے حضرت مرشدی تھانویؒ نے ارشاد فرمایا تھا کہ نبوت کا دروازہ بند ہوا ہے ولایت کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے۔ نبوت محض وہبی نعمت ہے اور ولایت کو بندوں کے اختیار میں دے دیا ہے کیونکہ ایمان اور تقویٰ دونوں امور اختیاریہ سے ہیں اور جوش میں فرمایا کہ اب بھی حضرت غوث پاکؒ کی کرسی پر بیٹھنے والے لوگ موجود ہیں کرسیاں خالی نہیں ہیں سب پُر ہیں۔





ہنوز آں ابر رحمت درفشاں است

خم و خمخانہ بامہر و نشان است



(اس وقت حضرت والا رحمة اللہ علیہ پر ایک خاص حالت طاری ہوگئی تھی)





البتہ ایمان اور تقویٰ اگرچہ امور اختیاریہ سے ہیں لیکن ان کے اختیار کرنے میں مجاہدات اختیار کرنے پڑتے ہیں ایمان تو بفضلہ تعالیٰ ہم لوگوں کو حاصل ہی ہے صرف جزءثانی یعنی تقویٰ کی تحصیل کے لیے کوشش اور مجاہدہ کرنا ہے۔ اسی مجاہدہ کے متعلق ہمارے خواجہ صاحب فرماتے ہیں



برسائیں گے جب خون دل اور خون جگر ہم

دیکھیں گے تبھی نخلِ محبت میں ثمر ہم



تقویٰ کے حاصل کرنے کا طریقہ بھی حق تعالیٰ نے ارشاد فرمادیا ہے۔ فرماتے ہیں یا ایہاالذین امنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ اس ترجمہ میں بھی خاصیت تجدد استمرار کی ملحوظ ہے کیونکہ امر کا صیغہ مضارع ہی سے بنتا ہے۔ اب سوال ہوتا ہے کہ کیسے ڈریں ،ڈرنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو خود ہی اس سوال کا جواب ارشاد فرماتے ہیں وکونوا مع الصادقین کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ پڑو چند دن کسی کاملِ کی صحبت میں رہ کر اس کے صدق اعمال اورصدق مقال کو دیکھا کرو کہ وہ اللہ والا کس طرح اللہ سے ڈرتا ہے، غصہ کی حالت میں وہ اللہ والا کس طرح غصہ کو حق تعالیٰ کے خوف سے پی جاتا ہے اور کس طرح وہ خدا کے دشمنوں پر غصے کو نافذ کرتا ہے، اسی طرح وہ حالت مصیبت میں کس طرح خدا کے خوف سے صراط مستقیم پر جما رہتا ہے اس حالت میں اس کے صبر کی کیفیت دیکھو اسی طرح وہ نعمتوں کی حالت میں کس طرح خدا کا شکر گذار رہتا ہے اس حالت میں اس کا شکر دیکھو اور اس کی عبدیت دیکھو کہ وہ نعمتوں میں اترانے نہیں لگتا، ناز اور تکبر کی باتیں نہیں کرتا، نہ اپنی چال میں اینٹھ مروڑ کرتا ہے۔ اسی طرح وہ دوستوں کے ساتھ کس طرح خندہ پیشانی سے ملتا ہے اور دشمنوں کی ایذاءرسانیوں کو کس طرح برداشت کرتا ہے اور اس کا اپنے بڑوں کے ساتھ ادب دیکھو اور چھوٹوں کے ساتھ اس کی شفقت دیکھو، اس کی عبادت میں اس کا اخبات اور اس کی خشوع و خضوع کی کیفیت دیکھو، اس کی گفتگو اور اس کے لب و لہجے میں اس کی شانِ عبدیت دیکھو۔ اور اس پر خاتمہ کے خوف سے جو آثار حزن غالب رہتے ہیں اس کو دیکھو نیز خوف خاتمہ کے سبب اس کا اپنے کو تمام مخلوقات حتیٰ کہ سور اور کتوں سے بدتر سمجھنے کی حالتِ رفیعہ کو دیکھو۔ الغرض اس صادق القول اور صادق العمل یعنی بندہ کامل کی ہر ہر حالت کو دیکھتے رہو اس دیکھنے کا تمہارے اوپر یہ اثر ہوگا کہ تمہاری طبیعت آخذہ خفیہ خفیہ اس مومن کامل کے تمام اخلاق و عادات حسنہ اپنے اندر لے لے گی۔ کیونکہ ایک دل سے دوسرے دل تک خفیہ راہ ہوتی ہے



کہ ز دل تادل یقیں روزن بود

نے جدا و دور چوں دو تن بود



متصل نبود سفال دو چراغ

نورشاں ممزوج باشد درمساغ



حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ دو جسم اگرچہ دور اور جدا جدا ہوتے ہیں لیکن بالیقین ایک دل سے دوسرے دل تک مخفی راہ ہے پھر اس نظری کو مولانا ایک مثال سے سمجھا کر بدیہی فرماتے ہیں کہ تم دیکھتے ہو کہ جب دو چراغ روشن ہوں تو ہر ایک کا دیا الگ الگ ہوتا ہے لیکن فضاءمیں دونوں کی روشنی مخلوط اور متصل ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک مومن کامل کے قلب کا نور دوسرے ناقص مومن کے قلب کے نور سے متصل اور مخلوط ہوکر ناقص کے نور کو بھی کامل کردیتا ہے اگرچہ دونوں کے قلب الگ الگ قالب میں ہیں معیت صادقین کے اندر عجیب کیمیاوی اثر ہے۔ اسی کو حضرت حافظ شیرازی فرماتے ہیں کہ



کیمیا ایست عجب بندگیِ پیر مغاں

خاک او گشتم و چندیں درجاتم دادند



جتنا ہی زیادہ شیخ کامل کی صحبت نصیب ہوگی اسی قدر اس کے فیوض اور برکات سے مالا مال ہوجاﺅ گے۔ مولانا فرماتے ہیں

سالہا باید کہ تا از آفتاب

لعل یابد رنگ رخشانی و تاب



مولانا فرماتے ہیں کہ ایک معتدبہ زمانہ چاہیے کہ آفتاب سے اس کی شعاعیں پتھر کے ذرات پر بحکم الٰہی اپنا بتدریج اثر پہنچاتی رہیں یہاں تک کہ وہ ذرات شدہ شدہ لعل بن جائیں اسی طرح شیخ کامل کا قلب جو ہدایت کا آفتاب ہے اور جس کے اندر براہ راست آفتابِ حق سے انوار آتے ہیں اس کی شعاعیں بحکمِ الٰہی طالبِ صادق کے قلب پر بتدریج اپنا اثر کرتی رہتی ہیں۔ ایک مدت کے بعد وہ اپنے باطن میں محسوس کرتا ہے کہ روز بروز طاعات میں جی لگتا جاتا ہے اور گناہوں سے دل ہٹتا جاتا ہے یہی مطلب ہے صوفیہ کے اس قول کا کہ اس کا دل نورانی ہوگیا۔ حاشا وکّلا دل میں نور آنے کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دل میں کوئی لالٹین یا گیس جل جاتی ہے۔ حضرت عارف رومیؒ فرماتے ہیں کہ ہمارا پیر شمس الدین تبریزی آفتابِ حق ہے



شمس تبریزی کہ نور مطلق است

آفتاب است و ز انوار حق است



حضرت شمس الدین تبریزیؒ نور مطلق ہیں وہ خود ایک آفتاب ہیں اور اس آفتاب کے انوار حق تعالیٰ کے انوار سے مستفاد ہیں۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ شیخ کے قلب میں حق تعالیٰ کے انوار کس راہ سے آتے ہیں اس کا جواب بھی حضرت رومیؒ فرماتے ہیں



درمیان شمس دیں روزن رہے

ہست روزنہا نہ شد زاں آگہے



آفتابِ حقیقی اور عارفین کے قلوب کے درمیان ایک مخفی راستہ ہے جس سے حق تعالیٰ کے نفحات کرم پے درپے آتے رہتے ہیں، دوسرے لوگ اس دریچہ باطنی سے آگاہ نہیں ہیں انہیں باطنی نعمتوں کے متعلق حضرت شاہ فضل رحمن صاحب گنج مراد ٓبادیؒ ارشاد فرماتے تھے کہ



جو دل پر ہم اس کا کرم دیکھتے ہیں

تو دل کو بہ از جام جم دیکھتے ہیں



حضرت مولانا رومیؒ نے عارفین کاملین کی اس جلالت شان کو دوسری جگہ یوں فرمایا ہے کہ



خم کہ از دریا درو راہے شود

پیش او جیحونہا زانو زند



جس مٹکے کے اندر کوئی نلکی سمندر سے لگی ہو اور اس راستے سے اس مٹکے میں سمندر سے پانی جوش ماررہا ہو تو وہ مٹکا دیکھنے میں تو بظاہر مٹکا ہے لیکن اس کے فیضِ عظیم کے سامنے بڑے بڑے جیحون جیسے دریا زانوئے ادب طے کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہمارے حضرت حاجی امداد اللہ صاحب دادا پیر رحمة اللہ علیہ بھی تھے صرف کافیہ تک تعلیم تھی لیکن قلب میں ایک راستہ حق تعالیٰ کی ذات پاک سے ملا ہوا تھا جس کا اثر یہ تھا



بینی اندر خود علومِ انبیاء

بے کتاب و بے معید و اوستا



حضرت حاجی صاحبؒ کا ظاہری مبلغ علم تو صرف کافیہ تک تھا لیکن



خم کہ از دریا درو راہے شود

پیش او جیحونہا زانو زند



حضرت مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہیؒ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اللہ علیہ جیسے چوٹی کے علماءہند آپ کے سامنے زانوئے ادب طے کرتے تھے۔ اور حضرت مولانا قاسم صاحبؒ تو فرماتے تھے کہ میں حضرت حاجی صاحب کے علم ہی سے معتقد ہوکر ان کا مرید ہوا ہوں۔





حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ کے یہاں مثنوی شریف کا جو درس ہوتا تھا اس میں علماءہند کے علاوہ بیرونِ ہند کے علماءبھی شریک درس ہوتے تھے۔ بات کیا تھی بات وہی تھی



خم کہ از دریا درو راہے شود

پیش او جیحونہا زانو زند



جس مٹکے میں سمندر سے راستہ ہوجاتا ہے اس کے سامنے بہت سے جیحون جیسے دریا زانوئے ادب طے کرتے ہیں۔

الغرض حق تعالیٰ کی دوستی کے لیے جن دو شرطوں کا آیت الذین اٰمنوا وکانوا یتقون کے اندر ذکر ہے یعنی ایمان بالغیب اور تقویٰ ان دونوں شرطوں کا حصول عالمِ ارواح میں روح کے لیے ممکن نہ تھا کیونکہ وہاں تو تمام مغیبات سامنے تھیں اور تقویٰ کے اسباب نہ تھے۔



روح مجرد میں اعضاءتھے ہی نہیں جن سے گناہ کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور تقویٰ کی تعریف یہ ہے کہ گناہ کی خواہش اور تقاضے پیدا ہوں اور پھر خوف حق سے ان تقاضوں پر عمل نہ کرے۔ عالم ارواح میں ایسے اسباب مطلقاً موجود نہ تھے نہ وہاں غضب کا مادہ تھا نہ وہاں شہوت کا مادہ تھا نہ وہاں ان تقاضوں پر عمل کرنے کے اسباب تھے، وہاں صرف بندے رہتے ہماری عبدیت پر ولایت کا تاج وہاں نہ رکھا جاتا۔ میاں کی رحمت نے اور ان کے کرم عظیم نے ارواح کو اجسام کے ساتھ دنیا میں بھیج کر بڑا احسان فرمایا ہے کہ آج اس عالمِ ناسوت میں ایمان بالغیب اور تقویٰ کی برکت سے کیسے کیسے غوث اور ابدال و اقطاب و اوتاد اور نجباءو نقباءپیدا ہوئے ہیں اور نہ جانے کتنے بے شمار اولیاءاللہ روئے زمین پر ہوتے رہےں گے۔ میاں کے اس کرم پر جان قربان کردینا چاہیے کہ غلاموں کو دوست بنانے کے لیے روحوں کو اعضاءعطا فرماکر دنیا میں بھیجا ہے۔اسی کو مولانا فرماتے ہیں



شہوتِ دنیا مثال گلخن است

کہ از و حمام تقویٰ روشن است

دنیا کی یہ خواہشات مثل بھٹی کے ہیں جب ان خواہشات کے تقاضوں کو حق تعالیٰ کی مرضی میں بندہ جلادیتا ہے تو اس سے تقویٰ کا حمام روشن ہوجاتا ہے۔ لفظ تقویٰ ایسا جامع لفظ ہے جو اپنے اندر دین کے تمام جزئیات اور کلیات فروع اور اصول کو لئے ہوئے ہے کیونکہ جب ڈر ہوگا تو تمام احکام کو بجالانے کی فکر ہوگی، اسی طرح تمام گناہوں سے بچنے کی فکر بھی ڈر ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ پس تقویٰ یعنی خدا کا خوف تمام اعمال و احکام پر پابندی اور تمام گناہوں سے پرہیز سب کا ذریعہ ہے۔ قرآن کا عجیب اعجاز ہے ایمان بالغیب اور تقویٰ کے اندر سارا دین جمع فرمادیا ہے۔ اور یتقون صیغہ مضارع کا ہے جس کے اندر حق تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ ہمارے اولیاءہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں مرتے دم تک ڈرتے رہتے ہیں۔ اس ڈر ہی کے سبب انتقال کے وقت ان کے کان میں لا تخافوا ولا تحزنوا کی بشارت دی جاتی ہے یعنی دنیا میں بہت ڈر چکے، اتنا ڈرتے تھے کہ گوشہ چشم سے بھی غیر محرم پر نگاہ نہ کرتے تھے اب عالم بدل رہا ہے دنیا میں ہمارے خوف سے تم ہر وقت غمگین رہتے تھے آج کے دن لاتخافوا سے تمہاری مہمان نوازی کی جائے گی یعنی اب خوف مت کرو اور غم نہ کرو۔ اسی کو حضرت عارف رومیؒ فرماتے ہیں



لاتخافوا ہست نزل خائفاں

یعنی نہ ڈرنے کی بشارت ڈرنے والوں ہی کو دی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ کسی بے خوف سے یہ نہیں کہا کرتے ہیں کہ تم خوف مت کرو، حق تعالیٰ کا اپنے اولیاءسے موت کے وقت لاتخافوافرمانا صاف دلیل ہے کہ ان کے اندر خوف بھرا ہوا تھا ہر نہی اپنے مخاطب کے اندر منہی عنہ کے اثبات کی دلیل ہوتی ہے۔ یتقون کے لفظ سے حق تعالیٰ نے اپنے دربارِ خاص سے غیر مخلصین کو اور فاسقین فاجرین کو نکال دیا



عشق از اول چراخونی بود

تاگریزد ہر کہ بیرونی بود



مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ عشق اول وہلہ میں خونی کیوں نظر آتا ہے تاکہ غیر مخلص اور مدعی کاذب ہمت ہار کر راہِ فرار اختیار کرلے۔ اسی مضمون کو ہمارے خواجہ صاحب نے یوں فرمایا ہے کہ



بڑی عشق میں ہیں بہاریں مگر ہاں

گھری خارزاروں سے پھلواریاں ہیں



غیر عاشق ایک زخم لگنے سے راہ فرار اختیار کرتا ہے اور عاشق صادق کی شان یہ ہوتی ہے کہ



آں نہ من باشم کہ روز جنگ بینی پشتِ من

آں منم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے

(سعدیؒ)



ایک عاشق صادق کہتا ہے کہ میں وہ نہیں ہوں کہ جنگ کے دن تو میری پیٹھ دیکھے یعنی میں شکست خوردوں کی طرح پشت دکھا کر بھاگنے والا نہیں ہوں میں وہ ہوں کہ تو میرا سر ُاس وقت خاک اور خون کے درمیان لتھڑا ہوا دیکھ لے گا۔



یتقون کے لفظ سے ولایت کی خاص علامت حق تعالیٰ نے بتادی کہ میرا ولی بندہ مجھ سے ہر وقت ڈرتا رہتا ہے اور کیوں ڈرتا ہے؟ محبت کے مارے کہ میاں نہ معلوم میرے ان اعمال سے خوش ہیں یا ناخوش ہیں۔ ایک بزرگ حافظ امام الدین صاحب جو شاہ گلزار صاحبؒ کے خلیفہ تھے ان کا واقعہ یاد پڑا کہ وہ کہیں چلے جارہے تھے کہ کسی دیہاتی ہندو نے ہندی زبان میں یہ شعر گایا



جھلنی تو گڑہایوں پیا اپنے مناسے

پیا منا بھاولا کہ نائے



ایک عورت اپنے شوہر کو خطاب کرکے کہتی ہے کہ اے پیا یعنی اے میرے شوہر جھلنی (جو کہ ایک زیور ہے ناک میں عورتیں پہنتی ہیں) تو اپنی طبیعت کے پسند سے بنوالیا ہے لیکن معلوم نہیں ہے کہ آپ کو بھی پسند آوے یا نہ آوے اور مطلب تو صرف پیا کی پسند سے ہے۔



اس شعر کا سننا تھا کہ حضرت حافظ امام الدین صاحب جو صاحب نسبت بزرگ تھے سرِ راہ بےہوش ہوگئے ایک حال طاری ہوگیا جب ہوش ہوا تو احباب نے عرض کیا کہ حضرت آپ بے ہوش کیوں ہوگئے؟ فرمایا کہ اس ہندی شعر سے میرے قلب پر ایک کیفیت طاری ہوگئی حق تعالیٰ کی پسندیدگی اور اپنے اعمال کی گندگی کا نقشہ اس شعر میں نظر آگیا یعنی اس عورت کو اپنے شوہر سے اس درجہ عشق ہے کہ وہ اپنے زیور سے خوش نہیں ہے محض اس بناءپر کہ ابھی میرے شوہر نے اس کو دیکھا نہیں ہے، جب تک وہ دیکھ کر اپنی پسندیدگی کا اظہار نہ کردے اس وقت تک اس عورت کو اپنی جھلنی کے متعلق تشویش ہے۔ اسی طرح مرنے سے پہلے اپنے اعمال کے متعلق ہم اپنی رائے سے کیسے سمجھ لیں کہ یہ قابل قبول بھی ہیں، معیار اور کسوٹی کھوٹے کھرے ہونے کی تو میاں کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاءاللہ مرتے دم تک ڈرتے رہتے ہیں اس ڈر کا کبھی ان سے انقطاع اور انفکاک نہیں ہوتا ہے۔اگر کسی کے قلب سے یہ ڈر نکل جائے تو اسی وقت اس کی ولایت بھی ختم ہوجائے کیونکہ ولایت کے لیے تقویٰ کی شرط لگی ہوئی ہے اور شرط کے فوت ہونے سے مشروط کا فوت ہونا لازم آتا ہے۔ دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ اگر آپ کے یہاں کوئی معزز اور محترم مہمان آجائے اور آپ رات دن اس کا اکرام اور ہر طرح سے اس کی ضیافت و مہمان نوازی کرلیں لیکن مہمان کے رخصت ہونے کے وقت میں آپ کا دل کھٹکتا ہے کہ نہ معلوم اس مہمان معزز کے مزاج پر کون سی بات گراں خاطر ہوئی ہو، کیونکہ ضیافت اور مہمان نوازی تو ہم نے اپنی عقل اور اپنی طبیعت و مذاق کے مطابق کی ہے مہمان کے مذاق اور مزاج کا پورا علم نہ کسی کو ہوتا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ رات دن ساتھ رہنے والے خادموں کو سالہا سال مزاج شناسی سکھانے کے باوجود ان سے بعض خدمات مزاج کے خلاف ہوہی جاتی ہیں جب ہم کو اپنی طبیعت کا اور مزاج کا یقینی علم پوری طور پر نہیں ہوتا ہے تو دوسروں کی طبیعت جو ہمارے احساس سے بھی الگ تھلگ ہے اس کا علم کیسے ہوسکتا ہے۔ طبائع اور امزجہ کا یقینی علم مخلوقات کے لیے حاصل ہونا عقلاً محال ہے۔ یہ صرف خالق کی شان ہے جو اپنے پیدا کئے ہوئے تمام ذرات کے اتصال اور انفصال سے پورا پورا باخبر ہوتا ہے۔

حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : الا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر بھلا کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا ہے اور وہ بہت باریک بیں اور پورا باخبر ہے۔ (پارہ ۹۲ سورہ ملک)



حاصل یہ ہے کہ جب وہ معزز مہمان رخصت ہونے لگتا ہے تو میزبان صدہا اکرام اور خدمات کے باوجود ادب سے عرض کرتا ہے کہ آپ کی کما حقہ ہم سے خاطر نہ ہوسکی کوئی بات گراں خاطر ہوئی ہو تو اس کو معاف فرمائیے گا۔ جب ایک انسان دوسرے انسان کا کما حقہ حق ادا نہیں کرسکتا ہے تو اللہ تو اللہ ہے وہ خالق اور مالک ہے۔ دنیا میں عالم غیب کے نمونے موجود ہیں۔ اللہ والے جو اپنے اعمال اور اذکار پر نازا ں ہونے کے بجائے ڈرتے رہتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی سمجھ حق تعالیٰ نورانی فرمادیتے ہیں، وہ نفس سے یوں کہہ دیتے ہیں کہ جب حق تعالیٰ میرے مرنے کے بعد مجھ سے فرمادیں گے کہ تیرے اعمال سب قبول ہیں اس وقت ان اعمال پر اچھلیں گے اور خوشیاں منائیں گے، دنیا میں چونکہ اپنے اعمال کے متعلق ہم کو میاں کی خوشی اور ناخوشی کا یقینی علم نہیں ہے اس لیے دنیا ناز کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں ناز کرنا اعمال پر ناز بے جا ہے اور قبل از وقت ناز ہے۔اسی کو حضرت بڑے پیر صاحب فرماتے ہیں





ایماں چو سلامت بلب گوربریم

احسنت بریں چستی و چالاکی ما





حضرت غوث پاکؒ فرماتے ہیں کہ جب ایمان کو سلامتی سے ہم قبر میں لے جاویں گے تو اس وقت ہم اپنی چستی اور چالاکی پرآفریں کہیں گے اور دنیا میں جب تک دین کی کشتی نفس و شیطان کے تھپیڑوں سے دوچار ہے اس وقت تک ناز کرنا حماقت ہے۔ یہ وقت تو ہر وقت حق تعالیٰ سے آہ و زاری کے ساتھ سلامتی کے ساتھ پار ہونے کی دعا کرنے کا ہے



خوش سلامت ما بہ ساحل باز بر

اے رسیدہ دست تو در بحر و بر



الذین اٰمنوا وکانوا یتقون میں لفظ آمنوا سے حق تعالیٰ نے تمام بے ایمانوں کو اپنے دربار سے نکال دیا اس کے بعد یتقون فرماکر بے عمل اور بے خوف اہل ایمان مدعیان باطل کو نکال دیا۔



متقین بندوں کو اہل اللہ کہتے ہیں اہل اللہ کا ترجمہ زبان محبت میں یہ کرتا ہوں: اہل اللہ یعنی اللہ کے گھر والے۔ اسی کو حضرت عارف رومیؒ فرماتے ہیں



ہاں و ہاں ایں دلق پوشان من اند

صد ہزار اندر ہزاراں یک تن اند



مولانا حق تعالیٰ کی طرف سے حکایةً فرماتے ہیں کہ ہاں وہاں یعنی خوب سن لو کہ یہ گدڑی پوش ہمارے خاص بندے ہیں، ہمارے تعلق خاص کی برکت سے ان کا ایک تن لاکھوں انسانوں سے ایک امتیازی شرف رکھتا ہے۔



ضعف قطب از تن بود در روح نے

ضعف درکشتی بود در نوح نے



قطب کا ضعف صرف تن میں ہے یعنی مجاہدات اور کثرت طاعات سے نیز غلبہ محبت سے ان کا جسم تو بظاہر کمزور ہے لیکن باطن میں تعلق مع اللہ کے فیض سے ایسی قوت رکھتے ہیں جس کے سامنے تمام مادی قوتیں ہیچ ہیں۔ یہ ضعف صرف کشتی میں ہے نوح علیہ السلام میں نہیں ہے۔



ان کے قلب کو چونکہ انعام ولایت کا شرف حاصل ہے اس لیے وہ ہفت اقلیم کی طرف رخ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔



حضرت بڑے پیر صاحبؒ سے جب شاہِ سنجر نے عرض کیا کہ حضرت آپ کی خانقاہ کا خرچ بہت ہے اگر اجازت ہو تو نیمروز کا ملک خانقاہ کے لیے وقف کردوں حضرت بڑے پیر صاحبؒ نے اس کے جواب میں دو شعر لکھ بھیج دیئے



چوں چتر سنجری رُخ بختم سیاہ باد

گر دردلم بود ہوس ملک سنجرم



آں گہہ کہ یافتم خبراز ملک نیم شب

من ملک نیمروز بیک جونمی خرم



بڑے پیر صاحبؒ نے تحریر فرمادیا کہ شاہ سنجر کے چتر کی طرح میرا نصیبہ سیاہ ہوجاوے اگر میرے دل میں ملک سنجر کی ذرا بھی ہوس ہو جس وقت سے کہ حق تعالیٰ نے ہمیں آدھی رات کی سلطنت یعنی تہجد کی نمازوں میں حق تعالیٰ کے ساتھ سرگوشی و مناجات کی لذت عطا فرمائی ہے میں ملک نیمروز کو ایک جو کے عوض میں نہیں خرید سکتا ہوں۔





ملک دنیا تن پرستاں راحلال

ما غلام ملک عشق لازوال



حضرت عارف رومیؒ فرماتے ہیں کہ ملک دنیا تن پرستوں کو مبارک ہو ہم تو ملک عشق حقیقی کے غلام ہیں جس کو کبھی زوال نہیں ہے منعم علیہم بندوں کی یہی شان ہے۔ جب دل باطنی نعمتوں سے بھرا ہوتا ہے تب وہ یہ نہیں کہتا کہ پچاس روپےہ لاﺅ تو وعظ کہوں گا، پچیس روپیہ دو تو سلام پڑھوں گا۔ یہ خوب ہے اللہ اور رسول کی محبت کا جو پچاس روپے اور پچیس روپے میں بکتی پھرتی ہے۔ ان کے یہ کارنامے بتاتے ہیں کہ یہ منعم علیہم نہیں ہیں یعنی اللہتعالیٰ کی طرف سے انعام یافتہ نہیں ہیں۔



ہمارے حضرت مرشد تھانویؒ تو یہاں تک فرماتے تھے کہ جب کسی عالم کو بہت تکلفات کے لباس میں آراستہ دیکھتا ہوں تو دل میں وسوسہ گذرجاتا ہے کہ یہ شاید خالی خولی ہے یعنی اس کا باطن دین کی حلاوت سے محروم ہے کیونکہ ایمان کامل کی علامت سادگی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں البذاذة من الایمان سادگی ایمان کامل کی علامت ہے جس کو آخرت کا غم سوار ہوتا ہے اسے دنیا کے نقش و نگار ظاہری بہلاوے نہیں دے سکتے ہیں۔ وما انا من المتکلفین پر مومن کامل کا عمل ہوتا ہے۔ منعم علیہم بندوں کی شان قرآن میں یہی بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ دین کی باتوں کو قوم تک پہنچاتے ہیں اور قوم سے کہتے ہیں کہ





یٰقوم لا اسئلکم علیہ اجراً ان اجری الا علی الذی فطرنی افلا تعقلون (پ ۲۱ سورہ ھود) وہ انعام یافتہ یعنی انعام نبوت سے مشرف بندہ اپنی قوم کو دینی دعوت دے کر یہ کہتا ہے کہ اے میری قوم میں تم لوگوں سے اس پر (یعنی دعوتِ توحید پر) کچھ معاوضہ نہیں مانگتا میرا معاوضہ تو صرف اس کے ذمے ہے جس نے مجھ کو پیدا کیا ہے پھر کیا تمہیں نہیں سمجھتے۔





یہ افلا تعقلون عجیب عبرت کا کوڑا ہے کہ بھلا وہ شخص جو بدون معاوضہ اپنا کاروبار چھوڑ کر اللہ کی طرف تم کو بلاتا ہے تو باقتضاءعقل تمہیں ایسے شخص کی نسبت بدگمانی کی راہ نہیں ہے، بدگمانی کی راہ تو اس وقت تھی جب کہ وہ تم سے یہ کہے کہ میری فیس ایک رات تقریر کرنے کی مثلاً پچاس روپے ہیں۔ افسوس کہ اس زمانے میں ایسے ہی لوگوں کو عوام اپنا مقتدا اور امام بھی بنائے ہوئے ہیں۔







اذا کان الغراب دلیل قوم سیہدیہم طریق الہالکین



جب کسی قوم کا راہبر کوا بن جائے گا تو عنقریب قوم کو ہلاک ہونے والوں کا راستہ دکھاوے گا۔



اللہ والا دین کو اس طرح بیچتا نہیں پھرتا ہے، ان کے اندر ایک خاص شان استغناءکی ہوتی ہے اور یہ استغناءتکبر کے سبب نہیں ہوتا ہے بلکہ غلبہ توحید کے سبب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شان استغناءکے باوجود وہ کسی کی دل آزاری نہیں کرتے ہیں ان کے اخلاق ایسے پاکیزہ ہوتے ہیں کہ کتنے بندے محض ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر ہدایت پاجاتے ہیں۔ حضرت مرشدی رحمة اللہ علیہ کی شان میں رمزی اٹاوی نے خوب لکھا ہے کہ



نہ لالچ دے سکیں ہرگز تجھے سکوں کی جھنکاریں



ترے دستِ توکل میں تھیں استغناءکی تلواریں



اللہ والا وعظ کہہ کر فیس نہیں لیتا ہے محض اللہ کے لیے دین کی طرف اللہ کے بندوں کو دعوت دیتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو ساڑھے نوسو برس تبلیغ کرتے رہے مگر ان کی فیس کیا تھی؟ صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنی قوم سے ہمیشہ فرماتے رہے کہ ویقوم لا اسئلکم علیہ مالا ان اجری الا علی اللہ (پ ۲۱ سورہ ھود) اور اے میری قوم میں تم سے اس دینی دعوت پر کچھ مال نہیں مانگتا میرا معاوضہ تو صرف اللہ کے ذمہ ہے۔



صراط مستقیم کو انعام یافتہ بندوں سے ڈھونڈنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں صراطِ مستقیم کے متعلق بتادیا ہے کہ صراط مستقیم دراصل صراط الذین انعمت علیہم ہے یعنی جن بندوں پر حق تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے انہیں سے سیدھا راستہ مل سکتا ہے اور انعام یافتہ بندوں کی تفسیر حق تعالیٰ نے پانچویں پارے میں فرمادی الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداءوالصالحین وہ بندے جن پر کہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ہے وہ نبیین ہیں صدیقین ہیں شہداءاور صالحین ہیں

حضرت شاہ عبدالقادر صاحب دہلویؒ نے اس مقام پر ہر ایک جماعت منعم علیہم کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ نبی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ کی طرف سے وحی آوے یعنی فرشتہ ظاہر میں پیغام کہہ جاوے
اور صدیق وہ ہے کہ جو وحی میں آئے ان کا جی آپ ہی اس پر گواہی دے
 اور شہید وہ ہے جن کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ایسا صدق آیا کہ اس پر جان دیتے ہیں اور نیک بخت وہ جن کی طبیعت نیکی ہی پر پیدا ہوئی ہے۔




ان انعام والے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا انعام دے دینا دنیا و مافیہا کی سلطنت سے مستغنی رکھتا ہے ان کی تبلیغ اور دعوتِ الی اللہ بدون معاوضہ ہوتی ہے۔






بدون اجرت ہر نبی کا اپنی قوم کو تمام عمر تبلیغ کرنا اور ان کا قوم کی طرف سے طرح طرح کی ایذا رسانیوں پر صبر جمیل کا پہاڑ ہونا یہ خود پتہ دیتا ہے کہ ان کے باطن میں کوئی نعمت عظیمہ ہوتی ہے جو ان کو اجرت سے مستغنی کردیتی ہے اور تکلیف پر صبر جمیل کا پہاڑ بنا ئے رکھتی ہے۔ اللہ والوں کی طرف سے دعوت الی اللہ اور اہل شر کی طرف سے مسلسل فتنہ پردازی کے متعلق مولانا رومیؒ عجیب عبرت ناک مضمون بیان فرماتے ہیں






زاغ در رز نعرہ زاغاں زند






بلبل از آواز او کے کم کند






کوا میدان میں اپنی آواز غالب کرنا چاہتا ہے لیکن بلبل اس کی آواز مکروہ سے اپنی خوش آوازی ترک نہیں کرتی ہے، اسی طرح دین کے مخالفین کی مکروہ شورشوں سے اہل حق نے اپنا تبلیغی کام بند نہیں کیا ہے۔






گر پلیدی پیش مارسوا بود






خوک و سگ را شکر و حلوا بود






اگرچہ ہمارے نزدیک یعنی اہل حق کے نزدیک پلیدی یعنی بددینی رسوا ہے یعنی بری ہے لیکن خنزیر طبع اور سگ خصلت اشخاص کے لیے بد دینی ہی حلوا ہے۔






نُقل خارستان غذائے آتش است






بوئے گل قوت دماغ سرخوش است






خارزار درخت آگ کی خوراک ہوتے ہیں اور پھول کی خوشبو پاکیزہ دماغ کی غذا ہوتی ہے یعنی اہل حق کے دینی کارناموں میں رخنہ اندازی اہل نارکا شیوہ ہوتا ہے اور اہل اللہ کے باطنی پھول یعنی نسبت مع اللہ کے فیوض و برکات کی خوشبو پاکیزہ طبائع کی غذا ہوتی ہے۔






صراط مستقیم یعنی دین کا راستہ اللہ والوں کی صحبت کے بدون ملنا محال ہے۔ اور یہ دعویٰ ہمارا نہیں ہے قرآن کا دعویٰ ہے سورہ فاتحہ میں صراط مستقیم کی حق تعالیٰ نے جو تفسیر فرمائی ہے اسی کے اندر یہ دعویٰ موجود ہے کیونکہ صراط الذین انعمت علیہم‘ صراط مستقیم کا بدل ہے اور بقاعدہ نحو مقصود بدل ہی ہوا کرتا ہے، درخواست ہی میں بتادیا کہ تم جو سیدھا راستہ مجھ سے طلب کرتے ہو تو وہ سیدھا راستہ ہمارے انعام یافتہ بندوں کا راستہ ہے صراط الذین انعمت علیہم۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے اور ایک جگہ حق تعالیٰ نے اسی مضمون کو اور موکد فرمایا ہے فرماتے ہیں واتبع سبیل من اناب الی جو بندے کہ میری طرف متوجہ ہیں ان کا راستہ اختیار کرو ظاہر ہے کہ اللہ کی طرف متوجہ رہنے والے اور رجوع کرنے والے اللہ والے ہی ہوتے ہیں۔ بندہ اللہ والوں ہی کے ذریعے اللہ کے دربار میں پہنچتا ہے۔ راستے کی سیدھائی راہبر کی سیدھائی پر موقوف ہے اور راستے کی کجی راہبر کی کجی سے ہوتی ہے۔ ایک ناواقف مسافر جب اسٹیشن پر اترتا ہے تو اپنا سامان ہر مدعی راہبر کے حوالے نہیں کرتا ہے وہ فوراً قلی کی تلاش میں لگ جاتا ہے قلی کی خاص وردی دیکھ لینے پر بھی مطمئن نہیں ہوتا جب تک قلی کے بازو پر سرکاری نمبر نہیں دیکھ لیتا اور جب اس نمبر کو محفوظ کرلیتا ہے تب اس کی اقتداءکرتا ہے ،سارا سامان اس کے حوالے کرکے اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہے منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ دنیا کے نمونے آخرت کے لیے نمونہ عبرت ہےں۔ جب دنیا کا سامان بدون قلی کا نمبر معلوم کئے ہوئے اس کے حوالہ نہیں کرتے ہیں تو دین ہی کیا ایک ایسا سستا سودا ہے جو ہرکس و ناکس کے سپرد کردیا جائے۔ مولانا فرماتے ہیں






اے بسا ابلیس آدم روئے ہست






پس بہر دستے نباید داد دست






مولانا فرماتے ہیں کہ اے لوگو بہت سے ابلیس آدمی کی صورت میں پھرتے ہیں، پس ان ابلیس خصلت انسانوں کے ہاتھ میں اپنا دین مت سونپ دینا۔ حق تعالیٰ شانہ نے صراط مستقیم فرمانے کے بعد ان افراد کی علامت بھی بیان فرمادی جن کے ذریعہ سے صراطِ مستقیم پر چلنا نصیب ہوتا ہے صراط الذین انعمت علیہم سے اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنے پر اس قدر قوی استدلال ہے جس کا انکارردالنصوص کے مترادف ہے۔ انعام پانے والے بندے سیدھے راستے پر چل کر دربار سے انعام حاصل کرچکے ہیں وہ دربار تک پہنچے ہیں تمہیں بھی دربار تک پہنچادیں گے۔ دربار تک پہنچا ہوا بندہ محقق ہوتا ہے اس کی بات میں یقین کا نور ہوتا ہے جو سامع کے دل کو متاثر کردیتا ہے۔ برعکس اناڑی جو خود راستہ طے نہیں کئے ہوئے ہے اس کی بات میں یقین کا اثر نہیں ہوتا ہے جو کچھ بزرگوں کی کتابوں سے علوم اور معارف چرا کر بیان بھی کرتا ہے تو وہ باتیں اس کی زبان سے بہکی بہکی سی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ وہ خود ان باتوں کی لذت سے نا آشنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے امرتی کبھی نہ کھائی ہو اور وہ کسی کتاب سے پڑھ کر یا کسی امرتی کھانے والے سے سن کر امرتی کی لذت کو بیان کرے تو اس کے چہرے اور لب و لہجہ سے امرتی کی لذت کا درجہ حال اور درجہ یقین ظاہر نہ ہوگا۔ ہمارے خواجہ صاحب فرماتے ہیں






یک نظر میں آشیاں گم گشتہ کو






بھانپ لیں ہم ہئیت پرواز سے






دوسری مثال غیر محقق کی یہ ہے کہ جیسے ایک شخص جغرافیہ کا نقشہ دیکھ کر امریکہ کا راستہ کسی کو سمجھا رہا ہو اور دوسرا شخص جو امریکہ کو خود آنکھوں سے دیکھ آیا ہو اور وہ کسی کو امریکہ کا راستہ سمجھا رہا ہو دونوں کی باتوں میں اور لب و لہجے میں اور طرز تقریر میں باعتبار کیفیت اور حالت اور یقین کے زمین اور آسمان کا فرق محسوس ہوگا۔ انہیں دونوں مثالوں سے محقق پیر اور اناڑی پیر کا فرق سمجھ لینا چاہیے






چراغ مردہ کجا شمع آفتاب کجا






حق تعالیٰ نے انعام یافتہ بندوں کی جو تفسیر پانچویں پارے میں ارشاد فرمائی ہے اس میں ان کی علامات بھی موجود ہیں یعنی نبوت صدیقیت شہادت اور صلاحیت کی جن بندوں پر سرکاری مہریں لگی ہوئی ہیں انہیں سے سیدھا راستہ حاصل ہوگا۔ نبی کی نبوت صدیق کی صدیقیت شہداءکی شہادت صالحین کی صلاحیت پتہ دیتی ہے کہ یہ حضرات انعامات سے نوازے گئے ہیں اور ان نعمتوں کو انعام فرماکر عجیب بات بتادی کہ دنیا کے تمام خزانے ایک طرف اور ہمارے یہ انعامات ایک طرف۔ دنیا اور دنیا کی تمام نعمتیں ان انعامات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں کیونکہ دنیا کی نعمتوں کو حق تعالیٰ نے متاع غرور فرمایا ہے ان کو انعام نہیں فرمایا ہے، دنیا کی دولت و سلطنت دھوکے کی پونجی ہے۔






انعام نبوت کے بعد انعام صدیقیت کا درجہ ہے۔ حضرت مولانا اسماعیل صاحب شہیدؒ نے فرمایا تھا کہ صدیق آئینہ نبوت ہوتا ہے نبیین‘ صدیقین‘ شہداءاور صالحین کے ساتھ رفاقت سے صراط مستقیم یعنی سیدھا راستہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کے متعلق و حسن اولئک رفیقا فرمایا ہے اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ ان انعام پانے والے بندوں کو حق تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں تو یہ محض خبر دینا نہیں ہے بلکہ اس خبر سے مقصود یہ ہے کہ ان کو اپنا رفیق بنالو، ہم فرما رہے ہیں کہ یہ بہت اچھے ساتھی ہیں تم اپنی سمجھ سے نہ جانے کس بدترین کو اپنا ہمقرین بنالو۔






اسی کو حضرت عارف فرماتے ہیں






مہر پاکاں درمیان جاں نشاں






دل مدہ الا بمہر دل خوشاں






پاک بندوں کی محبت کو اپنی جان میں پیوست کرلو خبردار دل کسی کو مت دینا مگر ان کو جن کے دل اللہ کی محبت سے اچھے ہوگئے ہیں الاّمن اتی اللہ بقلب سلیم قلب سلیم کا ترجمہ حضرت مرشدیؒ نے پاک دل فرمایا ہے۔ پاک بندوں کے سینوں میں پاک دل ہوتا ہے۔ حضرت فرید الدین عطارؒ فرماتے ہیں






بے رفیقے ہر کہ شد در راہِ عشق






عمر بگذشت و نشد آگاہ عشق






بے رفیق یعنی رہبر کے بغیر جس نے عشق کے راستے میں قدم رکھا اس کی عمر گزر گئی اور عشق سے آگاہ نہ ہوا۔






رفیق کا لفظ قرآن میں موجود ہے بزرگان دین بڑے پتے کی بات کہتے ہیں ان کی سب باتیں قرآن و حدیث ہی سے ماخوذ ہوتی ہے مگر علماءظاہر کی نگاہ وہاں تک رسا نہیں ہوتی ہے۔ مفسرین نے و حسن اولٰئک رفیقا میں رفاقت سے رفاقت فی الآخرة مراد لیا ہے۔ لیکن وہ رفاقت فی الآخرہ دنیا ہی کی رفاقت کا ثمرہ ہوگی جس نے دنیا میں ان پاک بندوں کو اپنا رفیق نہ بنایا ہوگا اس کو وہاں بھی ان حضرات کا ساتھ نصیب نہ ہوگا۔


Updated on 28april2010
متقی عالم سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان سے کبھی کوئی معصیت ہی صادر نہیں ہوتی بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ معصیت پر اصرار نہیں کرتا ہے۔ اگر احیاناً کوئی خطا ہوگئی تو فوراً سجدہ میں گریہ و زاری اور استغفار میں لگ جاتا ہے۔ جس گناہ پر سچے دل سے بندہ توبہ کرلے اور آئندہ کے لیے حق تعالیٰ سے پختہ عہد کرلے کہ اب پھر یہ گناہ نہ کروں گا لیکن اس کے بعد اگر نفس کے غلبے سے گناہ پھر صادر ہوگیا تو پہلی توبہ بیکار نہیں ہوتی ہے اور نہ یہ اصرار کرنے والوں میں سے ہے البتہ اس دوسری بار کے گناہ کا وبال اس کی گردن پر رہے گا مگر یہ کہ وہ پختہ ارادے کے ساتھ پھر توبہ کرلے کہ اے اللہ نفس اور شیطان نے مجھے پہلی توبہ سے پھسلادیا آپ اپنی رحمت سے معاف فرمادیجئے اور خوب گریہ و زاری اور ندامت سے استغفار کرکے پھر کام میں لگ جاوے۔ اسی طرح اگر سوبار بھی توبہ ٹوٹتی رہے تو ہمت نہ ہارے۔ ہمارے خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎








نہ چت کرسکے نفس کے پہلواںکو






تو یوں ہاتھ پائوں بھی ڈھیلے نہ ڈالے






ارے اس سے کشتی تو ہے عمر بھر کی






کبھی وہ دبالے کبھی تو دبالے






اس طرح ہمت سے کام میں لگے رہنے سے ایک دن ایسا بھی آوے گا کہ حق تعالیٰ کو رحم آوے گا کہ یہ بندہ اپنی طرف سے گرتا پڑتا راستہ قطع کررہا ہے، یہ ضعیف اور عاجز ہے میں قوی اور غالب القدرۃ ہوں۔ پس حق تعالیٰ اس بندے کا ہاتھ پکڑ کر اس کو کھینچ لیتے ہیں یعنی اپنی مدد خاص سے اس کو اپنا بنالیتے ہیں اور جب ان کی مدد شامل حال ہوجاتی ہے تو نفس اور شیطان کے تمام دائوں پیچ بے اثر ہوجائے ہیں۔ چھوٹے بچے کو پہلے خود چلا کر دیکھتے ہیں کیونکہ بچوں کا لڑکھڑاتے ہوئے چلنا ماں باپ کو بھلا معلوم ہوتا ہے لیکن جب بچہ تھک جاتا ہے تو ماں باپ دوڑ کر گود میں لے لیتے ہیں۔ والدین کی محبت اور شفقت جو حق تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے جب اس میں یہ اثر ہے تو ؎






جرعہ خاک آمیز چوں مجنوں کند






صاف گر باشد ندانم چوں کند






حق تعالیٰ کی رحمت کا کیا حال ہوگا۔ مولانا رومیؒ حق تعالیٰ کی طرف سے حکایۃً فرماتے ہیں ؎






مادراں را مہر من آموختم






چوں بود شمعے کہ من افروختم






مائوں کو اولاد سے محبت کرنا میں نے ہی سکھایا ہے اور وہ شمع کیسی ہوگی جسے میں نے روشن کیا ہوگا۔ حق تعالیٰ ہماری طرف سے چند دن مجاہدہ اور کوشش دیکھنا چاہتے ہیں پھر اس کے بعد تو وہ خود ہی اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ اپنی عنایت و کرم کے لیے بندوں کی طرف سے کوشش کو شرط ٹھہرا دیا ہے والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو بندے ہماری راہ میں کوششیں کرتے ہیں ہم ان کے لیے اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔






مگر یہ کوشش اپنی رائے سے نہ ہو کسی کامل کی اتباع کے ساتھ ہو صراط الذین انعمت علیہم راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے۔ دین کا راستہ کسی صاحب انعام سے ملے گا اور صاحب انعام سے مراد کی تفصیل کرچکا ہوں۔






منعم علیہم بندوں کو حق تعالیٰ نے ایسے خطابات عطا فرمائے ہیں جن کے اندر ان کے انعامات کی تصریح بھی مندرج ہے، نبیین کا خطاب انعام نبوت کو صدیقین کا خطاب انعام صدیقیت کو شہداء کا خطاب انعام شہادت کو صالحین کا خطاب انعام صلاحیت کو ،ہر خطاب اپنے اندر اپنے انعام کو بھی لیے ہوئے ہے۔ انہیں بندوں کے تعلق سے سیدھا راستہ ملے گا۔ جج اکبر الہ آبادی مرحوم نے خوب کہا ہے ؎






نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا






دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا






اللہ والوں کی پہچان کا سہل طریقہ ہمارے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ فرمایا تھا کہ جس بندے کی طرف تم دیکھو کہ خواص امت متوجہ ہیں اس کو تم بھی اپنا مقتدا بنالو۔ عوام کی بھیڑ کو معیار نہ بنانا چاہیے، سو اندھے اگر کسی کے پاس معتقدا نہ بیٹھے ہیں تو یہ بھیڑ اس کی مقبولیت اور ولایت کی علامت نہ ہوگی لیکن اگر امت کے چند خواص یعنی علماء متقین صالحین اس کو اپنا بڑا سمجھتے ہیں تو یہ معیار اپنی جگہ پر بے شک معیار ہے۔






صراط الذین انعمت علیہم کے بعد حق تعالیٰ شانہ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فرمایا ہے یعنی جس طرح صراط مستقیم حاصل کرنے کے لیے انعام یافتہ بندوں کی اتباع ضروری ہے اسی طرح مغضوبین اور ضالین بندوں کی اتباع سے پرہیز بھی ضروری ہے۔ صراط الذین انعمت علیہم میں جلب منفعت یعنی حصول نفع دین کا طریقہ ارشاد فرمایا گیا ہے اور غیر المغضوب علیہم ولاالضالین میں دفع مضرت کا یعنی دین کو نقصان پہنچانے والے اسباب کے دفاع کا طریقہ ارشاد فرمایا گیا ہے۔ حق تعالیٰ شانہ نے صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولاالضالین کے اندر اجمالی طور پر پورا دین رکھ دیا ہے۔ سورۂ فاتحہ کو اسی لیے ام القرآن بھی کہتے ہیں یعنی قرآن کی ماں جس طرح ماں اپنے بچے کو پیٹ میں لئے رہتی ہے اسی طرح سورۂ فاتحہ سارا قرآن اپنے اندر لیے ہوئے ہے کیونکہ سارے قرآن میں یا تو منعم علیہم کا تذکرہ ہے یا مغضوبین اور ضالین کا تذکرہ ہے۔ سورۂ فاتحہ اجمال ہے اور قرآن اسی اجمال کی تفصیل ہے۔






غیر المغضوب علیہم ولاالضالین میں لفظ غیر فرماکر بتادیا کہ ان کا راستہ غیر صراط مستقیم ہے، نہ یہ میرے ہیں نہ ان کا راستہ میرا ہے، یہ غیر ہیں ان کا راستہ بھی غیر ہے۔ ان کے غیر ہونے کی علامت یہ ہے کہ ان پر میرے غضب کے آثار ہیں اور ان کا چال چلن ان کی گمراہی کا پتہ دیتا ہے۔ قرآن کا عجیب اعجاز ہے، جس طرح انعام والے بندوں کے خطابات اپنے اندر انعامات لیے ہوئے ہیں اسی طرح مغضوبین اور ضالین کے عنوانات عتاب اپنے اندر سزا اور عتاب بھی لیے ہوئے ہیں۔






نبوت اور رسالت کا انعام تو ختم ہوچکا ہے مگر اتباع سنت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے صدیقیت اور شہادت اور صلاحیت کے انعام کا دروازہ قیامت تک کے لیے کھلا ہوا ہے۔






ہنوز آں ابر رحمت درفشان است






خم و خمخانہ بامہر و نشان است






ایک سوال اس مقام پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورۂ فاتحہ میں حق تعالیٰ نے منعم علیہم کا ذکر مغضوبین اور ضالین سے پہلے فرمایا ہے حالانکہ دفع مضرت کو جلب منفعت پر مقدم رکھا جاتاہے۔ اس اشکال کاجواب یہ ہے کہ مغضوبین اور ضالین کے اوپر جو غضب اور ضلالت کے آثار ہیں ان کی شناخت اور ان کی مضرت کا احساس موقوف ہے کسی منعم علیہم کی صحبت اٹھانے پر۔ کفر اور شرک اور فسق کا قبیح ہونا نیک بندوں کی صحبت کے فیض ہی سے معلوم ہوتا ہے۔ جو کیڑا ہمیشہ نابدان میں پلا ہو اسے کیا خبر کہ باہر کیا ہے، اس کو نابدان کا گندا پانی ہی آب خوشتر اور آب حیات معلوم ہوتا ہے۔ پس کفر و شرک اور فسق کے ماحول میں پرورش پایا ہوا انسان جب تک کسی مقبول بندے کی صحبت میں نہ بیٹھے گا اسے کیسے معلوم ہوگا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اسی کو حضرت عارف فرماتے ہیں ؎






کے دہد زندانی در اقتناص






مرد زندانی دیگر راخلاص






جو خود علایق دنیویہ میں مبتلا ہو تو وہ دنیا کا شکار کردہ شخص دوسرے قیدی کو کب خلاصی دلا سکتا ہے۔






جز مگر نادر یکے فردانئے






تن بزنداں روح او کیوانئے






مگر وہ نادر مقدس ذات جس کی روح میں حق تعالیٰ کے ساتھ ایک قوی رابطہ خاص قائم ہو اس کا جسم تو دنیا میں چلتا پھرتا ہو لیکن اس کی روح عالم قدس سے رابطہ رکھتی ہو ایسا شخص جب اللہ کی طرف پکارتا ہے تو اس کے کلام میں استحضار عظمتِ حق اور استحضار معیتِ حق کے انوار ہوتے ہیں جو دوسروں پر بدون اثر کئے نہیں رہتے ؎






شیخ نورانی زرہ آگہہ کند






نور را بالفظہا ہمرہ کند






مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ وہ نورانی مقبول بندہ جس کی صحبت میں تم بیٹھو گے وہ تمہیں حق تعالیٰ کے راستے سے آگاہ کرے گا اور اپنے قلب کے انوار کو اپنے الفاظ کے ہمراہ کرکے تمہارے دلوں میں پہنچا دے گا۔






اسی لئے حق تعالیٰ نے منعم علیہم بندوں کو مغضوبین اور ضالین سے پہلے ذکر فرمادیا تاکہ ان مقبول بندوں کے انوار میں مغضوبین اور ضالین کی ظلمتوں کا ادراک اور شعور ہوجاوے۔ ظلمت کی معرفت موقوف ہے روشنی پر تعرف الاشیاء باضدادہا ہر شے اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اس وجہ سے موقوف علیہ کو مقدم فرمادیا گیا۔ نیز مقصود اصل میں نفع ہوتا ہے دفع مضرت اس مقصود کے بقا کا ذریعہ ہوتا ہے۔ نسخے میں پہلے پرہیز نہیں لکھتے ہیں۔ اوَّلاً مفید دوائوں کو لکھتے ہیں پھر مضر غذائوں سے پرہیز لکھ دیتے ہیں۔
Updated on 8.june 2010
اب ایک سوال اس مقام پر اور ہوتا ہے وہ یہ کہ مغضوبین اور ضالین میں یہود و نصاریٰ کو متعین کیوں فرمادیا، مشرکین عرب کا ذکر بھی ہونا چاہیے۔ مشرکین کا راستہ بھی صراط مستقیم سے دور کرنے والا ہے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہود و نصاری میں علماء بہت بڑے بڑے تھے جن کی اتباع سے گمراہی کا قوی اندیشہ تھا۔ حدیث شریف میں ہے زلۃ العالم زلۃ العالم عالم کی گمراہی عالم کی گمراہی کا سبب ہوتی ہے، یہود اور نصاریٰ کی طرف ان کا علم داعی اور جاذب تھا نیز ان کے اندر کفر اور شرک بھی تھا اس لیے ضمناً سب اہل کفر اور شرک بھی مغضوبین اور ضالین میں داخل ہیں۔







انعام یافتہ بندوں کے راستے کو حق تعالیٰ نے صراط مستقیم فرمایا ہے اور انہیں کے راستے کو ایک جگہ اپنا راستہ بھی فرمایا ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں ؎






ہذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل






فتفرق بکم عن سبیلہ ذالکم و صاکم بہ لعلکم تتقون۔






حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میرا رسول جس راستے کی طرف تمہیں پکارتا ہے یہ میرا ہی راستہ ہے اور بالکل سیدھا راستہ ہے پس تم لوگ اسی راستے کی اتباع کرو۔ اس سیدھے راستے کے علاوہ اور بہت سے ٹیڑھے راستے بھی ہیں جن پر مغضوبین اور ضالین چلتے ہیں ان راستوں کی اتباع مت کرنا ورنہ یہ راستے تمہیں میرے راستے سے دور کردیں گے۔ یہ ہمارا تاکیدی حکم ہے تاکہ تم احتیاط رکھو۔






اور ایک جگہ اسی سیدھے راستے کو رسول کی طرف نسبت فرما رہے ہیں:






قل ہذہ سبیلی ادعو االی اللہ علی بصیرۃ انا و من اتبعنی






اے ہمارے رسول آپ فرمادیجئے کہ یہ راستہ میرا ہے مگر یہ میرا راستہ ایسا راستہ ہے کہ میں اپنے راستے پر لاکر اللہ تک پہنچادیتا ہوں اور میں دیکھ بھال کر راستہ چلتا ہوں اور دوسروں کو بھی اسی طرح یعنی علی وجہ البصیرۃ چلاتا ہوں، میں اپنے راستے کا صدق اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں، یہ راستہ میرے لیے نظری نہیں ہے حق تعالیٰ نے مجھ پر اس راستے کو اس قدر بدیہی اور واضح فرمادیا ہے کہ میں اپنے راستے کو اسم اشارۃ کے قریب یعنی ہذہ سے تعبیر کررہا ہوں یعنی جو تمہارے لیے نظری ہے وہ ہمارے لیے مثل محسوس خارجی کے ہے اور میری ذات ایسی بافیض ہے کہ میرے متبعین کے اندر بھی یہی بینائی میری اتباع کے فیض سے پیدا ہوگئی ہے۔






میں نے تلاوت اور تزکیۂ نفس اور تعلیم کتاب و حکمت کے انوار سے اپنے اصحاب کو بھی بیناکردیا ہے انا ومن اتبعنی اس بصیرت سے میرے متبعین بھی مشرف ہوگئے۔ اس منعم علیہ بندے کا یہ اعجاز ہے کہ اس کی صحبت پاک سے ایسے افراد جو کفر اور شرک کی گندگی میں ملوث تھے وہ صراط مستقیم پر دوسروں کو چلانے والے بن گئے۔ ہر صحابی ہدایت کا چراغ بن گیا۔






جہاں صراط مستقیم کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف ہے تو وہ باعتبار اصل موضوع لہ کے ہے یعنی بالمعنی الحقیقی اور منعم علیہم کی طرف اس معنی کرکے نسبت ہے کہ وہ اس راستے پر چلاتے ہیں۔






کتاب کے اندر صراط مستقیم کا عنوان بتایا گیا ہے، صراط مستقیم کا معنون انعام یافتہ بندوں کے ساتھ چلنے سے حاصل ہوگا۔ صراط مستقیم کو پہلے بیان فرمایا ہے صراط مستقیم کو بتانے والے بعد میں بیان فرمائے گئے۔ نعمت کو مقدم بیان فرماتے ہیں تاکہ طبیعت میں انشراح اور خوشی پیدا ہوجاوے اور نعمت جن کے ذریعے سے ملے گی ان کو بعد میں بیان فرمایا تاکہ اس مسرت اور انتظار شوق کے سبب منعم علیہم کی اتباع آسان ہوجائے۔ قرآن کے لطائف کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا ہے ؎






بمیرد تشنہ مستسقی ودریا ہمچناں باقی






پیاسا دریا کے کنارے پانی پیتا پیتا مرجائے گا لیکن دریا کا پانی اسی طرح جوش مارتا رہے گا۔






امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ عالم آخرت کا پل صراط اسی صراط مستقیم کی صورت مثالی ہے۔






پس جو لوگ دنیا میں صراط مستقیم پر چل رہے ہیں کل قیامت کے دن وہ لوگ بآسانی پل صراط کو عبور کرجائیں گے۔






اب حق تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہم سب لوگوں کواللہ تعالیٰ صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں اور صراط مستقیم پر چلنے کے لیے منعم علیہم بندوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور صراط مستقیم ہی پر خاتمہ فرمائیں۔






واخردعوانا ان الحمداللہ رب العالمین






وما توفیقی الا بااللہ العلی العظیمo