دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

15 June 2010

حدیث میں ذکر پر خشیّت کی تقدیم کا راز،وسوسوں کا علاج

P,عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم



اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَ ذِکْرَکَ میں خشیت کو پہلے کیوں بیان فرمایا؟ تاکہ خشیت غالب رہے کیونکہ محبت جب خوف پر غالب ہوجاتی ہے تو بدعت ہو جاتی ہے۔ خشیت محبت کو حدودِ شریعت کا پابند رکھتی ہے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ وَ اَمَّا مَنْ جَاءَ کَ یَسْعٰی میں صحابی کا دوڑ کر آنا بوجہ محبت کے تھا وَھُوَ یَخْشٰی اور وہ ڈر بھی رہے تھے، یہ حال ہے اور حال ذوالحال کے لیے قید ہوتا ہے یعنی ان کی محبت خشیت کی پابند تھی۔ معلوم ہوا کہ جب محبت خشیت کی حدود کو توڑتی ہے تو بدعت ہو جاتی ہے۔






اور خشیت کا تضاد تو محبت تھی لیکن حدیثِ پاک میں محبت کے بجائے ذکر کیوں فرمایا؟ اس لیے کہ ذکر سببِ محبت اور حاصلِ محبت ہے۔ جو ذکر کرے گا اس سے معلوم ہو گا کہ اس کو محبت حاصل ہے ورنہ جو محبت، محبت تو کر رہا ہے لیکن اللہ کا ذکر نہیں کرتا وہ محبت میں صادق نہیں۔ لہٰذا یہاں ذکر کی قید سے منافقین نکل گئے۔ جو صادق فی المحبت نہیں وہ ذاکر نہیں ہو سکتا۔ (فیوضِ ربانی ، صفحہ:۱)






حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وسوسوں اور خیالات کا ہجوم ہو تو کہو واہ کیا شان ہے اے اللہ آپ کی کہ ڈیڑھ چھٹانک کے دل میں آپ نے خیالات کا سمندر بھر دیا کیماڑی کا سمندر بھی بھرا ہوا ہے کلفٹن بھی ہے اور کشمیر کی پہاڑیاں بھی گھُسی ہوئی ہیں سارا عالم ایک ذرا سے دل میں سمایا ہوا ہے ایک چھوٹی سی چیز میں خیالات کا سمندر چلا آ رہا ہے تو فرمایا کہ یہ خیالات کا ہجوم جو شیطان نے ڈالا تھا اللہ سے دور کرنے کو اس شخص نے بزرگوں کی تعلیما ت کی برکت سے اس کو ذریعۂ معرفت اور ذریعۂ قرب بنا لیا تو پھر شیطان ہاتھ ملتا ہے اور افسوس کرتا ہوا بھاگتا ہے کہ اس نے تو میرے وساوس کو بھی معرفت بنا لیا۔ اس طرح وسوسوں کو ذریعہ معرفت بنا لیجئے اور یہ بات حدیث سے ثابت ہے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَذِکْرَکَ






اے اللہ! میرے دل کے خیالات کو اپنا خوف اور اپنی یاد بنا دے۔ اور دوسری ایک حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، مشکوٰۃ کی روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَلْحَمْدُ لِلٌّٰہِ الَّذِیْ رَدَّ اَمْرَہُ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ (مشکٰوۃ المصابیح، باب فی الوسوسۃ، ص:۱۹)






شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے معاملہ کو اس کے مکر و کید کو صرف وسوسہ تک محدود کر دیا اس سے زیادہ اس کو طاقت نہیں دی ورنہ مان لیجئے یہاں جو لوگ بیٹھے ہوئے دین کی بات سن رہے ہیں اگر شیطان آتا اور سب کو اُٹھا اُٹھا کر سینما ہائوس میں لے جا کر بیٹھا دیتا تو بڑی مشکل میں جان پھنس جاتی، لوگ کہتے کہ بھائی ہم تو گئے تھے خانقا ہ میں اللہ کی بات سننے مگر وہاں شیاطین کا ایک لشکر آیا اور سب کو اُٹھا اُٹھا کر وی سی آر اور سینما ہائوس میں بیٹھا دیا۔ شیطان کو اگر یہ طاقت ہوتی تو بتائیے ہم کتنی مشکل میں پھنس جاتے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکر ادا کرو کہو اَلْحَمْدُ لِلٌّٰہِ الَّذِیْ رَدَّ اَمْرَہُ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارک ہیں۔ عربی میں یاد رہے تو سبحان اللہ ورنہ اردو ہی میں کہہ لیجئے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے کید کو، اس کی طاقت کو صرف خیالات اور سوسہ ڈالنے تک محدود کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر سکھایا اور شکر سے اللہ کا قرب ملتا ہے پس وسوسہ کو ذریعہ قرب و معرفت بنا دیا کہ شکر ہے کہ شیطان صرف خیالات اور وسوسہ ڈال سکتا ہے تم کو عمل پر مجبور نہیں کر سکتا۔ گندا تقاضا دل میں پیدا ہوا آپ اس پر عمل نہ کیجئے بالکل آپ کا تقویٰ قائم ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی کا روزہ ہے، جون کا مہینہ ہے، شدید پیاس لگ رہی ہے بار بار دل چاہتا ہے کہ پانی پی لوں مگر پیتا نہیں بتائیے روزہ اس کا ہے یا نہیں۔ کیا پانی پینے کے وسوسوں سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا؟ پانی پینے کے لاکھ تقاضے ہوتے رہیں جب تک پئے گا نہیں روزہ اس کا قائم ہے۔ بلکہ اس کو ڈبل اجر مل رہا ہے تقاضہ کی وجہ سے، پیاس کی وجہ سے اسی طرح گناہ کے لاکھ وسوسے آئیں جب تک گناہ نہیں کرے گا یہ شخص بالکل متقی ہے وسوسہ سے تقویٰ میں ہر گز کوئی نقصان نہیںآئے گا سبحان اللہ ! یہ ہمارے باپ دادائوں کے علوم ہیں اُولٰئِکَ اٰبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِھِمْ لہٰذا گناہوں کے تقاضوں پر آپ بس عمل نہ کریں لاکھ تقاضے ہوں تو آپ کا تقویٰ بالکل ٹھیک ہے دیکھئے اس وقت بھی سب کے پیٹ میں کچھ نہ کچھ پاخانہ ہوگا۔ ابھی ایکسرے کرا لیجئے تو نظر بھی آ جائے گا لیکن جب تک گندگی باہر نہ نکلے آپ کا وضو ہے اس طرح دل میں گندے خیالات آئیں اس میں مشغولی نہ ہو اس پر عمل نہ ہو بس آپ کا تقویٰ قائم ہے ۔ دین کتنا آسان ہے ؎






جو آسان کر لو تو ہے عشق آساں






جو دشوار کر لو تو دشواریاں ہیں






دین تو بہت آسان ہے ہم خود اس کو دشوار کرتے ہیں، میں عرض کرتا ہوں کہ جس شخص نے بھی شیطان کے وسوسوں کا جواب دیا پاگل ہو گیا ایک وسوسہ کا جواب دیا اس نے دوسرا پیش کر دیا اب رات بھر بیٹھے ہوئے وسوسوں کا جواب دے رہے ہیں۔ بتائیے کیا ہو گا دماغ خراب ہو گا یا نہیں، آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کو جواب ہی مت دیجئے بس یہی کہیے کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے اس کا اختیار وسوسہ ڈالنے تک ہی رکھا اور بزرگوں کے پاس آئیے جائیے ان کی صحبتوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ ابلیس کے تمام مکر و کید کو ختم کر دیتا ہے کیونکہ اہل اللہ اسمِ ہادی کے مظہر ہیں، اسمِ ہادی کی تجلی ان پر ہوتی ہے ان کے پاس بیٹھنے والوں پر بھی وہ تجلی پڑ جاتی ہے جس سے ان کو ہدایت ہو جاتی ہے اور ابلیس اللہ تعالیٰ کے اسم مضل کا مظہر ہے گمراہ کرنے کی طاقت کا ظہور اس پر ہوتا ہے لہٰذا گمراہ لوگوں سے بھاگئے اور اللہ کے خاس بندوں کی صحبت میں رہیے جو بزرگانِ دین کے صحبت یافتہ ہیں، اسم مضل کے مقابلہ میں اسم ہادی کے سائے میں آ جائیے جس شخص کو دیکھو کہ اس نے بزرگوں کی صحبت نہیں اٹھائی چاہے مطالعہ اس کا بہت وسیع ہو ہر گز اس کی صحبت میں نہ بیٹھئے۔ یہ بات میں نہایت اخلاص کے ساتھ کہتا ہوں کسی تعصب سے نہیں۔






مثال کے طور پر جیسے مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر لکھی ہے معارف القرآن ۔ ایسے صحبت یافتہ بزرگوں کی تفسیر اور کتابیں دیکھئے ورنہ اگر کسی غیر تربیت یافتہ خود ساختہ مفسر کی تفسیر یا تصنیف دیکھی تو بس پھر سمجھ لو کہ خطرہ میں پڑ جائو گے ایمان ہی کے لالے پڑ جائیں گے کبھی انبیاء علیہم السلام پر اس کا گستاخ قلم اُٹھ جائے گا کبھی صحابہ پر۔ ایسی نئی چیزیں نکال دے گا کہ قرآن کو، دین کو، جو میں نے سمجھا ہے کسی نے سمجھا ہی نہیں، بیک قلم سب کی تنقیص کر دے گا ایسے صاحب قلم قابل سر قلم ہیں اس لیے ہمارے بزرگوں نے یہ خاص نصیحت کی ہے کہ جب تک یہ معلوم نہ کر لو کہ یہ شخص کس شخص کا صحبت یافتہ ہے ہر گز اس کی صحبت میں مت بیٹھو، نہ اس کی تصانیف پڑھو چاہے وہ بظاہر بیعت بھی کرتا ہو اس سے پوچھو کہ اس نے بھی کسی سے بیعت کی ہے یا نہیں۔مسلم شریف میں حضرت ابن سیرین رحمۃاللہ علیہ کا قول منقول ہے فرماتے ہیں: اِنَّ ھٰذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ فَانْظُرُوْا عَمَّنْ تَأْخُذُوْنَ دِیْنَکُمْ (صحیح مسلم، ج:۱، ص:۱۱)






یہ علم دین ہے پس خوب دیکھ لو تحقیق کر لو کہ تم کس شخص سے دین حاصل کر رہے ہو۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ جس سے دین سیکھ رہے ہیں اس نے کس سے سیکھا ہے حضرت عبد اللہ  ابن مبارک رحمۃ اللہ  علیہ کا قول ہے اَ لْاِسْنَادُ مِنَ الدِّیْنِ اسناد کی دین میں خاص اہمیت ہے میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ  علیہ فرماتے تھے کہ میں نے مثنوی حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ  علیہ سے پڑھی اور انہوں نے حضرت حاجی صاحب سے پڑھی اور الحمد للہ میں نے شاہ عبدالغنی صاحب سے پڑھی۔ دیکھئے سند دیکھنی پڑتی ہے یا نہیں اس سے اعتما د پیدا ہوتا ہے کہ ان کے استاد فلاں اُن کے استاد فلاں اور اگر کسی سے نہیں سیکھا محض ذاتی مطالعہ سے حاصل کیا ہے تو پھر وہ ایسے ہی ترجمہ کرے گا جیسے کسی نے کتاب میں دیکھا کہ نماز ہلکے پڑھو لہٰذا وہ پوری نماز میں ہل رہا تھا حالانکہ لکھا تھا کہ نماز ہلکی پڑھو پہلے زمانہ میں ی کو لمبا کھینچ کر “ے” لکھ دیتے تھے تو اس نے ہلکی کو پڑھا ہلکے اب جناب نماز میں ہل رہے ہیں کسی کو استاد بنایا نہیں تھا کہ پوچھ لیتا ۔ کتاب دیکھ کر دین سیکھنے والوں اور دین سکھانے والوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ خود بھی ہلیں گے آپ کو بھی ہلا دیں گے۔
(بدگمانی اور اس کا علاج)

08 June 2010

شراب کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے


شراب کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے



عرض جامع



نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد احقر جامع عرض کرتا ہے کہ عرصہ دو سال پہلے حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری کی خدمت میں ایک افسر صاحب حاضر ہوئے تھے اور انہوں نے حضرت والا سے سوال کیا تھا کہ بعض افسران مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ شراب کے متعلق جب قرآن کریم میں لفظ حرام نہیں آیا ہے تو پھر علماء اس کو کیوں حرام قرار دیتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں حضرت والا نے ایک مبسوط تقریر فرمائی اور قرآن کریم سے شراب کی حرمت کا بیّن ثبوت پیش فرمایا اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ یہ تقریر حق تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ہے اس کو ضبط کرکے شائع کردینی چاہیے تاکہ ہمارے تمام وہ نادان مسلمان بھائی بھی آگاہ ہوجائیں جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ بحکم حضرت والا دامت برکاتہم یہ مسودہ تیار کیا گیا اور تیاری کے بعد افسر موصوف نے اس کی طباعت و اشاعت کا وعدہ کرکے اس مسودہ کو تقریباً دو سال تک اپنے پاس رکھا۔ لیکن موصوف اپنی کسی مجبوری کے سبب اس مضمون کو طبع نہیں کراسکے۔ ہر چند کہ بعض احباب مخلصین ،اس مضمون کی طباعت کے لیے مجھے بار بار اسی اثناء میں متوجہ کرتے رہے۔ لیکن ان دنوں کچھ ذہنی انتشار کے سبب اس امر کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ مگر جب حق تعالیٰ کی طرف سے کسی کام کا وقت آجاتا ہے تو غیب سے اس کے اسباب اور دواعی بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ کل ۲۶؍ رمضان المبارک ۱۳۸۲؁ھ کو برنس روڈ کراچی سے میں اپنے ایک کرم فرما دوست کے ہمراہ گذر رہا تھا کہ ان کے جاننے والے دو حضرات آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ قرآن کریم میں شراب کو کہیں حرام نہیں فرمایا گیا ہے۔ اس گفتگو سے قلب پر ایک چوٹ سی لگ گئی اور اپنی سستی پر سخت ندامت ہوئی۔ قلب میں اس شدید داعیہ اور اس چوٹ کو لیے ہوئے احقر نے حضرت والا پھولپوری سے عرض کیا کہ حضرت آج اس قسم کا واقعہ پیش آیا ہے جس سے میرے قلب پر شدید اثر ہے اور سخت بے چینی کے ساتھ یہ داعیہ پیدا ہورہا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو شراب کے متعلق آپ کا مسودہ طبع کراکے سارے ملک میں پھیلادیا جائے۔ امید ہے کہ ان نادان مسلمانوں کو اس غلط فہمی سے متنبہ ہوکر شراب نوشی سے توبہ نصیب ہوجاوے یا کم از کم علم صحیح حاصل ہوجانے سے شراب حرام سمجھ کراس کا ارتکاب کریں گے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ عقیدہ تو درست رہے گا اور عقیدہ کی درستی سے بالآخر عذاب میں کچھ دن مبتلا ہونے کے بعد مغفرت کی امید ہے اور اس تقریر کا منشاء شراب نوشی پر جری کرنا نہیں ہے بلکہ ہمیں ان نادان مسلمانوں کو کفر سے بچانا مقصود ہے جو حرام کو حلال سمجھے ہوئے ہیں۔ عقائد کا متفقہ مسئلہ ہے کہ حرام جانتے ہوئے فعل حرام کا ارتکاب تو گناہ کبیرہ اور حرام ہے لیکن فعل حرام کو حلال سمجھ کر ارتکاب کرنا کفر ہے کیونکہ یہ شخص قانون شاہی کا تحریف کرنے والا ہے۔ حضرت والا پھولپوری دامت برکاتہم نے ارشاد فرمایا کہ رسالہ ہذا کی طباعت کا اب وقت معلوم ہوتا ہے۔ میاں جب چاہتے ہیں تو اسی طرح غیبی سامان پیدا فرمادیتے ہیں اور حضرت والا نے یہ بھی حکم فرمایا کہ اس واقعہ کو بھی جو رسالہ ہذا کی طباعت کا داعی اور سبب قریب ہوا ہے تحریر کردیا جاوے حق تعالیٰ شانہ اس رسالہ کے نفع کو عام اور تام فرماویں، آمین۔



احقر جامع……محمد اختر عفا اللہ عنہ



(مورخہ ۲۷؍رمضان المبارک ۱۳۸۲؁ھ، بروز جمعہ۔)



شراب کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے



فاعوذبااللہ من الشیطان الرجیم



بسم اللہ الرحمن الرحیم



یسئلونک عن الخمر والمیسر



قل فیہما اثم کبیروا منافع للناس واثمہما اکبر من نفعہما



(سورہ البقرۃ: پارہ:۲)



ترجمہ: لوگ آپ سے (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے) شراب اور قمار کی نسبت دریافت کرتے ہیں آپ فرمادیجئے کہ ان دونوں میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی ہیں اور لوگوں کو فائدے بھی ہیں اور گناہ کی باتیں ان فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔



ان آیتوں سے حق تعالیٰ شانہ نے بندوں کو مطلع فرمایا کہ شراب سے جتنا نقصان ہوجاتا ہے اتنا نفع نہیں ہوتا کیونکہ نفع تو عارضی ہے اور نقصان کی حد نہیں جب عقل زائل ہوگئی تو انسانیت کا شرف ہاتھ سے جاتا رہا۔ عقل ہی کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کہلاتا ہے پس شراب پینا گویا اپنی اس عزت اور شرافت کو اپنے ہاتھوں کھوبیٹھنا ہے۔ سب سے پہلے شراب کے متعلق یہی آیتیں نازل فرمائی گئیں۔ اب اگر کوئی سائنس دان یہ دعویٰ کرے کہ شراب میں نقصان سے زیادہ نفع ہے تو ہم اسے جاہل اور حقیقت سے بے خبر کہیں گے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ مخلوق کا علم خالق حقیقی کے علم کا مدمقابل نہیں بن سکتا۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں وما اوتیتم من العلم الا قلیلا۔ اے لوگو! تمہیں علم قلیل عطا کیا گیا ہے۔ اور اپنے علم کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں الا یعلم من خلق بھلا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے۔ دن رات کے مشاہدات شاہد ہیں کہ اہل سائنس آج جس تحقیق پر مطمئن ہیں چند دن کے بعد جب اپنی غلطی کا ان کو انکشاف ہوجاتا ہے تو اپنی سابقہ تحقیق کی خود ہی تردید شائع کرتے رہتے ہیں۔ برعکس خالق حقیقی کا علم احتمال خطا سے پاک ہے ارشاد فرماتے ہیں ولن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا۔ اور تم اللہ کے دستور میں کبھی کوئی تبدیلی نہ پائوگے۔



ایک مومن کے لیے قرآن کا اتنا ہی فرمان کہ شراب میں اثم کبیر یعنی بڑا گناہ ہے شراب سے احتیاط کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ ہرگناہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کا منشاء حق تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ اور ہر نافرمانی سبب ناراضی ہے پس مومن اپنے اللہ کی ناراضی کو کب گوارا کرسکتا ہے۔ مومنین کاملین کی شان تو یہ ہے کہ یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت ہمارے فضل کو اور ہماری خوشنودی کو ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ ہم کون سا ایسا عمل اختیار کریں کہ ہمارا پروردگار حقیقی ہم سے خوش ہوجائے۔



(جاری ہے۔)

سنت کے مطابق شادی بیاہ اور ولیمہ

سنت کے مطابق شادی بیاہ اور ولیمہ
  شیخ العرب وا لعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم
مرتبہ: سید عشرت جمیل میر
۸؍ ستمبر ۱۹۸۹؁ء مسجد اشرف، گلشن اقبال کراچی

ارشاد فرمایا کہ آج جنگ اخبار میں مسائل دینیہ کے سلسلے میں مولانا یوسف لدھیانوی دامت برکاتہم نے ایک مسئلہ لکھا ہے کہ شادی کے موقع پر لڑکی والوں کا برادری اور لڑکے والوں کو دعوت کھلانا خلافِ سنت ہے۔ میرے ذمے بیان ہے، تحقیق آپ مولانا یوسف لدھیانوی سے جاکر کیجیے، لیکن عقل سے سوچیے کہ جس کی بیٹی جارہی ہے اس کا دل تو غمگین ہے ایسے وقت اس سے دعوت کھانا عقل کے بھی خلاف ہے۔ ولیمہ سنت ہے جو بیٹے والے کے ذمہ ہے۔ ہاں لڑکی جب رخصت ہوکر چلی جائے اور شوہر کے ساتھ خلوت ہوجائے۔ اس کے بعد دوسرے دن ولیمہ سنتِ مؤکدہ ہے بشرطیکہ وہاں بھی کوئی خلافِ شریعت کام نہ ہو۔



علامہ شامی ابنِ عابدین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ولیمہ سنت مؤکدہ ہے لیکن اگر دسترخوان پر کوئی گناہ کا کام شروع ہوجائے مثلاً غیبت شروع ہوجائے تو روٹیاں اور بریانی اور شامی کباب چھوڑ کروہاں سے اُٹھ جانا واجب ہے۔ اب یہ وقت امتحان کا ہوتا ہے کہ یہ نلیاں اور بوٹیاں محبوب ہیں یا اللہ کی رضا محبوب ہے۔ یہ کہنا کہ جائیں صاحب چھوڑ کر میزبان ناراض ہوجائیں گے نہایت کم ہمتی کی بات ہے۔ صاف کہہ دو کہ یہاں غیبت ہورہی ہے، ریکارڈنگ ہورہی ہے، فوٹوکشی ہورہی ہے، فلم بن رہی ہے، ویڈیو بن رہی ہے، کھانے والوں کی تصویریں بن رہی ہیں لہٰذا اس نافرمانی کی مجلس میں شریک نہیں ہوسکتا۔



دوستو! یہی وقت امتحان کا ہوتا ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کا موقع آئے اس وقت جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائے، وہ امتحان میں پاس ہوگیا۔ خالی تنہائی میں، مسجد میں عبادت کرلینے کا نام امتحان نہیں ہے۔ امتحان کا وقت وہ ہوتا ہے جب منہ اور بریانی کے لقمہ کے درمیان آدھے فٹ کا فاصلہ رہ گیا کہ دیکھا کہ فوٹوگرافر آگیا، فلم بننے والی ہے، اب دیکھنا ہے کہ آدھا فٹ جو بریانی قریب ہوچکی ہے اس قریب شدہ مالِ غنیمت کو واپس کرتا ہے یا نہیں۔ امتحان کا وقت یہ ہوتا ہے۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ اس وقت اس لقمے کو وہیں رکھ دو اور اُٹھ جائو، کہہ دو چونکہ یہاں اللہ کی نافرمانی ہورہی ہے لہٰذا ایسی مجلس میں حاضری جائز نہیں ہے۔ محدث عظیم مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ جو مکہ شریف میں مدفون ہیں، مشکوٰۃ کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’لَایَجُوْزُ الْحُضُوْر عِنْدَ مَجْلِسٍ فِیْہِ الْمَحْظُوْر‘‘



جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایسی مجلس میں جہاں اللہ کی مرضی کے خلاف، شریعت کے خلاف کوئی کام ہورہا ہو۔ اس مجلس میں شرکت جائز نہیں چاہے ابّا کی مجلس ہو، چاہے اماں کی مجلس، چاہے پیر کی مجلس ہی کیوں نہ ہو۔



مان لیں کسی کو غلطی سے غلط پیر مل گیا، اس کے یہ معنی تھوڑی ہیں کہ اللہ اور رسول کے فرمان کو پیچھے چھوڑ دیں، اور اس کی بات مان لیں۔ اسی کا نام پیر پرستی ہے۔ اس سے صاف کہہ دو کہ چونکہ آپ خلافِ شریعت و سنت کام کررہے ہیں، بس میں آپ سے بیعت فسخ کرتا ہوں۔ محبت اللہ کے لیے ہے اور بغض بھی اللہ کے لیے ہے۔



تعجب ہے کہ قرضہ لے لے کر بیٹی والا برادری کو کھلارہا ہے جو خلافِ سنت ہے۔ آج اخبار میں پڑھ لیجیے گا، دینیات کا ایک صفحہ ہوتا ہے مولانا لدھیانوی اس میں مسائل کے جوابات لکھتے ہیں۔ میں نے ابھی ابھی دیکھا ہے، اخبار میرے پاس بھی رکھا ہے، تقریر ختم ہونے کے بعد جس کا جی چاہے چل کر دیکھ بھی لے کہ لڑکی والوں کا کھانا خلافِ سنت ہے۔ اصلاح الرسوم میں بھی ہے اور ہمارے اکابر نے اس کا اہتمام کیا۔ میرے مرشد اوّل مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ حکیم الامت کے اکابر خلفاء میں سے تھے، اتنے بڑے خلیفہ تھے کہ مفتی اعظم پاکستان اور مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا ظفر احمد عثمانی، قاری طیب صاحب رحمہم اللہ جیسے بڑے بڑے علماء ان کے سامنے شاگرد کی طرح بیٹھتے تھے، لیکن حضرت نے اپنی بیٹیوں کی شادی کی،نکاح پڑھا جو دو چار آدمی آئے کسی کو کچھ نہیں کھلایا اور بیٹی کو رخصت کردیا، یہ نہیں کہ بارات میں ساری برادری کو جمع کیا جارہا ہے ہاں دو چار عزیز و اقارب آگئے مثلاً بیٹی کی شادی میں اس کی دوسری سگی بہنیں آگئیں اور سگے بھائی آگئے تو وہ گھر والے ہیں، خاندان والوں کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں جو دو چار آگئے، لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ دعوت نامے کارڈ چھپ رہے ہیں۔ ہزار آدمی اس میں بھی کھاگئے، پانچ سو آدمی کھاگئے، یہ دس ہزار بالکل ضائع ہوا، اس پر کوئی اجر نہیں بلکہ خلافِ سنت عمل پر اندیشۂ مواخذہ ہے۔



نکاح تو ایک عبادت ہے لیکن عبادت جب ہے جب سنت کے مطابق ہو جس طرح سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو، لہٰذا تمام حدیثوں سے ثابت ہے کہ ولیمہ سنت ہے بشرطیکہ ولیمہ بھی شریعت کے خلاف نہ ہو اور حیثیت سے بھی زیادہ نہ ہو کہ پانچ ہزار تنخواہ پاتا ہے لیکن ولیمہ قرضہ لے کر ایک لاکھ کا کررہا ہے یہ بھی نام و نمود اور فخر کے لیے ہے، اس میں بھی شرکت جائز نہیں۔ آج اُمتِ مسلمہ، اسی کی وجہ سے مقروض و پریشان ہے۔ دس دس ہزار، بیس بیس ہزار روپیہ کھانے میں جارہا ہے۔ حیثیت سے زیادہ خرچ نہ کرو ،ارے امام اور مؤذن کو بلالو۔ دو آدمیوں سے بھی ولیمہ ہوجاتا ہے۔ چلو محلے کے کسی بڑے بوڑھے کو دوچار دوستوں کو بلا لو۔ آپ کسی مفتی سے پوچھ لیں کہ اگر دو چار آدمیوں کو بلالیں تو ہماری سنت ولیمہ ادا ہوجائے گی یا نہیں اور باقی پیسے دینی مدارس میں، یتمیوں پر، بیوائوں پر خرچ کردیں یا بیٹی کو دیں یا داماد کو دے دیں۔



یہ کھا کھاکر پچاس پچاس ہزار روپیہ خرچ کراکر مونچھوں پر تائو دے کر جو جاتے ہیں، کوئی خوش نہیں ہوتا تعریف کے لیے جو کام انسان کرتا ہے، تعریف بھی نہیں ملتی۔ جو وہ کہہ کر جاتے ہیں وہ الفاظ، مجھ سے سنیے! ’’ارے صاحب! گھی بہت ڈال دیا تھا۔‘‘ ’’اتنی چکنائی تھی کہ کھایا نہیں گیا۔‘‘ ’’میرے تو پیٹ میں درد ہوگیا۔‘‘ ’’یہ اس نے گوشت بچانے کے لیے ترکیب نکالی کہ گھی زیادہ ڈال دیا تاکہ کھانا نہ کھایا جائے۔‘‘ دوسرے صاحب کہتے ہیں: صاحب! نمک تیز ہوگیا۔ تیسرے صاحب کہتے ہیں: بکرا بڈھا تھا۔ گوشت میں بہت سختی تھی، جیسے چمڑے کھینچ رہے تھے۔



حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر ایک قصہ سنایا کہ ایک بخیل بنیا تھا۔ پیٹ کاٹ کاٹ کر پیسہ جمع کیا اور جب بیٹی کی شادی کی تو سارے گائوں کو دعوت دے دی کیونکہ عزت و جاہ کا بھوکا کافر ہوتا ہے، اس نے سب گائوں والوں کو آلو پوری کھلائی… آلو پوری بہت مزیدار ہوتی۔ اور ایک ایک اشرفی بھی انعام میں دی۔ اشرفی سونے کی ہوتی ہے۔ اور جب سب مہمان جانے لگے تو جلدی سے دوڑ کرکے گائوں کے باہر ایک درخت پر بیٹھ گیا کہ آج ذرا تعریف سن کر خوش ہوجائوں۔ مال تو گیا، زندگی بھر ہم نے چمڑی دے دی مگر دمڑی نہیں دی لیکن آج بیٹی کی شادی میں ذرا واہ واہ لینے کے لیے میں نے اتنا خرچہ کیا تو دیکھوں کہ آج میری کتنی تعریف ہوتی ہے۔ تو آلو کھاکر اور ایک اشرفی لے کر سب یہ کہتے ہوئے گزرے کہ بڑا ہی کنجوس مکھی چوس تھا۔ ارے! صرف ایک اشرفی دی۔ کمبخت کو پانچ اشرفی دینا چاہیے تھا۔ جب تین چار گالیاں سنی تو مارے غم کے، اس کی دھوتی ڈھیلی ہوگئی اور جلدی سے درخت سے نیچے اُتر کر صدمہ و غم سے گھر میں جاکر لیٹ گیا کہ اتنا پیسہ بھی چلا گیا اور تعریف بھی نہ ملی۔ مخلوق سے کہیں تعریف ملتی ہے۔



اسی طرح غم کے موقع پر بھی اتنہائی بیہودہ رسمیں ہیں۔ غمی میں بریانیاں کھلائی جاتی ہیں، تیجہ کیا جاتا ہے جس کا نام قرآن خوانی ہے۔ بکرا کٹ رہا ہے، شامیانے لگ رہے ہیں اور بریانی پک رہی ہے سوچو تو صحیح جس کا نانا، جس کا بابا مرگیا اس کے ہاں بریانی کھانے میں شرم بھی نہیں آتی۔



حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نوجوان کی تربیت فرمائی جو زمیندار تھا۔ اس کے باپ کا انتقال ہوگیا۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے صدقے اور ان کی صحبت کے فیض سے اس نے وعدہ کیا کہ حضرت! ان شاء اﷲ تعالیٰ میں اپنی پوری برادری سے یہ رسم مٹادوں گا، بس اس نے رسم کے مطابق باپ کے انتقال پر دو بکرے کاٹے اور شاندار بریانی پکوائی اور ساری برادری کو بلایا کہ آئو! آج کھانا کھالو۔ جب دسترخوان بچھاکر گرم گرم بریانی پلیٹوں میں رکھی گئی اور ہاتھ دھوکر سب نے بریانی کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا تو اس نے فوراً کہا کہ صاحبو! ہاتھ بڑھانے سے پہلے میں ذرا ایک گزارش کرتا ہوں اس کو سن لینے کے بعد آپ لوگ کھائیے، ایک نوجوان، بچہ، بڑے بڑے چودھری بڈھے زمینداروں سے خطاب کررہا ہے کہ آپ لوگ کس خوشی میں یہ بریانی کھانے جارہے ہیں۔ میرے دل سے پوچھو کہ باپ کے مرنے پر کیا صدمہ ہے۔ میرے غم اور صدمے میں آپ نے میرا یہ حق ادا کیا کہ آپ مجھ سے بریانی کھارہے ہو۔ جس کا باپ یا بھائی مرگیا اس سے کس خوشی میں بریانی کھائی جاتی ہے۔ اس تقریر کے بعد کوئی بریانی کھاسکتا تھا؟ آخر سب بڑے زمیندار تھے، عزت و آبرو سے ہاتھ دھو کر تھوڑی آئے تھے، سب لوگ فوراً کھڑے ہوگئے اور کہا: اے نو جوان بچے! شاباش! آج تو نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ساری بریانی کو لے جاکر غریبوں میں تقسیم کردو۔ یہ غریبوں کا حق ہے ہم جیسے بڑے بڑے مالداروں کا حق نہیں ہے کہ اپنے نوجوان رشتے دار کے باپ کی غمی میں بریانی ٹھونس رہے ہیں، واقعی یہ بے غیرتی ہے۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو جب یہ خبر ملی تو حضرت نے خوش ہوکر وعظ میں یہ واقعہ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ جس سے چاہتا ہے بڑا کام لے لیتا ہے۔ اﷲ نے اس سے کتنا بڑا کام لیا کہ اس نے ایک بُری رسم کو مٹادیا۔



آج آپ سب حضرات سے میں اس مسجد میں ایک عہد لیتا ہوں کہ آپ لوگ وعدہ کیجیے کہ اپنی شادی بیاہوں کو میرج ہالوں میں نہیں کریں گے۔ اﷲ کے لیے وعدہ کیجیے! اُمت پر رحم کیجیے! اپنے خاندان پر رحم کیجیے! یہاں حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کی موجودگی میں دو نکاح ہوچکے ہیں۔ آپ لوگ شادی ہالوں کے کرایہ اور بجلیوں کے بِل سے جان چھڑاکر وہی پیسہ اپنی بیٹی کو دے دو۔ قرضہ لے لے کر اپنے دل کو کیوں پریشان کرتے ہو؟



میرے محترم بزرگو ،بھائیو اور دوستو! شادی سنت کے مطابق کرو، جمعہ کے دن، عصر کے بعد نکاح پڑھو اور مغرب بعد رخصتی کردو۔ نوشہ کے ساتھ جو آنے والے ہیں ان کو بھی پہلے ہی راضی کرلو کہ ہم سنت کے مطابق سادگی کے ساتھ شادی بیاہ کریں گے۔ اس طرح یہ لعنت جہیز کی نکل جائے گی۔ کتنی بیٹیاں ہیں جو جہیز کی اس لعنت اور ان اخراجات کی لعنت سے بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان کے دلوں میں خودکشی تک کے وسوسے آرہے ہیں۔ میرے دوستو! ان شادی ہالوں میں پیسہ ضائع کرنا اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو پریشانی میں مبتلا کرنا ہے جو اپنی غربت کی وجہ سے اس رسم کو نہیں کرسکتے۔ بیٹی والوں سے پوچھو کہ کیا مصیبتیں ہیں، لہٰذا جو شخص اپنی بیٹی کی شادی میں کھانا کھلائے گا اندیشہ ہے کہ قیامت کے دن اس پر سنت کی مخالفت کا مقدمہ دائر ہوگا۔ ساتھ ساتھ یہ کہ معاشرے میں اس نے ایک بری رسم جاری کرکے مسلمانوں کی جیب کٹوانے کا انتظام کیا اور ان کو کرب و غم میں مبتلا کرنے کا سامان کیا۔ چھوڑئیے! اس کو کوئی کچھ کرتا ہو۔ آپ یہی پوچھئے لو کہ بیٹی والوں کا کھانا کس کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ اس لیے آج آپ حضرات یہ عہد کرلیں کہ ہمیں میرج ہالوں میں شادی نہیں کرنی ہے بیٹی والوں کو کھانا نہیں کرنا ہے، بیٹی والوں سے جہیز نہیں مانگنا ہے وغیرہ۔ یہ دس ہزار پانچ ہزار جو ایک رات کا کرایہ لگتا ہے نہیںدینا ہے، مسجد میں سنت کے مطابق نکاح کرائیے۔



نکاح کے بعد چھوارے وغیرہ نہ اُچھالیے۔ خالی کتابوں کو دیکھ کر عمل نہ کیجیے۔ سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ ہمارے حضرت مولانا ابرارالحق صاحب نے فرمایا کہ اس زمانے میں چھوارے قاعدے سے تقسیم کرو۔ کیوں؟ اس لیے کہ جس زمانے میں یہ کھجور اور چھوارے اُچھالے گئے تھے اس زمانے میں آنکھوں پر چشمے نہیں لگتے تھے۔ آج سے پچاس برس پہلے کے بزرگوں کو دیکھ لو، اپنے دادا، نانا کو کہ اکثر نے بڑھاپے تک چشمہ نہیں لگایا، خود میرے نانا نے آخر سانس چشمہ نہیں لگایا۔ اور اب چشمے لگے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ نے کھجوروں کو اُچھالا، اور ایک کھجور کسی کے چشمے پر گرگئی، اس کا تو تین سو کا تو چشمہ گیا اور آپ کی دو آنے کی کھجور اس کے نفع میں آئی لہٰذا کھجوریں تقسیم کیجیے اور اس طریقہ سے کہ مسجد میں بھی اس کا اثر نہ ہو کہ مکھیاں بھنکیں، تاکہ مسجد کا فرش بھی نہ خراب ہو۔ اور مغرب بعد بیٹی کو رخصت کردو اور بیٹی والا کھانا نہ کھلائے۔



ولیمہ کے سلسلے میں بھی عرض کرتا ہوں کہ ولیمہ میں یہ کوئی ضروری نہیں کہ ساری برادری آئے۔ کسی کتاب میں نہیں لکھا ہے کہ ساری برادری کا کھانا کرو۔ جتنی اللہ توفیق دے اور قرضہ نہ لینا پڑے۔ یہی ہزار ہزار آدمیوں کو ولیمہ کھلانے والوں سے اگر کہا جائے کہ مسجد کی دری پھٹی ہے کچھ پیسہ دے کر نئی دری بچھوادو تو کہتے ہیں مولانا! آج کل بڑی کڑکی ہے، کڑکی۔ کڑکی کے معنی معلوم ہیں آپ کو؟ میمنوں کی زبان ہے۔ مرغی جب کُڑک ہوجاتی ہے اور انڈا نہیں دیتی، تو کہتے ہیں کہ یہ مرغی کی کڑکی کا زمانہ ہے اسی کُڑکی سے یہ کَڑکی بنایا ہے۔ میمن صاحب جب کہے کہ آج کل کَڑکی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میری دکان کی مرغی انڈا نہیں دے رہی ہے یعنی پرافٹ (Profit) نہیں ہورہا ہے، لیکن یہ پچاس ہزار میرج ہال کے لیے کہاں سے آگیا؟ کھانا کہاں سے آگیا؟ جو غریب ہیں وہ بھی بینکوں سے سودی قرضے لے رہے ہیں۔ ولیمہ کون سا فرض ہے اور اگر فرض بھی ہوتا تب بھی سودی قرضہ لینا جائز نہیں۔ ولیمہ سنت ہے لیکن حسب گنجائش و توفیق۔ اگر پوری بکری کرنے کی کسی کے پاس گنجائش نہیں ہے، تو بکری نہ کرے دال روٹی کھلادے، اگر گنجائش ہے تو چلو ایک بکری کرلو۔ ایک بکری آٹھ نو سو کی مل جاتی ہے۔ ایک ہزار کے چاول بھی ڈال دو، دو ہزار میں ولیمہ کرلو اور کوئی غریب ہے مؤذن ہے، امام ہے، بیچارہ اس کے پاس یہ بھی نہیں ہے تو میاں! آلو پوری کھلادو، دہی بڑے کھلادو۔ ولیمہ میں پلائو قورمہ کھلانا کوئی واجب نہیں ہے۔ غیرواجب کو واجب سمجھنا یہ بھی اسلام میں بہت بڑا جرم ہے، اس سے ضرر پہنچا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، دوستو! اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو غور سے سنو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’اَعْظَمُ النِّکَاحِ بَرَکَۃً اَیْسَرُہٗ مَؤُنَۃً‘‘ سب سے بڑا برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔ آپ سوچیے اگر آپ کم خرچ کریں گے تو نکاح میں برکت آجائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک ہے۔ اگر آپ کو اللہ نے بہت دولت دی ہے۔ مان لیجیے! بہت سی لانچیں چل رہی ہیں، موٹر چل رہی ہے، ٹیکسی چل رہی ہے، تو پیسہ بچاکر کسی غریب کی بیٹی کا نکاح کرادو، کہو کہ یہ دس ہزار روپے ہم سے تحفہ لے لو یا کسی اور ضروری کام میں خرچ کردو بھائی! دو چار بچوں کو حافظ بنوادو، ہزاروں نیک کام ہیں جن میں خرچ کرسکتے ہیں لیکن مال کو ان فضول رسموں میں خرچ کرنے سے یہ خرابی پیدا ہوگی جو خاندان میں غریب ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں بھی مالدار رشتہ دار کا مقابلہ کروں گا چاہے قرض ہی لینا پڑے۔ ایسا کوئی کام نہ کیجیے کہ جس سے پورے خاندان والے مجبور ہوکر حیثیت سے زیادہ خرچ کریں، اگر ایک بچے کو پیچش ہوتی ہے، تو اس کی رعایت سے ماں دوسرے تندرست بچوں کو بھی کباب نہیں دیتی کہ تمہارے کباب کو دیکھ کر میرا بیمار بچہ روئے گا۔ ایسے ہی امت کا خیال کرو، نفسی نفسی نہ کرو۔



اسی طرح جہیز کی لعنت ہے آج کل لڑکے والا بابا کہتا ہے کہ میرا بیٹا امریکا پڑھنے جائے گا۔ جہیز میں امریکا تک پہنچنے کا خرچہ بھی دو، ایک کار بھی دو اور ٹیلیویژن بھی دو اور میرے بیٹے کے لیے دکان کھلوادو۔ اگر ڈاکٹر ہے تو اس کو میڈیکل اسٹور کھلوادو یا ہسپتال بنوادو۔ بیٹی والوں سے پیسہ مانگنا یہ رشوت ہے، حرام ہے چاہئے تو یہ تھا کہ بیٹی والے سے کہہ دیتے کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کو تنگدستی ہے، کچھ مقروض بھی ہیں، آپ کچھ نہ دیجیے۔ میرے گھر میں سب کچھ موجود ہے ہمیں آپ کی بیٹی چاہیے دولت نہیں چاہیے اور کوئی طعنہ بھی نہیں دے گا۔ یہ عہد داماد کے باپ اور اس کی ماں کو لکھ کر دے دیں کہ تمہاری بیٹی کو کوئی طعنہ نہیں ملے گا۔ لیکن آج افسوس یہ ہے کہ کھاتے پیتے لوگ نمازی لوگ بھی طعنہ دیتے ہیں اگر بیوی غریب ہے، کچھ نہیں لائی یا کم لائی، تو شوہر صاحب کہتے ہیں کہ ارے! تیرے باپ نے کیا دیا۔ تجھ سے نکاح کرکے میں تو پچھتا رہا ہوں، فلاں جگہ نکاح کرتا تو مجھ کو اتنا ملتا۔ کیا ہورہا ہے دوستو! یہ کتنا بڑا ظلم ہے۔ اس لیے دل سیاہ ہورہے ہیں اور گھروں میں لڑائی جھگڑے ہورہے ہیں۔ دین اور اخلاق اور شرافت کاتقاضا ہے کہ یہ کہہ دو کہ آپ بیٹی دے رہے ہیں، اپنے جگر کے ٹکڑے کو آپ دے رہے ہیں، اس کے مقابلے میں ہم کرسی اور صوفہ مانگیں۔ کیا حقیقت ہے؟ وہ اپنی طرف سے آرام کے لیے اپنی بیٹی کے لیے کچھ دے دیں وہ ٹھیک ہے لیکن اگر اس کے پاس نہیں ہے، قرینہ سے پتہ چل جاتا ہے، کہ لڑکی کا والد مالی لحاظ سے کمزور ہے تو شریف داماد اور شریف سمدھی کا حق ہے کہ کہہ دے کہ آپ بالکل تکلف نہ کریں اور اور ان کو یقین دلائو کہ کوئی طعنہ نہیں دے گا بلکہ لکھ کر دے دو اور اس پر اس کی ساس کے بھی دستخط کرائو کیونکہ اس وقت تو جوش میں کہہ دیں گی لیکن بعد میں ساری زندگی طعنے دیتی ہیں۔ جو مہمان آیا، ارے! آپ کی بہو کچھ لائی بھی ہے؟ ارے! کیا لائی ہے بس چند چیتھڑے اور کچھ ٹھیکرے لائی ہے، کپڑے کا نام چیتھڑے رکھ دیا، برتنوں کا نام ٹھیکرے رکھ دیا۔ اس لیے دل روتا ہے ایسے حالات سے۔ آپس میں آج اگر آپ اس مسجد کے اندر عہد کرلیں، کہ ہم اپنی شادیوں میں بیٹی والے سے کہہ دیں گے کہ آپ پر کوئی جہیز کی ذمہ داری نہیں ہے۔



اپنی بیٹی کو جو دل چاہے دے نہ دے اس پر کبھی طعنہ نہیں ملے گا اس پر اپنی بیوی اور بیٹے کے علاوہ اس کی بہنوں کے بھی دستخط کرائو کیونکہ بہنوں کی زبان بھی کبھی کڑوی ہوجاتی ہے۔ پھر دیکھو اللہ تعالیٰ کتنا راضی ہوتا ہے۔ ذرا یہ عمل کرکے دیکھئے تو شادی بیاہ بالکل آسان معلوم ہوگا۔ آج کل کیا حالات ہیں اسلام آباد میں ایک شخص کی چھ بیٹیاں ہوگئیں تو مجھ سے کہنے لگے کہ کوئی تعویذ دو کہ اب بیٹی نہ ہو کیونکہ خاندان میں پچاس ہزار ایک بیٹی پر خرچہ آتا ہے اور چھ بیٹیوں کو پچاس ہزار پر ضرب کرو تو تین لاکھ بنتا ہے۔ تین لاکھ میں کہاں سے لائوں گا۔ پانچ ہزار میری تنخواہ ہے۔ تین ہزار خرچ ہوجاتے ہیں۔ ایک ہزار بچائوں بھی تو تین لاکھ کہاں سے آئے گا لہٰذا مجبوراً سود لینا پڑے گا۔ قرضہ لینا پڑے گا۔ یہ ہماری غلطی ہے کہ ہم نے معاشرہ میں غیر اسلامی رسمیں رائج کی ہیں اس کے لیے خاص طور پر آپ لوگ ہمت کیجیے، نہی عن المنکر کی جماعت الگ بنانے کی ضرورت ہے اور برائیوں کو مٹانے کے لیے آپ سب اس میں داخل ہوجائیں۔ یہ جتنے لوگ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں سب بُرائیوں کے مٹانے میں ہمارے ممبر اور انصار ہیں۔