دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

18 July 2010

اللہ کی محبّت کا غم،درسِ تسلیم و رضا،اذکار و وظائف کا مقصد

اللہ کی محبّت کا غم


فرمایا کہ ؎
ساقیا برخیز دردہ جام را
خاک برسر کن غمِ ایام را

حافظ شیرازی فرماتے ہیں کہ اے ساقی اٹھ یعنی اے اللہ کرم فرمائیے اپنی محبت کا جام پلادیجئے اور غم ایام کے سر پر خاک ڈال دیجئے۔ نشہ میں کوئی غم معلوم ہوتا ہے؟ بس ایک غم ہوتا ہے، محبوب کا غم جو مست کیے رہتا ہے ہرحال میں ان کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ کوئی حال ہو نظر اللہ تعالیٰ پر رہتی ہے کہ اگر وہ خوش ہیں تو ہر غم لذیذ ہے ورنہ اگر وہ خوش نہیں تو تخت و تاج بے کار ہے۔ جنہیں وہ اپنی محبت کا جام پلا دیتے ہیں دنیا کے غموں سے بے نیاز کردیتے ہیں۔ ان کی محبت کا نشہ کسی حال میں نہیں اترتا، تلواروں کی دھار کے نیچے بھی نہیں اترتا۔ جہاد میں سیسے کی دیوار بنے کھڑے ہیں جسم کے پرخچے اڑ رہے ہیں، کیوں نہیں بھاگتے؟ جان پر سے یہ نشہ ہی تو نہیں اترتا۔ بخلاف اس کے دنیا کا غم کمر توڑ دیتا ہے کیونکہ بیہودہ ہے۔ اللہ کا غم لذیذ ہے ایسا نشہ رکھتا ہے کہ غم ایام کے سر پر خاک ڈال دیتا ہے ؎

وہ تو کہئے کہ ترے غم نے بڑا کام کیا

ورنہ مشکل تھا غم زیست گوارا کرنا

اللہ کی نافرمانیوں سے بچنے میں جو غم اٹھانا پڑتا ہے اللہ کی محبت ہی اسے گوارا کرتی ہے۔ ان کا غم جس سینہ میں نہیں ہوتا وہ نافرمانیوں سے بچنے کے غم کو گوارا نہیں کرسکتا۔ مصیبت میں گرفتار ہوجانا معصیت میں گرفتار ہوجانے سے کہیں بہتر ہے کیونکہ مصیبت تو اللہ کا اور مقرب کردیتی ہے اور معصیت اللہ سے دور کردیتی ہے۔ ایک بزرگ کسی مصیبت میں مبتلا تھے کسی نے دیکھا تو بڑا اظہار افسوس کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ مصیبت میں گرفتار ہوں معصیت میں نہیں الحمدﷲ کہ بمصیبتے گرفتار ہستم نہ بمعصیتے۔ معصیت سے بچنے کے لیے مصیبت بھی مول لی جاتی ہے آخر کیا بات تھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بیڑیاں پڑ رہی ہیں زنداں میں ڈالا جارہا ہے سب کچھ منظور ہے لیکن محبوب کی نافرمانی منظور نہیں۔


حسن جب مقتل کی جانب تیغ براں لے چلا

عشق اپنے مجرموں کو پابہ جولاں لے چلا


آں چنانش انس و مستی داد حق
کہ نہ زنداں یادش آمد نے غَسَق

زنداں میں انہیں ایسی عشق و مستی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی کہ نہ پھر انہیں زنداں یاد آیا نہ زنداں کی تاریکی۔

کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگراست

جن کے سینہ اللہ کی محبت سے خالی ہیں وہ اس خنجر تسلیم کی لذت کو کیا جانیں۔ ان دنیادار بوالہوسوں کو کیا معلوم کہ اللہ کے غم میں کیا لذت ہے وہ تو ہوس رانی میں لگے ہوئے ہیں اور اس غم سے محروم ہیں جو اللہ کی محبت میں اپنی ہوس کو تشنہ رکھنے میں آتا ہے اور خواہشات کو شمع رضائے الٰہی میں جلانے سے میسر آتاہے۔ سوز غم تو پروانوں کو ہی ملتا ہے کبھی کسی مکھی کو شمع پر جلتے ہوئے دیکھا ہے؟ مکھی کیا جانے کہ شمع پر جل جانے میں کیا مزا ہے۔ سرمد بڑے مشہور صوفی گزرے ہیںدہلی میں مدفون ہیں فرماتے ہیں ؎

سر مدغم عشق بولہوس را نہ دہند
سوز غم پروانہ مگس را نہ دہند

اللہ تعالیٰ اپنا عشق کا بوالہوس یعنی دنیا داروں کو نہیں دیتے اپنے عاشقوں کو عطا فرماتے ہیں۔ پر وانے کا سوزغم پروانے کو ہی دیتے ہیں مکھی کو نہیں دیتے۔ یہ دنیا دار تو مکھی ہیں جو دنیا کی لذتوں اور گناہوں کی غلاظت پر بھنبھنا رہی ہو، اپنی ہوس کے تقاضوں پر عمل کررہی ہیں انہیں پروانوں کا سوز غم یعنی اللہ تعالیٰ کا عشق نصیب نہیں۔ کیا کسی مکھی کو شمع کے قریب جاتے ہوئے دیکھا ہے؟ جیسے مکھی شمع کے عشق سے محروم ہے ایسے ہی یہ دنیا دار اللہ کے عشق سے محروم ہیں۔ درد عشق تو ان کو ہی عطا ہوتا ہے جو پروانوں کی طرح خود کو اپنے ارادوں کو گناہ کے تقاضوں کو رضائے الٰہی کی شمع پر جلا کر خاکستر کررہے ہیں اپنی خواہشات کو مرضیات الٰہیہ میں فنا کردیتے ہیں نافرمانیوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ کبھی کسی پروانے کو غلاظت کے قریب جاتے ہوئے دیکھا ہے؟

 
سرمد گلہ اختصار می باید کرد

یک کار ازیں دوکار می باید کرد

یاتن بہ رضائے دوست می باید داد
یا قطع نظر زیار می باید کرد


فرماتے ہیں کہ اے سرمد شکایت کو مختصر کرو اور ان دو کاموں میں سے ایک کام کرو یا تو اپنے جسم کو رضائے دوست کے حوالے کردو یعنی احکام جسم کو رضائے الٰہی کے تابع کردو یا پھر دوست سے ہی نظر اٹھا لو یعنی یا تو اپنی خواہشات نفسانیہ کو مرضیات الٰہیہ میں فنا کردو اگر ایسا نہیں کرسکتے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں نہ ملیں گے۔

درسِ تسلیم و رضا


بندہ کو ہر حال میں راضی برضا رہنا چاہیے۔ حالات موافق ہوں شکر ادا کرو کہ اے اللہ میں اس قابل نہ تھا میری نا اہلیت کے باوجود آپ نے اپنا فضل فرمایا اور حالات مخالف ہوں تو اور یقین رکھو کہ اس میں ہی تمہاری کوئی مصلحت ہے البتہ اپنی حاجت کے لیے گریہ و زاری کرتے رہو مانگتے رہو۔ شکایت کا کوئی لفظ زبان پر نہ آئے نہ دل میں کوئی غلط خیال رہے مثلاً کسی کی شادی نہیں ہوتی تو یوں سوچنے لگے کہ اگر ہمارے پاس مال و دولت ہوتی تو ہماری بھی شادی ہوجاتی۔ خوب سمجھ لو کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہیں پوری کائنات اور کائنات کا ہر ذرہ اس کی زیرِ ربوبیت ہے۔ امیر ان کی ربوبیت سے خارج نہیں۔ اگر امیروں کو آرام میں دیکھتے ہو تو وہ بھی ان کی ربوبیت کی ایک شان ہے ان کا یہ آرام روپیہ پیسہ کی وجہ سے نہیں ہے۔ مال میں یہ اثر نہیں ہے کہ ان کی خواہشات کو پورا کردے۔ جس کو چاہتے ہیں جس حال میں رکھتے ہیں۔ کتنے امیر ایسے ہیں کہ مال دھرا رہ جاتا ہے اور ان کی آرزوئیں دل کی دل میں ہی رہ جاتی ہیں۔ یوں تو کفار بھی دنیا میں عیش اڑا رہے ہیں کیا کسی مسلمان کے دل میں نعوذباﷲ یہ تمنا ہوسکتی ہے کہ ہم بھی کافر ہوتے کہ خوب عیش اڑاتے۔ ایسی تمنا کرنا بھی کفر ہے۔ خوب سمجھ لو کہ روس اور امریکہ بہ رعایت مراحمِ خسروانہ زندگی کے ایام گذار رہے ہیں کبھی ان پر لالچ نہ کرنا۔ پھانسی کے مجرم ہیں حکومت نے اپنے خزانہ ہے روپیہ دے دیا ہے کہ پھانسی لگنے سے پہلے پہلے عیش کرلو کوئی آرزو دل میں نہ رہ جائے۔ کیا ایسے مجرم کو کھاتا پیتا دیکھ کر کوئی یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمیں بھی یہ عیش مل جاتا۔ ارے تمہارے پاس تو وہ دولت ہے کہ ساری کائنات اس کے سامنے بے قیمت ہے۔ اپنے پاس خزانہ چھپائے ہوئے ہو اور دربدر کوڑیوں کی بھیک مانگتے پھرتے ہو۔



یک سبد پرناں ترا برفرق سر



توہمی جوئی لب ناں دربدر



روٹی سے بھری ہوئی ایک ٹوکری تیرے سر پر رکھی ہے اور تو روٹی کے ٹکڑے کے لیے دربدر مانگتا پھرتا ہے۔ دولت ایمان کے سامنے دنیا و مافیہا کی تمام نعمتیں ہیچ ہیں۔ جیسے اہل دنیا چاندی کے سکوں کی حفاظت کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ایمان کی حفاظت اور ترقی کی دھن لگی رہنی چاہیے۔



اذکار و وظائف کا مقصد



دین صرف تسبیح گھمانے کا نام نہیں۔ وظائف کا مقصد ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں۔ وظائف اسی لیے بتائے جاتے ہیں کہ یہ استعداد پیدا ہوجائے۔ ورنہ اگر اللہ اللہ تو کررہے ہو لیکن گناہوں سے کوئی پرہیز نہیں تو ایسے وظیفے بالکل بے کار ہیں کیونکہ ان کا مقصدتو حاصل ہی نہیں ہوا۔ موٹے موٹے گناہ کا علم تو ہر شخص کو ہوتا ہے حتیٰ کہ خود گناہگار جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں اور ان سے بچنے کا اہتمام طبیعت میں پیدا ہوجائے۔ مولانا تھانوی علیہ الرحمہ ایک بار سفر کررہے تھے کہ رات کو ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر ٹھہرنا ہوگیا وہاں کا اسٹیشن ماسٹر حضرت کا معتقد تھا لیکن تھا ہندو کیونکہ پلیٹ فارم پر اندھیرا تھا اس لیے وہ لالٹین لے آیا۔ حضرت کو خیال ہوا کہ یہ تو ریلوے کی ہوگی، فرمایا کہ بھائی یہ لالٹین ریلوے کی ملک ہے ریلوے کے کاموںہی میں استعمال ہوسکتی ہے ذاتی استعمال میں لانا ہمارے لیے جائز نہیں اسے واپس لے جائو۔ وہ ہندو رونے لگاکہا کہ یہ ہیں اللہ والے۔ کافروں کے دلوں میں بھی اسلام کی حقانیت کا سکہ بیٹھ جاتا ہے اللہ والوں کو دیکھ کر۔ غرض جس جگہ بھی ہو جس کام پر بھی ہو یہ خیال رہے کہ کوئی ایسی بات تو سرزد نہیں ہورہی جو حق تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو خصوصاً مدرسوں کے اہتمام اور چندہ کے لیے بڑے تقویٰ کی ضرورت ہے۔ مولانا تھانویؒ نے لکھا ہے کہ یہ کام اسی کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے جو اعلیٰ درجہ کا متقی ہو، معمولی تقویٰ والے کو تو اس کام کے قریب بھی نہ جانا چاہیے ورنہ ثابت قدم رہنا سخت مشکل ہے۔ اگر کسی میں تقویٰ نہیں ہے تو بے احتیاطی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ بے احتیاطی اس راہ میں سم قاتل ہے۔ بہت سوں کے حالات خراب ہوگئے۔ ساری ترقی مسدود ہوگئی اور دنیا دار بن کر رہ گئے۔ میرے ایک پیر بھائی تھے ایک مدرسہ کا چندہ وصول کرنا ان کے ذمہ تھا لیکن کرتے کیا تھے کہ ادھر رسید کاٹی اور ادھر خربوزے منگوالئے چائے اڑارہے ہیں لسی پی رہے ہیں۔ نتیجہ کیا ہوا کہ دین تباہ ہوگیا اور بالکل دنیا دار ہوگئے۔ اور صحابہ کا طرز عمل کیا تھا کہ ایک بار بیت المال کا اونٹ کھوگیا۔ حضرت عمر خود تلاش کرنے چل دیئے لوگوں نے عرض کیا کہ آپ ایک اونٹ کی تلاش میں کیوں جارہے ہیں خدام چلے جائیں گے فرمایا کہ قیامت کے دن عمر سے سوال ہوگا، خادموں سے نہیں۔ اگر اللہ نے سوال کرلیا کہ بیت المال کا اونٹ گم ہوگیا تھا تم نے تلاش کیوں نہیں کیا تو کیا جواب دوں گا۔

اللہ کی راہ میں مزاحمت ترقی کا ذریعہ ہے

اللہ کی راہ میں مزاحمت ترقی کا ذریعہ ہے


ایک نے عرض کیا کہ گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت کے پاس آنے سے دنیا کے کام کا نہیں رہے گا اس لیے بعض اوقات کچھ مزاحمت ہوتی ہے فرمایا کہ اس راستہ میں جتنی مزاحمت ہے تو اتنی ہی ترقی ہوتی ہے اور جن کو کچھ مزاحمت نہیں اٹھانا پڑتی ان کی ترقی بھی کم ہوتی ہے جیسے کوئی شخص آگے بڑھنا چاہ رہا ہو اور کوئی اس کو پیچھے کو گھسیٹ رہا ہو تو اس کو آگے بڑھنے کے لیے قوت صرف کرنا پڑے گی اور کیونکہ آگے بڑھنے میں اس کو مشقت ہوگی تو جو کچھ حاصل کرے گا اس کی اس کے دل میں قدر ہوگی اور جدوجہد میں قوت پرواز بھی بڑھتی ہے بہ نسبت اس شخص کے جس کو کچھ مشقت اٹھانی نہیں پڑ رہی وہ ایک خاص رفتار سے آگے بڑھتا رہتا ہے اور جس کو مشقت کرنا پڑتی ہے وہ لامحالہ اپنی رفتار کو تیز کرتا رہتا ہے کہ کہیں گھسیٹنے والا غالب نہ آجائے۔ یہ راستہ ہی ایسا ہے کہ اس میں لوگوں کی لعن طعن بھی سننا پڑتی ہے۔ لیکن اس لعن طعن کے باوجود جو اپنی جگہ پر قائم رہے اس کا ایمان اور تازہ ہوجاتا ہے اس کے دل سے پھر مخلوق کا خوف نکل جاتا ہے بس استقامت کی ضرورت ہے۔ دنیا دار سمجھتے ہیں کہ اللہ والے نکمے ہوتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اہل دنیا اپنی نادانی کی وجہ سے انہیں کاہل کہتے ہیں لیکن آخرت کے کاموں میں تو یہ چاند سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔

کارِ دنیا را زکل کاہل ترند

در رہ عقبیٰ ز مہہ گومی برند

 
یہ دنیا کے کاموں سے کاہل نظر آتے ہیں تم آخرت کے کاموں سے کاہل ہو۔ ذرا ایک گھنٹہ مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرکے دکھا دو تو پتہ چل جائے کہ کیسے جفا کش ہو۔ بات یہ ہے کہ دنیا کی محبت دل میں ہے جس کے بارے میں حدیث شریف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حقیقت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں اور آخرت کی فکر نہیں جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ دنیا آخرت کے تابع ہے، آخرت حقیقت ہے دنیا سایہ۔ سائے کے پیچھے بھاگو گے حقیقت اور دور ہوتی جائے گی۔ آخرت کو پکڑلو سایہ خود قبضہ میں آجائے گا۔ اسی وجہ سے اللہ والوں کو روزی بھی عزت سے ملتی ہے، وہ دنیا کو ٹھکراتے ہیں دنیا ان کے قدموں میں آتی ہے۔ بس اللہ والے بن جائو یعنی جو مشقتیں اس راہ میں اٹھانی پڑیں انہیں جھیل لو۔ کیا جن کے لیے ہم قربان ہونے کو تیار ہیں انہیں اتنی قدرت نہیں کہ ہماری ضروریات کو پورا کردیں۔ جب آخرت عطا فرمادیں گے تو دنیا جیسی حقیر چیز کیوں نہ دیںگے۔ بہرحال اپنے کام میں لگا رہنا چاہیے اور والدین اگر اس راستہ میں حائل ہوتے ہیں انہیں نرمی سے سمجھادینا چاہیے۔ اگر کبھی کچھ سخت الفاظ نکل جائیں تو دوسرے وقت انہیں راضی کرلو۔ والدین کے سامنے کندھوں کو جھکائے رہو اور اف تک مت کہو۔ ہاں اگر کسی گناہ کے کام کا حکم کریں تو اطاعت مت کرو۔ والدین جو اللہ کے راستہ میں حائل ہوتے ہیں یہ ان کی نادانی کی محبت ہے حالانکہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کا بچہ اللہ والا ہوجائے نیک اولاد صدقۂ جاریہ ہے۔ جو نیک کام یہ کرے گا اس کا ثواب ان کو پہنچتا رہے گا۔ ان کے مرنے کے بعد بھی جب تک نیک اولاد زندہ رہتی ہے والدین کو ثواب پہنچتا رہتا ہے۔ یہ کوٹ پتلون والے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ ان کی کار کام آئے گی نہ بنگلہ کام آئے گا۔ ان والدین کو تو اپنی خوش نصیبی پر شکر ادا کرنا چاہیے بجائے اس کے فکر مند ہوتے ہیں۔ مجھے تو انتہائی خوشی ہو اگر مظہر میاں خالی دین کے کام میں لگے رہیں اور دنیا کی طرف بالکل متوجہ نہ ہوں تو مجھے تو کبھی یہ خیال نہ آئے کہ یہ اپنی زندگی تباہ کررہے ہیں۔ خوش قسمتی کو اگر آدمی تباہی سمجھ لے تو اس کی بدنصیبی ہے۔




 ملفوظات حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

مرتبہ: سید عشرت جمیل میر

علم کی حفاظت کے لیے نصیحت

۳۰؍ مئی ۱۹۶۹؁ء بروز جمعہ مدرسہ امداد العلوم کراچی واقع موسیٰ کالونی



بعد فجر مدرسہ میں حضرت والا مع چند متعلقین  تشریف لائے۔ چائے کی دعوت تھی۔ کچھ صاحبان بغیر پنسل کاغذ آگئے تھے فرمایا کہ کیا آپ لوگوں نے یہ سمجھا کہ بس چائے پی کر اور گپ شپ کرکے واپس آجائیں گے۔ مسلمان کی خلوت ہو یا جلوت اللہ کے ذکر سے خالی نہیں ہوسکتی۔ ایسی مجلس جو اللہ کے ذکر سے خالی ہو اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منحوس فرمایا ہے۔ یہ ہماری مجلسیں بھی اسی لیے ہوتی ہیں کہ اللہ کی یاد میں ترقی ہو۔ کسی کام میں لگے ہوئے ہو دل اللہ کے ساتھ رہے کوئی لمحہ اللہ کی یاد سے غافل نہ گذرے جیسے صحابہ کی شان تھی کہ شام میں ہیں اونٹوں پر غلہ لاد رہے ہیں اور زبان پر اللہ کا تذکرہ چھڑا ہوا ہے۔



جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں



کوئی محفل ہو تیرا رنگ محفل دیکھ لیتے ہیں



ہماری کوئی تقریب محض ہنسی مذاق اور گپ شپ اور تفریح کے لیے نہیں ہوتی یہ تو کافروں کا شیوہ ہے کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ دوسرے اپنے مربی کی باتوں کی حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ انہی باتوں میں تمہارے دل کی تربیت کا سامان موجود ہے۔ ممکن ہے کسی موقع پر ایسی بات منہ سے نکل جائے جو پچھلے پندرہ سال میں نہ نکلی ہو اور آئندہ بھی پھر کبھی منہ سے نہ نکلے کیونکہ اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ میں تو اپنے شیخ کے ساتھ جب بھی ہوتا تھا چاہے سفر پہ ہوں یا گھر پر یا کہیں ہمیشہ اپنی جیب میں ایک کاغذ پنسل رکھتا تھا۔ ایک بار تانگہ میں تشریف لئے جارہے تھے بخاری شریف پڑھتے پڑھتے ایک دم کتاب بند کردی اور فرمایا حکیم اختر سن لو دعا مانگتے مانگتے اگر آنسو نکل پڑیں تو سمجھ لو قبول ہوگئی۔



اگر میرے پاس اس وقت کاغذ پنسل نہ ہوتی تو میں بھی ایسے ہی بیٹھا رہتا۔ علم کی بڑی قدر کرنی چاہیے جو شخص علم کی قدر نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اسے محروم رکھتے ہیں۔ آئندہ اگر کوئی خالی ہاتھ آیا تو اس کو سزا دی جائے گی۔ جیسے کوئی یوں کہے کہ گلاب جامن کھا نہیں تو ڈنڈے ماروں گا، گلاب جامن کے لیے ڈنڈا کھانا بے وقوفی ہے کہ نہیں۔ اللہ کا ذکر تو دنیا کی تمام گلاب جامن سے کہیں زیادہ لذیذ ہے۔

اللہ والی محبّت اورصحبتِ اہل اللہ کے عبادت سے افضل ہونے کی وجہ

احادیث نبویہ - خزائن الحدیث

وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ وَالْمُتَجَا لِسِیْنَ فِیَّ وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّ

(مؤطا مالک،کتابُ الجامع،باب ماجآء فی المتحابین فی اللہ،ص:۷۲۳)



ترجمہ: میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہوجاتی ہے جو میری وجہ سے آپس میں محبت کرتے ہیں اور میری محبت میں آپس میں مل بیٹھتے ہیں اور میرے لیے آپس میں ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔



یہ اللہ والی محبت اتنی بڑی نعمت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ جو لوگ میری وجہ سے آپس میں محبت کرتے ہیں میری محبت ان کے لیے واجب ہو جاتی ہے یعنی احساناََ اپنے ذمہ واجب کر لیتا ہوں۔ میں ان سے محبت کرنے لگتا ہوں جس کی برکت سے وہ مجھ سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ مگر صرف قلبی محبت پر اکتفا نہ کرو جسم کو بھی اللہ والوں کے پاس لے جائو کیونکہ قلب چل نہیں سکتا قالب کے ذریعہ جائے گا لہٰذا فرمایا وَالْمُتَجَا لِسِیْنَ فِیَّ اپنے قلب کو قالب کی سواری پر لے جائو اور اللہ والوں کے پاس جا کر بیٹھو اس کے بعدوَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ فرمایا اور ایک دوسرے کی زیارت کرتے رہو، وہیں نہ رہ جائو کہ بال بچوں کو اور ذریعۂ معاش و تجارت کو چھوڑ دو اور اس کے بعد وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّہے کہ یہ بندے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ جان لے لینا لیکن مال کی بات نہ کرنا۔ گر جاںطلبی مضایقہ نیست ور زر طلبی سخن درین ست۔ لہٰذا ایک دوسرے پر خرچ بھی کرو۔ صوفیاء کو اللہ نے یہ نعمت بھی عطا فرمائی ہے کہ ایک دوسرے پر خرچ بھی کرتے ہیں۔


(فیوضِ ربانی، صفحہ:۱۰)

صحبتِ اہل اللہ کے عبادت سے افضل ہونے کی وجہ

حضرت حکیم الامت نے مفتی شفیع صاحب سے فرمایا کہ ایک شاعر نے جو کہا ہے کہ اہل اللہ کی صحبت سو سال کی اخلاص والی عبادت سے بہتر ہے یہ اس نے کم کہا ہے، اللہ والوں کی صحبت ایک لاکھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ اللہ والوں کی صحبت سے اللہ ملتا ہے اور کثرتِ عبادت سے ثواب ملتا ہے۔ اور اہل اللہ کی صحبت کے عبادت سے افضل ہونے کی دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ مَنْ اَحَبَّ عَبْدًالاَ یُحِبُّہٗ اِلاَّ ِﷲِ کہ جو کسی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے تو اس کو اللہ تعالیٰ حلاوتِ ایمانی عطا فرمائیں گے اور حلاوتِ ایمانی جس کو نصیب ہو گی اس کا خاتمہ ایمان پر ہونے کی بشارت ہے۔ دیکھئے اس محبت للّٰہی پر کسی ثواب کا وعدہ نہیں فرمایا گیا بلکہ حلاوتِ ایمانی عطا فرمائی کہ ہم اسے مل جائیں گے۔

(فیوضِ ربانی، صفحہ:۵۳)

صحبت شیخ سے کیا ملتا ہے؟

بنگلہ دیش میں ایک عالم نے مجھ سے سوال کیاکہ ماں باپ کو رحمت کی نظر سے دیکھنے سے ایک حج مقبول کا ثواب ملتا ہے تو اپنے شیخ کو دیکھنے سے کیا ملتا ہے؟ میرے قلب کو فوراَ اللہ تعالیٰ نے یہ جواب عطا فرمایا کہ ماں باپ کو دیکھنے سے کعبہ ملتا ہے اور مرشد کو دیکھنے سے کعبہ والا ملتا ہے، رب الکعبۃ ملتا ہے کیونکہ حدیث شریف میں ہے: اِذَا رُأُوْا ذُکِرَ (اللہ(مسند احمد،مسند الشامین

اللہ والوں کی پہچان یہی ہے کہ ان کو دیکھنے سے اللہ یاد آتا ہے ۔ ان کی صحبت سے اصلاح ہوتی ہے۔ اصلاح کے لیے انسان چاہیے اسی لیے پیغمبر بھیجے جاتے ہیں۔ اگر کعبہ شریف میں اصلاح کی شان ہوتی تو تین سو ساٹھ بت کعبہ کے اندر رکھے ہوئے نہ ہوتے۔ نبی اور پیغمبر اصلاح کرتا ہے پھر کعبہ شریف کی تجلیات نظر آتی ہیں ورنہ کفر کے موتیا سے جس کے دل کی آنکھیں اندھی ہیں وہ کعبہ کے انوار کیا دیکھے گا۔


(فیوضِ ربانی، صفحہ:۵۴)

تصوف کا ایسا غلبہ کہ شریعت کے مسائل کا اہتمام نہ رہے یہ بہت خطرناک حالت ہے۔

بکھرتے موتی - ملفوظاتِ حضرت والا ہردوئیؒ
تصوف کا ایسا غلبہ کہ شریعت کے مسائل کا اہتمام نہ رہے یہ بہت خطرناک حالت ہے۔

ارشاد فرمایا کہ نقل کی برکت اصل تک پہنچادیتی ہے۔ ڈرائیور کی نقل کرتے کرتے آدمی ڈرائیور ہوجاتا ہے جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وضع قطع اور لباس کی نقل کی تھی نقل کی برکت سے سیرت بھی بدل دی گئی اور سب کو ایمان عطا کردیا گیا۔ اور سب کے سب کافر سے صحابی ہوگئے۔



اسی طرح شیطان کی نقل سے شیطان کی سیرت بھی آجاتی ہے مثلاً شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا کہ ہرگز ہرگز کوئی بائیں ہاتھ سے نہ کھاوے اس قدر اہتمام سے منع فرمایا جو نہایت ہی بلیغ انداز ہوتا ہے اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ فاسقین کی نقل سے سخت پرہیز کرنا چاہیے اور راز اس میں یہ ہے کہ جس کی نقل کی جاتی ہے اس کی یا محبت یا عظمت دل میں ہوتی ہے پھر اس کی عادتیں اندر آنے لگتی ہیں دل میں جس کی عظمت و محبت ہوتی ہے اعمال اس عظمت و محبت پر شہادت پیش کرتے ہیں چنانچہ انگریز کو دیکھئے بائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں ان کے اندر شیطان کی خودبینی تکبر اور بڑوں پر اعتراض کا مادہ ہوتا ہے اور جو لوگ پائجامہ ٹخنے سے نیچے لٹکاتے ہیں چونکہ یہ متکبرین کی وضع ہے اس لیے اس کی نقل کرنے والوں میں تکبر اور اپنے بڑوں پر اعتراض، بدگمانی وغیرہ کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹخنہ سے نیچے پائجامہ یا لنگی کو یا کرتا و قمیص و عبا کو لٹکانے سے منع فرمایا ۔(احقر جامع عرض کرتا ہے کہ بعض اہل علم بعض روایت کی تکبر کی قید سے اس کو قید احترازی سمجھ کر یہ سمجھ گئے کہ اگر تکبر سے نہ ہو تو درست ہے یہ ان کو سخت علمی دھوکہ شیطان نے دیا ہے۔ علمائے محققین فرماتے ہیں کہ تکبر یہاں قید واقعی ہے یعنی جو بھی ٹخنہ سے نیچے لٹکاتا ہے وہ تکبر ہی سے لٹکاتا ہے(البتہ وہ بیمار جن کا پیٹ آگے نکل آتا ہے) اس کی ایک نظیر قرآن پاک میں ارشاد ہے لا تقتلوا اولادکم من خشیۃ املاق تنگ دستی کے خوف سے اپنے بچوں کو مت قتل کرو تو کیا مالداروں کو قتل اولاد جائز ہوجائے گا۔ بلکہ یہاں وہی قید واقعی ہے کہ جو بھی قتل کرتا تھا بخوف تنگ دستی ہی کرتا تھا۔)



ارشاد فرمایا کہ جب توراۃ پر عمل نہ کرنے والوں کو قرآن پاک میں گدھا قرار دیا گیا تو قرآن پاک جو توراۃ سے افضل ہے اس کے علم رکھنے کے بعد بے عمل ہونے والا کیا مستحق وعید نہ ہوگا۔



ارشاد فرمایا کہ جو آدمی خام ہوتا ہے وہی اہل دولت کے ہاتھ فروخت ہوجاتا ہے یا خوف مخلوق سے یا طمع مال سے اپنا دینی رنگ اور مذاق اور اصول شریعت کو توڑ دیتا ہے اس کی ایک عجیب مثال اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے صراحی خام میں پانی ڈالئے وہ مٹھی گھل کر اپنا وجود بھی غائب پائے گی اور اگر آگ میں پکادی جاوے تو پختہ صراحی کا پانی صراحی کے وجود کو نہیں مٹاسکتا بلکہ صراحی اس کو اپنے فیض سے ٹھنڈا کرے گی۔ یہی حال اس عالم ربانی کا ہے جو بزرگوں کی صحبت میں پختہ ہوجاتے ہیں پھر مخلوق سے اختلاط اشاعت دین کے لیے ان کو مضر نہیں ہوتا نہ جاہ نہ مال نہ شہرت کوئی فتنہ ان کو خراب نہیں کرتا۔ استقامت کی نعمت ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ہر وقت صاحب نسبت ہونے کے سبب حق تعالیٰ پر نظر ہوتی ہے کہ قبر میں صرف رضائے حق کام آوے گی نہ جاہ نہ شہرت نہ ہجوم خلق یعنی معتقدین کا مجمع وہاں کام نہ آوے گا ؎


ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے

تہہِ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے

 
پس صراحی کی مثال سے خام سالک اور پختہ سالک کے حالات خوب سمجھ میں آسکتے ہیں خام سالک دوسروں سے متاثر ہوجاتا ہے اور پختہ سالک دوسروں کو متاثر کردیتا ہے۔

 
ارشاد فرمایا کہ اہل اللہ سے بغض و عناد اور ان کو ایذاء دینا دنیا میں ہی اکثر ذلیل کرتا ہے ؎

 
بس تجربہ کردیم دریں دیر مکافات

بادُرد کشاں ہر کہ درافتاد برافتاد


ارشاد فرمایا کہ ایک جگہ حاضری ہوئی اذان کی غلطیاں سن کر سخت رنج ہوا۔ میں نے وعظ میں صرف یہ گذارش کردی کہ اذان صحیح نہیں ہے اذان کی اصلاح ہونی چاہیے۔ بعد میں کمیٹی کے کسی صاحب نے دریافت کیا کہ صاحب وہ کیا غلطیاں ہوئیں ہیں ذرا ہم کو بتادیجئے میں نے کہا بہت اچھا سنئے۔


(۱) اللہ کو اتنا کھینچا جس کو کوئی قاعدہ نہیں شرح وقایہ میں دیکھئے تلحین و ناجائز لکھا ہے۔



(۲) لا الہ میں الہ کو ۲ مد کے برابر کھینچا۔



(۳) رسول میں وائو کو کھینچا جس سے مد پیدا ہوا۔



معلوم ہوا کہ موذن صاحب کی تنخواہ صرف ۶۰ روپے ہے بتائیے پھر اتنی معمولی تنخواہ میں بڑھیا موذن کیسے مل جاوے گا۔ افسوس کہ اس زمانے میں وکیل بڑھیا ہو، ڈاکٹر بڑھیا ہو، انگریزی پڑھانے کا استاد بڑھیا، مگر موذن اور قرآن پڑھانے والا استاد سستا ہو۔ دنیاوی تعلیم کا مدرس بڑھیا اور اس کی تنخواہ بھی زیادہ اور قرآن پاک جو احکم الحاکمین کا کلام ہے اس کے لیے استاد سستا والا۔ اصلی گھی تو زیادہ پیسے سے ملتا ہے اور سستا مال تو ڈالڈا ہی ہوگا۔



ایک جگہ حاضری ہوئی تو اذان اس قدر جلدجلد دی کہ درمیان میں اتنا موقع ہی نہ دیا کہ اذان کا جواب دیا جاسکے۔



آج کل مسجد کے جسم پر توجہ ہے اور روح پر نہیں۔ معلوم کیا کہ مسجد کتنے میں تعمیر ہوئی تو معلوم ہوا ۲ لاکھ کی تعمیر ہوئی۔



میں نے عرض کیا کہ مسجد تو ۲ لاکھ کی اور موذن ۶۰ روپیہ کا۔



ایک مسجد میں تکبیر موذن صاحب نے اس طرح کہا حی علی الصلوٰۃِ حی علی الصلوٰۃ حی علی الفلاحِ حی علیٰ الفلاح اور کسی کو فکر بھی نہیں، اذان اور تکبیر کو غور سے سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔



تکبیر کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ایک سانس میں ۴؍ مرتبہ اللہ اکبر کہے پھر ایک سانس میں اشہدان لا الہ الا اللہ اشہد ان لا الہ الا اللہ کہے، پھر ایک سانس میں اشہد ان محمداً رسول اللہ اشہد ان محمداً رسول اللہ کہے پھر ایک سانس میں حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ کہے اور پھر ایک سانس میں حی علیٰ الفلاح، حی علیٰ الفلاح، کہے اور پھر ایک سانس میں اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الا الہ اللہ کہے۔



ایک غلطی قراء کرام یہ کرتے ہیں کہ یہاں بھی تجوید کا قاعدہ جاری کرتے ہیں مثلاً اشہد ان لا الہ الا اللہ اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان محمداً رسول اللہ، اشہد ان محمداً رسول اللہ حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ کہتے ہیں حی علی الفلاح حی علی الفلاح یعنی پہلے کلمہ کے آخری حرف کے اعراب کو ظاہر کرتے ہیں اور دوسرے کلمہ کے آخر حرف پر جزم پڑھتے ہیں حالانکہ یہاں قرأت کا قاعدہ جاری کرنا ممنوع ہے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں الا ذان جزمٌ والاقامۃ جزمٌ والتکبیر جزمٌ اور ایک روایت میں التکبیر جزم والتسمیع جزمٌ ہے۔ (شامی ،ج۱؍ صفحہ ۳۲۳)



ایک جگہ حاضری ہوئی مسجد بہت شاندار لیکن امام صاحب نے جب نماز پڑھائی تو بے حد صدمہ ہوا امام صاحب نے سورہ ناس اس طرح پڑھائی من الجنات والنس حروف کی صحت نہایت ضروری ہے اب تو بیعت کرتے وقت احقر عہد لیتا ہے کہ تلاوت مع الصحت کروں گا۔



حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ نے جمال القرآن کے اندر لحن جلی کو حرام لکھا ہے یعنی اگر صاد کو سین پڑھ دیا یا ذال کو زا پڑھ دیا وغیرہ صرف ۲؍ مہینہ اور صرف دس منٹ انسان محنت کرت کسی قاری صاحب کے پاس تو انشاء اﷲ تعالیٰ بقدر ضرورت تلاوت صحیح کرسکے گا۔ تھانہ بھون میں بعض بڑے بڑے محدث اور مفسر کو بھی نورانی قاعدہ پڑھنا پڑا۔ آج ہمارے مشایخ کے یہاں بھی اس کا اہتمام ہونا چاہیے کہ خود بھی تلاوت مع الصحت کا اہتمام ہو اور طالبین کو بھی توجہ دلائیں مراقبہ اور استغراق اور وظائف اور حقائق و معارف کے ساتھ ایسے ضروری امور کا بھی اہتمام ضروری ہے۔ یہ حق تعالیٰ کی عظمت کا حق ہے کہ ان کے کلام کی عظمت ہو اور عظمت کلام کا حق ہے کہ صحت حروف کے ساتھ تلاوت ہو۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بے فکری اور کاہلی اور سستی سے صحیح نہ پڑھنا کس قدر گستاخی ہے اور اندیشہ مواخذہ کا ہے تصوف کا ایسا غلبہ کہ شریعت کے مسائل کا اہتمام نہ رہے یہ بہت خطرناک حالت ہے۔ اور اگر مغلوب الحال ہے تو مقتدا بنانا ایسے مغلوب کو جائز نہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ؎

خواجہ پندارد کہ دارد حاصلے
حاصلِ خواجہ بجز پندار نیست


ارشاد فرمایا کہ دعا نہ قبول ہونے کا سبب حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھلائی کا پھیلانا اور برائی سے روکنا امت میں جاری نہ رہا تو عذاب عام میں ابتلا ہوگا اور دعا بھی قبول نہ ہوگی۔


ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب نے کہا کہ فلاں شادی میں شرکت سے بڑا صدمہ ہوا فوٹو کھینچے گئے اور ریکارڈنگ بھی ہوئی گانا بجانا اور تصویر کھنچانے کے گناہ میں ہم بھی مبتلا ہوگئے۔ وہاں سے اٹھنے میں خاندان کے لوگوں کا لحاظ اور دبائو معلوم ہوا میں نے کہا اچھا اگر شادی والے ایک خوبصورت پلیٹ میں چاندی کے ورق کے ساتھ مکھی کی چٹنی پیش کرتے تو آپ خاندان کے لحاظ اور دبائو سے کھالیتے یا نہیں یا اٹھ کر چلے آتے؟ کہنے لگے اٹھ کر چلا آتا فرمایا کہ پھر حسی منکر کے ساتھ جو معاملہ ہے کم از کم وہی معاملہ شرعی منکر سے بھی کیجئے۔ ایک صاحب نے کہا کہ مکھی کی چٹنی تو طبعی منکر بھی ہے طبعی کراہت معلوم ہوتی ہے اور گناہوں سے اس طرح کی طبعی کراہت نہیں معلوم ہوتی میں نے کہا اچھا سنکھیا اگر کھلایا جاوے کسی شادی میں تو آپ کھالیں گے کیا سنکھیا بھی طبعی منکر ہے طبعی کراہت تو اس سے نہیں ہوتی پس جس طرح یہ عقلی منکر آپ نہیں کھا سکتے اسی طرح گناہ کے ساتھ معاملہ کیجئے۔