دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

18 July 2010

اللہ کی محبّت کا غم،درسِ تسلیم و رضا،اذکار و وظائف کا مقصد

اللہ کی محبّت کا غم


فرمایا کہ ؎
ساقیا برخیز دردہ جام را
خاک برسر کن غمِ ایام را

حافظ شیرازی فرماتے ہیں کہ اے ساقی اٹھ یعنی اے اللہ کرم فرمائیے اپنی محبت کا جام پلادیجئے اور غم ایام کے سر پر خاک ڈال دیجئے۔ نشہ میں کوئی غم معلوم ہوتا ہے؟ بس ایک غم ہوتا ہے، محبوب کا غم جو مست کیے رہتا ہے ہرحال میں ان کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ کوئی حال ہو نظر اللہ تعالیٰ پر رہتی ہے کہ اگر وہ خوش ہیں تو ہر غم لذیذ ہے ورنہ اگر وہ خوش نہیں تو تخت و تاج بے کار ہے۔ جنہیں وہ اپنی محبت کا جام پلا دیتے ہیں دنیا کے غموں سے بے نیاز کردیتے ہیں۔ ان کی محبت کا نشہ کسی حال میں نہیں اترتا، تلواروں کی دھار کے نیچے بھی نہیں اترتا۔ جہاد میں سیسے کی دیوار بنے کھڑے ہیں جسم کے پرخچے اڑ رہے ہیں، کیوں نہیں بھاگتے؟ جان پر سے یہ نشہ ہی تو نہیں اترتا۔ بخلاف اس کے دنیا کا غم کمر توڑ دیتا ہے کیونکہ بیہودہ ہے۔ اللہ کا غم لذیذ ہے ایسا نشہ رکھتا ہے کہ غم ایام کے سر پر خاک ڈال دیتا ہے ؎

وہ تو کہئے کہ ترے غم نے بڑا کام کیا

ورنہ مشکل تھا غم زیست گوارا کرنا

اللہ کی نافرمانیوں سے بچنے میں جو غم اٹھانا پڑتا ہے اللہ کی محبت ہی اسے گوارا کرتی ہے۔ ان کا غم جس سینہ میں نہیں ہوتا وہ نافرمانیوں سے بچنے کے غم کو گوارا نہیں کرسکتا۔ مصیبت میں گرفتار ہوجانا معصیت میں گرفتار ہوجانے سے کہیں بہتر ہے کیونکہ مصیبت تو اللہ کا اور مقرب کردیتی ہے اور معصیت اللہ سے دور کردیتی ہے۔ ایک بزرگ کسی مصیبت میں مبتلا تھے کسی نے دیکھا تو بڑا اظہار افسوس کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ مصیبت میں گرفتار ہوں معصیت میں نہیں الحمدﷲ کہ بمصیبتے گرفتار ہستم نہ بمعصیتے۔ معصیت سے بچنے کے لیے مصیبت بھی مول لی جاتی ہے آخر کیا بات تھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بیڑیاں پڑ رہی ہیں زنداں میں ڈالا جارہا ہے سب کچھ منظور ہے لیکن محبوب کی نافرمانی منظور نہیں۔


حسن جب مقتل کی جانب تیغ براں لے چلا

عشق اپنے مجرموں کو پابہ جولاں لے چلا


آں چنانش انس و مستی داد حق
کہ نہ زنداں یادش آمد نے غَسَق

زنداں میں انہیں ایسی عشق و مستی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی کہ نہ پھر انہیں زنداں یاد آیا نہ زنداں کی تاریکی۔

کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگراست

جن کے سینہ اللہ کی محبت سے خالی ہیں وہ اس خنجر تسلیم کی لذت کو کیا جانیں۔ ان دنیادار بوالہوسوں کو کیا معلوم کہ اللہ کے غم میں کیا لذت ہے وہ تو ہوس رانی میں لگے ہوئے ہیں اور اس غم سے محروم ہیں جو اللہ کی محبت میں اپنی ہوس کو تشنہ رکھنے میں آتا ہے اور خواہشات کو شمع رضائے الٰہی میں جلانے سے میسر آتاہے۔ سوز غم تو پروانوں کو ہی ملتا ہے کبھی کسی مکھی کو شمع پر جلتے ہوئے دیکھا ہے؟ مکھی کیا جانے کہ شمع پر جل جانے میں کیا مزا ہے۔ سرمد بڑے مشہور صوفی گزرے ہیںدہلی میں مدفون ہیں فرماتے ہیں ؎

سر مدغم عشق بولہوس را نہ دہند
سوز غم پروانہ مگس را نہ دہند

اللہ تعالیٰ اپنا عشق کا بوالہوس یعنی دنیا داروں کو نہیں دیتے اپنے عاشقوں کو عطا فرماتے ہیں۔ پر وانے کا سوزغم پروانے کو ہی دیتے ہیں مکھی کو نہیں دیتے۔ یہ دنیا دار تو مکھی ہیں جو دنیا کی لذتوں اور گناہوں کی غلاظت پر بھنبھنا رہی ہو، اپنی ہوس کے تقاضوں پر عمل کررہی ہیں انہیں پروانوں کا سوز غم یعنی اللہ تعالیٰ کا عشق نصیب نہیں۔ کیا کسی مکھی کو شمع کے قریب جاتے ہوئے دیکھا ہے؟ جیسے مکھی شمع کے عشق سے محروم ہے ایسے ہی یہ دنیا دار اللہ کے عشق سے محروم ہیں۔ درد عشق تو ان کو ہی عطا ہوتا ہے جو پروانوں کی طرح خود کو اپنے ارادوں کو گناہ کے تقاضوں کو رضائے الٰہی کی شمع پر جلا کر خاکستر کررہے ہیں اپنی خواہشات کو مرضیات الٰہیہ میں فنا کردیتے ہیں نافرمانیوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ کبھی کسی پروانے کو غلاظت کے قریب جاتے ہوئے دیکھا ہے؟

 
سرمد گلہ اختصار می باید کرد

یک کار ازیں دوکار می باید کرد

یاتن بہ رضائے دوست می باید داد
یا قطع نظر زیار می باید کرد


فرماتے ہیں کہ اے سرمد شکایت کو مختصر کرو اور ان دو کاموں میں سے ایک کام کرو یا تو اپنے جسم کو رضائے دوست کے حوالے کردو یعنی احکام جسم کو رضائے الٰہی کے تابع کردو یا پھر دوست سے ہی نظر اٹھا لو یعنی یا تو اپنی خواہشات نفسانیہ کو مرضیات الٰہیہ میں فنا کردو اگر ایسا نہیں کرسکتے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں نہ ملیں گے۔

درسِ تسلیم و رضا


بندہ کو ہر حال میں راضی برضا رہنا چاہیے۔ حالات موافق ہوں شکر ادا کرو کہ اے اللہ میں اس قابل نہ تھا میری نا اہلیت کے باوجود آپ نے اپنا فضل فرمایا اور حالات مخالف ہوں تو اور یقین رکھو کہ اس میں ہی تمہاری کوئی مصلحت ہے البتہ اپنی حاجت کے لیے گریہ و زاری کرتے رہو مانگتے رہو۔ شکایت کا کوئی لفظ زبان پر نہ آئے نہ دل میں کوئی غلط خیال رہے مثلاً کسی کی شادی نہیں ہوتی تو یوں سوچنے لگے کہ اگر ہمارے پاس مال و دولت ہوتی تو ہماری بھی شادی ہوجاتی۔ خوب سمجھ لو کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہیں پوری کائنات اور کائنات کا ہر ذرہ اس کی زیرِ ربوبیت ہے۔ امیر ان کی ربوبیت سے خارج نہیں۔ اگر امیروں کو آرام میں دیکھتے ہو تو وہ بھی ان کی ربوبیت کی ایک شان ہے ان کا یہ آرام روپیہ پیسہ کی وجہ سے نہیں ہے۔ مال میں یہ اثر نہیں ہے کہ ان کی خواہشات کو پورا کردے۔ جس کو چاہتے ہیں جس حال میں رکھتے ہیں۔ کتنے امیر ایسے ہیں کہ مال دھرا رہ جاتا ہے اور ان کی آرزوئیں دل کی دل میں ہی رہ جاتی ہیں۔ یوں تو کفار بھی دنیا میں عیش اڑا رہے ہیں کیا کسی مسلمان کے دل میں نعوذباﷲ یہ تمنا ہوسکتی ہے کہ ہم بھی کافر ہوتے کہ خوب عیش اڑاتے۔ ایسی تمنا کرنا بھی کفر ہے۔ خوب سمجھ لو کہ روس اور امریکہ بہ رعایت مراحمِ خسروانہ زندگی کے ایام گذار رہے ہیں کبھی ان پر لالچ نہ کرنا۔ پھانسی کے مجرم ہیں حکومت نے اپنے خزانہ ہے روپیہ دے دیا ہے کہ پھانسی لگنے سے پہلے پہلے عیش کرلو کوئی آرزو دل میں نہ رہ جائے۔ کیا ایسے مجرم کو کھاتا پیتا دیکھ کر کوئی یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمیں بھی یہ عیش مل جاتا۔ ارے تمہارے پاس تو وہ دولت ہے کہ ساری کائنات اس کے سامنے بے قیمت ہے۔ اپنے پاس خزانہ چھپائے ہوئے ہو اور دربدر کوڑیوں کی بھیک مانگتے پھرتے ہو۔



یک سبد پرناں ترا برفرق سر



توہمی جوئی لب ناں دربدر



روٹی سے بھری ہوئی ایک ٹوکری تیرے سر پر رکھی ہے اور تو روٹی کے ٹکڑے کے لیے دربدر مانگتا پھرتا ہے۔ دولت ایمان کے سامنے دنیا و مافیہا کی تمام نعمتیں ہیچ ہیں۔ جیسے اہل دنیا چاندی کے سکوں کی حفاظت کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ایمان کی حفاظت اور ترقی کی دھن لگی رہنی چاہیے۔



اذکار و وظائف کا مقصد



دین صرف تسبیح گھمانے کا نام نہیں۔ وظائف کا مقصد ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں۔ وظائف اسی لیے بتائے جاتے ہیں کہ یہ استعداد پیدا ہوجائے۔ ورنہ اگر اللہ اللہ تو کررہے ہو لیکن گناہوں سے کوئی پرہیز نہیں تو ایسے وظیفے بالکل بے کار ہیں کیونکہ ان کا مقصدتو حاصل ہی نہیں ہوا۔ موٹے موٹے گناہ کا علم تو ہر شخص کو ہوتا ہے حتیٰ کہ خود گناہگار جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں اور ان سے بچنے کا اہتمام طبیعت میں پیدا ہوجائے۔ مولانا تھانوی علیہ الرحمہ ایک بار سفر کررہے تھے کہ رات کو ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر ٹھہرنا ہوگیا وہاں کا اسٹیشن ماسٹر حضرت کا معتقد تھا لیکن تھا ہندو کیونکہ پلیٹ فارم پر اندھیرا تھا اس لیے وہ لالٹین لے آیا۔ حضرت کو خیال ہوا کہ یہ تو ریلوے کی ہوگی، فرمایا کہ بھائی یہ لالٹین ریلوے کی ملک ہے ریلوے کے کاموںہی میں استعمال ہوسکتی ہے ذاتی استعمال میں لانا ہمارے لیے جائز نہیں اسے واپس لے جائو۔ وہ ہندو رونے لگاکہا کہ یہ ہیں اللہ والے۔ کافروں کے دلوں میں بھی اسلام کی حقانیت کا سکہ بیٹھ جاتا ہے اللہ والوں کو دیکھ کر۔ غرض جس جگہ بھی ہو جس کام پر بھی ہو یہ خیال رہے کہ کوئی ایسی بات تو سرزد نہیں ہورہی جو حق تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو خصوصاً مدرسوں کے اہتمام اور چندہ کے لیے بڑے تقویٰ کی ضرورت ہے۔ مولانا تھانویؒ نے لکھا ہے کہ یہ کام اسی کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے جو اعلیٰ درجہ کا متقی ہو، معمولی تقویٰ والے کو تو اس کام کے قریب بھی نہ جانا چاہیے ورنہ ثابت قدم رہنا سخت مشکل ہے۔ اگر کسی میں تقویٰ نہیں ہے تو بے احتیاطی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ بے احتیاطی اس راہ میں سم قاتل ہے۔ بہت سوں کے حالات خراب ہوگئے۔ ساری ترقی مسدود ہوگئی اور دنیا دار بن کر رہ گئے۔ میرے ایک پیر بھائی تھے ایک مدرسہ کا چندہ وصول کرنا ان کے ذمہ تھا لیکن کرتے کیا تھے کہ ادھر رسید کاٹی اور ادھر خربوزے منگوالئے چائے اڑارہے ہیں لسی پی رہے ہیں۔ نتیجہ کیا ہوا کہ دین تباہ ہوگیا اور بالکل دنیا دار ہوگئے۔ اور صحابہ کا طرز عمل کیا تھا کہ ایک بار بیت المال کا اونٹ کھوگیا۔ حضرت عمر خود تلاش کرنے چل دیئے لوگوں نے عرض کیا کہ آپ ایک اونٹ کی تلاش میں کیوں جارہے ہیں خدام چلے جائیں گے فرمایا کہ قیامت کے دن عمر سے سوال ہوگا، خادموں سے نہیں۔ اگر اللہ نے سوال کرلیا کہ بیت المال کا اونٹ گم ہوگیا تھا تم نے تلاش کیوں نہیں کیا تو کیا جواب دوں گا۔

اللہ کی راہ میں مزاحمت ترقی کا ذریعہ ہے

اللہ کی راہ میں مزاحمت ترقی کا ذریعہ ہے


ایک نے عرض کیا کہ گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت کے پاس آنے سے دنیا کے کام کا نہیں رہے گا اس لیے بعض اوقات کچھ مزاحمت ہوتی ہے فرمایا کہ اس راستہ میں جتنی مزاحمت ہے تو اتنی ہی ترقی ہوتی ہے اور جن کو کچھ مزاحمت نہیں اٹھانا پڑتی ان کی ترقی بھی کم ہوتی ہے جیسے کوئی شخص آگے بڑھنا چاہ رہا ہو اور کوئی اس کو پیچھے کو گھسیٹ رہا ہو تو اس کو آگے بڑھنے کے لیے قوت صرف کرنا پڑے گی اور کیونکہ آگے بڑھنے میں اس کو مشقت ہوگی تو جو کچھ حاصل کرے گا اس کی اس کے دل میں قدر ہوگی اور جدوجہد میں قوت پرواز بھی بڑھتی ہے بہ نسبت اس شخص کے جس کو کچھ مشقت اٹھانی نہیں پڑ رہی وہ ایک خاص رفتار سے آگے بڑھتا رہتا ہے اور جس کو مشقت کرنا پڑتی ہے وہ لامحالہ اپنی رفتار کو تیز کرتا رہتا ہے کہ کہیں گھسیٹنے والا غالب نہ آجائے۔ یہ راستہ ہی ایسا ہے کہ اس میں لوگوں کی لعن طعن بھی سننا پڑتی ہے۔ لیکن اس لعن طعن کے باوجود جو اپنی جگہ پر قائم رہے اس کا ایمان اور تازہ ہوجاتا ہے اس کے دل سے پھر مخلوق کا خوف نکل جاتا ہے بس استقامت کی ضرورت ہے۔ دنیا دار سمجھتے ہیں کہ اللہ والے نکمے ہوتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اہل دنیا اپنی نادانی کی وجہ سے انہیں کاہل کہتے ہیں لیکن آخرت کے کاموں میں تو یہ چاند سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔

کارِ دنیا را زکل کاہل ترند

در رہ عقبیٰ ز مہہ گومی برند

 
یہ دنیا کے کاموں سے کاہل نظر آتے ہیں تم آخرت کے کاموں سے کاہل ہو۔ ذرا ایک گھنٹہ مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرکے دکھا دو تو پتہ چل جائے کہ کیسے جفا کش ہو۔ بات یہ ہے کہ دنیا کی محبت دل میں ہے جس کے بارے میں حدیث شریف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حقیقت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں اور آخرت کی فکر نہیں جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ دنیا آخرت کے تابع ہے، آخرت حقیقت ہے دنیا سایہ۔ سائے کے پیچھے بھاگو گے حقیقت اور دور ہوتی جائے گی۔ آخرت کو پکڑلو سایہ خود قبضہ میں آجائے گا۔ اسی وجہ سے اللہ والوں کو روزی بھی عزت سے ملتی ہے، وہ دنیا کو ٹھکراتے ہیں دنیا ان کے قدموں میں آتی ہے۔ بس اللہ والے بن جائو یعنی جو مشقتیں اس راہ میں اٹھانی پڑیں انہیں جھیل لو۔ کیا جن کے لیے ہم قربان ہونے کو تیار ہیں انہیں اتنی قدرت نہیں کہ ہماری ضروریات کو پورا کردیں۔ جب آخرت عطا فرمادیں گے تو دنیا جیسی حقیر چیز کیوں نہ دیںگے۔ بہرحال اپنے کام میں لگا رہنا چاہیے اور والدین اگر اس راستہ میں حائل ہوتے ہیں انہیں نرمی سے سمجھادینا چاہیے۔ اگر کبھی کچھ سخت الفاظ نکل جائیں تو دوسرے وقت انہیں راضی کرلو۔ والدین کے سامنے کندھوں کو جھکائے رہو اور اف تک مت کہو۔ ہاں اگر کسی گناہ کے کام کا حکم کریں تو اطاعت مت کرو۔ والدین جو اللہ کے راستہ میں حائل ہوتے ہیں یہ ان کی نادانی کی محبت ہے حالانکہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کا بچہ اللہ والا ہوجائے نیک اولاد صدقۂ جاریہ ہے۔ جو نیک کام یہ کرے گا اس کا ثواب ان کو پہنچتا رہے گا۔ ان کے مرنے کے بعد بھی جب تک نیک اولاد زندہ رہتی ہے والدین کو ثواب پہنچتا رہتا ہے۔ یہ کوٹ پتلون والے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ ان کی کار کام آئے گی نہ بنگلہ کام آئے گا۔ ان والدین کو تو اپنی خوش نصیبی پر شکر ادا کرنا چاہیے بجائے اس کے فکر مند ہوتے ہیں۔ مجھے تو انتہائی خوشی ہو اگر مظہر میاں خالی دین کے کام میں لگے رہیں اور دنیا کی طرف بالکل متوجہ نہ ہوں تو مجھے تو کبھی یہ خیال نہ آئے کہ یہ اپنی زندگی تباہ کررہے ہیں۔ خوش قسمتی کو اگر آدمی تباہی سمجھ لے تو اس کی بدنصیبی ہے۔




 ملفوظات حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

مرتبہ: سید عشرت جمیل میر

علم کی حفاظت کے لیے نصیحت

۳۰؍ مئی ۱۹۶۹؁ء بروز جمعہ مدرسہ امداد العلوم کراچی واقع موسیٰ کالونی



بعد فجر مدرسہ میں حضرت والا مع چند متعلقین  تشریف لائے۔ چائے کی دعوت تھی۔ کچھ صاحبان بغیر پنسل کاغذ آگئے تھے فرمایا کہ کیا آپ لوگوں نے یہ سمجھا کہ بس چائے پی کر اور گپ شپ کرکے واپس آجائیں گے۔ مسلمان کی خلوت ہو یا جلوت اللہ کے ذکر سے خالی نہیں ہوسکتی۔ ایسی مجلس جو اللہ کے ذکر سے خالی ہو اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منحوس فرمایا ہے۔ یہ ہماری مجلسیں بھی اسی لیے ہوتی ہیں کہ اللہ کی یاد میں ترقی ہو۔ کسی کام میں لگے ہوئے ہو دل اللہ کے ساتھ رہے کوئی لمحہ اللہ کی یاد سے غافل نہ گذرے جیسے صحابہ کی شان تھی کہ شام میں ہیں اونٹوں پر غلہ لاد رہے ہیں اور زبان پر اللہ کا تذکرہ چھڑا ہوا ہے۔



جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں



کوئی محفل ہو تیرا رنگ محفل دیکھ لیتے ہیں



ہماری کوئی تقریب محض ہنسی مذاق اور گپ شپ اور تفریح کے لیے نہیں ہوتی یہ تو کافروں کا شیوہ ہے کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ دوسرے اپنے مربی کی باتوں کی حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ انہی باتوں میں تمہارے دل کی تربیت کا سامان موجود ہے۔ ممکن ہے کسی موقع پر ایسی بات منہ سے نکل جائے جو پچھلے پندرہ سال میں نہ نکلی ہو اور آئندہ بھی پھر کبھی منہ سے نہ نکلے کیونکہ اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ میں تو اپنے شیخ کے ساتھ جب بھی ہوتا تھا چاہے سفر پہ ہوں یا گھر پر یا کہیں ہمیشہ اپنی جیب میں ایک کاغذ پنسل رکھتا تھا۔ ایک بار تانگہ میں تشریف لئے جارہے تھے بخاری شریف پڑھتے پڑھتے ایک دم کتاب بند کردی اور فرمایا حکیم اختر سن لو دعا مانگتے مانگتے اگر آنسو نکل پڑیں تو سمجھ لو قبول ہوگئی۔



اگر میرے پاس اس وقت کاغذ پنسل نہ ہوتی تو میں بھی ایسے ہی بیٹھا رہتا۔ علم کی بڑی قدر کرنی چاہیے جو شخص علم کی قدر نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اسے محروم رکھتے ہیں۔ آئندہ اگر کوئی خالی ہاتھ آیا تو اس کو سزا دی جائے گی۔ جیسے کوئی یوں کہے کہ گلاب جامن کھا نہیں تو ڈنڈے ماروں گا، گلاب جامن کے لیے ڈنڈا کھانا بے وقوفی ہے کہ نہیں۔ اللہ کا ذکر تو دنیا کی تمام گلاب جامن سے کہیں زیادہ لذیذ ہے۔

اللہ والی محبّت اورصحبتِ اہل اللہ کے عبادت سے افضل ہونے کی وجہ

احادیث نبویہ - خزائن الحدیث

وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ وَالْمُتَجَا لِسِیْنَ فِیَّ وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّ

(مؤطا مالک،کتابُ الجامع،باب ماجآء فی المتحابین فی اللہ،ص:۷۲۳)



ترجمہ: میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہوجاتی ہے جو میری وجہ سے آپس میں محبت کرتے ہیں اور میری محبت میں آپس میں مل بیٹھتے ہیں اور میرے لیے آپس میں ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔



یہ اللہ والی محبت اتنی بڑی نعمت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ جو لوگ میری وجہ سے آپس میں محبت کرتے ہیں میری محبت ان کے لیے واجب ہو جاتی ہے یعنی احساناََ اپنے ذمہ واجب کر لیتا ہوں۔ میں ان سے محبت کرنے لگتا ہوں جس کی برکت سے وہ مجھ سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ مگر صرف قلبی محبت پر اکتفا نہ کرو جسم کو بھی اللہ والوں کے پاس لے جائو کیونکہ قلب چل نہیں سکتا قالب کے ذریعہ جائے گا لہٰذا فرمایا وَالْمُتَجَا لِسِیْنَ فِیَّ اپنے قلب کو قالب کی سواری پر لے جائو اور اللہ والوں کے پاس جا کر بیٹھو اس کے بعدوَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ فرمایا اور ایک دوسرے کی زیارت کرتے رہو، وہیں نہ رہ جائو کہ بال بچوں کو اور ذریعۂ معاش و تجارت کو چھوڑ دو اور اس کے بعد وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّہے کہ یہ بندے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ جان لے لینا لیکن مال کی بات نہ کرنا۔ گر جاںطلبی مضایقہ نیست ور زر طلبی سخن درین ست۔ لہٰذا ایک دوسرے پر خرچ بھی کرو۔ صوفیاء کو اللہ نے یہ نعمت بھی عطا فرمائی ہے کہ ایک دوسرے پر خرچ بھی کرتے ہیں۔


(فیوضِ ربانی، صفحہ:۱۰)

صحبتِ اہل اللہ کے عبادت سے افضل ہونے کی وجہ

حضرت حکیم الامت نے مفتی شفیع صاحب سے فرمایا کہ ایک شاعر نے جو کہا ہے کہ اہل اللہ کی صحبت سو سال کی اخلاص والی عبادت سے بہتر ہے یہ اس نے کم کہا ہے، اللہ والوں کی صحبت ایک لاکھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ اللہ والوں کی صحبت سے اللہ ملتا ہے اور کثرتِ عبادت سے ثواب ملتا ہے۔ اور اہل اللہ کی صحبت کے عبادت سے افضل ہونے کی دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ مَنْ اَحَبَّ عَبْدًالاَ یُحِبُّہٗ اِلاَّ ِﷲِ کہ جو کسی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے تو اس کو اللہ تعالیٰ حلاوتِ ایمانی عطا فرمائیں گے اور حلاوتِ ایمانی جس کو نصیب ہو گی اس کا خاتمہ ایمان پر ہونے کی بشارت ہے۔ دیکھئے اس محبت للّٰہی پر کسی ثواب کا وعدہ نہیں فرمایا گیا بلکہ حلاوتِ ایمانی عطا فرمائی کہ ہم اسے مل جائیں گے۔

(فیوضِ ربانی، صفحہ:۵۳)

صحبت شیخ سے کیا ملتا ہے؟

بنگلہ دیش میں ایک عالم نے مجھ سے سوال کیاکہ ماں باپ کو رحمت کی نظر سے دیکھنے سے ایک حج مقبول کا ثواب ملتا ہے تو اپنے شیخ کو دیکھنے سے کیا ملتا ہے؟ میرے قلب کو فوراَ اللہ تعالیٰ نے یہ جواب عطا فرمایا کہ ماں باپ کو دیکھنے سے کعبہ ملتا ہے اور مرشد کو دیکھنے سے کعبہ والا ملتا ہے، رب الکعبۃ ملتا ہے کیونکہ حدیث شریف میں ہے: اِذَا رُأُوْا ذُکِرَ (اللہ(مسند احمد،مسند الشامین

اللہ والوں کی پہچان یہی ہے کہ ان کو دیکھنے سے اللہ یاد آتا ہے ۔ ان کی صحبت سے اصلاح ہوتی ہے۔ اصلاح کے لیے انسان چاہیے اسی لیے پیغمبر بھیجے جاتے ہیں۔ اگر کعبہ شریف میں اصلاح کی شان ہوتی تو تین سو ساٹھ بت کعبہ کے اندر رکھے ہوئے نہ ہوتے۔ نبی اور پیغمبر اصلاح کرتا ہے پھر کعبہ شریف کی تجلیات نظر آتی ہیں ورنہ کفر کے موتیا سے جس کے دل کی آنکھیں اندھی ہیں وہ کعبہ کے انوار کیا دیکھے گا۔


(فیوضِ ربانی، صفحہ:۵۴)

تصوف کا ایسا غلبہ کہ شریعت کے مسائل کا اہتمام نہ رہے یہ بہت خطرناک حالت ہے۔

بکھرتے موتی - ملفوظاتِ حضرت والا ہردوئیؒ
تصوف کا ایسا غلبہ کہ شریعت کے مسائل کا اہتمام نہ رہے یہ بہت خطرناک حالت ہے۔

ارشاد فرمایا کہ نقل کی برکت اصل تک پہنچادیتی ہے۔ ڈرائیور کی نقل کرتے کرتے آدمی ڈرائیور ہوجاتا ہے جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وضع قطع اور لباس کی نقل کی تھی نقل کی برکت سے سیرت بھی بدل دی گئی اور سب کو ایمان عطا کردیا گیا۔ اور سب کے سب کافر سے صحابی ہوگئے۔



اسی طرح شیطان کی نقل سے شیطان کی سیرت بھی آجاتی ہے مثلاً شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا کہ ہرگز ہرگز کوئی بائیں ہاتھ سے نہ کھاوے اس قدر اہتمام سے منع فرمایا جو نہایت ہی بلیغ انداز ہوتا ہے اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ فاسقین کی نقل سے سخت پرہیز کرنا چاہیے اور راز اس میں یہ ہے کہ جس کی نقل کی جاتی ہے اس کی یا محبت یا عظمت دل میں ہوتی ہے پھر اس کی عادتیں اندر آنے لگتی ہیں دل میں جس کی عظمت و محبت ہوتی ہے اعمال اس عظمت و محبت پر شہادت پیش کرتے ہیں چنانچہ انگریز کو دیکھئے بائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں ان کے اندر شیطان کی خودبینی تکبر اور بڑوں پر اعتراض کا مادہ ہوتا ہے اور جو لوگ پائجامہ ٹخنے سے نیچے لٹکاتے ہیں چونکہ یہ متکبرین کی وضع ہے اس لیے اس کی نقل کرنے والوں میں تکبر اور اپنے بڑوں پر اعتراض، بدگمانی وغیرہ کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹخنہ سے نیچے پائجامہ یا لنگی کو یا کرتا و قمیص و عبا کو لٹکانے سے منع فرمایا ۔(احقر جامع عرض کرتا ہے کہ بعض اہل علم بعض روایت کی تکبر کی قید سے اس کو قید احترازی سمجھ کر یہ سمجھ گئے کہ اگر تکبر سے نہ ہو تو درست ہے یہ ان کو سخت علمی دھوکہ شیطان نے دیا ہے۔ علمائے محققین فرماتے ہیں کہ تکبر یہاں قید واقعی ہے یعنی جو بھی ٹخنہ سے نیچے لٹکاتا ہے وہ تکبر ہی سے لٹکاتا ہے(البتہ وہ بیمار جن کا پیٹ آگے نکل آتا ہے) اس کی ایک نظیر قرآن پاک میں ارشاد ہے لا تقتلوا اولادکم من خشیۃ املاق تنگ دستی کے خوف سے اپنے بچوں کو مت قتل کرو تو کیا مالداروں کو قتل اولاد جائز ہوجائے گا۔ بلکہ یہاں وہی قید واقعی ہے کہ جو بھی قتل کرتا تھا بخوف تنگ دستی ہی کرتا تھا۔)



ارشاد فرمایا کہ جب توراۃ پر عمل نہ کرنے والوں کو قرآن پاک میں گدھا قرار دیا گیا تو قرآن پاک جو توراۃ سے افضل ہے اس کے علم رکھنے کے بعد بے عمل ہونے والا کیا مستحق وعید نہ ہوگا۔



ارشاد فرمایا کہ جو آدمی خام ہوتا ہے وہی اہل دولت کے ہاتھ فروخت ہوجاتا ہے یا خوف مخلوق سے یا طمع مال سے اپنا دینی رنگ اور مذاق اور اصول شریعت کو توڑ دیتا ہے اس کی ایک عجیب مثال اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے صراحی خام میں پانی ڈالئے وہ مٹھی گھل کر اپنا وجود بھی غائب پائے گی اور اگر آگ میں پکادی جاوے تو پختہ صراحی کا پانی صراحی کے وجود کو نہیں مٹاسکتا بلکہ صراحی اس کو اپنے فیض سے ٹھنڈا کرے گی۔ یہی حال اس عالم ربانی کا ہے جو بزرگوں کی صحبت میں پختہ ہوجاتے ہیں پھر مخلوق سے اختلاط اشاعت دین کے لیے ان کو مضر نہیں ہوتا نہ جاہ نہ مال نہ شہرت کوئی فتنہ ان کو خراب نہیں کرتا۔ استقامت کی نعمت ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ہر وقت صاحب نسبت ہونے کے سبب حق تعالیٰ پر نظر ہوتی ہے کہ قبر میں صرف رضائے حق کام آوے گی نہ جاہ نہ شہرت نہ ہجوم خلق یعنی معتقدین کا مجمع وہاں کام نہ آوے گا ؎


ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے

تہہِ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے

 
پس صراحی کی مثال سے خام سالک اور پختہ سالک کے حالات خوب سمجھ میں آسکتے ہیں خام سالک دوسروں سے متاثر ہوجاتا ہے اور پختہ سالک دوسروں کو متاثر کردیتا ہے۔

 
ارشاد فرمایا کہ اہل اللہ سے بغض و عناد اور ان کو ایذاء دینا دنیا میں ہی اکثر ذلیل کرتا ہے ؎

 
بس تجربہ کردیم دریں دیر مکافات

بادُرد کشاں ہر کہ درافتاد برافتاد


ارشاد فرمایا کہ ایک جگہ حاضری ہوئی اذان کی غلطیاں سن کر سخت رنج ہوا۔ میں نے وعظ میں صرف یہ گذارش کردی کہ اذان صحیح نہیں ہے اذان کی اصلاح ہونی چاہیے۔ بعد میں کمیٹی کے کسی صاحب نے دریافت کیا کہ صاحب وہ کیا غلطیاں ہوئیں ہیں ذرا ہم کو بتادیجئے میں نے کہا بہت اچھا سنئے۔


(۱) اللہ کو اتنا کھینچا جس کو کوئی قاعدہ نہیں شرح وقایہ میں دیکھئے تلحین و ناجائز لکھا ہے۔



(۲) لا الہ میں الہ کو ۲ مد کے برابر کھینچا۔



(۳) رسول میں وائو کو کھینچا جس سے مد پیدا ہوا۔



معلوم ہوا کہ موذن صاحب کی تنخواہ صرف ۶۰ روپے ہے بتائیے پھر اتنی معمولی تنخواہ میں بڑھیا موذن کیسے مل جاوے گا۔ افسوس کہ اس زمانے میں وکیل بڑھیا ہو، ڈاکٹر بڑھیا ہو، انگریزی پڑھانے کا استاد بڑھیا، مگر موذن اور قرآن پڑھانے والا استاد سستا ہو۔ دنیاوی تعلیم کا مدرس بڑھیا اور اس کی تنخواہ بھی زیادہ اور قرآن پاک جو احکم الحاکمین کا کلام ہے اس کے لیے استاد سستا والا۔ اصلی گھی تو زیادہ پیسے سے ملتا ہے اور سستا مال تو ڈالڈا ہی ہوگا۔



ایک جگہ حاضری ہوئی تو اذان اس قدر جلدجلد دی کہ درمیان میں اتنا موقع ہی نہ دیا کہ اذان کا جواب دیا جاسکے۔



آج کل مسجد کے جسم پر توجہ ہے اور روح پر نہیں۔ معلوم کیا کہ مسجد کتنے میں تعمیر ہوئی تو معلوم ہوا ۲ لاکھ کی تعمیر ہوئی۔



میں نے عرض کیا کہ مسجد تو ۲ لاکھ کی اور موذن ۶۰ روپیہ کا۔



ایک مسجد میں تکبیر موذن صاحب نے اس طرح کہا حی علی الصلوٰۃِ حی علی الصلوٰۃ حی علی الفلاحِ حی علیٰ الفلاح اور کسی کو فکر بھی نہیں، اذان اور تکبیر کو غور سے سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔



تکبیر کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ایک سانس میں ۴؍ مرتبہ اللہ اکبر کہے پھر ایک سانس میں اشہدان لا الہ الا اللہ اشہد ان لا الہ الا اللہ کہے، پھر ایک سانس میں اشہد ان محمداً رسول اللہ اشہد ان محمداً رسول اللہ کہے پھر ایک سانس میں حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ کہے اور پھر ایک سانس میں حی علیٰ الفلاح، حی علیٰ الفلاح، کہے اور پھر ایک سانس میں اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الا الہ اللہ کہے۔



ایک غلطی قراء کرام یہ کرتے ہیں کہ یہاں بھی تجوید کا قاعدہ جاری کرتے ہیں مثلاً اشہد ان لا الہ الا اللہ اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان محمداً رسول اللہ، اشہد ان محمداً رسول اللہ حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ کہتے ہیں حی علی الفلاح حی علی الفلاح یعنی پہلے کلمہ کے آخری حرف کے اعراب کو ظاہر کرتے ہیں اور دوسرے کلمہ کے آخر حرف پر جزم پڑھتے ہیں حالانکہ یہاں قرأت کا قاعدہ جاری کرنا ممنوع ہے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں الا ذان جزمٌ والاقامۃ جزمٌ والتکبیر جزمٌ اور ایک روایت میں التکبیر جزم والتسمیع جزمٌ ہے۔ (شامی ،ج۱؍ صفحہ ۳۲۳)



ایک جگہ حاضری ہوئی مسجد بہت شاندار لیکن امام صاحب نے جب نماز پڑھائی تو بے حد صدمہ ہوا امام صاحب نے سورہ ناس اس طرح پڑھائی من الجنات والنس حروف کی صحت نہایت ضروری ہے اب تو بیعت کرتے وقت احقر عہد لیتا ہے کہ تلاوت مع الصحت کروں گا۔



حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ نے جمال القرآن کے اندر لحن جلی کو حرام لکھا ہے یعنی اگر صاد کو سین پڑھ دیا یا ذال کو زا پڑھ دیا وغیرہ صرف ۲؍ مہینہ اور صرف دس منٹ انسان محنت کرت کسی قاری صاحب کے پاس تو انشاء اﷲ تعالیٰ بقدر ضرورت تلاوت صحیح کرسکے گا۔ تھانہ بھون میں بعض بڑے بڑے محدث اور مفسر کو بھی نورانی قاعدہ پڑھنا پڑا۔ آج ہمارے مشایخ کے یہاں بھی اس کا اہتمام ہونا چاہیے کہ خود بھی تلاوت مع الصحت کا اہتمام ہو اور طالبین کو بھی توجہ دلائیں مراقبہ اور استغراق اور وظائف اور حقائق و معارف کے ساتھ ایسے ضروری امور کا بھی اہتمام ضروری ہے۔ یہ حق تعالیٰ کی عظمت کا حق ہے کہ ان کے کلام کی عظمت ہو اور عظمت کلام کا حق ہے کہ صحت حروف کے ساتھ تلاوت ہو۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بے فکری اور کاہلی اور سستی سے صحیح نہ پڑھنا کس قدر گستاخی ہے اور اندیشہ مواخذہ کا ہے تصوف کا ایسا غلبہ کہ شریعت کے مسائل کا اہتمام نہ رہے یہ بہت خطرناک حالت ہے۔ اور اگر مغلوب الحال ہے تو مقتدا بنانا ایسے مغلوب کو جائز نہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ؎

خواجہ پندارد کہ دارد حاصلے
حاصلِ خواجہ بجز پندار نیست


ارشاد فرمایا کہ دعا نہ قبول ہونے کا سبب حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھلائی کا پھیلانا اور برائی سے روکنا امت میں جاری نہ رہا تو عذاب عام میں ابتلا ہوگا اور دعا بھی قبول نہ ہوگی۔


ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب نے کہا کہ فلاں شادی میں شرکت سے بڑا صدمہ ہوا فوٹو کھینچے گئے اور ریکارڈنگ بھی ہوئی گانا بجانا اور تصویر کھنچانے کے گناہ میں ہم بھی مبتلا ہوگئے۔ وہاں سے اٹھنے میں خاندان کے لوگوں کا لحاظ اور دبائو معلوم ہوا میں نے کہا اچھا اگر شادی والے ایک خوبصورت پلیٹ میں چاندی کے ورق کے ساتھ مکھی کی چٹنی پیش کرتے تو آپ خاندان کے لحاظ اور دبائو سے کھالیتے یا نہیں یا اٹھ کر چلے آتے؟ کہنے لگے اٹھ کر چلا آتا فرمایا کہ پھر حسی منکر کے ساتھ جو معاملہ ہے کم از کم وہی معاملہ شرعی منکر سے بھی کیجئے۔ ایک صاحب نے کہا کہ مکھی کی چٹنی تو طبعی منکر بھی ہے طبعی کراہت معلوم ہوتی ہے اور گناہوں سے اس طرح کی طبعی کراہت نہیں معلوم ہوتی میں نے کہا اچھا سنکھیا اگر کھلایا جاوے کسی شادی میں تو آپ کھالیں گے کیا سنکھیا بھی طبعی منکر ہے طبعی کراہت تو اس سے نہیں ہوتی پس جس طرح یہ عقلی منکر آپ نہیں کھا سکتے اسی طرح گناہ کے ساتھ معاملہ کیجئے۔

15 June 2010

حدیث میں ذکر پر خشیّت کی تقدیم کا راز،وسوسوں کا علاج

P,عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم



اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَ ذِکْرَکَ میں خشیت کو پہلے کیوں بیان فرمایا؟ تاکہ خشیت غالب رہے کیونکہ محبت جب خوف پر غالب ہوجاتی ہے تو بدعت ہو جاتی ہے۔ خشیت محبت کو حدودِ شریعت کا پابند رکھتی ہے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ وَ اَمَّا مَنْ جَاءَ کَ یَسْعٰی میں صحابی کا دوڑ کر آنا بوجہ محبت کے تھا وَھُوَ یَخْشٰی اور وہ ڈر بھی رہے تھے، یہ حال ہے اور حال ذوالحال کے لیے قید ہوتا ہے یعنی ان کی محبت خشیت کی پابند تھی۔ معلوم ہوا کہ جب محبت خشیت کی حدود کو توڑتی ہے تو بدعت ہو جاتی ہے۔






اور خشیت کا تضاد تو محبت تھی لیکن حدیثِ پاک میں محبت کے بجائے ذکر کیوں فرمایا؟ اس لیے کہ ذکر سببِ محبت اور حاصلِ محبت ہے۔ جو ذکر کرے گا اس سے معلوم ہو گا کہ اس کو محبت حاصل ہے ورنہ جو محبت، محبت تو کر رہا ہے لیکن اللہ کا ذکر نہیں کرتا وہ محبت میں صادق نہیں۔ لہٰذا یہاں ذکر کی قید سے منافقین نکل گئے۔ جو صادق فی المحبت نہیں وہ ذاکر نہیں ہو سکتا۔ (فیوضِ ربانی ، صفحہ:۱)






حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وسوسوں اور خیالات کا ہجوم ہو تو کہو واہ کیا شان ہے اے اللہ آپ کی کہ ڈیڑھ چھٹانک کے دل میں آپ نے خیالات کا سمندر بھر دیا کیماڑی کا سمندر بھی بھرا ہوا ہے کلفٹن بھی ہے اور کشمیر کی پہاڑیاں بھی گھُسی ہوئی ہیں سارا عالم ایک ذرا سے دل میں سمایا ہوا ہے ایک چھوٹی سی چیز میں خیالات کا سمندر چلا آ رہا ہے تو فرمایا کہ یہ خیالات کا ہجوم جو شیطان نے ڈالا تھا اللہ سے دور کرنے کو اس شخص نے بزرگوں کی تعلیما ت کی برکت سے اس کو ذریعۂ معرفت اور ذریعۂ قرب بنا لیا تو پھر شیطان ہاتھ ملتا ہے اور افسوس کرتا ہوا بھاگتا ہے کہ اس نے تو میرے وساوس کو بھی معرفت بنا لیا۔ اس طرح وسوسوں کو ذریعہ معرفت بنا لیجئے اور یہ بات حدیث سے ثابت ہے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَذِکْرَکَ






اے اللہ! میرے دل کے خیالات کو اپنا خوف اور اپنی یاد بنا دے۔ اور دوسری ایک حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، مشکوٰۃ کی روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَلْحَمْدُ لِلٌّٰہِ الَّذِیْ رَدَّ اَمْرَہُ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ (مشکٰوۃ المصابیح، باب فی الوسوسۃ، ص:۱۹)






شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے معاملہ کو اس کے مکر و کید کو صرف وسوسہ تک محدود کر دیا اس سے زیادہ اس کو طاقت نہیں دی ورنہ مان لیجئے یہاں جو لوگ بیٹھے ہوئے دین کی بات سن رہے ہیں اگر شیطان آتا اور سب کو اُٹھا اُٹھا کر سینما ہائوس میں لے جا کر بیٹھا دیتا تو بڑی مشکل میں جان پھنس جاتی، لوگ کہتے کہ بھائی ہم تو گئے تھے خانقا ہ میں اللہ کی بات سننے مگر وہاں شیاطین کا ایک لشکر آیا اور سب کو اُٹھا اُٹھا کر وی سی آر اور سینما ہائوس میں بیٹھا دیا۔ شیطان کو اگر یہ طاقت ہوتی تو بتائیے ہم کتنی مشکل میں پھنس جاتے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکر ادا کرو کہو اَلْحَمْدُ لِلٌّٰہِ الَّذِیْ رَدَّ اَمْرَہُ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارک ہیں۔ عربی میں یاد رہے تو سبحان اللہ ورنہ اردو ہی میں کہہ لیجئے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے کید کو، اس کی طاقت کو صرف خیالات اور سوسہ ڈالنے تک محدود کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر سکھایا اور شکر سے اللہ کا قرب ملتا ہے پس وسوسہ کو ذریعہ قرب و معرفت بنا دیا کہ شکر ہے کہ شیطان صرف خیالات اور وسوسہ ڈال سکتا ہے تم کو عمل پر مجبور نہیں کر سکتا۔ گندا تقاضا دل میں پیدا ہوا آپ اس پر عمل نہ کیجئے بالکل آپ کا تقویٰ قائم ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی کا روزہ ہے، جون کا مہینہ ہے، شدید پیاس لگ رہی ہے بار بار دل چاہتا ہے کہ پانی پی لوں مگر پیتا نہیں بتائیے روزہ اس کا ہے یا نہیں۔ کیا پانی پینے کے وسوسوں سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا؟ پانی پینے کے لاکھ تقاضے ہوتے رہیں جب تک پئے گا نہیں روزہ اس کا قائم ہے۔ بلکہ اس کو ڈبل اجر مل رہا ہے تقاضہ کی وجہ سے، پیاس کی وجہ سے اسی طرح گناہ کے لاکھ وسوسے آئیں جب تک گناہ نہیں کرے گا یہ شخص بالکل متقی ہے وسوسہ سے تقویٰ میں ہر گز کوئی نقصان نہیںآئے گا سبحان اللہ ! یہ ہمارے باپ دادائوں کے علوم ہیں اُولٰئِکَ اٰبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِھِمْ لہٰذا گناہوں کے تقاضوں پر آپ بس عمل نہ کریں لاکھ تقاضے ہوں تو آپ کا تقویٰ بالکل ٹھیک ہے دیکھئے اس وقت بھی سب کے پیٹ میں کچھ نہ کچھ پاخانہ ہوگا۔ ابھی ایکسرے کرا لیجئے تو نظر بھی آ جائے گا لیکن جب تک گندگی باہر نہ نکلے آپ کا وضو ہے اس طرح دل میں گندے خیالات آئیں اس میں مشغولی نہ ہو اس پر عمل نہ ہو بس آپ کا تقویٰ قائم ہے ۔ دین کتنا آسان ہے ؎






جو آسان کر لو تو ہے عشق آساں






جو دشوار کر لو تو دشواریاں ہیں






دین تو بہت آسان ہے ہم خود اس کو دشوار کرتے ہیں، میں عرض کرتا ہوں کہ جس شخص نے بھی شیطان کے وسوسوں کا جواب دیا پاگل ہو گیا ایک وسوسہ کا جواب دیا اس نے دوسرا پیش کر دیا اب رات بھر بیٹھے ہوئے وسوسوں کا جواب دے رہے ہیں۔ بتائیے کیا ہو گا دماغ خراب ہو گا یا نہیں، آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کو جواب ہی مت دیجئے بس یہی کہیے کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے اس کا اختیار وسوسہ ڈالنے تک ہی رکھا اور بزرگوں کے پاس آئیے جائیے ان کی صحبتوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ ابلیس کے تمام مکر و کید کو ختم کر دیتا ہے کیونکہ اہل اللہ اسمِ ہادی کے مظہر ہیں، اسمِ ہادی کی تجلی ان پر ہوتی ہے ان کے پاس بیٹھنے والوں پر بھی وہ تجلی پڑ جاتی ہے جس سے ان کو ہدایت ہو جاتی ہے اور ابلیس اللہ تعالیٰ کے اسم مضل کا مظہر ہے گمراہ کرنے کی طاقت کا ظہور اس پر ہوتا ہے لہٰذا گمراہ لوگوں سے بھاگئے اور اللہ کے خاس بندوں کی صحبت میں رہیے جو بزرگانِ دین کے صحبت یافتہ ہیں، اسم مضل کے مقابلہ میں اسم ہادی کے سائے میں آ جائیے جس شخص کو دیکھو کہ اس نے بزرگوں کی صحبت نہیں اٹھائی چاہے مطالعہ اس کا بہت وسیع ہو ہر گز اس کی صحبت میں نہ بیٹھئے۔ یہ بات میں نہایت اخلاص کے ساتھ کہتا ہوں کسی تعصب سے نہیں۔






مثال کے طور پر جیسے مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر لکھی ہے معارف القرآن ۔ ایسے صحبت یافتہ بزرگوں کی تفسیر اور کتابیں دیکھئے ورنہ اگر کسی غیر تربیت یافتہ خود ساختہ مفسر کی تفسیر یا تصنیف دیکھی تو بس پھر سمجھ لو کہ خطرہ میں پڑ جائو گے ایمان ہی کے لالے پڑ جائیں گے کبھی انبیاء علیہم السلام پر اس کا گستاخ قلم اُٹھ جائے گا کبھی صحابہ پر۔ ایسی نئی چیزیں نکال دے گا کہ قرآن کو، دین کو، جو میں نے سمجھا ہے کسی نے سمجھا ہی نہیں، بیک قلم سب کی تنقیص کر دے گا ایسے صاحب قلم قابل سر قلم ہیں اس لیے ہمارے بزرگوں نے یہ خاص نصیحت کی ہے کہ جب تک یہ معلوم نہ کر لو کہ یہ شخص کس شخص کا صحبت یافتہ ہے ہر گز اس کی صحبت میں مت بیٹھو، نہ اس کی تصانیف پڑھو چاہے وہ بظاہر بیعت بھی کرتا ہو اس سے پوچھو کہ اس نے بھی کسی سے بیعت کی ہے یا نہیں۔مسلم شریف میں حضرت ابن سیرین رحمۃاللہ علیہ کا قول منقول ہے فرماتے ہیں: اِنَّ ھٰذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ فَانْظُرُوْا عَمَّنْ تَأْخُذُوْنَ دِیْنَکُمْ (صحیح مسلم، ج:۱، ص:۱۱)






یہ علم دین ہے پس خوب دیکھ لو تحقیق کر لو کہ تم کس شخص سے دین حاصل کر رہے ہو۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ جس سے دین سیکھ رہے ہیں اس نے کس سے سیکھا ہے حضرت عبد اللہ  ابن مبارک رحمۃ اللہ  علیہ کا قول ہے اَ لْاِسْنَادُ مِنَ الدِّیْنِ اسناد کی دین میں خاص اہمیت ہے میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ  علیہ فرماتے تھے کہ میں نے مثنوی حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ  علیہ سے پڑھی اور انہوں نے حضرت حاجی صاحب سے پڑھی اور الحمد للہ میں نے شاہ عبدالغنی صاحب سے پڑھی۔ دیکھئے سند دیکھنی پڑتی ہے یا نہیں اس سے اعتما د پیدا ہوتا ہے کہ ان کے استاد فلاں اُن کے استاد فلاں اور اگر کسی سے نہیں سیکھا محض ذاتی مطالعہ سے حاصل کیا ہے تو پھر وہ ایسے ہی ترجمہ کرے گا جیسے کسی نے کتاب میں دیکھا کہ نماز ہلکے پڑھو لہٰذا وہ پوری نماز میں ہل رہا تھا حالانکہ لکھا تھا کہ نماز ہلکی پڑھو پہلے زمانہ میں ی کو لمبا کھینچ کر “ے” لکھ دیتے تھے تو اس نے ہلکی کو پڑھا ہلکے اب جناب نماز میں ہل رہے ہیں کسی کو استاد بنایا نہیں تھا کہ پوچھ لیتا ۔ کتاب دیکھ کر دین سیکھنے والوں اور دین سکھانے والوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ خود بھی ہلیں گے آپ کو بھی ہلا دیں گے۔
(بدگمانی اور اس کا علاج)

08 June 2010

شراب کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے


شراب کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے



عرض جامع



نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد احقر جامع عرض کرتا ہے کہ عرصہ دو سال پہلے حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری کی خدمت میں ایک افسر صاحب حاضر ہوئے تھے اور انہوں نے حضرت والا سے سوال کیا تھا کہ بعض افسران مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ شراب کے متعلق جب قرآن کریم میں لفظ حرام نہیں آیا ہے تو پھر علماء اس کو کیوں حرام قرار دیتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں حضرت والا نے ایک مبسوط تقریر فرمائی اور قرآن کریم سے شراب کی حرمت کا بیّن ثبوت پیش فرمایا اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ یہ تقریر حق تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ہے اس کو ضبط کرکے شائع کردینی چاہیے تاکہ ہمارے تمام وہ نادان مسلمان بھائی بھی آگاہ ہوجائیں جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ بحکم حضرت والا دامت برکاتہم یہ مسودہ تیار کیا گیا اور تیاری کے بعد افسر موصوف نے اس کی طباعت و اشاعت کا وعدہ کرکے اس مسودہ کو تقریباً دو سال تک اپنے پاس رکھا۔ لیکن موصوف اپنی کسی مجبوری کے سبب اس مضمون کو طبع نہیں کراسکے۔ ہر چند کہ بعض احباب مخلصین ،اس مضمون کی طباعت کے لیے مجھے بار بار اسی اثناء میں متوجہ کرتے رہے۔ لیکن ان دنوں کچھ ذہنی انتشار کے سبب اس امر کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ مگر جب حق تعالیٰ کی طرف سے کسی کام کا وقت آجاتا ہے تو غیب سے اس کے اسباب اور دواعی بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ کل ۲۶؍ رمضان المبارک ۱۳۸۲؁ھ کو برنس روڈ کراچی سے میں اپنے ایک کرم فرما دوست کے ہمراہ گذر رہا تھا کہ ان کے جاننے والے دو حضرات آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ قرآن کریم میں شراب کو کہیں حرام نہیں فرمایا گیا ہے۔ اس گفتگو سے قلب پر ایک چوٹ سی لگ گئی اور اپنی سستی پر سخت ندامت ہوئی۔ قلب میں اس شدید داعیہ اور اس چوٹ کو لیے ہوئے احقر نے حضرت والا پھولپوری سے عرض کیا کہ حضرت آج اس قسم کا واقعہ پیش آیا ہے جس سے میرے قلب پر شدید اثر ہے اور سخت بے چینی کے ساتھ یہ داعیہ پیدا ہورہا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو شراب کے متعلق آپ کا مسودہ طبع کراکے سارے ملک میں پھیلادیا جائے۔ امید ہے کہ ان نادان مسلمانوں کو اس غلط فہمی سے متنبہ ہوکر شراب نوشی سے توبہ نصیب ہوجاوے یا کم از کم علم صحیح حاصل ہوجانے سے شراب حرام سمجھ کراس کا ارتکاب کریں گے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ عقیدہ تو درست رہے گا اور عقیدہ کی درستی سے بالآخر عذاب میں کچھ دن مبتلا ہونے کے بعد مغفرت کی امید ہے اور اس تقریر کا منشاء شراب نوشی پر جری کرنا نہیں ہے بلکہ ہمیں ان نادان مسلمانوں کو کفر سے بچانا مقصود ہے جو حرام کو حلال سمجھے ہوئے ہیں۔ عقائد کا متفقہ مسئلہ ہے کہ حرام جانتے ہوئے فعل حرام کا ارتکاب تو گناہ کبیرہ اور حرام ہے لیکن فعل حرام کو حلال سمجھ کر ارتکاب کرنا کفر ہے کیونکہ یہ شخص قانون شاہی کا تحریف کرنے والا ہے۔ حضرت والا پھولپوری دامت برکاتہم نے ارشاد فرمایا کہ رسالہ ہذا کی طباعت کا اب وقت معلوم ہوتا ہے۔ میاں جب چاہتے ہیں تو اسی طرح غیبی سامان پیدا فرمادیتے ہیں اور حضرت والا نے یہ بھی حکم فرمایا کہ اس واقعہ کو بھی جو رسالہ ہذا کی طباعت کا داعی اور سبب قریب ہوا ہے تحریر کردیا جاوے حق تعالیٰ شانہ اس رسالہ کے نفع کو عام اور تام فرماویں، آمین۔



احقر جامع……محمد اختر عفا اللہ عنہ



(مورخہ ۲۷؍رمضان المبارک ۱۳۸۲؁ھ، بروز جمعہ۔)



شراب کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے



فاعوذبااللہ من الشیطان الرجیم



بسم اللہ الرحمن الرحیم



یسئلونک عن الخمر والمیسر



قل فیہما اثم کبیروا منافع للناس واثمہما اکبر من نفعہما



(سورہ البقرۃ: پارہ:۲)



ترجمہ: لوگ آپ سے (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے) شراب اور قمار کی نسبت دریافت کرتے ہیں آپ فرمادیجئے کہ ان دونوں میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی ہیں اور لوگوں کو فائدے بھی ہیں اور گناہ کی باتیں ان فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔



ان آیتوں سے حق تعالیٰ شانہ نے بندوں کو مطلع فرمایا کہ شراب سے جتنا نقصان ہوجاتا ہے اتنا نفع نہیں ہوتا کیونکہ نفع تو عارضی ہے اور نقصان کی حد نہیں جب عقل زائل ہوگئی تو انسانیت کا شرف ہاتھ سے جاتا رہا۔ عقل ہی کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کہلاتا ہے پس شراب پینا گویا اپنی اس عزت اور شرافت کو اپنے ہاتھوں کھوبیٹھنا ہے۔ سب سے پہلے شراب کے متعلق یہی آیتیں نازل فرمائی گئیں۔ اب اگر کوئی سائنس دان یہ دعویٰ کرے کہ شراب میں نقصان سے زیادہ نفع ہے تو ہم اسے جاہل اور حقیقت سے بے خبر کہیں گے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ مخلوق کا علم خالق حقیقی کے علم کا مدمقابل نہیں بن سکتا۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں وما اوتیتم من العلم الا قلیلا۔ اے لوگو! تمہیں علم قلیل عطا کیا گیا ہے۔ اور اپنے علم کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں الا یعلم من خلق بھلا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے۔ دن رات کے مشاہدات شاہد ہیں کہ اہل سائنس آج جس تحقیق پر مطمئن ہیں چند دن کے بعد جب اپنی غلطی کا ان کو انکشاف ہوجاتا ہے تو اپنی سابقہ تحقیق کی خود ہی تردید شائع کرتے رہتے ہیں۔ برعکس خالق حقیقی کا علم احتمال خطا سے پاک ہے ارشاد فرماتے ہیں ولن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا۔ اور تم اللہ کے دستور میں کبھی کوئی تبدیلی نہ پائوگے۔



ایک مومن کے لیے قرآن کا اتنا ہی فرمان کہ شراب میں اثم کبیر یعنی بڑا گناہ ہے شراب سے احتیاط کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ ہرگناہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کا منشاء حق تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ اور ہر نافرمانی سبب ناراضی ہے پس مومن اپنے اللہ کی ناراضی کو کب گوارا کرسکتا ہے۔ مومنین کاملین کی شان تو یہ ہے کہ یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت ہمارے فضل کو اور ہماری خوشنودی کو ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ ہم کون سا ایسا عمل اختیار کریں کہ ہمارا پروردگار حقیقی ہم سے خوش ہوجائے۔



(جاری ہے۔)

سنت کے مطابق شادی بیاہ اور ولیمہ

سنت کے مطابق شادی بیاہ اور ولیمہ
  شیخ العرب وا لعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم
مرتبہ: سید عشرت جمیل میر
۸؍ ستمبر ۱۹۸۹؁ء مسجد اشرف، گلشن اقبال کراچی

ارشاد فرمایا کہ آج جنگ اخبار میں مسائل دینیہ کے سلسلے میں مولانا یوسف لدھیانوی دامت برکاتہم نے ایک مسئلہ لکھا ہے کہ شادی کے موقع پر لڑکی والوں کا برادری اور لڑکے والوں کو دعوت کھلانا خلافِ سنت ہے۔ میرے ذمے بیان ہے، تحقیق آپ مولانا یوسف لدھیانوی سے جاکر کیجیے، لیکن عقل سے سوچیے کہ جس کی بیٹی جارہی ہے اس کا دل تو غمگین ہے ایسے وقت اس سے دعوت کھانا عقل کے بھی خلاف ہے۔ ولیمہ سنت ہے جو بیٹے والے کے ذمہ ہے۔ ہاں لڑکی جب رخصت ہوکر چلی جائے اور شوہر کے ساتھ خلوت ہوجائے۔ اس کے بعد دوسرے دن ولیمہ سنتِ مؤکدہ ہے بشرطیکہ وہاں بھی کوئی خلافِ شریعت کام نہ ہو۔



علامہ شامی ابنِ عابدین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ولیمہ سنت مؤکدہ ہے لیکن اگر دسترخوان پر کوئی گناہ کا کام شروع ہوجائے مثلاً غیبت شروع ہوجائے تو روٹیاں اور بریانی اور شامی کباب چھوڑ کروہاں سے اُٹھ جانا واجب ہے۔ اب یہ وقت امتحان کا ہوتا ہے کہ یہ نلیاں اور بوٹیاں محبوب ہیں یا اللہ کی رضا محبوب ہے۔ یہ کہنا کہ جائیں صاحب چھوڑ کر میزبان ناراض ہوجائیں گے نہایت کم ہمتی کی بات ہے۔ صاف کہہ دو کہ یہاں غیبت ہورہی ہے، ریکارڈنگ ہورہی ہے، فوٹوکشی ہورہی ہے، فلم بن رہی ہے، ویڈیو بن رہی ہے، کھانے والوں کی تصویریں بن رہی ہیں لہٰذا اس نافرمانی کی مجلس میں شریک نہیں ہوسکتا۔



دوستو! یہی وقت امتحان کا ہوتا ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کا موقع آئے اس وقت جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائے، وہ امتحان میں پاس ہوگیا۔ خالی تنہائی میں، مسجد میں عبادت کرلینے کا نام امتحان نہیں ہے۔ امتحان کا وقت وہ ہوتا ہے جب منہ اور بریانی کے لقمہ کے درمیان آدھے فٹ کا فاصلہ رہ گیا کہ دیکھا کہ فوٹوگرافر آگیا، فلم بننے والی ہے، اب دیکھنا ہے کہ آدھا فٹ جو بریانی قریب ہوچکی ہے اس قریب شدہ مالِ غنیمت کو واپس کرتا ہے یا نہیں۔ امتحان کا وقت یہ ہوتا ہے۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ اس وقت اس لقمے کو وہیں رکھ دو اور اُٹھ جائو، کہہ دو چونکہ یہاں اللہ کی نافرمانی ہورہی ہے لہٰذا ایسی مجلس میں حاضری جائز نہیں ہے۔ محدث عظیم مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ جو مکہ شریف میں مدفون ہیں، مشکوٰۃ کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’لَایَجُوْزُ الْحُضُوْر عِنْدَ مَجْلِسٍ فِیْہِ الْمَحْظُوْر‘‘



جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایسی مجلس میں جہاں اللہ کی مرضی کے خلاف، شریعت کے خلاف کوئی کام ہورہا ہو۔ اس مجلس میں شرکت جائز نہیں چاہے ابّا کی مجلس ہو، چاہے اماں کی مجلس، چاہے پیر کی مجلس ہی کیوں نہ ہو۔



مان لیں کسی کو غلطی سے غلط پیر مل گیا، اس کے یہ معنی تھوڑی ہیں کہ اللہ اور رسول کے فرمان کو پیچھے چھوڑ دیں، اور اس کی بات مان لیں۔ اسی کا نام پیر پرستی ہے۔ اس سے صاف کہہ دو کہ چونکہ آپ خلافِ شریعت و سنت کام کررہے ہیں، بس میں آپ سے بیعت فسخ کرتا ہوں۔ محبت اللہ کے لیے ہے اور بغض بھی اللہ کے لیے ہے۔



تعجب ہے کہ قرضہ لے لے کر بیٹی والا برادری کو کھلارہا ہے جو خلافِ سنت ہے۔ آج اخبار میں پڑھ لیجیے گا، دینیات کا ایک صفحہ ہوتا ہے مولانا لدھیانوی اس میں مسائل کے جوابات لکھتے ہیں۔ میں نے ابھی ابھی دیکھا ہے، اخبار میرے پاس بھی رکھا ہے، تقریر ختم ہونے کے بعد جس کا جی چاہے چل کر دیکھ بھی لے کہ لڑکی والوں کا کھانا خلافِ سنت ہے۔ اصلاح الرسوم میں بھی ہے اور ہمارے اکابر نے اس کا اہتمام کیا۔ میرے مرشد اوّل مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ حکیم الامت کے اکابر خلفاء میں سے تھے، اتنے بڑے خلیفہ تھے کہ مفتی اعظم پاکستان اور مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا ظفر احمد عثمانی، قاری طیب صاحب رحمہم اللہ جیسے بڑے بڑے علماء ان کے سامنے شاگرد کی طرح بیٹھتے تھے، لیکن حضرت نے اپنی بیٹیوں کی شادی کی،نکاح پڑھا جو دو چار آدمی آئے کسی کو کچھ نہیں کھلایا اور بیٹی کو رخصت کردیا، یہ نہیں کہ بارات میں ساری برادری کو جمع کیا جارہا ہے ہاں دو چار عزیز و اقارب آگئے مثلاً بیٹی کی شادی میں اس کی دوسری سگی بہنیں آگئیں اور سگے بھائی آگئے تو وہ گھر والے ہیں، خاندان والوں کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں جو دو چار آگئے، لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ دعوت نامے کارڈ چھپ رہے ہیں۔ ہزار آدمی اس میں بھی کھاگئے، پانچ سو آدمی کھاگئے، یہ دس ہزار بالکل ضائع ہوا، اس پر کوئی اجر نہیں بلکہ خلافِ سنت عمل پر اندیشۂ مواخذہ ہے۔



نکاح تو ایک عبادت ہے لیکن عبادت جب ہے جب سنت کے مطابق ہو جس طرح سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو، لہٰذا تمام حدیثوں سے ثابت ہے کہ ولیمہ سنت ہے بشرطیکہ ولیمہ بھی شریعت کے خلاف نہ ہو اور حیثیت سے بھی زیادہ نہ ہو کہ پانچ ہزار تنخواہ پاتا ہے لیکن ولیمہ قرضہ لے کر ایک لاکھ کا کررہا ہے یہ بھی نام و نمود اور فخر کے لیے ہے، اس میں بھی شرکت جائز نہیں۔ آج اُمتِ مسلمہ، اسی کی وجہ سے مقروض و پریشان ہے۔ دس دس ہزار، بیس بیس ہزار روپیہ کھانے میں جارہا ہے۔ حیثیت سے زیادہ خرچ نہ کرو ،ارے امام اور مؤذن کو بلالو۔ دو آدمیوں سے بھی ولیمہ ہوجاتا ہے۔ چلو محلے کے کسی بڑے بوڑھے کو دوچار دوستوں کو بلا لو۔ آپ کسی مفتی سے پوچھ لیں کہ اگر دو چار آدمیوں کو بلالیں تو ہماری سنت ولیمہ ادا ہوجائے گی یا نہیں اور باقی پیسے دینی مدارس میں، یتمیوں پر، بیوائوں پر خرچ کردیں یا بیٹی کو دیں یا داماد کو دے دیں۔



یہ کھا کھاکر پچاس پچاس ہزار روپیہ خرچ کراکر مونچھوں پر تائو دے کر جو جاتے ہیں، کوئی خوش نہیں ہوتا تعریف کے لیے جو کام انسان کرتا ہے، تعریف بھی نہیں ملتی۔ جو وہ کہہ کر جاتے ہیں وہ الفاظ، مجھ سے سنیے! ’’ارے صاحب! گھی بہت ڈال دیا تھا۔‘‘ ’’اتنی چکنائی تھی کہ کھایا نہیں گیا۔‘‘ ’’میرے تو پیٹ میں درد ہوگیا۔‘‘ ’’یہ اس نے گوشت بچانے کے لیے ترکیب نکالی کہ گھی زیادہ ڈال دیا تاکہ کھانا نہ کھایا جائے۔‘‘ دوسرے صاحب کہتے ہیں: صاحب! نمک تیز ہوگیا۔ تیسرے صاحب کہتے ہیں: بکرا بڈھا تھا۔ گوشت میں بہت سختی تھی، جیسے چمڑے کھینچ رہے تھے۔



حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر ایک قصہ سنایا کہ ایک بخیل بنیا تھا۔ پیٹ کاٹ کاٹ کر پیسہ جمع کیا اور جب بیٹی کی شادی کی تو سارے گائوں کو دعوت دے دی کیونکہ عزت و جاہ کا بھوکا کافر ہوتا ہے، اس نے سب گائوں والوں کو آلو پوری کھلائی… آلو پوری بہت مزیدار ہوتی۔ اور ایک ایک اشرفی بھی انعام میں دی۔ اشرفی سونے کی ہوتی ہے۔ اور جب سب مہمان جانے لگے تو جلدی سے دوڑ کرکے گائوں کے باہر ایک درخت پر بیٹھ گیا کہ آج ذرا تعریف سن کر خوش ہوجائوں۔ مال تو گیا، زندگی بھر ہم نے چمڑی دے دی مگر دمڑی نہیں دی لیکن آج بیٹی کی شادی میں ذرا واہ واہ لینے کے لیے میں نے اتنا خرچہ کیا تو دیکھوں کہ آج میری کتنی تعریف ہوتی ہے۔ تو آلو کھاکر اور ایک اشرفی لے کر سب یہ کہتے ہوئے گزرے کہ بڑا ہی کنجوس مکھی چوس تھا۔ ارے! صرف ایک اشرفی دی۔ کمبخت کو پانچ اشرفی دینا چاہیے تھا۔ جب تین چار گالیاں سنی تو مارے غم کے، اس کی دھوتی ڈھیلی ہوگئی اور جلدی سے درخت سے نیچے اُتر کر صدمہ و غم سے گھر میں جاکر لیٹ گیا کہ اتنا پیسہ بھی چلا گیا اور تعریف بھی نہ ملی۔ مخلوق سے کہیں تعریف ملتی ہے۔



اسی طرح غم کے موقع پر بھی اتنہائی بیہودہ رسمیں ہیں۔ غمی میں بریانیاں کھلائی جاتی ہیں، تیجہ کیا جاتا ہے جس کا نام قرآن خوانی ہے۔ بکرا کٹ رہا ہے، شامیانے لگ رہے ہیں اور بریانی پک رہی ہے سوچو تو صحیح جس کا نانا، جس کا بابا مرگیا اس کے ہاں بریانی کھانے میں شرم بھی نہیں آتی۔



حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نوجوان کی تربیت فرمائی جو زمیندار تھا۔ اس کے باپ کا انتقال ہوگیا۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے صدقے اور ان کی صحبت کے فیض سے اس نے وعدہ کیا کہ حضرت! ان شاء اﷲ تعالیٰ میں اپنی پوری برادری سے یہ رسم مٹادوں گا، بس اس نے رسم کے مطابق باپ کے انتقال پر دو بکرے کاٹے اور شاندار بریانی پکوائی اور ساری برادری کو بلایا کہ آئو! آج کھانا کھالو۔ جب دسترخوان بچھاکر گرم گرم بریانی پلیٹوں میں رکھی گئی اور ہاتھ دھوکر سب نے بریانی کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا تو اس نے فوراً کہا کہ صاحبو! ہاتھ بڑھانے سے پہلے میں ذرا ایک گزارش کرتا ہوں اس کو سن لینے کے بعد آپ لوگ کھائیے، ایک نوجوان، بچہ، بڑے بڑے چودھری بڈھے زمینداروں سے خطاب کررہا ہے کہ آپ لوگ کس خوشی میں یہ بریانی کھانے جارہے ہیں۔ میرے دل سے پوچھو کہ باپ کے مرنے پر کیا صدمہ ہے۔ میرے غم اور صدمے میں آپ نے میرا یہ حق ادا کیا کہ آپ مجھ سے بریانی کھارہے ہو۔ جس کا باپ یا بھائی مرگیا اس سے کس خوشی میں بریانی کھائی جاتی ہے۔ اس تقریر کے بعد کوئی بریانی کھاسکتا تھا؟ آخر سب بڑے زمیندار تھے، عزت و آبرو سے ہاتھ دھو کر تھوڑی آئے تھے، سب لوگ فوراً کھڑے ہوگئے اور کہا: اے نو جوان بچے! شاباش! آج تو نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ساری بریانی کو لے جاکر غریبوں میں تقسیم کردو۔ یہ غریبوں کا حق ہے ہم جیسے بڑے بڑے مالداروں کا حق نہیں ہے کہ اپنے نوجوان رشتے دار کے باپ کی غمی میں بریانی ٹھونس رہے ہیں، واقعی یہ بے غیرتی ہے۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو جب یہ خبر ملی تو حضرت نے خوش ہوکر وعظ میں یہ واقعہ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ جس سے چاہتا ہے بڑا کام لے لیتا ہے۔ اﷲ نے اس سے کتنا بڑا کام لیا کہ اس نے ایک بُری رسم کو مٹادیا۔



آج آپ سب حضرات سے میں اس مسجد میں ایک عہد لیتا ہوں کہ آپ لوگ وعدہ کیجیے کہ اپنی شادی بیاہوں کو میرج ہالوں میں نہیں کریں گے۔ اﷲ کے لیے وعدہ کیجیے! اُمت پر رحم کیجیے! اپنے خاندان پر رحم کیجیے! یہاں حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کی موجودگی میں دو نکاح ہوچکے ہیں۔ آپ لوگ شادی ہالوں کے کرایہ اور بجلیوں کے بِل سے جان چھڑاکر وہی پیسہ اپنی بیٹی کو دے دو۔ قرضہ لے لے کر اپنے دل کو کیوں پریشان کرتے ہو؟



میرے محترم بزرگو ،بھائیو اور دوستو! شادی سنت کے مطابق کرو، جمعہ کے دن، عصر کے بعد نکاح پڑھو اور مغرب بعد رخصتی کردو۔ نوشہ کے ساتھ جو آنے والے ہیں ان کو بھی پہلے ہی راضی کرلو کہ ہم سنت کے مطابق سادگی کے ساتھ شادی بیاہ کریں گے۔ اس طرح یہ لعنت جہیز کی نکل جائے گی۔ کتنی بیٹیاں ہیں جو جہیز کی اس لعنت اور ان اخراجات کی لعنت سے بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان کے دلوں میں خودکشی تک کے وسوسے آرہے ہیں۔ میرے دوستو! ان شادی ہالوں میں پیسہ ضائع کرنا اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو پریشانی میں مبتلا کرنا ہے جو اپنی غربت کی وجہ سے اس رسم کو نہیں کرسکتے۔ بیٹی والوں سے پوچھو کہ کیا مصیبتیں ہیں، لہٰذا جو شخص اپنی بیٹی کی شادی میں کھانا کھلائے گا اندیشہ ہے کہ قیامت کے دن اس پر سنت کی مخالفت کا مقدمہ دائر ہوگا۔ ساتھ ساتھ یہ کہ معاشرے میں اس نے ایک بری رسم جاری کرکے مسلمانوں کی جیب کٹوانے کا انتظام کیا اور ان کو کرب و غم میں مبتلا کرنے کا سامان کیا۔ چھوڑئیے! اس کو کوئی کچھ کرتا ہو۔ آپ یہی پوچھئے لو کہ بیٹی والوں کا کھانا کس کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ اس لیے آج آپ حضرات یہ عہد کرلیں کہ ہمیں میرج ہالوں میں شادی نہیں کرنی ہے بیٹی والوں کو کھانا نہیں کرنا ہے، بیٹی والوں سے جہیز نہیں مانگنا ہے وغیرہ۔ یہ دس ہزار پانچ ہزار جو ایک رات کا کرایہ لگتا ہے نہیںدینا ہے، مسجد میں سنت کے مطابق نکاح کرائیے۔



نکاح کے بعد چھوارے وغیرہ نہ اُچھالیے۔ خالی کتابوں کو دیکھ کر عمل نہ کیجیے۔ سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ ہمارے حضرت مولانا ابرارالحق صاحب نے فرمایا کہ اس زمانے میں چھوارے قاعدے سے تقسیم کرو۔ کیوں؟ اس لیے کہ جس زمانے میں یہ کھجور اور چھوارے اُچھالے گئے تھے اس زمانے میں آنکھوں پر چشمے نہیں لگتے تھے۔ آج سے پچاس برس پہلے کے بزرگوں کو دیکھ لو، اپنے دادا، نانا کو کہ اکثر نے بڑھاپے تک چشمہ نہیں لگایا، خود میرے نانا نے آخر سانس چشمہ نہیں لگایا۔ اور اب چشمے لگے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ نے کھجوروں کو اُچھالا، اور ایک کھجور کسی کے چشمے پر گرگئی، اس کا تو تین سو کا تو چشمہ گیا اور آپ کی دو آنے کی کھجور اس کے نفع میں آئی لہٰذا کھجوریں تقسیم کیجیے اور اس طریقہ سے کہ مسجد میں بھی اس کا اثر نہ ہو کہ مکھیاں بھنکیں، تاکہ مسجد کا فرش بھی نہ خراب ہو۔ اور مغرب بعد بیٹی کو رخصت کردو اور بیٹی والا کھانا نہ کھلائے۔



ولیمہ کے سلسلے میں بھی عرض کرتا ہوں کہ ولیمہ میں یہ کوئی ضروری نہیں کہ ساری برادری آئے۔ کسی کتاب میں نہیں لکھا ہے کہ ساری برادری کا کھانا کرو۔ جتنی اللہ توفیق دے اور قرضہ نہ لینا پڑے۔ یہی ہزار ہزار آدمیوں کو ولیمہ کھلانے والوں سے اگر کہا جائے کہ مسجد کی دری پھٹی ہے کچھ پیسہ دے کر نئی دری بچھوادو تو کہتے ہیں مولانا! آج کل بڑی کڑکی ہے، کڑکی۔ کڑکی کے معنی معلوم ہیں آپ کو؟ میمنوں کی زبان ہے۔ مرغی جب کُڑک ہوجاتی ہے اور انڈا نہیں دیتی، تو کہتے ہیں کہ یہ مرغی کی کڑکی کا زمانہ ہے اسی کُڑکی سے یہ کَڑکی بنایا ہے۔ میمن صاحب جب کہے کہ آج کل کَڑکی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میری دکان کی مرغی انڈا نہیں دے رہی ہے یعنی پرافٹ (Profit) نہیں ہورہا ہے، لیکن یہ پچاس ہزار میرج ہال کے لیے کہاں سے آگیا؟ کھانا کہاں سے آگیا؟ جو غریب ہیں وہ بھی بینکوں سے سودی قرضے لے رہے ہیں۔ ولیمہ کون سا فرض ہے اور اگر فرض بھی ہوتا تب بھی سودی قرضہ لینا جائز نہیں۔ ولیمہ سنت ہے لیکن حسب گنجائش و توفیق۔ اگر پوری بکری کرنے کی کسی کے پاس گنجائش نہیں ہے، تو بکری نہ کرے دال روٹی کھلادے، اگر گنجائش ہے تو چلو ایک بکری کرلو۔ ایک بکری آٹھ نو سو کی مل جاتی ہے۔ ایک ہزار کے چاول بھی ڈال دو، دو ہزار میں ولیمہ کرلو اور کوئی غریب ہے مؤذن ہے، امام ہے، بیچارہ اس کے پاس یہ بھی نہیں ہے تو میاں! آلو پوری کھلادو، دہی بڑے کھلادو۔ ولیمہ میں پلائو قورمہ کھلانا کوئی واجب نہیں ہے۔ غیرواجب کو واجب سمجھنا یہ بھی اسلام میں بہت بڑا جرم ہے، اس سے ضرر پہنچا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، دوستو! اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو غور سے سنو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’اَعْظَمُ النِّکَاحِ بَرَکَۃً اَیْسَرُہٗ مَؤُنَۃً‘‘ سب سے بڑا برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔ آپ سوچیے اگر آپ کم خرچ کریں گے تو نکاح میں برکت آجائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک ہے۔ اگر آپ کو اللہ نے بہت دولت دی ہے۔ مان لیجیے! بہت سی لانچیں چل رہی ہیں، موٹر چل رہی ہے، ٹیکسی چل رہی ہے، تو پیسہ بچاکر کسی غریب کی بیٹی کا نکاح کرادو، کہو کہ یہ دس ہزار روپے ہم سے تحفہ لے لو یا کسی اور ضروری کام میں خرچ کردو بھائی! دو چار بچوں کو حافظ بنوادو، ہزاروں نیک کام ہیں جن میں خرچ کرسکتے ہیں لیکن مال کو ان فضول رسموں میں خرچ کرنے سے یہ خرابی پیدا ہوگی جو خاندان میں غریب ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں بھی مالدار رشتہ دار کا مقابلہ کروں گا چاہے قرض ہی لینا پڑے۔ ایسا کوئی کام نہ کیجیے کہ جس سے پورے خاندان والے مجبور ہوکر حیثیت سے زیادہ خرچ کریں، اگر ایک بچے کو پیچش ہوتی ہے، تو اس کی رعایت سے ماں دوسرے تندرست بچوں کو بھی کباب نہیں دیتی کہ تمہارے کباب کو دیکھ کر میرا بیمار بچہ روئے گا۔ ایسے ہی امت کا خیال کرو، نفسی نفسی نہ کرو۔



اسی طرح جہیز کی لعنت ہے آج کل لڑکے والا بابا کہتا ہے کہ میرا بیٹا امریکا پڑھنے جائے گا۔ جہیز میں امریکا تک پہنچنے کا خرچہ بھی دو، ایک کار بھی دو اور ٹیلیویژن بھی دو اور میرے بیٹے کے لیے دکان کھلوادو۔ اگر ڈاکٹر ہے تو اس کو میڈیکل اسٹور کھلوادو یا ہسپتال بنوادو۔ بیٹی والوں سے پیسہ مانگنا یہ رشوت ہے، حرام ہے چاہئے تو یہ تھا کہ بیٹی والے سے کہہ دیتے کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کو تنگدستی ہے، کچھ مقروض بھی ہیں، آپ کچھ نہ دیجیے۔ میرے گھر میں سب کچھ موجود ہے ہمیں آپ کی بیٹی چاہیے دولت نہیں چاہیے اور کوئی طعنہ بھی نہیں دے گا۔ یہ عہد داماد کے باپ اور اس کی ماں کو لکھ کر دے دیں کہ تمہاری بیٹی کو کوئی طعنہ نہیں ملے گا۔ لیکن آج افسوس یہ ہے کہ کھاتے پیتے لوگ نمازی لوگ بھی طعنہ دیتے ہیں اگر بیوی غریب ہے، کچھ نہیں لائی یا کم لائی، تو شوہر صاحب کہتے ہیں کہ ارے! تیرے باپ نے کیا دیا۔ تجھ سے نکاح کرکے میں تو پچھتا رہا ہوں، فلاں جگہ نکاح کرتا تو مجھ کو اتنا ملتا۔ کیا ہورہا ہے دوستو! یہ کتنا بڑا ظلم ہے۔ اس لیے دل سیاہ ہورہے ہیں اور گھروں میں لڑائی جھگڑے ہورہے ہیں۔ دین اور اخلاق اور شرافت کاتقاضا ہے کہ یہ کہہ دو کہ آپ بیٹی دے رہے ہیں، اپنے جگر کے ٹکڑے کو آپ دے رہے ہیں، اس کے مقابلے میں ہم کرسی اور صوفہ مانگیں۔ کیا حقیقت ہے؟ وہ اپنی طرف سے آرام کے لیے اپنی بیٹی کے لیے کچھ دے دیں وہ ٹھیک ہے لیکن اگر اس کے پاس نہیں ہے، قرینہ سے پتہ چل جاتا ہے، کہ لڑکی کا والد مالی لحاظ سے کمزور ہے تو شریف داماد اور شریف سمدھی کا حق ہے کہ کہہ دے کہ آپ بالکل تکلف نہ کریں اور اور ان کو یقین دلائو کہ کوئی طعنہ نہیں دے گا بلکہ لکھ کر دے دو اور اس پر اس کی ساس کے بھی دستخط کرائو کیونکہ اس وقت تو جوش میں کہہ دیں گی لیکن بعد میں ساری زندگی طعنے دیتی ہیں۔ جو مہمان آیا، ارے! آپ کی بہو کچھ لائی بھی ہے؟ ارے! کیا لائی ہے بس چند چیتھڑے اور کچھ ٹھیکرے لائی ہے، کپڑے کا نام چیتھڑے رکھ دیا، برتنوں کا نام ٹھیکرے رکھ دیا۔ اس لیے دل روتا ہے ایسے حالات سے۔ آپس میں آج اگر آپ اس مسجد کے اندر عہد کرلیں، کہ ہم اپنی شادیوں میں بیٹی والے سے کہہ دیں گے کہ آپ پر کوئی جہیز کی ذمہ داری نہیں ہے۔



اپنی بیٹی کو جو دل چاہے دے نہ دے اس پر کبھی طعنہ نہیں ملے گا اس پر اپنی بیوی اور بیٹے کے علاوہ اس کی بہنوں کے بھی دستخط کرائو کیونکہ بہنوں کی زبان بھی کبھی کڑوی ہوجاتی ہے۔ پھر دیکھو اللہ تعالیٰ کتنا راضی ہوتا ہے۔ ذرا یہ عمل کرکے دیکھئے تو شادی بیاہ بالکل آسان معلوم ہوگا۔ آج کل کیا حالات ہیں اسلام آباد میں ایک شخص کی چھ بیٹیاں ہوگئیں تو مجھ سے کہنے لگے کہ کوئی تعویذ دو کہ اب بیٹی نہ ہو کیونکہ خاندان میں پچاس ہزار ایک بیٹی پر خرچہ آتا ہے اور چھ بیٹیوں کو پچاس ہزار پر ضرب کرو تو تین لاکھ بنتا ہے۔ تین لاکھ میں کہاں سے لائوں گا۔ پانچ ہزار میری تنخواہ ہے۔ تین ہزار خرچ ہوجاتے ہیں۔ ایک ہزار بچائوں بھی تو تین لاکھ کہاں سے آئے گا لہٰذا مجبوراً سود لینا پڑے گا۔ قرضہ لینا پڑے گا۔ یہ ہماری غلطی ہے کہ ہم نے معاشرہ میں غیر اسلامی رسمیں رائج کی ہیں اس کے لیے خاص طور پر آپ لوگ ہمت کیجیے، نہی عن المنکر کی جماعت الگ بنانے کی ضرورت ہے اور برائیوں کو مٹانے کے لیے آپ سب اس میں داخل ہوجائیں۔ یہ جتنے لوگ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں سب بُرائیوں کے مٹانے میں ہمارے ممبر اور انصار ہیں۔