دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

16 January 2011

گناہگاروں کے لیے طلوعِ آفتابِ امید

گناہگاروں کے لیے طلوعِ آفتابِ امید






ارشاد فرمایا کہ گناہوں کا استحضار اپنی فنائیت و بے مائیگی کی نیت سے تو جائز اور مستحسن ہے کہ بندے کی نگاہ پھر اپنے عمل پر نہیں رہتی۔ اپنی پچھلی زندگی کے اعمال دیکھ کر اپنے دامن کو خالی پاتا ہے تو اس کی نگاہ اللہ کی رحمت پر رہتی ہے کہ میں تو کسی قابل نہیں میاں کی رحمت بڑی ہے، اپنے عمل کے اعتبار سے تو میں مستحق عذاب ہوں لیکن حق تعالیٰ کی رحمت سے امید رکھتا ہوں کہ اپنی قدرت کاملہ قاہرہ سے وہ ایک منٹ میں نہ جانے کیا سے کیا بناسکتے ہیں۔ ان کی عطا کسی استعداد و قابلیت کسی قاعدہ قانون کی پابند نہیں ہے۔ مطلع ابر آلود ہوتا ہے ایک ہوا چلتی ہے اور گھنگھور گھٹائوں کو اڑا کر لے جاتی ہے۔ اسی طرح اگرچہ ہمارے قلب کا افق گناہ کی گھٹائوں سے گھر گیا، نور کی کہیں گنجائش نہیں رہی لیکن اپنی گھٹائوں کو مت دیکھو ان کی نسیم کرم پر نظر رکھو، اس کے سامنے یہ گناہ کیا چیز ہیں۔ تو اپنی بے مائیگی اور فنائیت کے اعتبار سے اپنی سابقہ زندگی کے گناہوں کو یاد کرنا یہ تو پسندیدہ ہے، اللہ  کو یہ بات پسند ہے کہ بندہ مٹا ہوا رہے۔ ایسا شخص کہ جس نے کبھی کوئی گناہ تو نہیں کیا لیکن اپنے اعمال پر نظر ہوگئی کہ میں ایسا ہوں، میرے ان اعمالِ حسنہ سے مجھ کو بڑا قرب حاصل ہوگیا ہوگا۔ سمجھ لو شیطان نے اس کا راستہ ماردیا، ایسا شخص ہرگز مقرب نہیں ہوسکتا جو قرب حاصل تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔اس سے تو وہ گنہگار اچھا ہے جو اپنے گناہوں کی وجہ سے نادم رہتا ہے۔ ندامت اور شرمندگی اللہ  کو پسند ہے لیکن کبھی کبھی شیطان کان میں پھونک دیتا ہے کہ تم نے تو ساری زندگی گناہوں میں کاٹ دی حتیٰ کہ اب گناہوں کی استعداد بھی نہ رہی اور ولایت موقوف ہے استعداد ہوتے ہوئے تقاضے پر عمل نہ کرنا، اب تمہیں کیا قرب نصیب ہوگا، ولایت کا اعلیٰ مقام اب تمہیں نصیب نہیں ہوسکتا۔ جب دل میں یہ خیالات آئیں تو سمجھ لو کہ یہ شیطان کا زبردست دھوکہ ہے۔ وہ مایوس کرنا چاہتا ہے کہ اسے اللہ  کا قرب حاصل نہ ہوسکے۔ گناہ کا ایک تعلق تو بندے کی ذات سے ہے کہ واقعی ہم اپنے عمل کے اعتبار سے کسی قرب خاص کے مستحق نہیں لیکن دوسرا تعلق اللہ  کی ذات سے ہے کہ وہ ہمارے گناہوں سے بھی عظیم ہیں ایک منٹ میں گناہوں کو دھوکر تاج خلافت پہناسکتے ہیں اس لحاظ سے ان کی رحمت سے ہرگز ہرگز کسی حال میں نا امید نہ ہونا چاہیے۔

اے عظیم از ما گناہان عظیم

تو توانی عفو کردن در حریم

یہ ہے معرفت۔ اصل میں ہم دنیا کے اور جسم کے معاملات پر ان کی رحمت کو قیاس کرتے ہیں اس وجہ سے ناامیدی ہوجاتی ہے جیسے دنیا میں کسی مریض کے پھیپھڑوں میں سوراخ ہوتا ہے اور ناقابل علاج ہوجاتا ہے تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ ناقابل علاج ہوگیا، اب اسے کسی علاج سے فائدہ نہ ہوگا کیونکہ اس میں اب استعداد صحت ختم ہوچکی ہے لیکن روح کے معاملات کو کبھی اس مثال پر قیاس نہ کرنا کیونکہ روح کا معاملہ اللہ  کے ساتھ ہے اور اللہ  تعالیٰ کی الوہیت کیا ہماری استعداد سے چھوٹی ہے یا ہماری استعداد کی پابند ہے یا اللہ  تعالیٰ مجبور ہیں کہ فلاں بندے نے کیونکہ گناہ کرکے خود کو تباہ کرلیا اس لیے نعوذ بااللہ اب ہم اس کو اپنا بنانے پر قادر نہیں لہٰذا سند اعمال صالحہ یعنی سند استعداد ولایت دکھائو تو ہم اپنا بنائیں گے۔ ارے خوب یاد رکھو کہ اللہ  کی رحمت کسی سند و استعداد کی پابند نہیں، جب وہ فضل فرماتے ہیں تو ایک منٹ میں بغیر سند و استعداد کے اپنا بنالیتے ہیں، بندہ جس قابل نہیں ہوتا اس قابل بنادیتے ہیں۔ وہ قابلیت کے پابند نہیں ہیں، نجاست پر جب ان کے آفتاب کرم کی شعاعیں پڑتی ہیں تو آفتاب کی گرمی سے اس کا ایک حصہ تو زمین میں جذب ہوجاتا ہے اور ایک حصہ خشک ہوجاتا ہے۔ اسی نجاست کے ذرات برسات میں کھاد ہوجاتے ہیں اور وہ حصۂ زمین سبزہ زار ہوجاتا ہے۔ اور خشک حصہ تنور میں جل کر نور بن جاتا ہے۔ بولئے نجاست میں کیا خوبی و استعداد تھی؟ ان کی رحمت نجاست کو سبزہ زار بنادیتی ہے نور بنادیتی ہے۔ سبزۂ و نور بننے سے پہلے اگر نجاست یوں کہے کہ میں تو کسی قابل نہیں کیونکہ میرے اندر تو سبزہ زار بننے کی صلاحیت ہی نہیں تو یہ اس کی حماقت اور معرفت کی کمی ہے۔
 ارے تونے اپنی استعداد کو دیکھا اللہ  کی رحمت کو نہ دیکھا جو خالق قابلیت و استعداد ہے۔
تہجد کے وقت حضرت بڑے پیر صاحب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ  علیہ کو الہام ہوا کہ دو ہزار میل کی دوری پر ایک ابدال کا انتقال ہورہا ہے جائو اس کی نماز جنازہ پڑھانی ہے اور فلاں عیسائی کو جو صلیب ڈالے ہوئے گرجا میں پوجا کررہا ہے کلمہ پڑھا کر کرسی ابدالیت پر بیٹھانا ہے۔ بولئے اس عیسائی میں کیا استعداد تھی، کفرو طغیان میں مبتلا تھا ابھی تو کوئی عمل بھی نہ کیا تھا اور درجہ ابدال کا عطا ہورہا ہے، اتنے شواہد ہیں کہ تاریخ بھری ہوئی ہے۔ حضرت فضیل ابن عیاض ڈاکہ ڈالتے تھے جوانی ڈاکہ زنی قتل و غارت میں گذاری اپنے آپ کو تباہ کرلیا تھا، بڑھاپے میں توبہ کی اور ہمارے سلسلے کے اتنے بڑے ولی اللہ  ہوئے کہ آج سلسلہ ان سے جاری ہوا۔ بولیے کیا کسی استعداد کی وجہ سے انہیں یہ قرب عطا ہوا۔ اللہ کی رحمت پر نظر رکھو ان کی رحمت سے بڑے سے بڑے درجہ ولایت کی امید رکھو ان کا فضل کسی قاعدہ قانون کا پابند نہیں روتے رہو اور مانگتے رہو ان کا فضل جس کو چاہتا ہے مقام عالیہ عطا کرتا ہے وہ کسی کی استعداد و قابلیت کا پابند نہیں ان کے فضل سے امید رکھو کہ کس وقت نہ جانے کیا سے کیا بنادیں۔



بعض دفعہ تباہ شدہ زندگیوں کو زیادہ قرب نصیب ہوجاتا ہے جیسے ایک ملک میں زلزلہ آیا تھا تو اس ملک کے بادشاہ نے شاہی خزانے کو عام کردیا تھا کہ جس کا مکان تباہ ہوگیا ہو وہ پہلے سے اچھا مکان بنالے، جن کی جھونپڑیاں تھیں ان کے محل بن گئے۔ تو کیا ہمارا اللہ  دنیاوی بادشاہوں سے بھی نعوذ بااللہ  کم ہے؟ اگرچہ ہم نے گناہوں کے زلزلوں سے اپنے آپ کو تباہ کرلیا ہے لیکن ہمارا شاہ تو ایسا غنی ہے کہ ہماری عمارت قرب کو پہلے سے کہیں اچھی اور عالی شان تعمیر کرسکتا ہے، وہ پہلے سے زیادہ اور عظیم الشان قرب عطا فرمانے پر قادر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے مایوس نہ ہونا چاہیے چاہے کیسا ہی حال ہو بلکہ توبہ کرکے ولایت کے اعلیٰ ترین مقام کی امید رکھنا چاہیے۔





No comments: