دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

27 April 2010

خاص بیان: ایمان اور عملِ صالح کا ربط

ایمان اور عملِ صالح کا ربط

شیخ العرب والعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

کا یہ بیان ۱۷ ؍ شعبان المعظم ۱۴۲۰؁ھ مطابق ۲۶؍ نومبر ۱۹۹۹؁ء بروز جمعہ ،

جامع مسجد اشرف ،گلشن اقبال ،کراچی میں ہوا۔ )



اَلْحَمْدُ لِلّٰلہِ الَّذِیْ وَسَلاَ مٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّابَعْدُ



فَاَعُوْذُبِااللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰـنِ الرَّحِیْمِ۔



مَنْ عَمِلَ صَالِحَاًمِنْ ذَکَرٍاَوْاُنْثٰی وَھُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَہ۔
(سورۃ النحل/آیت :۷۹)

بالطف حیات کے حصول کا طریقہ

اللہ  سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کی مَنْ عمل صالحاً جو شخص عمل صالح کرے گا من ذکر او انثیٰ چاہے مرد ہو یا عورت دونوں میں مساوات ہے عَلٰی سَبِیْلِ التَّسَاوِیْ وَعَلٰی سَبِیْلِ الْمَسَاوَاتِ دونوں کے لئے ہمارا وعدہ ہے کہ ہم دونوں کو حیات طیبہ ضرور ضرور بالطف زندگی دیں گے من ذکر یعنی مرد ہو او انثا یاکیونکہ مرد و عورت دونوں اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت بالطف حیات سے مشرف فرمایا ہے۔ دونوں کو لیکن کس طرح شرط فرمایا کہ من عمل صالحاً جو عمل کر ے گا۔ اس مثبت شرط میں منفی شرط موجود ہے کہ غیر صالح عمل نہ کرے۔ معلوم ہوا کہ بالطف زندگی نافرمانی سے نہیں پائوگے۔ اس لیے چوری چھپے حرام مزہ حاصل کرکے زندگی کو غیر شریفانہ طور پر ضائع نہ کرو کیونکہ بالطف حیات میرے ہاتھ میں ہے جو تم کو حیات دے سکتا ہے وہ بالطف حیات نہیں دے سکتا ؟



ازروئے حدیثِ پاک گناہ کی دو علامات



تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مَنْ عَمِلَ صَالِحَاً کی شرط لگائی ہے کہ نیک عمل کرے گا، صالح عمل کرے گا، اچھا عمل کیا ہے؟ جس سے ہم خوش ہوں اور بُرا عمل کیا ہے جس سے ہم ناراض ہوں، اس کے لیے آپ کو کنزالدقائق پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، یہی فارمولا اور تھرمامیٹررکھ لو جب کوئی عمل کرو تو اپنے دل سے پوچھ لو کہ یہ عمل اچھا ہے یا بُرا، اور یہ آپ کا دل بتادے گاکیونکہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کی دو دلیل اور دو علامات ارشاد فرمادیں:

{اَلْاِ ثُمْ مَاحَاکَ فِیْ صَدْرِک وَ کَرِہْتَ اَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ}
(صحیح مسلم، کتاب البرو الصلۃ والآذب، باب تفسیر البر والاثم)
 اَلْاِ ثُمْ مَاحَاکَ فِیْ صَدْرِک گناہ کی حقیقت یہ ہے کہ تمہارے دل میں کھٹک پیدا ہو جائے، دل میں تردد پیدا ہوجائے کہ میں کیا کر رہا ہوں، کسی گناہ سے گنہگار خود بھی مطمٔن نہیں ہوتا۔ اسی لئے گناہ کرنے کے بعد وہ شرمندگی میں مبتلا ہوجاتا ہے، یہ شرمندہ ہونا دلیل ہے کہ ہم سے گناہ ہوگیا۔ کوئی آدمی نیک کام کرکے کبھی شرمندہ نہیں ہوتا، نماز پڑھ کے ، تلاوت کرکے، کسی اللہ والے سے ملاقات کرکے، عمرہ کرکے یا حج کرکے، کسی کو شرمندگی ہوتی ہے؟ تو شرمندگی کا ہونا اور دل میں کھٹک ہونا ایک علامت ہو گئی۔



  اور دوسری علامت ہے وَکَرِھْتَ اَنْ یَّطَلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ اور تم کو یہ بات ناگوار ہو کہ کوئی تمہارے گناہ کو نہ جان لے، اب ہر طرف دیکھ رہاہے کہ کوئی دیکھ نہ لے کوئی جان جائے اور کسی کے دیکھنے سے اپنے گناہ کو کیوں چھپا رہا ہے؟تاکہ وہ جان نہ جائے کہ صورت ہم چنیں اور ہم چناں۔تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے گناہ کی دو علامات بتادیں۔ گناہ کا جو کام بھی کرے گا ان دو علامات سے اس کا خروج نہیں ہوگا، گناہ کے لیے یہ دو علامات لازمی ہیں چاہے صورت بگاڑو چاہے سیرت۔


ڈاڑھی کتنی بڑی رکھنی چاہیے؟


جو سنت کے خلاف جو صورت اختیار کرتا ہے اس کا دل اندر سے ملامت کرتا ہے کہ میں کیوں ڈاڑھی منڈار ہا ہوں یا کاٹ رہا ہوں، ڈاڑھی منڈانا بھی حرام ہے اور ایک مٹھی سے کم کاٹنا بھی حرام ہے۔ پھر کتنی ڈاڑھی رکھنا جائز اور واجب ہے؟ ایک مٹھی کے برابر سامنے سے، ایک مٹھی کے برابر سیدھے ہاتھ سے اور ایک مٹھی کے برابر بائیں ہاتھ سے۔ جب ڈاڑھی ایک مٹھی سے بڑھ جائے تو بے شک آپ زائد ڈاڑھی کو کاٹ دیں۔



حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ ایک مٹھی سے زائد ڈاڑھی کاٹ دیا کرتے تھے اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بڑے پیر صاحب فرماتے ہیں کہ سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک مٹھی سے زائد ڈاڑھی کاٹ دیا کرتے تھے۔ پلاٹنگ کے لیے تحریر کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر افسر اعلیٰ اگر پتھر لگادے تو اس کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے تو ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہماری صورت و سیرت کے افسر اعلیٰ ہیں ۔ انہوں نے یہ پلاٹنگ کردی کہ ایک مٹھی کے بعد ڈاڑھی کاٹ سکتے ہو۔ اور ریش بچہ یعنی ڈاڑھی کا بچہ کاٹنا بھی حرام ہے، یہ ہمیشہ بچہ ہی رہتا ہے چاہے آپ ستر سال کے ہوجائیں یہ بچہ ہی رہے گا، سی لیے اس کا نام ریش بچہ ہے یعنی داڑھی کا بچہ ۔



اگر یہ ریش بچہ منہ میں گُھستا ہے تو تیل لگا کر نیچے کردو، اگر آپ کا چھوٹا سا بچہ نادانی سے آپ کے منہ میں انگلی گھسائے تو آپ اس کی انگلی نہیں کاٹیں گے، سمجھائیں گے کہ بیٹے باپ کے منہ میں انگلی نہیں ڈالتے۔ تو جو ڈاڑھی منڈانے یا کاٹنے کا گناہ کرتا ہے تو یہ صورت اس کے دل میں بھی کھٹکتی ہے کہ یا اللہ ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تو داڑھی رکھی تھی اور ہم یہ کیا کر رہے ہیں کہ آپ کی شکل کے خلاف جارہے ہیں۔



اہل باطل سے حق پر استقامت کا سبق



سکھ جو باطل مذہب والا ہے وہ اپنے گرونانک پر جان دیتا ہے، داڑھی رکھتا ہے، پگڑی باندھتا ہے، کافر تو اپنے پیشوائوں پر جان دے رہا ہے اور کہیں بھی جائے چاہے ریل میں اکیلا بیٹھا ہو اور ہزاروں آدمی سب داڑھی منڈے ہوں مگر کسی سکھ کو آپ نہیں دیکھیں گے کہ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو اور کہے کہ بھئی کیا کریں مجبوری ہے سب کے سب ہی ڈاڑھی منڈے ہیں۔ انڈیا کے بعض شہروں میں سکھوں کے ایک دو ہی گھر ہیں مگر وہاں وہ ڈاڑھی اور پگڑی کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں۔ اگرچہ کفر کی وجہ سے ان کی ڈاڑھی اور پگڑی آخرت میں کچھ مفید نہیں لیکن کیا ہمت ہے ان کی! ہم سب کو اس سے سبق لینا چاہیے۔



اکثریت سے متاثر نہ ہونا مومن کی شان ہے



اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اکثریت مت دیکھو کہ صاحب اکثریت داڑھی نہیں رکھتی اس لئے ہمیں بھی ہمت نہیں ہوتی، سورج ستاروں کی اکثریت دیکھتا ہے؟ حلانکہ سورج ایک ادنیٰ مخلوق ہے اشرف لمخلوقات بھی نہیں ہے، ولی اللہ بھی نہیں ہے سورج تو ولی اللہ کی خدمت کیلئے ہے، وہ تو خادم الاولیاء ہے سورج ،چاند ،ستارے اور یہ آسمان و زمین اور سمندر اور پہاڑ یہ سب خادم الاولیاء ہیں اولیاء نہیں ہیں۔ عجیب معاملہ ہے کہ سورج ستاروں کی اکثریت سے نہ ڈرے بلکہ دندناتا نکلے اور ستاروں کو روپوش کردے عَلٰی مَعْرِضِ الْفَنَا کردے کالعدم کردے اپنی آفتابیت سے مومن کی شان بھی یہی ہے کہ اپنے ایمان کی آب و تاب سے سارے عالم کو کالعدم کردے ؎

جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں

کوئی محفل ہو تیرا رنگ محفل دیکھ لیتے ہیں

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کی منڈی میں غلہ خرید رہے تھے، عیسائیوں کا ملک تھا لیکن آپ کی وہی داڑھی اور وہی لباس تھا اور منڈی میں بھی آپ اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت رسالت بیان فرما رہے ہیں۔ یہ ہے ایمان! ایمان کافر کی کھوپڑی پر بھی دندناتا اور تنتناتا ہے، یہ نہیں کہ لندن جا کر سب بھول گئے، میموں کی موم کی بتیاں دیکھ کر اپنی بتی بھول گئے۔



اسی طرح پاجامہ لنگی ٹخنے سے اوپر کرنا کیا مشکل ہے بھائی، اگر سردی ہے تو گرم موزہ پہن لو، گرمی ہے تو ٹھنڈا موزہ پہن لو، شریعت کا کوئی کام مشکل نہیں ،سب آسان ہے البتہ اس کے خلاف مشکل ہے۔ نظر کی حفاظت کتنی آسان ہے، کسی کو نہ دیکھو بے خبر رہو کہ یہ کیسا ہے یا کیسی ہے، بے خبر رہنا آسان ہے یا باخبر ہونا؟ جب باخبر ہو جائو گے تو ان کی صورت کی ڈیزائن آپ کو رام نرائن کردے گا یعنی پریشان کردے گا اور پھر اسے ریزائن دینا مشکل ہو جائے گا۔



بدنظری کے حرام ہونے کی دل نشیں توجیہ



اس لئے اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ بدنظری کو حرام فرمادیا کہ کہیں میرے بندے کسی مشکل میں نہ پڑجائیں اور ان کی نظر کسی ایسی شکل پر نہ پڑ جائے کہ اُس ڈیزائن کو ریزائن دینا مشکل ہو جائے اور ان کے دل کا قبلہ بدل جائے۔ نماز میں میرے سامنے کھڑے ہیںمگر دل میں اُسی حسین کی یاد آرہی ہے۔ اور نظر ڈالنا عمل ہے، فعل ہے، کام ہے تو کام کرو آرام سے رہو۔ کیوں بھئی! جب اللہ تعالیٰ ہمیں آرام دے رہے ہیں تو آرام سے کیوں نہیں رہتے؟ اپنے دل کو بے چین کرنا بھی حرام ہے۔ بتائو! کسی مسلمان کو تکلیف دینا حرام ہے یا نہیں؟ اور یہ نظر مارنے والے کا دل بھی مسلمان ہے یا نہیں؟ تو بدنظری کرنے والا اپنے دل کو تکلیف دے رہا ہے یانہیں؟ یہ کتنی بڑی بات بتا رہا ہوں کہ مسلمان کو تکلیف دینا حرام ہے، اور جو کسی حسین یا حسینہ کو دیکھتا ہے وہ اپنے دل میں تکلیف محسوس کرتا ہے کہ کاش میر ی بیوی اس طرح کی ہوتی۔



بدنظری سے چین ملنا ناممکن ہے



شیطان سڑکوں والی کے لیے آنکھوں پر مسمریزم کرتا ہے اور اپنی بیوی کو کمتر دکھاتا ہے۔ اس لئے حلال کی چٹنی روٹی کو حرام کی بریانی سے بہتر سمجھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اُس سے راضی ہے۔اور حرام حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ناراض ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والا عمل کرکے اللہ تعالیٰ کے بندہ کا دل گندہ ہو گا، اِس کا دل ہر وقت پراگندہ اور افگندہ رہے گا۔ اس لئے بتا رہا ہوں کہ جو سانس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں گذرتی ہے مؤمن کی اس سانس سے بڑھ کر کوئی منحوس اور بُری گھڑی نہیں ہے جس گھڑی میں یہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے حرام لذت کو امپورٹ کرتا ہے، یہ مؤمن کی سب سے بُری گھڑی ہے اور اس وقت اس کے چہرے کو دیکھ لو ایسا لگے گا جیسے جھاڑوُ پھر رہی ہے۔



بخاری شریف کی حدیث ہے کہ نظر بازی آنکھوں کا زنا ہے، سرور عالم صلی اللہ علیہ وسمل کی بددعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر لعنت کرے جو دوسروں کی بہو،بیٹیوں اور امرد لڑکوں کو دیکھتے ہیں، یہ لعنت ہر ایک پر ہے خواہ وہ دیکھے یا دکھائے یعنی حرام نظر ڈالے یا خود پر حرام نظر ڈلوائے۔ تو لعنتی چہرے پر نور کا مشاہدہ ہوگا؟ تواللہ تعالیٰ نے شرط لگائی ہے کہ اے احمقو اور گدھو ! جو میری نافرمانی میں حرام لذت کے ڈھونڈنے میں اپنی زندگی کو تلخی حرام سے وابستہ کرنے والو! اور زندگی کو مصیبت زدہ کرنے والو! تم میرے اس فرمان کے نازل کرنے کے باوجود، اِس آیت کو کیوں بھول جاتے ہوکہ بالطف زندگی میرے ہاتھ میں ہے، مجھ کو خوش کرو، زمین اس آسمان والے کے تابع ہے، زمین پر وہی چین سے رہے گا جو آسمان والے کو خوش رکھے گا۔



عورتیں بھی ولی اللہ ہوسکتی ہیں



تو میرے دوستو! یہ آیت مَنْ عَمِلَ صَالِحَاً من ذکر او انثیٰ جو بندہ بھی چاہے، وہ مرد ہو یا عورت ہو، اللہ اکبر! اللہ تعالیٰ نے مردوں کو بھی نوازہ اور عورتوں کو بھی نوازہ ،کسی عورت کو شکایت نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ میرا نام قرآن شریف میں بہت کم لیتے ہیں ، جہاں جہاں مردوں کا نام ہے وہاں وہاں تمہارا نام خودبخود ہے لیکن یہاں تو صاف صاف فرما دیا کہ جو نیک عمل کرے مِنْ ذَکَرٍاَوْاُنْثٰی مرد ہو یا عورت ہو وَھُوَمُؤْمِنٌ اور وہ مؤمن بھی ہو۔ اللہ اکبر! اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لیے اپنی ولایت اور دوستی کا دروازہ کھول دیا جیسے مرد حسن بصری ہوسکتے ہیں تو عورتیں رابعہ بصریہ ہوسکتی ہیں، اگر مرد کو ولایت کا اعلیٰ مقام مل سکتا ہے تو عورتیں بھی ولی اللہ ہوسکتی ہیں مگر عمل صالح کریں اور غیر صالح عمل سے توبہ کرلیں۔ وی سی آر، ویڈیو، ریڈیو کے گانے اور ٹیلی ویژن کی لعنتیں گھر سے نکال کر باہر کرو۔



ٹی وی بیچنے کا شرعی مسئلہ



ٹی وی پر یاد آیا کہ اگر ٹیلی ویژن بییچنا ہو، گھر سے نکالنا ہو تو دارالعلوم کراچی کے مفتی عبدالرئوف صاحب کا فتویٰ ہے کہ ٹی وی عیسائیوں کو بیچ دو، کسی مومن کو نہ بیچو تاکہ وہ گناہ میں مبتلا نہ ہو، اللہ تعالیٰ اس کی ہمت و توفیق دے کیونکہ اس سے بچے ضائع ہورہے ہیں، ماں باپ، بیٹی اور بیٹے سب خرافات اور گندی فلمیں دیکھ رہے ہیں۔ کیا اس سے اخلاق خراب نہیں ہوں گے؟ حیاء کا جنازہ نہیں نکلے گا؟ حیاء باقی رہے گی؟ لہٰذا ٹیلی ویژن بیچو تو عیسائی جمعدار، بھنگی کے ہاتھ بیچو۔ ایک صاحب نے کہا کہ ان کے پاس پیسے کم ہوتے ہیں، تو میاں اگر ایمان بچانا ہے تو اس کو قسطوں پر دے دو، پیسہ ملنے کا آسرا تو ہے، ہزار پانچ سو روپیہ مہینہ باندھ دو یا اس کے بدلے اپنے یہاں صفائی کرواتے رہو، وہ بھی کہے گا چلو مفت میں ملا۔



آیت مَنْ عَمِلَ صَالِحاً۔۔۔۔۔۔ الخ کی ایک علمی شرح



تو اللہ تعالیٰ نے یہاں عمل صالح کو پہلے کیوں بیان کیا اور وھو مؤمنکو بعد میں کیوں بیان فرمایا؟ اس کا ایک جواب علمی یہ آیا کہ عربی گرامر، عربی اصول کی رُوسے حال ہمیشہ بعد میں ہوت اہے اور ذوالحال پہلے بیان کیا جاتا ہے جیسے اہل عرب کہتے ہیں جآء زیدرا کبا علی الفرس زید میرے پاس آیا گھوڑے پر سوار ہوکر تو یہ گھوڑے کی سواری راکبا علی الفرس جو حال ہے زید کا یہ بعد میں بیان ہوا ہے اور زید جو ذوالحال ہے یہ پہلے بیان ہوا ہے۔



تو اللہ تعالیٰ نے عربوں کا دل خوش کرنے کے لیے ان کے قواعد کی رعایت پر قرآن پاک نازل فرمایا۔ آج اہل عرب قرآن پاک کی سب سے زیادہ تلاوت کررہے ہیں، اگر یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہ ہوتا تو جن کی زبان عربی ہے وہ یہی کہتے کہ ارے ایسی عربی تو ہم بھی رات دن بولتے رہتے ہیں ،لیکن آپ دیکھئے کہ مسجد نبوی میں اور حرم میں اور کعبہ شریف میں اہل عرب قرآن پاک کی کتنی تلاوت کرتے ہیں، اگر ،جماعت کھڑی ہونے میں پانچ منٹ بھی باقی ہیں تو فوراً قرآن شریف کھولیں گے اور تلاوت شروع کردیں گے۔ کیوں صاحب! یہ عربی کے ماہرین ہیں، عربی اِنکی مادری زبان ہے مگر ان میں کلام اللہ کی اتنی عظمت اور محبت کیوں ہے؟ اِن کے دل میں بھی اس کی عظمت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، یہ عربوں کا کلام نہیں ہے، خالق عرب والعجم کا کلام ہے۔



اعمال صالحہ کے مدارج ایمان کے مدارج پر موقوف ہیں



تو وَ ہُوَ مُؤُمِنٌ کے مَنْ عَمِلَ صَالِحاًکے بعد ہونے کی ایک وجہ تو دل میں یہ آئی کہ حال بعد میں آتا ہے ذوالحال سے۔ اور دوسری وجہ میرے قلب میں اللہ تعالیٰ نے یہ ڈالی کہ اعمال صالحہ کی خوبصورتی اور دردِ دل اور ذوقِ سجدہ اور ذوقِ اخلاص اور ذوقِ ایمان اور ذوقِ یقین کی ساری بنیاد وَھُوَمُؤْمِنٌ پر ہی ہے اور تم جیسے مومن ہوگے ویسا تمہارا سجدہ وہگا، ویسی تمہاری نماز ہوگی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یہاں حال کو اس لیے مؤخر کردیا کہ اعمال صالحہ کی بنیاد اور اس کی کیفیات اور اس کے مرتبوں کی بلندیاں اور اس کے مراتب عالیہ وابستہ ہیں ایمان کے مراتب عالیہ سے لہٰذا جیسا اعلیٰ درجے کا ایمان ہوگا ویسا ہی عمل بھی اعلیٰ درجے کا ہوگا۔



اسی لیے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اے لوگو! اگر میرا صحابی ایک مٹھی جَو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کردے، ایک مٹھی گندم خرچ کردے اور غیر صحابی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو غیر صحابی کا اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا میرے صحابی کے ایک کلو جَو اور گندم کو نہیں پاسکتا۔ کیوں؟ وَھُوَمُؤْمِنٌ تم مومن تو ہو مگر صحابہ جیسے مومن نہیں ہو، جس کا ایمان جس مرتبے کا ہوگا عمل صالح بھی اسی مرتبے کا ہوگا۔



تو وَھُوَمُؤْمِنٌ حال ہے اور من عمل صالحا میں جو من ہے یہ اس کا ذوالحال ہے۔ اس حال کے اندر بہت بڑے اسرارِ معرفت پوشیدہ ہیں کہ جیسامؤمن ہوگا ویسا ہی اس کاعمل صالح ہوگا۔ تو جتنا اچھا حال ہوت اہے ذوالحال بھی اتنا شاندار ہوتا ہے۔ نیک عمل کے ساتھ یہاں اللہ تعالیٰ نے وہو مومن کی قید لگادی کہ جیسا تمہارا ایمان ہوگا ویسا ہی عمل صالح ہوگا، جتنا بڑا انجن ہوگا اتنی ہی بلند پرواز تم کو عطا ہوگی، جمبو کا انجن ہوگاتو جمبو کی پروازعطا ہوگی، ائیربس کا انجن ہوگا تو ایئربس کی پرواز عطا ہوگی۔ اگر کوئی گدھے پر سوار ہوکر آئے تو سمجھ لو کہ یہ راکب یعنی سوار کس مقام کا ہے، اور اگر گھوڑے پر سوار ہوکر آئے تو سمجھ لو کہ راکب بھی کوئی چیز ہے، اور اگر مرسڈیز کار پر آئے تو سمجھ لو کہ اس کا حال اور اچھا ہے اور اگر جمبو پر آئے تو سب سے اچھا حال ہے۔ تو حالات میں فرق ہوتا ہے۔ اسی کے بقدر ذوالحال میں فرق ہوتا ہے۔ جو مومن اچھے اعمال سے اللہ کو ہر وقت خوش رکھتا ہے اور ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کو ناراض نہیں کرتا اس کا حال نہایت شاندار ہے۔



معصیت اور عمل صالح میں تضاد ہے



اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شرطِ مثبت بیان فرمائی ہے ،من عمل صالحا یعنی جو نیک عمل کرے لیکن اس شرط مثبت کے اندر شرط منفی موجود ہے۔ آپ بتائیے! جس وقت کوئی گناہ کرتا ہے اس وقت اس کا شمار من عمل صالحا کے اندر رہتا ہے؟ من عمل صالحا یعنی جو اچھا عمل کرے تو حالت گناہ میں وہ من عمل صالحا ہے یا غیر صالح عمل کررہا ہے؟ تو کیا اس شرط مثبت میں شرطِ منفی موجود نہیں ہے؟ پس مطلب یہ ہوا کہ جو عمل صالح کرے چاہے مرد ہو یا عورت، اس میں یہ منفی شرط موجود ہے کہ اگر گناہ میں رہوگے، غیر صالح عمل میں رہو گے تو من عمل صالحا نہیں رہوگے، پھرمیرا بالطف حیات دینے کا وعدہ تمہیں کیسے ملے گا، فلنجینہ حیوٰۃ طیبۃ ہم ضرور بالضرور اس شخص کو بالطف حیات دیں گے جس کی ہر سانس عمل صالح میں مشغول ہے، جس کی حیات عملِ صالح میں مشغول ہے، جس کی زندگی عملِ صالح میں مشغول ہے اور وہ مومن بھی ہو، یہاں عمل صالح کے ساتھ ایمان کی شرط ہے کیونکہ ایمان جیسا ہوگا عملِ صالح بھی ویسا ہوگا۔ اسی لیے اب کوئی بڑے سے بڑا ولی کسی ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا کیونکہ اب قیامت تک صحابہ جیسا ایمان کوئی نہیں پاسکتا لیکن اس زمانے میں جس کی جتنی عظیم الشان ایمانی کیفیت ہوگی اتنا ہی عظیم الشان اس مومن کا درجہ ہوگا۔



خانقاہوں میں جانے کا مقصد کیا ہے؟



اسی ایمانی کیفیت کے لیے ہم خانقاہوں میں اہل اللہ کی خدمت میں جاتے ہیں، کسی پیر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ فجر کی فرض نماز کی دو رکعت کو چار کردے یا عصر کی چار فرض کو دو کردے۔ ہم وہاں مقدار کے لیے نہیں جاتے، کمیات کے لیے نہیں جاتے، ہم مغرب کی تین رکعت کو ساڑھے تین کرنے کے لیے خانقاہ نہیں جاتے لیکن تین رکعت کیسے ادا ہونی چاہیے، کس دردِ دل سے ادا ہونی چاہیے وہ دردِ دل لینے ہم خانقاہوں میں جاتے ہیں، ہم کیفیاتِ دردِ دل، کیفیاتِ احسانیہ، کیفیاتِ اخلاصیہ، کیفیاتِ خشیۃ، کیفیاتِ محبتیہ، کے لیے جاتے ہیں، اﷲ تعالیٰ کی محبت سیکھنے جاتے ہیں تاکہ ہمارا سجدہ سجدہ ہوجائے، جب منہ سے سبحان ربی الاعلیٰ نکلے کہ اے میرے پالنے والے آپ بہت عالی شان ہیں، پاک ہیں، اور جب سبحان ربی العظیم نکلے کہ اے میرے پالنے والے آپ پاک بھی ہیں اور عظیم الشان بھی ہیں تو جب کیفیاتِ احسانیہ حاصل ہوں گی پھر ایک ایک لفٹ میں مزہ آئے گا تب آپ کو خدا کے حضور ایک سجدہ دو سو سلطنت سے افضل معلوم ہوگا۔ اسی لیے اولیاء اللہ کی دو رکعت، عارفین کی دو رکعت غیر عارفین کی ایک لاکھ رکعت سے افضل ہوتی ہے، ہمارے دادا پیر حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ عارفین یعنی جنہوں نے اللہ کو پہچان لیا، جن کے سجدے عظمتِ الٰہیہ، خشیتِ الٰہیہ اور محبت الہٰیہ کے پیش ِ نظر ہوتے ہیں ان کی دو رکعت عام آدمی کی ایک لاکھ رکعت سے افضل ہوتی ہے اور اُن کا سجدہ دو سو ملک سے افضل ہوتا ہے ، مولانا رومی فرماتے ہیں ؎



لیک ذوقِ سجدۂ پیشِ خُدا



خوشتر آید از دو صد دولت تُرا



اللہ تعالیٰ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کو نو ر سے بھر دے۔ مولانا رومی کے کلام کی بلاغت دیکھو! فرماتے ہیں کہ اے ظالمو! اے بد نظری کے شکاریو! اور مُردوں پر مرنے والے کرگسو! اور اوقاتِ زندگی کو تباہ کرنے والو! اور اپنے مولیٰ کے غضب و قہر میں انفاسِ زندگی گزارنے والو! سنو اگر اللہ کے حضور میں اللہ والوں کا سجدہ تمہیں نصیب ہوجائے اور دل کو بینائی عطا ہوجائے اور دل کے موتیا پن اور گناہوں کے خبیث مادوں کا آپریشن ہوجائے تو اس دن تم کو ایک سجدے میں اتنا مزہ آئے گا کہ خدا کے حضور وہ ایک سجدہ دو سو سلطنت سے بھی افضل معلوم ہوگا۔ یہ ہے کمائی، اس کا نام ہے زندگی۔



نعمت برائے شکر اور منعم برائے ذکر ہے



کپڑے پہن کے فخر کرنے والو! ایک دو سال کے بعد وہ کپڑا جمعدار لے جائیں گے اور کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیں گے جہاں کتے اس پر پیشاب کریں گے۔ اگر یہ چیزیں آپ کے فخر کی ہیں تو آپ کی قابل فخر چیز پر کتا موت رہا ہے۔ اور شامی کباب اور بریانی اور پلائو کی مستیاں اور اس کی خوشبو سے جھوم جھوم کر کھانے والو! مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خوشبودار کھانے کھا کر لیٹرین میں بدبودار مال کیوں نکال رہے ہو؟ معلوم ہوا کہ نعمت تو کھائو مگر نعمت سے دل نہ لگائو، دل نعمت دینے والے سے لگائو، نعمت برائے شکر ہے برائے ذکر نہیں ہے اور نعمت دینے والا برائے ذکر ہے۔ فاذکرونی اذکروکم واشکرولی ولا رکفرون اس آیت میں اللہ کا ذکر پہلے ہے اور نعمت کا شکر بعد میں ہے۔



عمل صالح پر بالطف حیات کا وعدہ



اللہ تعالیٰ آگے فرمارہے ہیں فَلَنُحْیِیَنَّہٗ یہ جزا ہے ، پہلے شرط بیان کی کہ جو عمل صالح کرے گااور غیر صالح عمل سے اپنے کو بچائے گا اور زخم حسرت کھائے گا، خونِ آرزو پیئے گا۔ شکست آرزو سے شکست ِ دل اختیار کرے گا میں اُس کے ٹوٹے ہوئے دل میں بالطف حیات دینے کی ضمانت لیتا ہوں۔فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃًطَیِّبَۃً ہم ضرور ضرور اس کو بالطف زندگی دیں گے۔ عربی گرامر والے جانتے ہیں کہ یہاں لام تاکید بانونِ ثقیلہ ہے جو انتہائی تاکید کے لیے آتا ہے۔ یعنی ہم اس کو ضرور بالضرور بالطف زندگی دیں گے۔ تفسیر بیان القرآن میں یہ حکیم الامت کا ترجمہ ہے۔



تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس اندازِ بیان پر فدا ہوجائو کہ کس اندازِ بیان سے اللہ تعالیٰ نے ہماری بالطف حیات کی کفالت و ضمانت قبول فرمائی ہے کہ اگر تم نیک عمل کروگے اور اگر برے عمل نہ کروگے، غیر صالح عمل نہ کروگے تب میں تمہاری بالطف حیات کا ذمہ لیتا ہوں ورنہ حلال و حرام کیسے جمع ہوجائیں کہ تم حرام لذت بھی اینٹھتے رہو اور ہم تم کو حلال لذت بھی دے دیں، میرے غضب کے راستے سے میری نعمت مانگتے ہو، حماقت کی کوئی حد ہے لہٰذا پہلے گناہ چھوڑو، پہلے نافرمانی چھوڑو، پہلے نہائو، پاک صاف ہوجائو پھر عود کا عطر لگائو ورنہ گندگیوں میں، پسینوں میں اور بدبودار ماحول میں عود کی خوشبو کا احساس بھی نہ ہوگا۔



تو اے غیر شریفانہ حرکت کرنے والو اور اے نادانو! تم نافرمانی میں کہاں لطف لے رہے ہو جبکہ خالقِ حیات کا قرآنِ پاک میں اعلان ہے کہ بالطف حیات تو عمل صالح میں ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون سچا ہوسکتا ہے اور تیرا نفس جھوٹا ہے جو تجھے بارہا گناہوں کی خندق میں گراچکا ہے اور حرام مزے کے لیے تجھے ذلیل و خوار کرکے تیری زندگی کو تلخ اور بدمزہ کرچکا ہے۔



بدنظری کے خلاف جہاد کارِ تجدید ہے



تو دوستو! یہ عرض کررہا ہوں کہ واللہ اگر زندگی کا مزہ لینا چاہتے ہو تو یہ مزہ ناف کے نیچے نہیں ہے، گٹر لائنوں میں، اللہ کے غضب اور قہر کے اعمال میں نہیں ہے، بعض لوگ اس بدنظری کو معمولی گناہ سمجھتے ہیں، یہ بے وقوف لوگ ہیں، ان کی عقل میں نور نہیں ہے کیونکہ سارے گناہوں کی جڑ بدنظری ہے، دل وہیں سے غیر اللہ میں پھنستا ہے، وہیں سے مولیٰ سے چھوٹتا ہے، بدنظری کے نقطۂ آغاز، زیروپوائنٹ ہی سے پینٹ اترتی ہے۔ یہ اتنی خبیث بیماری ہے کہ اس کو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھوں کا زنا فرمایا ہے۔تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا کہ اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں دونوں سے فرمادیجئے کہ نظر کی حفاظت کرو کیونکہ اس سے دل کا قبلہ بدل جاتا ہے، اب نماز میں لاکھ کہو کہ منہ میرا کعبہ شریف کی طرف تو سینہ تو کعبہ شریف کی طرف رہے گا مگر دل کہیں اور رہے گا۔



الحمدلِلّٰلہ! حکیم الامت کے صحبت یافتہ اور حضرت مفتی محمد حسن امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور میرے مرشد شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کے خلیفہ حضرت حاجی افضل صاحب جن کی عمر اس وقت تقریباً نوے سال کی ہوگی ایک زمانہ تھانہ بھون میں رہے ہیں، انہوں نے لاہور میں غلام سرور صاحب اور میرے سب احباب خصوصی سے میری غیر موجودگی میں ایک بات کہی اور جب میں لاہور گیا تو ان لوگوں نے مجھے خوشخبری سنائی کہ حاجی افضل صاحب نے یہ کہا کہ اس زمانے میں حکیم محمد اختر نظر کی حفاظت کے مضمون کا مجدد ہے۔ اللہ والوں کی ان خوشخبریوں کو میں اپنے حق میں دعا سمجھتا ہوں، اللہ تعالیٰ مجھ کو ایسا ہی بنادیں ، اپنے بڑے کو کوئی بات کہہ دیں تو خود اس کا مستحق مت سمجھو، یہ کہہ دو کہ یہ بزرگوں کی دعائیں، نیک فالیاں ہیں۔



حفاظتِ نظر تقویٰ کی سرحدوں کی حفاظت ہے



میں بدنظری کے مرض پر اس لیے زیادہ زور دیتا ہوں کیونکہ یہ گیٹ ہے، یہ ہمارا واہگہ بارڈر ہے، اگر ہم سرحد پر پولیس نہ رکھیں توکسی بھی وقت دشمن سرحد کے اندر آجائے گا، ساری دنیا کی مملکتیں اور سلطنتیں اپنے اپنے بارڈر پر سیکیورٹی اور فوج رکھتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے بھی ہماری آنکھوں کے بارڈر پر غضِ بصر کی سیکورٹی رکھی ہے مگر جب اختر اس کو بیان کرتا ہے تو بعض لوگ ہنستے ہیں کہ ان کے یہاں تو بس یہی ایک مضمون ہے۔ آپ بتائیے کہ میں یہ سیکورٹی کیسے ہٹادو، جو لوگ سچے مخلص ہیں جن کو بدنظری اور حرام فعل سے بچنا اور ولی اللہ بننے کا شوق ہے ان سے پوچھو میرے مضمون کی قدر ورنہ جو پاخانے کے کیڑے ہیں وہ میرے عود کی خوشبو کی ناقدری کرتے ہیں۔



چنانچہ لڑکیوں کے ایک اسکول کے پرنسپل نے جب حفاظتِ نظر کا یہ مضمون سنا تو کہا کہ صاحب یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ نظر ہی نہ ڈالیں، ہمارے یہاں تو ہر وقت لونڈیا آتی ہیں، ہر قسم کے لباس میں، مختلف قسم کے ڈیزائن میں، ہم تو یہی ڈیزائن دیکھتے رہتے ہیں، ہمیں آپ کا یہ مضمون پسند نہیں آیا۔ بس میں سمجھ گیا کہ بدنظری سے اس کا دل اور دماغ سڑ گیا ہے اس لیے عود کے مضمون میں اس کو خوشبو محسوس نہیں ہوئی۔ ود کا عطر سب سے مہنگا بکتا ہے مگر زکام کے مرض والے سے کیا کہیں۔ بہرحال جن کو میری پرواہ نہیں ہے مجھ کو بھی ان کی پرواہ نہیں ہے۔



بعض لوگ ایسے آئے کہ میرے ایک دو مضمون سنے اور کہا کہ بھئی وہاں تو بس ہر وقت نظر بچانے کی بات ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر نظر نہیں بچائو گے تو ہماری سرحدیں پولیس چوکیوں سے خالی ہوجائیں گی اور دشمن جب چاہے گا اندر گھس جائے گا، بدنظری کے مرض کے بیان پر مذاق اڑانے والا وہ بیوقوف ہے جو کسی سلطنت کی سرحدی چوکیوں کو ناگواری اور حقارت سے دیکھ رہا ہے کہ کیا پوری سرحد پر جگہ جگہ چوکیاں بنی ہوئی ہیں، ائیرپورٹ پر بھی تھوڑی تھوڑی دور پر چوکیاں بنی ہوتی ہیں اور پولیس والے بندوق لیے کھڑے ہوتے ہیں، ان سے بھی کہو کہ بھئی تم لوگ یہاں کیوں کھڑے ہو؟ کیوں وقت ضائع کرتے ہو؟ حکیم اختر کے شاگرد معلوم ہوتے ہو جو ائیرپورٹ کی سرحدوں کی حفاظت کررہے ہو، معلوم ہوتا ہے خانقاہ گلشن سے تمہارا کنکشن اور رابطہ ہے۔



اللہ کے عشاق کی نقل سے اللہ کی محبت بڑھتی ہے



اللہ  کا شکر ہے کہ اس گول ٹوپی میں ایک بڑے تاجر یہاں سے برطانیہ گئے اور برطانیہ کی ایک مسجد میں جب داخل ہوئے تو ٹوپی دیکھتے ہی ایک شخص نے کہا کہ کیا کراچی کے گلشن اقبال سے تعلق ہے؟ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک شخص کی گول ٹوپی دیکھ کر وہاں بھی لوگوں نے کہا کہ بھئی کیا آپ کا تعلق گلشن اقبال کراچی سے ہے؟ ہم جو یہ ٹوپی پہنتے ہیں تو اپنے اکابر حضرت تھانویؒ، حضرت نانوتویؒ، حضرت گنگوہی کی نقل کرتے ہیں گوہم اس کو واجب نہیں کہتے، شریعت میں ہم دخل نہیں دیتے لیکن ہم اپنے بزرگوں کی نقل کرتے ہیں اور اس کو ہم اس لیے اچھا سمجھتے ہیں کیونکہ ہمیں وہ لباس محبوب ہے جو ہمارے بزرگوں کا لباس ہے، محبوب کا لباس بھی محبوب ہوتا ہے۔ تم جب سینما دیکھ کر نکلتے ہو تو فلم ایکٹروں کی طرح کمر پر ہاتھ رکھ کرکیوں مٹکتے ہوئے نکلتے ہو؟ اس لیے کہ تم ان کی نقل کرتے ہو، اسی طرح ہم اللہ کے عاشقوں کی نقل کرتے ہیں، نقل باز تم بھی ہو نقل باز ہم بھی ہیں لیکن تم فساق کی نقل کرتے ہو اور ہم عشاق کی نقل کرتے ہیں۔



اللہ کے عاشقوں کی نقل کرنے سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے، ہم شریعت میں اضافہ نہیں کرسکتے نہ کسی مرشد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر واجب کو واجب کردے یا مغرب کی تین رکعت کو ساڑھے تین کردے، مقادیرِ شریعت تو وہی رہیں گے جو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نازل ہوئے مگر محبت کی کمی سے اس مقدار شرعیت میں اور تعداد شرعیت میں کیفیت بدلتی جارہی ہے۔ صحابہ کے زمانے میں جو کیفیات تھیں آج وہ کیفیات نہیں ہیں، بھاپ وہ نہیں ہے، اسٹیم وہ نہیں ہے، جمبو جہاز وہی ہو لیکن اگر پیٹرول کم ہو، اسٹیم کم ہو تو انجن کتنا ہی شاندار ہو وہ مال گاڑی ہی رہے گا، تیز گام نہیں ہوگا۔



تلاوت سے پہلے تعوذ کی حکمت

مضامین قرآن

تلاوت سے پہلے تعوذ کی حکمت

عارف بااللہ  حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

اللہ  سبحانہٗ و تعالیٰ نے تلاوتِ قرآنِ پاک کی ابتداء میں اعوذ بااللہ  من الشیطٰن الرجیم پڑھنے کا حکم فرمایا۔ بات یہ ہے کہ دفعِ مضرت مقدم ہے جلبِ منفعت پر، اسی لیے کلمہ میں لا الٰہ پہلے ہے کہ پہلے غیراللہ  کو دل سے نکالو پھر الا اللہ  کو دل میں پاؤگے۔ عود کی خوشبو لگانے سے پہلے جسم سے گندگی، پسینہ کی بدبو دور کرنا ضروری ہے ورنہ عود کی خوشبو محسوس نہ ہوگی اسی طرح اللہ  تعالیٰ کی لذتِ قرب کے لیے غیر اللہ  سے طہارت اور پاکی ضروری ہے اسی لیے کلمہ میں لاالٰہ کو مقدم فرمایا کہ پہلے غیر اللہ  کو دل سے نکالو پھر الا اللہ  کی خوشبو ملے گی۔

قرآن پاک میں ہے:حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنِ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ
(سورۃ التوبۃ، آیت:۱۲۸)

اللہ  سبحانہٗ و تعالیٰ نے رؤف کو مقدم فرمایا رحیم پر۔ اور حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ کے کیا معنیٰ ہیں کہ میرا نبی تم پر حریص ہے، سوال یہ ہے کہ کس چیز پر حریص ہے؟ تمہارے مال پر یا تمہاری جیب پر؟ نہیں۔ ان چیزوں سے نبی کا کیا تعلق۔ علامہ آلوسی نے کیا عمدہ تفسیر کی ہے: حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ اَیْ عَلٰی اِیْمَانِکُمْ وَصَلاَحِ شَأنِکُمْ میرا نبی تمہارے مال کا نہیں بلکہ تمہارے ایمان کا اور تمہاری اصلاحِ حال کا حریص ہے ۔ آپ کی یہ شانِ کرم تو سب کے ساتھ ہے خوا مومن ہو یا کافر لیکن بالمؤمنین رؤف رحیمایمانداروں کے ساتھ تو بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ بالمؤمنین کی تقدیم بتاتی ہے کہ رافت اور رحمت صرف مؤمنین کے لیے خاص ہے کافروں کے لیے نہیں، رافت کے معنیٰ دفعِ ضرر کے ہیں اور رحمت کے معنیٰ جلبِ منفعت کے ہیں اور دفعِ مضرت چونکہ مقدم ہے اس لیے اللہ  تعالیٰ نے رؤف کو رحیم سے پہلے نازل فرمایا۔



اسی قاعدہ کُلّیہ سےاللہ تعالیٰ نے تلاوت سے پہلے اعوذ بااللہ من الشیطان الرجیم پڑھنے کا حکم دے کر دفعِ مضرت کو مقدم فرمایا کہ شیطان میرا دشمن ہے جو تمہارابھی دشمن ہے اعوذ بااللہ پڑھ کر اسے بھگا دو تاکہ وہ تمہارے دل میں وساوس نہ ڈال سکے۔ محدثِ عظیم ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں: اَلشَّیْطَانُ کَالْکَلْبِ الْوَاقِفِ عَلَی الْبَابِ شیطان کی مثال اس کتے کی سی ہے جو دروازہ پر کھڑا رہتا ہے جیسے دنیا کے بڑے لوگ فارنر کا بڑا کتا بھیڑیا نسل کا رکھتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ تو سب سے بڑے ہیں لہٰذا ان کا کتا بھی تمام کتوں سے سے بڑاکتا ہے، اکبر الکلاب ہے۔ حضرت ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اعوذ بااللہ کا حکم دے کر بتا دیا کہ جب تم دنیاوی بڑے لوگوں کے کتے کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو میرے کتے کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہو لہٰذا مجھ سے پناہ مانگو جس طرح بڑے لوگوں سے جب ملنے جاتے ہو تو ان کا کتا بھونکتا ہے تو آپ کتے سے نہیں لڑتے بلکہ اس کے مالک سے کہتے ہیں کہ ہم آپ سے ملنے آنا چاہتے ہیں اپنے کتے کو خاموش کر دیجئے تو مالک خاص کوڈ، خاص الفاظ کہتا ہے جس سے کتا دم ہلانے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کتے شیطان سے اور اس کے وسوسوں سے اور اس کی دشمنی سے بچنے کے لیے یہ نہیں فرمایا کہ تم شیطان سے براہِ راست مقابلہ کرو بلکہ اعوذ بااللہ من الشیطان الرجیم کہو کہ میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی مدد سے اس مردود کتے سے جو گیٹ آؤٹ کیا ہوا دربار کے باہر کھڑا ہے، جو شخص دربار میں داخل ہونا چاہتا ہے یہ بھونکتا ہے لہٰذا تم اس مردود سے بات ہی نہ کرو، مردود ناقابلِ جواب، ناقابلِ التفات، ناقابلِ گفتگو ہوتا ہے بات تو دوست سے کی جاتی ہے، میں تمہارا دوست، تمہارا ولی، تمہارا مولیٰ ہوں لہٰذا مجھ سے کہو اعوذ بااللہ اے اللہ تیری پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے، جب تم نے میری پناہ مانگ لی تو اب شیطان تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتاھے

حدیث نبویہ
اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ھےعارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم




اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ
(صحیح البخاری، کتاب بدء الوحی، باب کیف بدء الوحی، ج:۱)


ارشاد فرمایا کہ بخاری شریف کی پہلی حدیث ہے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ

 میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ نیت نوات سے ہے جس کے معنی ہیں گٹھلی۔ کہتے ہیں اَکَلْتُ التَّمْرَۃَ وَ لَفَظْتُ النَّوَاۃَ میں نے کھجور کو کھا لیا اور گٹھلی پھینک دی۔ فرماتے تھے کہ جیسی گٹھلی ہوگی ویسا ہی درخت ہوگا۔ اگر گٹھلی اچھی ہے تو درخت بھی اچھا ہوگا اور اگر گٹھلی خراب ہو گی تو در خت بھی خراب ہو گا۔ پس جیسی نیت ہو گی ویسے ہی اس کا ثمرہ ہو گا، اچھی نیت ہو گی تو ثمرہ بھی اچھا ہو گا۔ اب کوئی نیم لگا کر ا مید رکھے کہ اس میں آ م آ جائیں تو یہ بے وقوفی ہے۔

حضرت فرماتے تھے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلی حدیث کے راوی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لیا اور آخری حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لیا۔ اس میں راز یہ ہے کہ صحابہ میں سب سے پہلے جس کو امیر المومنین کا لقب دیا گیا وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ امیر المومنین فی الحدیث ہیں لیکن ہر طالبِ علم خلیفہ نہیں ہو سکتا لہٰذا آخری حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو لیا تاکہ طلبا ء پڑھنے پڑھانے کا ذوق رکھیں اور ان کے مزاج میں درویشی غالب رہے۔
خزائن شریعت و طریقت، ص:۴۶۴

19 April 2010

17 April 2010

نعتیہ اشعار:پھر مدینہ کی جانب کو جائیں



نعتیہ اشعار:پھر مدینہ کی جانب کو جائیں
شیخ العرب وا لعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم






11 April 2010

دنیا کب نعمت ھے؟

قرآن و حدیث میں بیٹیوں کی فضیلت

قرآن و حدیث میں بیٹیوں کی فضیلت

شیخ العرب وا لعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم















اگر مناسبت نہ ھو تو شیخ بدلنا ضروری ھے


وسو سہ کا علاج

وسو سہ کا علاج

شیخ العرب وا لعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم











10 April 2010

نا لا ئق بندوں کو اللہ تعالی کیسے لا ئق بنا تے ھیں؟

نا لا ئق بندوں کو اللہ تعالی کیسے لا ئق بنا تے ھیں؟
فغا ن رومی
 از
 شیخ العرب وا لعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم