حدیث نبویہ
اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ھےعارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ
(صحیح البخاری، کتاب بدء الوحی، باب کیف بدء الوحی، ج:۱)
ارشاد فرمایا کہ بخاری شریف کی پہلی حدیث ہے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ
میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ نیت نوات سے ہے جس کے معنی ہیں گٹھلی۔ کہتے ہیں اَکَلْتُ التَّمْرَۃَ وَ لَفَظْتُ النَّوَاۃَ میں نے کھجور کو کھا لیا اور گٹھلی پھینک دی۔ فرماتے تھے کہ جیسی گٹھلی ہوگی ویسا ہی درخت ہوگا۔ اگر گٹھلی اچھی ہے تو درخت بھی اچھا ہوگا اور اگر گٹھلی خراب ہو گی تو در خت بھی خراب ہو گا۔ پس جیسی نیت ہو گی ویسے ہی اس کا ثمرہ ہو گا، اچھی نیت ہو گی تو ثمرہ بھی اچھا ہو گا۔ اب کوئی نیم لگا کر ا مید رکھے کہ اس میں آ م آ جائیں تو یہ بے وقوفی ہے۔
حضرت فرماتے تھے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلی حدیث کے راوی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لیا اور آخری حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لیا۔ اس میں راز یہ ہے کہ صحابہ میں سب سے پہلے جس کو امیر المومنین کا لقب دیا گیا وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ امیر المومنین فی الحدیث ہیں لیکن ہر طالبِ علم خلیفہ نہیں ہو سکتا لہٰذا آخری حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو لیا تاکہ طلبا ء پڑھنے پڑھانے کا ذوق رکھیں اور ان کے مزاج میں درویشی غالب رہے۔
خزائن شریعت و طریقت، ص:۴۶۴