ملفوظات حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
مرتبہ: سید عشرت جمیل میر
علم کی حفاظت کے لیے نصیحت
۳۰؍ مئی ۱۹۶۹ء بروز جمعہ مدرسہ امداد العلوم کراچی واقع موسیٰ کالونی
بعد فجر مدرسہ میں حضرت والا مع چند متعلقین تشریف لائے۔ چائے کی دعوت تھی۔ کچھ صاحبان بغیر پنسل کاغذ آگئے تھے فرمایا کہ کیا آپ لوگوں نے یہ سمجھا کہ بس چائے پی کر اور گپ شپ کرکے واپس آجائیں گے۔ مسلمان کی خلوت ہو یا جلوت اللہ کے ذکر سے خالی نہیں ہوسکتی۔ ایسی مجلس جو اللہ کے ذکر سے خالی ہو اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منحوس فرمایا ہے۔ یہ ہماری مجلسیں بھی اسی لیے ہوتی ہیں کہ اللہ کی یاد میں ترقی ہو۔ کسی کام میں لگے ہوئے ہو دل اللہ کے ساتھ رہے کوئی لمحہ اللہ کی یاد سے غافل نہ گذرے جیسے صحابہ کی شان تھی کہ شام میں ہیں اونٹوں پر غلہ لاد رہے ہیں اور زبان پر اللہ کا تذکرہ چھڑا ہوا ہے۔
جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں
کوئی محفل ہو تیرا رنگ محفل دیکھ لیتے ہیں
ہماری کوئی تقریب محض ہنسی مذاق اور گپ شپ اور تفریح کے لیے نہیں ہوتی یہ تو کافروں کا شیوہ ہے کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ دوسرے اپنے مربی کی باتوں کی حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ انہی باتوں میں تمہارے دل کی تربیت کا سامان موجود ہے۔ ممکن ہے کسی موقع پر ایسی بات منہ سے نکل جائے جو پچھلے پندرہ سال میں نہ نکلی ہو اور آئندہ بھی پھر کبھی منہ سے نہ نکلے کیونکہ اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ میں تو اپنے شیخ کے ساتھ جب بھی ہوتا تھا چاہے سفر پہ ہوں یا گھر پر یا کہیں ہمیشہ اپنی جیب میں ایک کاغذ پنسل رکھتا تھا۔ ایک بار تانگہ میں تشریف لئے جارہے تھے بخاری شریف پڑھتے پڑھتے ایک دم کتاب بند کردی اور فرمایا حکیم اختر سن لو دعا مانگتے مانگتے اگر آنسو نکل پڑیں تو سمجھ لو قبول ہوگئی۔
اگر میرے پاس اس وقت کاغذ پنسل نہ ہوتی تو میں بھی ایسے ہی بیٹھا رہتا۔ علم کی بڑی قدر کرنی چاہیے جو شخص علم کی قدر نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اسے محروم رکھتے ہیں۔ آئندہ اگر کوئی خالی ہاتھ آیا تو اس کو سزا دی جائے گی۔ جیسے کوئی یوں کہے کہ گلاب جامن کھا نہیں تو ڈنڈے ماروں گا، گلاب جامن کے لیے ڈنڈا کھانا بے وقوفی ہے کہ نہیں۔ اللہ کا ذکر تو دنیا کی تمام گلاب جامن سے کہیں زیادہ لذیذ ہے۔
No comments:
Post a Comment