دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

18 July 2010

اللہ کی راہ میں مزاحمت ترقی کا ذریعہ ہے

اللہ کی راہ میں مزاحمت ترقی کا ذریعہ ہے


ایک نے عرض کیا کہ گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت کے پاس آنے سے دنیا کے کام کا نہیں رہے گا اس لیے بعض اوقات کچھ مزاحمت ہوتی ہے فرمایا کہ اس راستہ میں جتنی مزاحمت ہے تو اتنی ہی ترقی ہوتی ہے اور جن کو کچھ مزاحمت نہیں اٹھانا پڑتی ان کی ترقی بھی کم ہوتی ہے جیسے کوئی شخص آگے بڑھنا چاہ رہا ہو اور کوئی اس کو پیچھے کو گھسیٹ رہا ہو تو اس کو آگے بڑھنے کے لیے قوت صرف کرنا پڑے گی اور کیونکہ آگے بڑھنے میں اس کو مشقت ہوگی تو جو کچھ حاصل کرے گا اس کی اس کے دل میں قدر ہوگی اور جدوجہد میں قوت پرواز بھی بڑھتی ہے بہ نسبت اس شخص کے جس کو کچھ مشقت اٹھانی نہیں پڑ رہی وہ ایک خاص رفتار سے آگے بڑھتا رہتا ہے اور جس کو مشقت کرنا پڑتی ہے وہ لامحالہ اپنی رفتار کو تیز کرتا رہتا ہے کہ کہیں گھسیٹنے والا غالب نہ آجائے۔ یہ راستہ ہی ایسا ہے کہ اس میں لوگوں کی لعن طعن بھی سننا پڑتی ہے۔ لیکن اس لعن طعن کے باوجود جو اپنی جگہ پر قائم رہے اس کا ایمان اور تازہ ہوجاتا ہے اس کے دل سے پھر مخلوق کا خوف نکل جاتا ہے بس استقامت کی ضرورت ہے۔ دنیا دار سمجھتے ہیں کہ اللہ والے نکمے ہوتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اہل دنیا اپنی نادانی کی وجہ سے انہیں کاہل کہتے ہیں لیکن آخرت کے کاموں میں تو یہ چاند سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔

کارِ دنیا را زکل کاہل ترند

در رہ عقبیٰ ز مہہ گومی برند

 
یہ دنیا کے کاموں سے کاہل نظر آتے ہیں تم آخرت کے کاموں سے کاہل ہو۔ ذرا ایک گھنٹہ مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرکے دکھا دو تو پتہ چل جائے کہ کیسے جفا کش ہو۔ بات یہ ہے کہ دنیا کی محبت دل میں ہے جس کے بارے میں حدیث شریف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حقیقت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں اور آخرت کی فکر نہیں جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ دنیا آخرت کے تابع ہے، آخرت حقیقت ہے دنیا سایہ۔ سائے کے پیچھے بھاگو گے حقیقت اور دور ہوتی جائے گی۔ آخرت کو پکڑلو سایہ خود قبضہ میں آجائے گا۔ اسی وجہ سے اللہ والوں کو روزی بھی عزت سے ملتی ہے، وہ دنیا کو ٹھکراتے ہیں دنیا ان کے قدموں میں آتی ہے۔ بس اللہ والے بن جائو یعنی جو مشقتیں اس راہ میں اٹھانی پڑیں انہیں جھیل لو۔ کیا جن کے لیے ہم قربان ہونے کو تیار ہیں انہیں اتنی قدرت نہیں کہ ہماری ضروریات کو پورا کردیں۔ جب آخرت عطا فرمادیں گے تو دنیا جیسی حقیر چیز کیوں نہ دیںگے۔ بہرحال اپنے کام میں لگا رہنا چاہیے اور والدین اگر اس راستہ میں حائل ہوتے ہیں انہیں نرمی سے سمجھادینا چاہیے۔ اگر کبھی کچھ سخت الفاظ نکل جائیں تو دوسرے وقت انہیں راضی کرلو۔ والدین کے سامنے کندھوں کو جھکائے رہو اور اف تک مت کہو۔ ہاں اگر کسی گناہ کے کام کا حکم کریں تو اطاعت مت کرو۔ والدین جو اللہ کے راستہ میں حائل ہوتے ہیں یہ ان کی نادانی کی محبت ہے حالانکہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کا بچہ اللہ والا ہوجائے نیک اولاد صدقۂ جاریہ ہے۔ جو نیک کام یہ کرے گا اس کا ثواب ان کو پہنچتا رہے گا۔ ان کے مرنے کے بعد بھی جب تک نیک اولاد زندہ رہتی ہے والدین کو ثواب پہنچتا رہتا ہے۔ یہ کوٹ پتلون والے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ ان کی کار کام آئے گی نہ بنگلہ کام آئے گا۔ ان والدین کو تو اپنی خوش نصیبی پر شکر ادا کرنا چاہیے بجائے اس کے فکر مند ہوتے ہیں۔ مجھے تو انتہائی خوشی ہو اگر مظہر میاں خالی دین کے کام میں لگے رہیں اور دنیا کی طرف بالکل متوجہ نہ ہوں تو مجھے تو کبھی یہ خیال نہ آئے کہ یہ اپنی زندگی تباہ کررہے ہیں۔ خوش قسمتی کو اگر آدمی تباہی سمجھ لے تو اس کی بدنصیبی ہے۔




No comments: