دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

15 June 2010

حدیث میں ذکر پر خشیّت کی تقدیم کا راز،وسوسوں کا علاج

P,عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم



اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَ ذِکْرَکَ میں خشیت کو پہلے کیوں بیان فرمایا؟ تاکہ خشیت غالب رہے کیونکہ محبت جب خوف پر غالب ہوجاتی ہے تو بدعت ہو جاتی ہے۔ خشیت محبت کو حدودِ شریعت کا پابند رکھتی ہے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ وَ اَمَّا مَنْ جَاءَ کَ یَسْعٰی میں صحابی کا دوڑ کر آنا بوجہ محبت کے تھا وَھُوَ یَخْشٰی اور وہ ڈر بھی رہے تھے، یہ حال ہے اور حال ذوالحال کے لیے قید ہوتا ہے یعنی ان کی محبت خشیت کی پابند تھی۔ معلوم ہوا کہ جب محبت خشیت کی حدود کو توڑتی ہے تو بدعت ہو جاتی ہے۔






اور خشیت کا تضاد تو محبت تھی لیکن حدیثِ پاک میں محبت کے بجائے ذکر کیوں فرمایا؟ اس لیے کہ ذکر سببِ محبت اور حاصلِ محبت ہے۔ جو ذکر کرے گا اس سے معلوم ہو گا کہ اس کو محبت حاصل ہے ورنہ جو محبت، محبت تو کر رہا ہے لیکن اللہ کا ذکر نہیں کرتا وہ محبت میں صادق نہیں۔ لہٰذا یہاں ذکر کی قید سے منافقین نکل گئے۔ جو صادق فی المحبت نہیں وہ ذاکر نہیں ہو سکتا۔ (فیوضِ ربانی ، صفحہ:۱)






حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وسوسوں اور خیالات کا ہجوم ہو تو کہو واہ کیا شان ہے اے اللہ آپ کی کہ ڈیڑھ چھٹانک کے دل میں آپ نے خیالات کا سمندر بھر دیا کیماڑی کا سمندر بھی بھرا ہوا ہے کلفٹن بھی ہے اور کشمیر کی پہاڑیاں بھی گھُسی ہوئی ہیں سارا عالم ایک ذرا سے دل میں سمایا ہوا ہے ایک چھوٹی سی چیز میں خیالات کا سمندر چلا آ رہا ہے تو فرمایا کہ یہ خیالات کا ہجوم جو شیطان نے ڈالا تھا اللہ سے دور کرنے کو اس شخص نے بزرگوں کی تعلیما ت کی برکت سے اس کو ذریعۂ معرفت اور ذریعۂ قرب بنا لیا تو پھر شیطان ہاتھ ملتا ہے اور افسوس کرتا ہوا بھاگتا ہے کہ اس نے تو میرے وساوس کو بھی معرفت بنا لیا۔ اس طرح وسوسوں کو ذریعہ معرفت بنا لیجئے اور یہ بات حدیث سے ثابت ہے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَذِکْرَکَ






اے اللہ! میرے دل کے خیالات کو اپنا خوف اور اپنی یاد بنا دے۔ اور دوسری ایک حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، مشکوٰۃ کی روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَلْحَمْدُ لِلٌّٰہِ الَّذِیْ رَدَّ اَمْرَہُ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ (مشکٰوۃ المصابیح، باب فی الوسوسۃ، ص:۱۹)






شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے معاملہ کو اس کے مکر و کید کو صرف وسوسہ تک محدود کر دیا اس سے زیادہ اس کو طاقت نہیں دی ورنہ مان لیجئے یہاں جو لوگ بیٹھے ہوئے دین کی بات سن رہے ہیں اگر شیطان آتا اور سب کو اُٹھا اُٹھا کر سینما ہائوس میں لے جا کر بیٹھا دیتا تو بڑی مشکل میں جان پھنس جاتی، لوگ کہتے کہ بھائی ہم تو گئے تھے خانقا ہ میں اللہ کی بات سننے مگر وہاں شیاطین کا ایک لشکر آیا اور سب کو اُٹھا اُٹھا کر وی سی آر اور سینما ہائوس میں بیٹھا دیا۔ شیطان کو اگر یہ طاقت ہوتی تو بتائیے ہم کتنی مشکل میں پھنس جاتے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکر ادا کرو کہو اَلْحَمْدُ لِلٌّٰہِ الَّذِیْ رَدَّ اَمْرَہُ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارک ہیں۔ عربی میں یاد رہے تو سبحان اللہ ورنہ اردو ہی میں کہہ لیجئے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے کید کو، اس کی طاقت کو صرف خیالات اور سوسہ ڈالنے تک محدود کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر سکھایا اور شکر سے اللہ کا قرب ملتا ہے پس وسوسہ کو ذریعہ قرب و معرفت بنا دیا کہ شکر ہے کہ شیطان صرف خیالات اور وسوسہ ڈال سکتا ہے تم کو عمل پر مجبور نہیں کر سکتا۔ گندا تقاضا دل میں پیدا ہوا آپ اس پر عمل نہ کیجئے بالکل آپ کا تقویٰ قائم ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی کا روزہ ہے، جون کا مہینہ ہے، شدید پیاس لگ رہی ہے بار بار دل چاہتا ہے کہ پانی پی لوں مگر پیتا نہیں بتائیے روزہ اس کا ہے یا نہیں۔ کیا پانی پینے کے وسوسوں سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا؟ پانی پینے کے لاکھ تقاضے ہوتے رہیں جب تک پئے گا نہیں روزہ اس کا قائم ہے۔ بلکہ اس کو ڈبل اجر مل رہا ہے تقاضہ کی وجہ سے، پیاس کی وجہ سے اسی طرح گناہ کے لاکھ وسوسے آئیں جب تک گناہ نہیں کرے گا یہ شخص بالکل متقی ہے وسوسہ سے تقویٰ میں ہر گز کوئی نقصان نہیںآئے گا سبحان اللہ ! یہ ہمارے باپ دادائوں کے علوم ہیں اُولٰئِکَ اٰبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِھِمْ لہٰذا گناہوں کے تقاضوں پر آپ بس عمل نہ کریں لاکھ تقاضے ہوں تو آپ کا تقویٰ بالکل ٹھیک ہے دیکھئے اس وقت بھی سب کے پیٹ میں کچھ نہ کچھ پاخانہ ہوگا۔ ابھی ایکسرے کرا لیجئے تو نظر بھی آ جائے گا لیکن جب تک گندگی باہر نہ نکلے آپ کا وضو ہے اس طرح دل میں گندے خیالات آئیں اس میں مشغولی نہ ہو اس پر عمل نہ ہو بس آپ کا تقویٰ قائم ہے ۔ دین کتنا آسان ہے ؎






جو آسان کر لو تو ہے عشق آساں






جو دشوار کر لو تو دشواریاں ہیں






دین تو بہت آسان ہے ہم خود اس کو دشوار کرتے ہیں، میں عرض کرتا ہوں کہ جس شخص نے بھی شیطان کے وسوسوں کا جواب دیا پاگل ہو گیا ایک وسوسہ کا جواب دیا اس نے دوسرا پیش کر دیا اب رات بھر بیٹھے ہوئے وسوسوں کا جواب دے رہے ہیں۔ بتائیے کیا ہو گا دماغ خراب ہو گا یا نہیں، آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کو جواب ہی مت دیجئے بس یہی کہیے کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے اس کا اختیار وسوسہ ڈالنے تک ہی رکھا اور بزرگوں کے پاس آئیے جائیے ان کی صحبتوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ ابلیس کے تمام مکر و کید کو ختم کر دیتا ہے کیونکہ اہل اللہ اسمِ ہادی کے مظہر ہیں، اسمِ ہادی کی تجلی ان پر ہوتی ہے ان کے پاس بیٹھنے والوں پر بھی وہ تجلی پڑ جاتی ہے جس سے ان کو ہدایت ہو جاتی ہے اور ابلیس اللہ تعالیٰ کے اسم مضل کا مظہر ہے گمراہ کرنے کی طاقت کا ظہور اس پر ہوتا ہے لہٰذا گمراہ لوگوں سے بھاگئے اور اللہ کے خاس بندوں کی صحبت میں رہیے جو بزرگانِ دین کے صحبت یافتہ ہیں، اسم مضل کے مقابلہ میں اسم ہادی کے سائے میں آ جائیے جس شخص کو دیکھو کہ اس نے بزرگوں کی صحبت نہیں اٹھائی چاہے مطالعہ اس کا بہت وسیع ہو ہر گز اس کی صحبت میں نہ بیٹھئے۔ یہ بات میں نہایت اخلاص کے ساتھ کہتا ہوں کسی تعصب سے نہیں۔






مثال کے طور پر جیسے مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر لکھی ہے معارف القرآن ۔ ایسے صحبت یافتہ بزرگوں کی تفسیر اور کتابیں دیکھئے ورنہ اگر کسی غیر تربیت یافتہ خود ساختہ مفسر کی تفسیر یا تصنیف دیکھی تو بس پھر سمجھ لو کہ خطرہ میں پڑ جائو گے ایمان ہی کے لالے پڑ جائیں گے کبھی انبیاء علیہم السلام پر اس کا گستاخ قلم اُٹھ جائے گا کبھی صحابہ پر۔ ایسی نئی چیزیں نکال دے گا کہ قرآن کو، دین کو، جو میں نے سمجھا ہے کسی نے سمجھا ہی نہیں، بیک قلم سب کی تنقیص کر دے گا ایسے صاحب قلم قابل سر قلم ہیں اس لیے ہمارے بزرگوں نے یہ خاص نصیحت کی ہے کہ جب تک یہ معلوم نہ کر لو کہ یہ شخص کس شخص کا صحبت یافتہ ہے ہر گز اس کی صحبت میں مت بیٹھو، نہ اس کی تصانیف پڑھو چاہے وہ بظاہر بیعت بھی کرتا ہو اس سے پوچھو کہ اس نے بھی کسی سے بیعت کی ہے یا نہیں۔مسلم شریف میں حضرت ابن سیرین رحمۃاللہ علیہ کا قول منقول ہے فرماتے ہیں: اِنَّ ھٰذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ فَانْظُرُوْا عَمَّنْ تَأْخُذُوْنَ دِیْنَکُمْ (صحیح مسلم، ج:۱، ص:۱۱)






یہ علم دین ہے پس خوب دیکھ لو تحقیق کر لو کہ تم کس شخص سے دین حاصل کر رہے ہو۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ جس سے دین سیکھ رہے ہیں اس نے کس سے سیکھا ہے حضرت عبد اللہ  ابن مبارک رحمۃ اللہ  علیہ کا قول ہے اَ لْاِسْنَادُ مِنَ الدِّیْنِ اسناد کی دین میں خاص اہمیت ہے میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ  علیہ فرماتے تھے کہ میں نے مثنوی حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ  علیہ سے پڑھی اور انہوں نے حضرت حاجی صاحب سے پڑھی اور الحمد للہ میں نے شاہ عبدالغنی صاحب سے پڑھی۔ دیکھئے سند دیکھنی پڑتی ہے یا نہیں اس سے اعتما د پیدا ہوتا ہے کہ ان کے استاد فلاں اُن کے استاد فلاں اور اگر کسی سے نہیں سیکھا محض ذاتی مطالعہ سے حاصل کیا ہے تو پھر وہ ایسے ہی ترجمہ کرے گا جیسے کسی نے کتاب میں دیکھا کہ نماز ہلکے پڑھو لہٰذا وہ پوری نماز میں ہل رہا تھا حالانکہ لکھا تھا کہ نماز ہلکی پڑھو پہلے زمانہ میں ی کو لمبا کھینچ کر “ے” لکھ دیتے تھے تو اس نے ہلکی کو پڑھا ہلکے اب جناب نماز میں ہل رہے ہیں کسی کو استاد بنایا نہیں تھا کہ پوچھ لیتا ۔ کتاب دیکھ کر دین سیکھنے والوں اور دین سکھانے والوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ خود بھی ہلیں گے آپ کو بھی ہلا دیں گے۔
(بدگمانی اور اس کا علاج)

No comments: