دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

24 January 2010

اچھے اخلاق کثرتِ عبادت کا نام نہیں

Taken from alabrar.khanqah.org
بکھرتے موتی - ملفوظات حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہمؒ

Friday, January 22nd, 2010


مرتبہ: سید عشرت جمیل میر

بندیوں کے حق میں اﷲ تعالیٰ کی سفارش

تو یہ عرض کررہا ہوں کہ سب سے بڑا کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں لہٰذا آج سے ارادہ کرلو کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے خاص کر اپنی بیویوں کے معاملہ میں جن کے لیے اﷲ تعالیٰ نے سفارش نازل کی: وَعَاشِرُوھُنَّ بِالمَعرُوفِ(سورة النسائ، آیة:۹۱)

اے ایمان والو! اپنی بیویوں سے بھلائی سے پیش آو، اگر تم نے بیویوں کو رُلایا اور ان کی آہ نکلوائی تو یاد رکھو یہ آہ تمہارے اوپر گرے گی، گردہ خراب ہوجائے گا یا کینسر ہوگا یا کوئی اور عذاب نازل ہوجائے گا۔ اختر نے یہ بات اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے اتنی زیادہ دیکھی ہے کہ جنہوں نے اپنی بیویوں کو رُلایا، ان کی آہ نکلوائی وہ سخت عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ وہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر، بھائیوں کو چھوڑ کر اﷲ کی شریعت و قانون کے مطابق اپنی ساری زندگی ہمیں سونپ دیتی ہیں تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ جب ان کے ماں باپ، ان کے بہن بھائی ان کے پاس نہیں ہیں تو ہم ان کی دل جوئی کرنے کی کوشش کریں۔

اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنی بندیوںکی سفارش نازل فرمائی ہے: وَعَاشِرُوھُنَّ بِالمَعرُوفِ


(سورة النسائ، آیة:۹۱)


اپنی بیویوںسے بھلائی سے پیش آو۔
 کیوں صاحب! اگر کسی ملک کا وزیرِ اعظم آپ کو خط لکھ دے کہ تم اپنی بیوی سے اچھے اخلاق سے پیش آنا کیونکہ تمہاری بیوی میری بیٹی کے ساتھ پڑھی ہوئی ہے تو آپ اپنی بیوی کو ستا سکتے ہیں؟ بولیے! تو اﷲ تعالیٰ کی سفارش کے بعد اپنی بیویوں کو ستانے کی ہمت کیسے ہوتی ہے۔ بیوی چاہے جوان ہو چاہے بڈھی ہو، منہ میں اس کے دانت نہ ہو، دانت ٹوٹ گئے ہوں، جب جوانی تھی تو خوب پیار کیا، جب بیچاری کے دانت ٹوٹ گئے، گال پچک گئے اب اس کو حقیر سمجھ رہے ہو، یہ ٹھیک نہیں ہے، اس بڈھی کا بھی خیال کرو کیونکہ تمہارے ساتھ بڈھی ہوئی ہے، اُس وقت طبیعت سے پیار کرتے تھے اب اﷲ کا حکم سمجھ کر اس کے ساتھ شفقت کرو، اگر اس کے سر میں درد ہوجائے تو دوا لے آو۔ غرض اس کے ساتھ رحمت کا معاملہ کرو۔

اچھے اخلاق کثرتِ عبادت کا نام نہیں


حضور صلی اﷲعلیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سب سے اچھے اخلاق اس کے ہیں جس کے اپنی بیوی کے ساتھ اخلاق اچھے ہیں، ہم دوستوں میں تو خوب ہنسیں گے، خوب لطیفے سنائیں گے اور بیوی کے پاس منہ سکوڑے ہوئے جائیں گے یا سنجیدہ بزرگ بن جائیں گے، جیسے ہنسنا جانتے ہی نہیں۔ اب وہ بےچاری تعجب میں ہے کہ یا اﷲ میں دن بھر منتظر تھی کہ رات کو میرا شوہر آئے گا تو اس کے ساتھ ہنسوں بولوں گی، بیویوں کے ساتھ ہنسنا بولنا عبادت میںداخل ہے، دوستوں میں رات بھر جاگنا اور بیوی سے بات نہ کرنا صحابہ کی سنت کے خلاف ہے۔


حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضرت ابودرداءرضی اﷲ تعالیٰ عنہ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں، نہ بیوی کے پاس جاتے ہیں نہ لوگوں سے ملتے جُلتے ہیں تو حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان کے گھر گئے، جب حضرت ابو درداءنے ان کی خدمت میں کچھ کھانے کے لیے پیش کیا تو انہوں نے فرمایاکہ تم بھی کھاو، حضرت ابو درادءنے عرض کیا کہ میں روزہ سے ہوں، اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر تم نہیں کھاو گے تو میں بھی نہیں کھاوں گا اور پھر یہ حدیث پیش کی:

اِنَّ لِضَیفِکَ عَلَیکَ حَقًّا
تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے۔ اور فرمایا کہ میں تمہارا مہمان ہوں مجھ سے باتیں کرو، اس کے بعد فرمایا اچھا جاو کچھ نفلیں پڑھو، جب نفلیں پڑھ لیں تو فرمایا:

اِنَّ لِزَوجَتِکَ عَلَیکَ حَقًَّّا


تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔ (سنن النسائی الکبری،ج:۲،ص:۸۲۱، دارالکتب العلمیة)


پس جاو اپنی بیوی کا بھی حق ادا کرو، اس سے بھی باتیں کرو۔

اسی لیے حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے کے لیے سفارش نازل کی ہے تو جو خدا کی سفارش کو رد کردے، یہ حکیم الامت کے الفاظ ہیں میں نہیں کہہ رہا، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی اپنے زمانے کے مجدد تھے، وہ فرماتے ہیں کہ جو اپنی بیویوں کو ستائے اور اﷲ تعالیٰ کی سفارش کو رد کردے، ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش نہ آئے تو یہ بے غیرت مرد ہے کیونکہ وہ بے چاری کمزور ہے، اس کے ماں باپ اور بھائی اس سے دور ہیں، وہ تمہارے قبضہ میں ہے، دو تین بچوں کے بعد وہ اور بھی کمزور بھی ہوجاتی ہیں اور مرد صاحب مسٹنڈے رہتے ہیں، انڈے کھا کھا کر ڈنڈے دِکھاتے ہیں اور کہتے ہیں صاحب کیا کروں میں تو غصے سے پاگل ہوجاتا ہوں، کہتا ہوںتولیہ دھو، اس نے تولیہ نہیں دھویا۔ ارے بھائی! کیوں تم نے اس کو خادمہ سمجھ رکھا ہے اپنا تولیہ خود دھولو، بیوی اس لیے تھوڑی دی گئی ہے کہ تمہارے کپڑے دھوتی رہے، خود دھولو لیکن اس کو مت ستاو ۔

غصہ عقل مند ہوتا ہے
کراچی میں ہمارے ایک دوست تھے وہ کہتے تھے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم غصے سے پاگل ہوجاتے ہیں بالکل غلط کہتے ہیں، غصہ کبھی پاگل نہیں ہوتا، غصہ بہت ہوشیار ہوتا ہے، جب سیر بھر طاقت والے کے پاس سوا سیر والا آجائے اور ڈنڈا اور چھرا اور چاقو دکھائے تب اس وقت غصہ کہتاہے کہ معاف کردینا۔ اب غصہ کو یہ عقل کہا ں سے آگئی؟ خوب سن لو دوستو! سیر بھر طاقت والا غصہ آدھے سیر والے پر پاگل ہوتا ہے، اپنے سے کمزور پر پاگل ہوتا ہے لیکن جب سوا سیر والا آگیا، محمد علی کلے نے بوکسنگ کا ایک ہاتھ دکھایا تو وہاں ہاتھ جوڑ کر بلی بن گئے۔ معلوم ہوا کہ غصہ میں کوئی پاگل نہیں ہوتا، یہ سب بیوقوفی اور مکاری کی باتیں ہیں پھر بھی میں غصہ کا علاج بتائے دیتا ہوں۔

غصہ کا علاج
جدہ سے میرے پاس ایک خط آیا کہ میری بیوی میں، میرے بچوں میں، سارے خاندان میں غصہ بہت ہے، غصہ کا یہ مرض ایک عذاب بنا ہوا ہے۔ میں نے ان کو لکھا کہ جب دسترخوان بچھاو تو سب لوگ مل کر کھاو اور کھانے پر سات مرتبہ بِسمِ اﷲِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِپڑھ کر دم کرو اور دم کرتے وقت تھوڑا ساتھوک بھی گر جائے مگر ذرّہ کے برابر یہ نہیں کہ ایک تولہ تھوک دیا۔ ملا علی قاری مشکوٰة کی شرح مرقاة میں لکھتے ہیں:



خُرُوجُ البُزَاقِ مِنَ الفَمِ
بزاق کے معنیٰ ہیں کہ تھوک کے تھوڑے سے ذرات گرجائیں۔ تو انہوں نے اس پر عمل کیا، ایک مہینے کے بعد خط لکھا کہ اﷲ کے رحمن اور رحیم نام کے صدقہ میں ہم سب پر شانِ رحمت آگئی، ہمارے غصے ختم ہوگئے اور ہم معتدل مزاج کے ہوگئے۔ اس لیے اپنے دوستوں سے کہتا ہوںکہ کسی بزرگ سے مشورہ کرلو، آج ہم نے بزرگوں سے، اﷲ والوں سے تعلق چھوڑ دیا، اپنا علاج خود ہی کرنے لگے، روحانی بیماری کا کوئی مرض ایسا نہیں جو اچھا نہ ہوسکے، پوچھ کر عمل کرکے دیکھو۔

پُرسکون زندگی حاصل کرنے کا طریقہ
بعض لوگ اپنے ماں باپ کو ستاتے ہیں، اپنے شیخ کو ستا تے ہیں، اپنی بیویوںکو ستا تے ہیں، اپنے بچوں کی بے جا پٹائی کر تے ہیں، گلاس گرگیا تو مار مار کر ہڈی توڑ دی اور بچہ کو ہسپتا ل میں داخل کرنا پڑا جبکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جیسے تمہاری زندگی ہے برتنوں کی بھی زندگی ہے، ان کی بھی موت لکھی ہوتی ہے جس دن گرنا ہے گر کررہے گا، اس لیے ذرا نرمی سے تنبیہ کردو کہ مضبوط ہاتھوں سے برتن پکڑو، یہ نہیں کہ مار، پٹائی اور ظلم و تشدد شروع کردیا، یہ اسی کا عذاب ہے کہ آج ہم سکون سے نہیں ہیں۔

بیوی کو ستانے کا عذاب
بیویوں کا دل اتنا حساس ہوتا ہے کہ ان کو ذرا سا جھڑک دو کہ آج ہم بہت تھکے گئے ہیں، تم کیا کام کرتی ہو دن بھر آرام سے پڑی رہتی ہو، اب وہ بے چاری رات بھر رو رہی ہے کہ یا اﷲ میں اس ظالم کے پیار کی بھوکی تھی کہ گھر آئے گا، مسکرائے گا، کچھ بولے گا، یہ تو ایسا تھکا ماندہ آیا ہے کہ آتے ہی سوگیا، ان مظلوموں کی آہ براہِ راست آسمان پر جاتی ہے، اﷲ ان کے آنسووں کو دیکھتا ہے، ایسے ظالم شوہروں کو میں نے سخت عذاب میں مبتلا پایا۔

ایک صاحب کی بیوی کالی رنگت کی تھی، انہوں نے اسے چھ بچوں کی ماں ہونے کے باوجود طلاق دے دی کہ ہم بہت حسن پرست ہیں، ہمیں بہت خوبصورت بیوی چاہیے، میری ماں نے غلطی کی جو ایسی عورت سے میری شادی کردی۔ یہ بات انہوں نے خود مجھ سے کہی، یہ سنا سنایا قصہ نہیں آنکھوں دیکھا حال ہے، انہوں نے کہا کہ اب مجھ سے گذارہ نہیں ہوگا۔ میں نے ان کو بہت سمجھایا کہ ایسا نہ کرو لیکن وہ نہیں مانے۔ اس عورت نے کہا کہ جب میں آپ کو پسند نہیں تھی تو یہ چھ بچے کہاں سے آگئے؟ اُسی وقت طلاق دے دیتے تو میری شادی آسانی سے ہوجاتی، اب چھ بچوں والی بنا کر مجھے طلاق دے رہے ہیں، ان صاحب نے کہا کہ نہیں میں مجبور ہوں، اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، میں کسی حسین عورت سے شادی کروں گااور اسے طلاق دے دی، جب وہ چھ بچوں کو لے کر گھر سے نکلی تو سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور بزبانِ حال یہ شعر پڑھا
ہم بتاتے کسے اپنی مجبوریاں

رہ گئے جانبِ آسماں دیکھ کر
اس کے بعد شوہر صاحب نے ایک خوبصورت لڑکی سے شادی کرلی، چھ مہینے بھی نہیں گذرے تھے کہ ان پر فالج گر گیا، اس کے بعد تقریباً دس سال تک زندہ رہے اور چارپائی پر پاخانہ پھرتے رہے اور وہ حسین لڑکی بھی بھاگ گئی کہ ایسے شخص سے میرا گذارہ کیسے ہوگا؟ دیکھا آپ نے یہ ہوتا ہے خدا کی بندیوں کو ستانے کا انجام! اس لیے عرض کرتا ہوں کہ اپنی مظلوم بیویوں کی آہ مت خریدو۔

بیوی پر مہربانی کرنے کا انعام


حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خَیرُکُم خَیرُکُم لِاَھلِہ تم میں سب سے اچھے اخلاق اس کے ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ مہربانی کرتا ہے، ان کی خطاوں کو معاف کرتا ہے۔
 حکیم الامت تھانوی نوّر اﷲمرقدہ فرماتے ہیں کہ ایک مزدور نے بڑی محنت کرکے پسینہ گرا کر پیسے جمع کیے اور مرغی لایا، بھوک بھی سخت لگی ہوئی تھی مگر کھانے میں بیوی سے نمک اتنا تیز ہوگیا کہ اس سے کھایا نہیں گیا، مگر بیوی کو کچھ نہیں کہا، اﷲوالا آدمی تھا، اس نے سوچا کہ اگرمیری بیٹی کے ہاتھ سے نمک تیز ہوجاتا تو میں کبھی نہ چاہتا کہ میرا داماد اس کو جوتے مارے تو میری بیوی بھی کسی کی بیٹی ہے، ہم اپنی بیٹیوں کے لیے تو تعویذ مانگتے ہیں کہ مولانا صاحب تعویذ دے دو تاکہ میرا داماد میری بیٹی کو پیار محبت سے رکھے، خطاءہوجائے تو اس کو معاف کردے، اسے گالیاں نہ دے، جوتے نہ مارے، اس سے منہ نہ پھلائے، اپنی بیٹی کے لیے تعویذ لیتے ہیں یانہیں؟ اور آپ کی بیویاں بھی تو کسی کی بیٹیاں ہیں یا نہیں؟ بولو بھئی! تو کھانے میں نمک تیز ہوجانے کے باوجود شوہر نے بیوی کو معاف کردیا اور کہا کہ یااﷲ آپ کی بندی سمجھ کر اس کو معاف کر تا ہوں جو چند دن کے لیے مجھے ملی ہے، پھر نہ ہم ہوں گے نہ یہ ہوگی، سب قبروں میں لیٹے ہوںگے، میں آپ کو خوش کرنے کے لیے آپ کی اس بندی کی خطاءکو معاف کرتا ہوں۔ حکیم الامت مجدد الملت اپنے وعظ میں بیان کرتے ہیں کہ جب اس کا انتقال ہوگیا تو اس کو ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اے بھائی! اﷲ کے یہاں تیرا کیا معاملہ ہوا؟ اس نے کہا کہ میرے بڑے گناہ تھے لیکن اﷲ نے فرمایا کہ تو نے جو نمک تیز کرنے پر میری بندی کو معاف کردیا تھا اس کے بدلہ میں میں تجھ کو معاف کرتا ہوں۔

اکمل ایمان کیسے حاصل کریں؟
آج ایک حدیث سن لیجئے، ان شاءاﷲ اس کی برکت سے ایمان کامل نہیں اکمل ہوجائے گا، بس فرض، واجب، سنت موکدہ پڑھ لو، زیادہ نفل، حج، عمرہ بہت زیادہ تسبیح اور نفلی عبادات چاہے کم ہوں مگر اخلاق اچھے کرلو تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس کے اخلاق مخلوقِ خدا کے ساتھ اچھے ہوں گے قیامت کے دن اس کا ایمان کامل ہی نہیں اکمل ہوگا۔ علامہ بدر الدین عینی رحمة اﷲ علیہ ایک حدیث نقل فرماتے ہیں:


اَلمُسلِمُ مَن سَلِمَ المُسلِمُونَ مِن لِّسَانِہ وَیَدِہ


(صحیح البخاری،کتاب الجماعة والامامة، ج،۵، ص:۹۷۳۲، دار ابن کثیر۔الیمامة)


کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے۔ یہاں علامہ بدر الدین عینی نے ایک علمی اِشکال کیا ہے کہ کیا پیر سے مارنے کی اجازت ہے؟ کیونکہ حدیث میں صرف دو باتیں ہیں زبان سے تکلیف نہ دو اور ہاتھ سے تکلیف نہ دو مگر پیر کا ذکر نہیں فرمایا لہٰذا کیا زبان اور ہاتھ کو بچاو اور دو لات لگا دو؟ تو علامہ بدر الدین عینی اس کا جواب دیتے ہیں کہ جو اعضاءتکلیف پہنچانے میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں وہ دو ہیں زبان اور ہاتھ، لات کی نوبت تو بہت کم آتی ہے تو جب زیادہ استعمال ہونے والے اعضاءکی حفاظت کی مشق ہوجائے گی تو لات کی تو نوبت ہی نہیں آئے گی، اس کو قابو کرنا بالکل آسان ہوجائے گا۔

علامہ ایک اِشکال اور کرتے ہیں کہ زبان سے تکلیف ہوتی ہے یا زبان کے الفاظ سے تکلیف ہوتی ہے، زبان میں تو ہڈی بھی نہیں ہے، وہ تو ملائم گوشت کا ٹکڑا ہے۔ اگر آپ غصہ میں اپنی بیوی کے گال پر زبان کو زور سے رگڑیں تو کیا وہ کہے گی کہ ہائے میں مرگئی؟ اسی لیے علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے یہ کیوں نہیں فرمایا اَلمُسلِمُ مَن سَلِمَ المُسلِمُونَ مِن اَلفَاظِ لِسَانِہ یعنی مسلمان وہ ہے جس کے الفاظ سے لوگوں کو اذیت نہ پہنچے، زبان بے چاری کیا تکلیف پہنچائے گی۔ علامہ بدر الدین عینی اس کا جواب دیتے ہیں کہ بعض وقت بغیر الفاظ کے بھی زبان سے تکلیف دی جاسکتی ہے۔ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کوعلمِ نبوت میں کمالِ بلاغت دیا گیا تھا، آپ نے لسان اس لیے فرمایا تاکہ اس میں وہ لوگ بھی داخل ہوجائیں: لِیَدخُلَ فِیہِ الَّذِ ی یَخرُجُ لِسَانَہ#¾ اِستِھزَائً (المرقاة، ج:۱،ص:۷۳۱، دارالکتب العلمیة)

جو کسی کا مذاق اُڑانے کے لیے زبان کو باہر نکالتے ہیں اور ہلا کر بھاگ جاتے ہیں، اس میں کوئی لفظ بھی نہیں نکلتا، بچے اکثر ایسا کرتے ہیں، جب دیکھتے ہیں کہ پِٹائی ہو رہی ہے اور بدلہ نہیں لے سکتے تو بچے زبان نکال کر، منہ چڑا کر بھاگ جاتے ہیں اور بعضے بڑے بھی ایسا کرتے ہیں تو علامہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم نے مِن لِّسَانِہ اس لیے فرمایا تاکہ وہ ظالم، وہ موذی، وہ تکلیف دینے والے بھی اس حدیث میں شامل ہوجائیں جو زبان کو نکال کر ہلا کر مذاق اڑادیتے ہیں اور بولتے کچھ نہیں ۔

مخلوق پر احسان کرنا اچھے اخلاق کی نشانی ہے

شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمة اﷲ علیہ اپنے ایک ملازم کو ڈانٹ رہے تھے، اس نے کہا حضور خطا ہوگئی معاف کردیجیے، فرمایا تم نے ایک درجن خطائیں کی ہیں، میں کتنا بھگتوں؟ یعنی کتنا برداشت کروں تو تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس صاحب رحمة اﷲ علیہ اس وقت پاس بیٹھے ہوئے تھے جو شیخ الحدیث مولانازکریا رحمة اﷲ علیہ کے سگے چچا بھی تھے، انہوں نے شیخ الحدیث کے کان میں فرمایا کہ قیامت کے دن جتنا اپنا بھگتوانا ہو، جتنی اپنی خطاوں کی معافی کرانی ہو اتنا یہاں بھگت لواور اﷲ کے بندوں کو معاف کردو۔



صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے بھانجے حضرت مسطح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ناراض ہوگئے اور قسم اُٹھائی کہ اب میں ان کو کبھی کچھ نہیں دوں گا۔ حضرت مسطح بدری صحابی تھے، بدری صحابہ اﷲ کے مقبولین میں سے ہیں اور اﷲ ایک دفعہ جس کو قبول کرتا ہے پھر اس کو کبھی مردود نہیں کرتا، ہم لو گ تو اس لیے مردود کردیتے ہیں کہ ہم کو مستقبل میں کسی کی وفاداری کا علم نہیں ہوتا لیکن اﷲ تعالیٰ اُسی کو مقبول بناتے ہیں جو علم الٰہی میں ہمیشہ مقبول ہوتا ہے، ماضی، حال، مستقبل اﷲ تعالیٰ کو سب کا علم ہے چنانچہ جس کو ایک مرتبہ قبول کر لیتے ہیں پھر کبھی اس کو مردود نہیں فرماتے لہٰذا اﷲتعالیٰ نے حضرت ابو بکر سے حضرت مسطح کے لیے سفارش نازل فرمائی:

اَلاَ تُحِبُّونَ اَن یَّغفِرَا ﷲُ لَکُم (سورة النور، آیة:۲۲)

اے ابو بکر صدیق! کیا تم محبوب نہیں رکھتے کہ میرے اس بدری صحابی کو جس نے بدر میں جنگ لڑی تھی اور میں نے اس کو اپنا مقبول بنا لیا تھا، جس سے بے شک غلطی ہو گئی لیکن میں اس کو معاف کرتا ہوں اگر تم اس کو پسند کرتے ہو کہ اﷲ تم کو بخش دے تو تم میرے مسطح کو معاف کردو۔ یہ تفسیر جو میں پیش کر رہا ہوں روح المعانی میں اس آیت کے شانِ نزول میں موجود ہے۔ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ اے اﷲ! میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ آپ مجھے قیامت کے دن بخش دیں، میں آپ کے اس بندہ کو معاف کرتا ہوں بلکہ اس پر پہلے سے بھی زیادہ احسان کروں گا۔

No comments: