دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

28 February 2010

Aurtoon Kay Huqooq: بیو یوں کے ساتھ احسان اور نرمی سے پیش آنا

taken from Irshadat e dard e dil

Aurtoon Kay Huqooq: بیو یوں کے ساتھ احسان اور نرمی سے پیش آنا








Ghussay ka Ilaaj: غصے کا علاج

Taken from Ilajul Ghazab......  Ghussay ka Ilaaj: غصے کا علاج

13 February 2010

Special : جلدی ولی اللہ بننے کا نسخہ


جلدی ولی اللہ بننے کا نسخہ 
    taken from IRSHADAAT E DARD E DIL

09 February 2010

طریقِ محبت

طریقِ محبت
taken from alabrar.khanqah.org
شیخ العرب وا لعجم عارف بااللہ  مرشدنا و مولانا حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب مدظلہم و عمت فیوضہم کا یہ وعظ مسمیٰ بہ طریقِ محبت ۶۲جمادی الثانی ۸۱۴۱ھ مطابق ۰۳ اکتوبر ۷۹۹۱ئ، بروز جمعرات، بعد نماز عصر، یادگار خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، بالمقابل چڑیا گھر لاہور میں ہوا۔


یٰایھا الذین اٰمنوا اتقواللہ  وکونوا مع الصادقین



جب میں نے اس آیت کو پڑھا تو میرے دل میں فوراً اس کا ترجمہ یہ آیا کونوا مع العاشقین کہ عاشقوں کے ساتھ رہو۔ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمةاللہ  علیہ نے فرمایاکہ جس گاڑی میں پیٹرول نہ ہو تو کب تک اس کو دھکا دیتے رہوگے، ارے انجن میں پٹرول ڈالو پھر دیکھو کیسا بھاگتی ہے کہ دھکے دینے والے جو پسینہ پسینہ ہورہے تھے وہ بھی اس میں بیٹھ جائیں گے لہٰذا کب تک خوف کے ڈنڈے سے عمل کرو گے، دل میں اللہ کی محبت کا پٹرول ڈلوالو پھر ایسا بھاگو گے کہ لوگ حیران رہ جائیں گے کہ بھئی یہ تو بہت ہی تیز رفتار جارہا ہے۔ اللہ  کے عاشق دنیاوی رفتار کے لحاظ سے تو بالکل سست اور کاہل معلوم ہوتے ہیں، لیکن آخرت کے کاموں میں وہ انتہائی تیز رفتار ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں

کارِ دنیا را ز کُل کاہل تر اند
در رہِ عقبیٰ ز مہ گو می برند


جنہوں نے اللہ  کو پہچانا وہ آپ کو ساری دنیا میں سب سے زیادہ کاہل ملیں گے، مگر کس سے؟ دنیا کے کام سے۔ دنیا کے کاموں سے ان کا دل اُچاٹ ہوجاتا ہے لیکن آخرت کے کاموں میں ان کی رفتار چاند سے زیادہ تیز ہوتی ہے، لہٰذا یہ مت سمجھنا کہ وہ ہر لحاظ سے کاہل ہیں، وہ غیر اللہ  سے کاہل ہیں مگر اللہ  پر جان دیتے ہیں، کتنی ہی حسین لڑکی سامنے آجائے مجال ہے کہ وہ نظر اٹھا کر دیکھ لیں، فوراً نظر نیچی کرلیں گے، کوئی حسین لڑکا سامنے ہو تو نظر نیچی کرلیں گے۔ اگر کوئی نظریں نیچی نہیں کرتا تو یہ نیچا آدمی ہے، اللہ و الا نہیں ہے، مولیٰ کی محبت اس پر غالب نہیں ہے، یہ گراونڈ فلور میں گھسنا چاہتا ہے، یہ بیوقوف و احمق ہے، اس کی عادتیں گندی ہیں، اللہ  والے ہمیشہ اپنے مولیٰ پر فدا رہتے ہیں اور ہر وقت اپنی جان خدا پر نثار کرتے رہتے ہیں۔ اور جان کیسے دیتے ہیں؟ خود کشی نہیں کرتے، اپنی آرزو اللہ  پر فدا کرتے ہیں جس خوشی سے مولیٰ ناراض ہوتا ہے کہ اس شکل کو دیکھ لو یہ لڑکا یا لڑکی بہت حسین ہے وہ اپنی اس بری خواہش کو اللہ  کے حکم کی تلوار سے کاٹتے رہتے ہیں۔ آہ! حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اے دنیا والو! تم کیا جانو اللہ  والوں کے مجاہدات کو

اے ترا خارے بپا نہ شکستہ کے دانی کہ چیست

حال شیرانے کہ شمشیرِ بلا بر سر خورند

تمہارے پیر میں تو کبھی کانٹا بھی نہیں چبھاتم کیا جانو ظالمو! ان اللہ  والے شیروں کو، ان شیروں کا حال تمہیں کیا معلوم جو ہر وقت اللہ  کے حکم کی تلوار کھاتے رہتے ہیں اور ان کے دل میں دریائے خون بہتا ہے۔ حاسدین چاہتے ہیں کہ غیبت کر کے، حسد کر کے اللہ  والوں کے چراغ کو بجھا دیں۔ اس پر میرا شعر ہے

ایک قطرہ وہ اگر ہوتا تو چھپ بھی جاتا

کس طرح خاک چھپائے گی لہو کا دریا


ایک قطرہ خون تو خاک سے چھپ سکتا ہے لیکن خون کا دریا کیسے پاٹو گے؟ جو ہر وقت اپنی آرزو کا خون کرتے رہتے ہیں، ہر وقت اپنی نظر کو بچا کر اپنی جان کو اللہ  پر فدا کرتے رہتے ہیں اور فدا کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ جان میں حرام لذت نہ آنے دو، جان کی بازی لگا دو، دیکھنے کو کتنا ہی دل چاہے ارادہ کرلو کہ اس شکل کو نہیں دیکھنا اور دل سے کہہ دو کہ اے دل تو میرا خدا نہیں ہے، میں بھی بندہ ہوں تو بھی بندہ ہے، بندے کا ہر جز بندہ ہے، تو کیسے اپنے مولیٰ کے حکم کو توڑ کر اپنی خوشی کو پوری کر سکتا ہے، میں تجھ کو توڑ دوں گا مولیٰ کے حکم کو نہیں توڑوں گا۔ دہلی میں مومن نا م کا شاعر تھا، اس کا ایک دوست تھا آرزو، وہ بدعتی تھا اور مومن اللہ  والوں سے بیعت ہوگئے تھے لیکن اس پرانے دوست کی یاد آتی رہتی تھی، تنگ آکر ایک دن اپنے دل سے کہا

لے آرزو کا نام تو دل کو نکال دیں
مومن نہیں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم

اے دل اگر تو نے میرے پرانے دوست آرزو کا نام لیا تو تجھ کو سینے سے نکال دوں گا۔ تو جب گندے کام کو دل چاہے، کسی نمکین یا حسین کو دیکھنا چاہے اس وقت دل کو مضبوطی سے یہ کہو کہ اے دل تجھ کو توڑدوں گا اللہ  کے حکم کو نہیں توڑوں گا، توبندہ ہے، وہ میرا مولیٰ، میرا پالنے والا ہے، اس نے ہم کو یہ آنکھیں دی ہیں، تیرے کہنے سے میں اس کو کیسے غلط استعمال کروں؟ جو ہر وقت خونِ آرزو پیتے ہیں ان کا دل لال ہوجاتا ہے۔ جب مشرق لال ہوتا ہے تو سورج نکلتا ہے، تو اللہ  تعالیٰ کے قرب کا سورج اُنہیں کے دلوں میں طلوع ہوتا ہے جو اپنی ناجائز آرزووں کا خون کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل کے چاروں اُفق مشرق، مغرب، شمال، جنوب لال ہو جاتے ہیں پھر اللہ  تعالیٰ اپنے عاشقوں کے قلوب میں ہر طرف سے اپنے قرب کا سورج طلوع فرماتے ہیں۔

دیکھو دوستو! اگر اللہ  پر فدا نہ ہوئے تو کس پر فدا ہوگے؟ ان مرنے والوں پر؟ فدا ہونے کی دو ہی فیلڈ ہیں یا تو مولیٰ پر فدا ہو جاو یا لیلیٰ پر۔ اگر لیلیٰ پر فدا ہوئے تو کیا حاصل۔ اگر ابھی تمہارے گردے بیکار ہوجائیں تو ہے کوئی لیلیٰ جو تمہارے کام آئے، وہ تمہیں صحت دے سکتی ہے؟ جس کو رات دن دیکھتے تھے۔ کراچی میں ایک دوست میرے پاس آیا، میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا گھر کہاں ہے؟ اس نے کہا منظور کالونی میں، تو میں نے کہا کہ منظور کالونی میں رہنا ناظر کالونی میں نہ جانایعنی نظر کو خراب نہ کرنا، تو وہ صاحب بہت ہنسے۔ پھر اللہ  تعالیٰ کی رحمت سے ایک اصلاحی شعر ہوگیا

اختر وہی اللہ  کا منظورِ نظر ہے
دنیا کے حسینوں کا جو ناظر نہیں ہوتا
یہ نہ سمجھو کہ اللہ  والوں کے سینوں میں دل حساس نہیں ہوتا، جو صوفی یہ کہے کہ ہم کو ساری لڑکیاں بجلی کا کھمبا معلوم ہوتی ہیں تو سمجھ لو کہ اس کا کھمبا کمزور ہے، اللہ  والوں کے دل میں حسن وعشق کا سنگم اور دریا بہتا ہے لیکن وہ اللہ  کے نام پر اپنی خواہشات کو ذبح کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ہر لمحہ حیات ان کی روح وجان وزندگی پر زندگی برستی رہتی ہے۔ حکیم الامت کے اکثر وعظ میں یہ شعر آپ پائیں گے

کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است

جو لوگ اپنی خواہش کو کاٹتے رہتے ہیں عالمِ غیب سے ان کی جان پر بے شمار جان برستی ہے، ان کی زندگی پر بے شمار زندگی برستی ہے اور جو مرنے والوں پر مرتے ہیں ان کے اوپر بے شمار موت برستی ہے، ان کے پاس رہ کر دیکھ لو، وہ کروٹیں بدلتے ہیں، بے چین تڑپتے رہتے ہیں، نیند نہیں آتی تو ولیم فائیو کھاتے ہیں۔ اس پر میں کہتا ہوں کہ کیوں دیکھی کسی کی وائف کہ کھانی پڑی ولیم فائیو اور خراب ہوگئی تمہاری لائف اور ہر وقت چبھتا ہے جگر میں اس کا نائف۔ واللہ ! قسم کھا کر اختر کہتا ہے بحیثیت ایک مربی اور ایک مسلمان کے، میں ستر سال کی عمر تک طبیب بھی رہا ہوں، حکمت بھی کی ہے، آج تک میرے پاس جتنے نوجوان بچے آئے سب نے یہی کہا کہ ان لیلاوں نے مجھے مار ڈالا

مار ڈالا تماش بینوں نے
زہر کھلوا دیا حسینوں نے

ہم پریشان ہیں، نیند تک نہیں آرہی۔ جس نے مولیٰ کو چھوڑا اور غیراللہ  سے دل لگایا تو حکیم الامت تھانوی کے الفاظ ہیں سن لو اے جوانو! آج رومانٹک دنیاکا بہت بڑا سیلاب آرہا ہے، جو اس کا علاج نہیں بیان کرے گا سمجھ لو کہ وہ طریق سے واقف نہیں ہے، رومانٹک دنیا کا سیلاب بہہ رہا ہے، ہر طرف بے پردگی و عریانی ہے لہٰذا آج کل ولی اللہ  بننا بہت آسان ہے، ہر وقت نظر بچاو اور ایمانی حلوہ کھاو۔ حدیث شریف کا وعدہ ہے کہ جو نظر بچاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب میں حلاوتِ ایمانی عطا کرتا ہے اور محدثِ عظیم ملا علی قاری رحمة اللہ  علیہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ  تعالیٰ حلاوتِ ایمانی دیتا ہے تو واپس نہیں لیتا فیہ اشارة الی بشارة حسن الخاتمةتو معلوم ہوا کہ نظر بچانے سے ایمان پر خاتمہ بھی نصیب ہوگا اور جو نظر نہیں بچاتے ان کا خاتمہ بھی خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ علامہ ابن قیم جوزی کا ایک واقعہ حکیم الامت نے اپنے وعظ میں نقل فرمایا ہے کہ ایک شخص نے ایک حسین کو دیکھا، اس کے دل میں اس کی شکل اُتر گئی، جب مرتے وقت اس شخص کو کلمہ پڑھایا گیا تو اس ظالم نے کہا

رضاک اشھی الی فوادی
من رحمة الخالق الجلیل

اے معشوق! اے محبوب! تیرا خوش ہونا مجھے اللہ  تعالیٰ کی رحمت سے زیادہ عزیز ہے اور وہ اِسی کفریہ جملے پر مر گیا۔ اس لیے یاد رکھو کہ غیراللہ  کو دل سے نکالو ورنہ موت کے وقت کلمہ کے بجائے یہی نکلنے کا اندیشہ ہے کہ کوئی حسین لاو۔ جب ہم ساری زندگی مرنے والوں پر مرتے رہے تو اب زندہ حقیقی کا کلمہ کیسے نکلے گا؟ اس لیے اگر اطمینان سے رہنا ہے، چین سے رہنا ہے، پرسکون رہنا ہے، بالطف رہنا ہے تو اعمالِ صالحہ کی فکر کرواور اگر کبھی گناہ ہوجائے تو جلدی سے توبہ کر کے اللہ  تعالیٰ کو راضی کرلو، توبہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ بگڑی بنا دیتا ہے۔ جب خطا ہوجائے اللہ  سے خوب روو، اللہ  تعالیٰ کبھی یہ نہیں فرمائیں گے کہ کب تک تمہاری توبہ قبول کروں، میں تمہاری توبہ قبول کرتے کرتے تھک گیا ہوں، اللہ  تھکتا نہیں ہے، ایک کروڑ گناہ کو بھی اللہ  معاف کرنے پر ویسے ہی قادر ہے جیسے کسی کے ایک گناہ کو معاف کردے، کسی کا ایک گناہ ہو یا کسی کے دس کروڑ گناہ اللہ  کو معاف کرنا کچھ مشکل نہیں، اللہ  کی ہر صفت غیر محدود ہے۔


مولیٰ کا راستہ بتلا رہا ہوں، اگر مولیٰ چاہتے ہو تو نظر کی حفاظت کرو اور دل کی حفاظت کرو، دل میں بھی گندے خیالات مت لاو، ایسے دل میں مولیٰ آئے گا جس میں مردے پڑے ہوئے ہیں؟ اگر یہاں کفنائے ہوئے کچھ مردے پڑے ہوں اور خانقاہ کا ناظم آپ کے لیے کباب اور بریانی کی دعوت کا اعلان کردے تو آپ کہیں گے کہ یہاں جو مردے پڑے ہوئے ہیں ان کی موجودگی میں مجھ سے کھانا نہیں کھایا جائے گا، مجھے قے ہوجائے گی لہٰذا جن کے دل میں مردے لیٹے ہوئے ہیں، غیر اللہ یعنی حسینوں کی محبت گھسی ہوئی ہے، بتاو! یہ حسین مردے ہیں کہ نہیں؟ یہ کسی دن مریں گے یا نہیں؟ دیکھ لو لیلیٰ کی قبر کھود کر اور مجنوں کی قبر کھود کر، نہ لیلیٰ کا نمک پاو گے نہ مجنوں کی سوکھی ہوئی ہڈیاں ملیں گی جو لیلیٰ کے غم میں رو رو کر لاغر ہوگیا تھا، نہ ساغرِ لیلیٰ ہے نہ لاغرِ مجنوں ہے۔

اس لیے حکیم الامت تھانوی رحمة اللہ  علیہ کا یہ جملہ نوٹ کرلینا کہ غیراللہ  کو دیکھنا اور دل لگانا یعنی عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے۔ یاد رکھو! میں یہ مضمون سارے عالم میں بیان کررہا ہوں اور جو جوان بچے ہیں آج میرا شکریہ ادا کررہے ہیں او رجوبڈھے ریٹائرڈ ہوگئے یا آوٹ آف اسٹاک ہیں وہ بھی اس کو غیر ضروری نہ سمجھیں، اپنی امت کے جوانوں کی حفاظت کو بھی ضروری مضمون سمجھیں مگر حکیم الامت نے فرمایا کہ بڈھوں کو بھی نظر بچانا چاہیے کیونکہ بڈھی کار کی بریک میں لوزنگ آجاتی ہے، بریک مارتا ہے یہاں اور رکتی ہے وہاں دس قدم کے بعد۔ لہٰذا بڈھوں کو بھی نظر بچانا چاہیے کیونکہ نظر میں کچھ خرچہ بھی نہیں ہوتا لیکن یہ آنکھوں کا زِنا ہے، آنکھوں کا زِنا نظربازی ہے، یہ کس کا ارشاد ہے؟ سیدالانبیاءمحمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو نظر نہیں بچاتا آنکھوں کا زِنا کرتا ہے، آنکھوں سے زِنا کرنے والا ولی اللہ  ہو سکتا ہے؟

حکیم الامت فرماتے ہیں کہ بدنظری احمقانہ گناہ ہے، بے وقوفی کا گناہ ہے کیونکہ نظرباز کچھ نہیں پاتا، نہ ملنا، نہ جلنا دیکھ کر تڑپنا، پرایا مال دیکھ کر دل تڑپانا اور اپنے کو جلانا اور کچھ نہ پانا، پائے گا وہی جو اپنی حلال کی ہے اور جس کی حلال کی بیوی بھی نہیں ہے وہ کہاں جائے؟ اس کا علاج یہ ہے کہ نظر بچاو، ان شاءاللہ  ہائے ہائے ختم ہوجائے گی اور وسوسہ تک نہیں آئے گا، یہ سارا مرض بدنظری سے ہوتا ہے، نہ دیکھو کسی کا نمک، نہ چمک، نہ اس کی دمک، نہ تمہارے ایمان کو کھائے دیمک اور ایک ایک نظر بچانے میں اتنا مزہ آئے گا ان شاءاللہ  واﷲ قسم کھا کے کہتا ہوں کہ ہر نظر بچانے پر حلاوتِ ایمانی کا وعدہ ہے، آپ کے سینے میں نور کا دریا بہے گا اگرچہ خون کا دریا نفس میں بہہ رہا ہے، جب نفس میں خونِ آرزو کا دریا بہتا ہے تو روح میں نور کا دریا بہتا ہے۔



جو لوگ تقویٰ سے رہتے ہیں، حسینوں سے نظر کو بچاتے ہیں، چاہے ہوائی جہاز میں ائیر ہوسٹس ہو یا ریلوے اسٹیشن پر یا مارکیٹنگ کرتے ہوئے انارکلی میں، کسی کلی کونہیں دیکھتے تو وہ بے کلی میں نہیں رہتے، اللہ  تعالیٰ ایسے دلوں کو پُر بہار رکھتا ہے جو اللہ کے لیے اپنی جان کو فدا کرتے رہتے ہیں۔ مولیٰ سے بڑھ کر کون ہے وہ ذات جس پر ہماری جان فدا ہو، ابھی جوانی سنبھال لو کیونکہ جوانی کی عادتیں اگر خراب ہوجائیں گی تو بڑھاپے تک اصلاح مشکل ہوجائے گی۔ مولانا رومی رحمة اللہ  علیہ فرماتے ہیں کہ ایک محلے میں کسی گھر کے دروازے پر ایک کانٹے دار درخت اُگ گیا، محلے والوں نے گھر والے سے کہا کہ جلدی اُکھاڑو، اس نے کہا کہ کل اُکھاڑوں گا، جب کل آئی تو پھر کہا کہ کل اُکھاڑوں گا، کل کل کرتے ہوئے ایک سال ہوگیا اور درخت کی جڑ مضبوط ہوگئی اور اکھاڑنے والا کمزور

(جاری ھے)

05 February 2010

04 February 2010

ذکر میں اعتدال مطلوب ھے

Taken from Hazrat wala db book Irshadat e dard e dil

ذکر میں اعتدال مطلوب ھے