دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

27 March 2010

میاں بیوی کے حقو ق

میاں بیوی کے حقو ق
از  

شیخ العرب وا لعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم



شریعت و طریقت ، تصوّ ف و سلوک کی بنیاد؛ ا تّباع سنّت

شریعت و طریقت ، تصوّ ف و سلوک کی بنیاد؛ ا تّباع سنّت




گناہ سے بچنا آسان کیسے ہو

گناہ سے بچنا آسان کیسے ہو






22 March 2010

مردوں کے لیے ٹخنوں سے نیچے لباس لٹکانے سے ممانعت

مسئلہ اسبال ازار

(مردوں کے لیے ٹخنوں سے نیچے لباس لٹکانے سے ممانعت)

 

( ا حادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمِ کی روشنی میں)
از
شیخ العرب وا لعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم

taken from Hazratwala db Book "Rooh Ki Beemaarian or unka ilaaj"
















18 March 2010

نفس داخلی دشمن : شیطان خارجی دشمن

نفس داخلی دشمن : شیطان خارجی دشمن
  ملفوظات شیخ العرب وا لعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم
Wednesday, March 17th, 2010
مرتبہ: سید عشرت جمیل میر
 بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشنِ اقبال کراچی


آخرت کی یاد دلانے والا ایک مضمون

ارشاد فرمایا کہ آج کل آخرت کی یاد دلانے کے لیے ایک عنوان اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے کہ دنیا سے مت چپکو اور اپنے گھر سے بھی مت چپکو کیونکہ اس گھر سے ایک دن آپ کا خروج نہیں ہوگا اِخراج ہوگا، خروج تو جب ہو جب اپنی مرضی سے نکلو، جب روح کا خروج ہوگا تو گھر والے ہی تم کو گھر سے نکالیں گے، اس کا نام اِخراج ہے، خروج اور ہے اخراج اور ہے، خروج کے معنیٰ نکلنا اور اخراج کے معنیٰ نکالنا، بیوی بچے ہی کہیں گے کہ بابا کوجلدی قبرستان لے جاو لہٰذا دل کسی سے مت لگاو۔

حکیم الامت فرماتے ہیں کہ ہر اعضاءکی غذا اللہ نے الگ رکھی ہے، کان کی غذا اچھی آواز ہے، آنکھ کی غذا اچھے نظارے ہیں، زبان کی غذا ذائقے دار کھانے ہیں، ناک کی غذا خوشبو ہے اور دل کی غذا محبت ہے۔ غذا ناقص ہوگی تو صحت خراب ہوجائے گی، اسی طرح اگر ناقص محبوب سے دل لگاوگے تو دل کی صحت خراب ہوجائے گی، دل بے چین رہے گا، اور سارے عالم کے محبوب ناقص ہیں کیونکہ ان سب کو موت آنی ہے، بیماری آنی ہے اور جب بیماری آتی ہے تو حسن کا جغرافیہ خراب ہوجاتا ہے تو یہ سب ناقص محبوب ہیں، بس حلال کی بیوی سے گذارا کرلو۔ جائز کاروبار، مکان، ماں باپ، بیوی بچے ان سب سے تو اللہ کے لیے محبت کرو لیکن اللہ کی محبت کو سب پر غالب رکھو، دنیا سے دل کو کاٹنے کا حکم نہیں ہے، بس دنیا کی محبت پر اللہ تعالیٰ کی محبت کو غالب رکھنے کا حکم ہے جیسے کشتی کے لیے پانی ضروری ہے مگر پانی نیچے رہے اور کشتی پانی کے اوپر رہے، اگر پانی کشتی میں داخل ہوجائے تو کشتی ڈوب جائے گی اسی طرح دنیا تو رکھو، مکان بھی ضروری ہے، کپڑا بھی ضروری ہے، کھانا بھی ضروری ہے مگر ان سب کو دل کے باہر رکھو، کاروبار بھی دل کے باہر اور کار بھی دل کے باہر، دل میں بس یار ہو یعنی اللہ دل میں ہو مگر اس کے لیے مشق ہے، زبانی جمع خرچ کافی نہیں ہے۔ اہل اللہ کی صحبت سے اس محبت کو غالب کرنا سیکھا جاتا ہے، اگر صحبت ضروری نہ ہوتی تو قرآن کافی ہوجاتا لیکن جب کتاب اللہ نازل ہوئی اس کے ساتھ رجال اللہ یعنی انبیاءبھی اللہ نے پیدا کیے کہ کتاب تو نازل کردی لیکن کتاب پر عمل کر نے کی تربیت ہمارے پیغمبر دیں گے اور جب پیغمبر دنیا سے چلے گئے تو اللہ نے ان کے نائبین یعنی علماءاور اولیاءاللہ بھیجے جیسے صدر چلا جاتا ہے تو نائب صدر دستخط کرتا ہے۔

حسینوں کو دیکھنا بھی بت پرستی ہے

ارشاد فرمایا کہ ایک بات کہتا ہوں کہ جہاں دیکھنے سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوں ایسی صورتوں کو مت دیکھو چاہے کتنا ہی عمدہ ڈیزائن ہو اس کو فوراً ریزائن دو، ڈیزائن کو ریزائن کر دو تو اللہ تعالیٰ کے قرب کے خزائن برسیں گے اور اگر تم نے ان کے ڈیزائن کو دیکھا تو رام نرائن ہوجاو گے مطلب یہ کہ ان حسینوں کو دیکھنا بھی بت پرستی ہے۔ اس کو میں نے قرآنِ پاک سے ثابت کیا ہے، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بت پوجنے سے پتھر کے بت پوجنا ہی مراد ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو اپنی بری خواہش پر عمل کرتا ہے یہ بھی بت پرست ہے، غیر الٰہ پر ست ہے، اس نے لا الٰہ کا حق ادا نہیں کیا۔ اب یہ آیت دیکھئے: اَفَرَایْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ ھَوَاہ
 (سورة الجاثیة،آیت:۳۲)
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے دیکھا کہ انہوں نے اپنی نفس کی خواہش کو الٰہ بنایا ہوا ہے، اپنا معبود بنایا ہوا ہے، نفس کی وہ خواہش جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہو وہ الٰہ ہے۔ قرآنِ شریف سے ثابت ہے کہ بعض لوگوں نے اپنے نفس کی خواہش کو الٰہ بنایا ہوا ہے ان کو ہمارے حکم کا خیال ہی نہیں اور میرا حکم ان کو یاد بھی نہیں آتا یعنی یَغُضُّوا مِن اَبصَارِھِم کا حکم جو قرآنِ پاک میں ہے، اس کو بھلا کر حسینوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے انتہائی انٹرنیشنل گدھا ہو جسے کچھ پتہ ہی نہیں کہ میں کس کا بندہ ہوں، کس کی زمین پر کھڑا ہوں اور کس کے آسمان کے نیچے ہوں۔ اَفَرَایْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ ھَوَاہ کیا یہ آیت میرے مدعا کو ثابت نہیں کررہی ہے کہ جو لوگ اپنی خواہش کو خدا بنائے ہوئے ہیں یعنی جس طرح خدا کے حکم پر عمل کرنا چاہیے یہ اس طرح اپنی بری خواہشوں کی پیروی کرنے میں پاگل ہوجاتے ہیں، اُس وقت یہ ظالم اللہ کو یاد بھی نہیں کرتے اور یاد بھی کرتے ہیں تو اللہ کی محبت کو مغلوب اور معمولی رکھتے ہیں اور غلبہ اسی بت کا رہتا ہے کہ اسی کو دیکھتے رہتے ہیں بلکہ قصداً مولیٰ کو بھلا دیتے ہیں، بعض لوگ گناہ کرنے کے لیے، قصداً اللہ کو بھلانے کے لیے دماغ سے نکالتے ہیں کہ ابھی اس وقت خدا یاد نہ آئے تا کہ میں اس گناہ سے حرام مزہ لوٹ لوں اور تسبیح بھی جیب میںرکھ لیتے ہیں اور جلد توبہ بھی نہیں کرتے کہ ابھی تو اور ٹیڈیوں کو دیکھنا ہے، دیر سے توبہ کرتے ہیں، دیر سے توبہ کرنے والے کی چالاکی یہی ہے کہ ابھی کچھ اور حرام مزے لوٹ لو ورنہ توبہ کے بعد دوسرا گناہ کیسے کریں گے لہٰذا اللہ تعالیٰ کو دیر تک ناراض رکھنے پر یہ نالائق صابر ہے، یہ نفس پر صبر نہیں کرتا اپنے مولیٰ پر صبر کرلیتا ہے۔ صاحبِ قونیہ جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں

اے کہ صبرت نیست از فرزند وزن
صبر چوں داری ز رب ذوالمنن

تم کو اپنے بیوی بچوں پر صبر نہیں آتا اور احسان کرنے والا مولیٰ جس نے تم کو پیدا کیا اس کی جدائی پر صبر کرتے ہو۔ اور جس کے بیوی بچے نہیں ہیں وہ اپنے دوسرے مرغوبات کو سامنے رکھے، مولانا کا یہ شعر اس کے لیے کیسے مفید ہوگا جس کے پاس فرزند و زن نہیں ہے لہٰذا وہ اپنی ہری مرچ کو اور اپنے برف کے پانی اور دیگر مرغوباتِ طبعیہ کو سامنے رکھے کہ ان مرغوباتِ طبعیہ پر صبر نہیں تو اللہ پر کیسے صبر کرتے ہو۔

نفس کی چار تعریف

کسی نے حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ سے پوچھا کہ نفس کی تعریف کیا ہے؟ قرآنِ پاک میں جگہ جگہ نفس کا تذکرہ ہے اور بزرگ بھی کہتے ہیں کہ نفس کی اتباع مت کرو تو یہ نفس ہے کیا چیز؟
تو حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں مرغوباتِ طبعیہ غیرِ شرعیہ یعنی طبیعت کی وہ رغبت، وہ خواہش جس پر عمل کرنے کی اللہ تعالیٰ کی اجازت نہ ہو اسی کا نام نفس ہے۔
 اور شرح مشکوٰة میں ملا علی قاری محدثِ عظیم لکھتے ہیں کہ نفس نہ تو کثیف ہے نہ لطیف ہے، یہ روح اورجسم کے درمیان میں ہے، روح لطیف ہے اور جسم کثیف ہے ان کے درمیان میں نفس رہتا ہے، اگر نیک عمل کر لیے، روحانی اعمال کرلیے تو لطیف ہو جاتا ہے، روح جیسا ہوجاتا ہے اور اگر گناہ کرلیا تو جسم جیسا کثیف ہوجاتا ہے، اللہ کی فرمانبرداری سے نفس میں لطافت آجاتی ہے اور روح بھی ولی اللہ ہو جاتی ہے۔


نفس اور شیطان کی دشمنی کا فرق


انسان کے دو دشمن ہیں، ایک نفس ایک شیطان، نفس داخلی دشمن ہے شیطان خارجی دشمن ہے۔
ان دونوں دشمنوں میں فرق کیا ہے؟
 نفس وہ دشمن ہے جو اصلاح کے بعد ولی اللہ بھی ہوسکتا ہے لیکن شیطان وہ دشمن ہے جو مردودِ دائمی ہے، یہ کبھی ولی اللہ نہیں ہوسکتا۔
دونوں دشمنوں کا یہ فرق اللہ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا، میں نے کتابوں میں کہیں نہیں دیکھا حالانکہ دونوں دشمن نصِ قطعی سے ہیں، دونوں دشمنوں کا ثبوت قرآنِ پاک اور حدیثِ پاک میں ہے لیکن دونوں دشمنوں میں فرق یہ ہے کہ تھوڑی سی محنت کرلو تو نفس ولی اللہ ہوجاتا ہے اور شیطان پر کتنی محنت کرو یہ کبھی ولی اللہ نہیں ہوسکتا یہ ہمیشہ مردود رہے گا،یہ فرق ہے دونوں دشمنوں میں۔

تو مشکوٰة شریف سے ملا علی قاری کی شرح ہوگئی کہ نفس متوسطہ ہے، بین الروح والجسم ہے یعنی روح لطیف ہے اور جسم کثیف ہے، اگر عمل اچھا ہوا تو اس میں لطافت آجاتی ہے یہاں تک کہ اسی نفس کے ساتھ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے یعنی ولی اللہ ہوگئے، عبادت یہ نفس ہی تو کرتا ہے، کام تو اسی ظالم سے لینا ہے، یہ تو مزدور ہے، گھوڑا ہے، اسی پر بیٹھ کر اللہ تک پہنچنا ہے، مگر ایسا گھوڑا جو سوار کو گرا دے وہ منزل تک نہیں پہنچنے دیتا لہٰذا نفس کو اتنا مسٹنڈا مت کرو، اتنا مرغ وماہی مت کھلاو کہ جس سے نفس تم پر سواری کرلے، سواری پر سوار ہونا چاہیے نہ کہ سواری ہی سوار پر سوار ہوجائے، تو جو نفس کی بات مانتا ہے اوراللہ کی نافرمانی کرتاہے یہ دلیل ہے کہ نفس کی سواری اس پر سواری کررہی ہے۔


اگر آپ گھوڑے پر جارہے ہیں اور دوہزار گز گہری کھائی آگئی اور نیچے ہری ہری گھاس ہے، سبزہ اُگا ہوا ہے تو اگر آپ نے نہ روکا تو گھوڑا گھاس کے لالچ میں کھائی میں کود کر جان دے دے گا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر آپ روکتے ہیں تو چونکہ گھوڑا بھوکا ہے اور ہری گھاس کا عاشق ہے، لگام کھینچنے کے باوجود بے تابی سے کھائی میں کودنے کی کوشش کرے گا، سوار کو چاہیے کہ اس وقت پوری طاقت سے لگام کھینچے چاہے گھوڑے کا گال پھٹ جائے، اگر سوار پوری طاقت سے اسے روکنے کی کوشش نہیں کرے گا تو گھوڑا بھی مرے گا اور سوار بھی مرے گا لہٰذا ہمت سے کام لو اور لگام پوری قوت سے کھینچو، زیادہ سے زیادہ گھوڑے کاگال پھٹ جائے گا، اس کی اصلاح آسان ہے، مویشی کے ڈاکٹر کے یہاں لے جاو، وہ مرہم پٹی کردے گا، انجکشن وغیرہ لگا دے گا لیکن اگر تم نے اس کے گالوں کی فکر کی تو تمہارا کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہوگا، تم ہلاک ہوجاو گے۔ تو جو لوگ گناہ میں نفس کی لگام ہلکی رکھتے ہیں وہ گناہ کر بیٹھتے ہیں اور اللہ کے قہر اور عذاب کے گڈھے میں نفس بھی گرتا ہے اور خود بھی گرتے ہیں لہٰذا جسم کی فکر نہ کرو کہ گناہ چھوڑنے سے اس کو غم پہنچے گا بلکہ ان شاءاللہ تعالیٰ اپنے نام کی برکت سے اللہ تعالیٰ جسم کو صحت مند کردیں گے۔ تو یہ مثال کیسی ہے، اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو کہے گا کہ گھوڑے کو گھاس کھانے کھائی میں کود جانے دو، عقلمند سوار گھوڑے کو پوری طاقت سے روکے گا۔ بس گناہ سے بچنے میں بھی دانت پیس کے پوری طاقت سے ارادہ کرلو کہ گناہ نہیں کرناہے

نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے انہیں ہرگز نہ دیکھیں گے
کہ جن کے دیکھنے سے رب مرا ناراض ہوتا ہے

نہیں ناخوش کریں گے رب کو اے دل تیرے کہنے سے
اگر یہ جان جاتی ہے خوشی سے جان دے دیں گے

اور پھر یہ شعر پڑھیں

جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

نفس کی تیسری تعریف علامہ آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں بیان کی ہے:

﴾ فَاِنَّ النَّفسَ کُلَّھَا ظُلمَة وَسِرَاجُھَا التَّوفِیقُ ﴿

نفس ابتداءتا انتہاءپورا پورا اندھیرا ہے اور نفس کے اندھیروں کے لیے روشنی کا چراغ کیا ہے؟ تو فیق خداوندی۔ اور
 توفیق کی تین قسمیں ہیں:
نمبر۱۔تَسھِیلُ طَرِیقِ الخَیرِ وَتَسدِیدُ طَرِیقِ الشَّرِّ بھلائی اور نیکی کے راستے سامنے آجائیں اور برائیوں کے راستوں کو اللہ بند کردے،
 نمبر۲۔ تَوجِیہُ الاَسبَابِ نَحوَ المَطلُوبِ الخَیرِ بھلائی اور نیکی کے اسباب سامنے آجائیں جیسے کوئی مصیبت آگئی اب کسی اللہ کے ولی سے دعا کرانے گیا اور وہاں اس کا دل لگ گیا او راس کی صحبت سے ولیاللہ ہوگیا تو یہ مصیبت جو کسی اللہ والے تک لے گئی یہ اس کے لیے مصیبت نہیں نعمت ہے جس نے اسے اللہ سے ملا دیا

آپ تک لائی جو موجِ رنج و غم
اُس پہ قرباں سینکڑوں ساحل ہوئے

دردِ عشقِ حق بھی تم حاصل کرو
لاکھ تم عالم ہوئے فاضل ہوئے

اخترِ بسمل کی تم باتیں سنو
جی اٹھو گے تم اگر بسمل ہوئے

مولانا رومی فرماتے ہیں

بر سر مقطوع اگر صد خندق است
پیشِ دردِ او مزاح مطلق است

اللہ کے عشق سے جن کی روح بسمل ہوئی وہ مجاہدات سے نہیں ڈرتے، جس مرغ کی گردن کاٹ دی گئی ہو اور اس کے سامنے سینکڑوں خندقیں ہوں تو وہ بھی اس مرغ کے درد کے سامنے کچھ نہیں ہیں۔ جب اللہ کی محبت دل میں آجاتی ہے تو پھر نافرمانی کی جتنی بھی خندقیں ہیں سب اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، وہ ہر وقت اللہ کو راضی کرتا ہے، جب تک اللہ کو راضی کرنے کا جذبہ عطا نہ ہو تو ایسا شخص مٹی کا ڈھیلا ہے کیونکہ یہ ڈھِیلا ہے۔
 واہ! یہ حکیم الامت کا جملہ ہے کہ جو ڈھِیلا ہے تو سمجھ لو کہ یہ مٹی کا ڈھیلا ہے۔

اور توفیق کی تیسری تعریف ہے خَلقُ القُدرَةِ عَلَی الطَّاعَةِ اللہ عبادت کی طاقت پیدا کر دے اور سستی اور کاہلی دور کر دے یعنی فرمانبرداری کی طاقت دے، پست ہمتی، ضعف ہمتی اور لومڑیت ختم ہوجائے۔


اللہ کے راستے میں شیرانہ چال چلو

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ایمان والو!جب تک تم لومڑی رہو گے تم کو استقامت نصیب نہیں ہوگی، لومڑی بے وفا ہوتی ہے، وقت پر راہِ فرار اختیار کرتی ہے، جب مصیبت آتی ہے یا جب شکاری شکار کے لیے کہتا ہے تو وہ ہگنے لگتی ہے لہٰذا وَلاَ یَرُوغُ رَوغَانَ الثَّعَالِبِ لومڑیوں کی طرح اللہ کے راستے میں مت چلو، شیرانہ چلو، مالک کی مرضی پر جان دینا سیکھو، یہ کیا کہ ذرا سانمک سامنے آیا اور پاگل ہوگئے، تم کیوں پاگل ہوتے ہو؟ تمہیں اس وقت خدا یاد نہیں رہتا؟ ابھی کوئی غنڈہ تمہیں دس جوتے ماردے اس وقت تمہیں کیوں ہوش آجاتا ہے، ایک جوتا کس کے پڑے تو وہاں سے بلبلا کر بھاگو گے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ مجھ میں نظر بچانے کی ہمت نہیں ہے، صاحب میں حسینوں کو دیکھ کر پاگل ہوجاتا ہوں لیکن سوچ لو کہ ایک بس اسٹاپ پر کوئی شخص کسی لڑکے یا لڑکی کو دیکھ رہا ہے اچانک وہاں کالا سانپ نکل آیا، اب کیوں دُم دبا کے بھاگتے ہو؟ تو معلوم ہوا کہ سانپ کا خوف ہے کیونکہ جان کی محبت ہے، جب اللہ کی محبت ہوگی تو ان شاءاللہ تعالیٰ گناہ سے اسی طرح بھاگوگے اور رووگے کہ اے خدا ہمیں لومڑیانہ مزاج سے نجات عطا فرما، ہم ایک لمحہ بھی آپ کو ناراض کرنے سے پناہ چاہتے ہیں، پھر ان شاءاللہ زندگی میں زندگی آجائے گی، جو زندگی خالقِ زندگی پر فد اہوتی ہے اس کی زندگی پر بے شمار زندگی برستی ہے اور جو خالقِ حیات کو ناراض کر کے حرام لذتِ حیات کو درآمد کرتا ہے اس کی حیات پر بے شمار موت برستی ہے۔ کسی کے جسم کے لباس کو مت دیکھو، اس کے منہ میں کباب کو مت دیکھو، جو گناہوں میں مبتلاءہے اس کے منہ میں کباب ہے لیکن دل پر عذاب ہے، اس نے چین کا خواب بھی نہیں دیکھا
۔ اس وقت پوری دنیا بے چین ہے، جو حسینوں کو دیکھتا ہے اسی وقت اس کے قلب پر عذاب آتا ہے، جیسے ہی وہ گناہ کی طرف ایک اعشاریہ (زیرو پوائنٹ) آگے بڑھا تو گناہ کا نقطہ آغاز اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔


پُرلطف حیات پانے اور مُعذب حیات سے بچنے کا نسخہ

دیکھئے! فرمانبرداروں کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَلَنُحیِیَنَّہُ حَیٰوةً طَیِّبَةً
(سورة النحل، آیت:۷۹)

جو ہم کو ایمان واعمال صالحہ سے خوش رکھتے ہیں ہم ضرور بالضرور ان کو بالطف زندگی دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی طرف نسبت کی اور واحد نہیں فرمایا کہ” میں دوں گا“ بلکہ فرمایا کہ ” ہم دیں گے“ کیونکہ قرآن ِپاک شاہانہ کلام ہے، بادشاہ کبھی ”میں“ نہیں کہے گا، وہ کہے گا کہ ہم یہ کریں گے، ہمارا حکم یہ ہے، ہم نے یہ نازل کیا، ہم نے یہ حکم نافذ کیا، اگر اس نے ”میں“ کہا تو سمجھ لو کہ یہ بادشاہ نہیں ہے، اسے اچانک کہیں سے بادشاہت مل گئی ہے، خاندانی بادشاہت نہیں ہے تواللہ تعالیٰ جو مٹی کے انسانوں کو سلطانیت بخشتا ہے اس کا مزاجِ سلطانیت کیسا ہوگا لہٰذا فَلَنُحیِیَنَّہُ جمع نازل فرمایا کہ ہم ضرور بالضرور حَیٰوةً طَیِّبَةً دیں گے۔ اور جو میری نافرمانی کر کے حرام لذت چرائے گا، نمک چور، کام چور نوالہ حاضر، دسترخوان پر فوراً بیٹھے گا اور نماز میں سستی کرتا ہے اس کے لیے فرمایا:
 فَاِنَّ لَہ مَعِیشَةً ضَنکاً
(سورة الجاثیة، آیت:۴۲۱)

یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ہم ضرور بالضرور ان کی زندگی تلخ کردیں گے بلکہ فرمایا کہ ان کی زندگی تلخ کردی جائے گی، یہ شاہانہ کلام ہے، اس میں عظمتِ الٰہی ہے کہ جو سارے عالم کو شکر دیتا ہے وہ کڑوی بات کی نسبت اپنی طرف نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اختر کو یہ علمِ عظیم عطا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں زندگی کو کڑوی کرنے کی نسبت اپنی طرف نہیں کی، یہ عظمتِ کلامِ شاہی ہے جیسے ابا اگر عظیم الشان ہے تو بچوں سے یہ نہیں کہے گا میں ڈنڈے ماروں گا بلکہ یہ کہے گا کہ اگر تم نے نافرمانی کی تو تمہاری پٹائی کی جائے گی، تمہیں ڈنڈے مارے جائیں گے۔

تو نفس کی تین تعریفیں یاد کرلو
۔ پہلی تعریف حکیم الامت کی ہے یعنی مرغوباتِ طبعیہ غیرِ شرعیہ یعنی نفس کی وہ خواہشات جن پر عمل کرنے کی اللہ نےاجازت نہ دی ہو۔
 دوسری ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ کی تعریف اَلنَّفسُ مُتَوَسِّطَة بَینَ الرُّوحِ وَ الجِسمِ نفس جسم اور روح کے درمیان میں ہے، نہ کثیف ہے نہ لطیف ہے، انسان نیک عمل کرتاہے تو نفس لطیف ہوجاتا ہے اور گناہ کرتا ہے تو کثیف ہوجاتا ہے، نیک عمل سے روحانیت بڑھے گی، گناہ کرنے سے کثافت بڑھے گی۔
اور تیسری تعریف علامہ آلوسی کی کہ نفس از ابتداءتا انتہاءاندھیرا ہے اس کا چراغ تو فیقِ خداوندی ہے۔

تو نفس کی تین قسمیں ابھی پیش کردیں۔
 اب اختر کی تعریف سنئے!
 میں نے بھی نفس کی تعریف کی ہے مگر میری تعریف ذرا انگلش کی ہے کیونکہ یہ میںنے لندن اور امریکہ میں پیش کی تھی جب لوگوں نے پوچھا تھا کہ نفس کیا ہے؟
 نفس کا مزاج کیا ہے؟تو میں نے کہا کہ نفس کا مزاج ہے انٹر نیشنل پنچنگ ماسٹر یعنی گناہ کرنے سے جس کا پیٹ کبھی نہ بھرے، جو دوزخ کا مزاج ہے وہی نفس کا مزاج ہے۔

نفس کا مزاج دوزخ کا سا ہے

دوزخ میں سارے دوزخی ڈال کے اللہ پوچھے گا کہ تیرا پیٹ بھر گیا؟ ھَلِ امتَلَئتِ وہ کہے گی ھَل مِن مَّزِیدٍ اے اللہ کیا اور بھی کچھ مال ہے؟ اللہ تعالیٰ بے گناہوں کو دوزخ میں تھوڑی ڈالیں گے لہٰذا دوزخ پر اپنا قدم رکھیں گے یعنی اپنی ایک خاص تجلی نازل کریں گے تب دوزخ کہے گی قَط قَط قَط وَفِی رِوَایَةٍ قَط قَط یعنی بس بس بس اے خدا میرا پیٹ بھر گیا۔ ایک روایت میں دو دفعہ ہے اور ایک روایت میں تین دفعہ ہے۔


علامہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خدا تو جسم سے پاک ہے وہ دوزخ پر اپنا قدم کیسے رکھیں گے؟ لیکن حدیث پاک میں ہے فَلَمَّا یَضَعُ قَدَمَہ جب اللہ اپنا قدم رکھے گا تب دوزخ کا پیٹ بھرے گا تو علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ یہاں قدم سے مراد خاص تجلّی ہے۔ ایسے ہی جب انسان اللہ والوں کے پاس رہتا ہے، اللہ اللہ  کرتا ہے تو اس کے نفس پر اللہ تعالیٰ کی تجلی بِبَرَکَةِ ذِکرِ اللہ نازل ہوتی ہے پھر اس کے نفس کا پیٹ بھر جاتا ہے، پھر گناہ کے تقاضے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ اس پر اختر کا شعر ہے

وہ مالک ہے جہاں چاہے تجلی اپنی دکھلائے
نہیں مخصوص ہے اس کی تجلی طورِ سینا سے


حکیم الامت نے فرمایا کہ ساری دنیا کی حسینوں سے کوئی بدنظری کرلے پھر اس کے کان میں کوئی کہے کہ ابھی ایک حسین باقی ہے تو وہ کہے گا کہ وہ بھی دکھا دو۔ تو نفس کا مزاج یہ ہے، نفس کی خواہش قبر کی مٹی ہی ختم کرے گی، جب مٹی میں دفن کیا جائے گا تو مٹی ہی اس کا پیٹ بھرے گی لیکن اللہ والوں کا مزاج دنیا ہی میں اللہ کی تجلیات اور اللہ کے انوار وبرکات سے بدل جاتا ہے


اُف کتنا ہے تاریک گنہگار کا عالم
انوار سے معمور ہے ابرار کا عالم

انسان کا مقصدِ حیات کیا ہے؟

ارشاد فرمایا کہ دیکھو! ایک ریل جارہی ہے، اس ریل میں ہتھکڑی لگے ہوئے مجرمین بھی ہیں اور اسی ریل کے فرسٹ کلاس میں وزیر اعظم بھی جارہا ہے تو دنیا بھی ایک مسافر خانہ ہے، اسی دنیا میں پیغمبر ان اور اولیاءبھی رہتے ہیں اوراسی دنیا میں ایک سے ایک خبیث الطبع بدمعاش بھی ہے، یہ دنیا بھی ریل ہے جو خاموش سے چل رہی ہے، سورج چاند سیارات سب چل رہے ہیں مگر کسی کو احساس نہیں ہے۔


جنہوں نے امپورٹ ایکسپورٹ آفس کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھا ہے کہ کھائے جا، گو بنائے جا، یہ لوگ نہیں جانتے کہ ہم کس لیے پیدا ہوئے، رات کو امپورٹ کیا، صبح لیٹرین میں ایکسپورٹ کیا، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کے سب امپورٹ ایکسپورٹ آفیسر ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میںنے تم کو امپورٹ ایکسپورٹ آفیسر نہیں بنایا میں نے تم کواپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، یہ جوکھاتے پیتے ہو یہ وسیلہ حیات ہے لیکن مقصدِ حیات میری عبادت ہے، تم نے وسائل کو مقاصد سمجھ لیا، کپڑا مقصدِ حیات نہیں ہے وسیلہ حیات ہے، مکان بنانا وسیلہ حیات ہے، روٹی کا انتظام کرنا وسیلہ حیات ہے اور مقصدِ حیات اللہ کی فرمانبرداری پر جان دینا ہے۔ اور فرمانبرداری دو قسم کی ہے، ایک تو اللہ پاک جس سے خوش ہوں اس کام کو کرو اور جس سے ناخوش ہوں اس کام سے بچو، جن باتوں سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوتے ہیں ان سے نہ بچنا جرمِ محبت ہے، غداری ہے، وفاداری نہیں ہے۔ کیا وفاداری کے یہ معنیٰ ہیں کہ اپنے محبوب کو صرف خوش کرواور اس کی ناخوشی سے نہ بچو؟ ایک ہی تار سے روشنی چاہتے ہو، اگر منفی اور مثبت دونوں تار نہ ہوں تو بجلی کا بلب نہیں جلتا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ایمان کی روشنی کے لیے دو تار دیئے ہیں، نماز روزہ اور دیگر عبادات یہ مثبت تار ہے اور گناہ سے بچنا، حسین لڑکوں اور لڑکیوں سے سے بچنا، غیبت سے بچنا یہ منفی یعنی مائنس تار ہے، دونوں تاروں پر عمل کرو پھر بھول جاوگے ان سب مرنے والے حسینوں کی لاشوں کو۔

14 March 2010

پوری زندگی کا حاصل : اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوجائیں،

بس پوری دنیا کا حاصل، پوری کائنات کا حاصل، پوری زندگی کا حاصل صرف ایک جملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوجائیں،
 بس مالک کو خوش کرنے کا غم حاصل کر لو،
اللہ کے نام پر، مجھ پر، میرے بڑھاپے پر رحم کرو، جو لوگ مجھ سے تعلق رکھتے ہیں ان سے کہتا ہوں کہ مجھ پر ظلم مت کرو،
اپنی زندگی غیر اللہ پر ضائع کرکے میری محنتوں اور آہوں کو رائیگاں مت کرو۔
 بس آج سے عزم کرلو کہ زندگی کی ہر سانس اللہ کو راضی رکھیں گے اور ایک بھی سانس خدا کی نافرمانی میں مبتلا نہیں ہوں گے۔

ابرار کون لوگ ہیں؟

ابرار کون لوگ ہیں؟

        شیخ العرب وا لعجم عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم

ابرار کون لوگ ہیں؟ علامہ بدر الدین عینی رحمة اللہ علیہ بخاری شریف کی شرح عمدة القاری میں لکھتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
oاِنَّ الاَبرَارَ لَفِی نَعِیمٍ
oوَاِنَّ الفُجَّارَ لَفِی جَحِیمٍ
(سورةانفطار، آیات:۴۱،۳۱)
یعنی نیک بندے جنت میں جائیں گے اور نافرمان جہنم میں جائیں گے توہمیں ابرار بننا چاہیے یا نہیں؟ لیکن ابرار کون لوگ ہیں؟ خواجہ حسن بصری رحمة اللہ علیہ ابرار کی تفسیر کرتے ہیں کہ ابرار کون بندے ہیں؟

قَالَ الحَسَنُ البَصَرِی فِی تَفسِیرِ الاَبرَارِاَلَّذِینَ لاَ یُوذُونَ الذَّرَّ
ابرار وہ ہیں جو چیونٹی کوبھی تکلیف نہ دیں، سن لو اس کو، بعض لوگ بے خیالی میں چیونٹیوں پر پیر رکھے چلے جاتے ہیں۔ سعدی شیرازی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب کوئی چیونٹی پر پیر رکھتا ہے تو چیونٹی کا وہی حال ہوتا ہے جیسے انسان پر ہاتھی پیر رکھ دے۔ پس اگر ابرار بننا ہے تو بیوی بچوں اور ماں اور باپ کو ستانا تو بہت بڑی بات ہے چیونٹیوں کو بھی تکلیف نہ دو
 اَلَّذِینَ لاَ یُوذُونَ الذَّرَّّ وَلاَ یَرضَونَ الشَّرَّ
(عمدة القاری،کتاب مواقیت الصلٰوة، ج:۱،ص:۳۲۱، داراحیاءالتراث العربی)

ابرار وہ بندے ہیں جو کسی چیونٹی کوبھی تکلیف نہ دیں اور کسی گناہ سے خوش نہ ہوں۔ آہ! گندے گندے خیالات پکا کر اندر اندر حرام خوشی لی جارہی ہے اور ابرار بنے ہوئے ہیں جبکہ ابرار کی تفسیر یہ ہے کہ ابرار وہ بندے ہیں جواللہ کی نافرمانی سے خوش نہیں ہوتے۔ آپ بتائیے! دل میں گندے گندے خیالات پکانا یا پرانے گناہوں کو سوچ سوچ کر حرام مزہ لینا، گھنٹوں اس میں مشغول رہنا اور توبہ نہ کرنا، کیا یہ شخص اللہ کا مقبول ہے؟ اگر یہ اللہ کا مقبول ہوتا تو فوراًتنبیہ ہوجاتی کہ میں یہ کیا کررہا ہوں، کیسے خیالات لارہا ہوں اور نفس سے کہتا کہ نالائق خبیث کیا سوچ رہا ہے، جس گناہ پر اللہ نے ایک قوم پر عذاب نازل کیا اس گناہ کے خیالوں سے مزہ لیتا ہے، تو جس پر اللہ کی مہربانی ہوتی ہے اسے فوراً توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے، جس کو توفیقِ توبہ نہ ہو تو سمجھ لو کہ وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔

10 March 2010

بیان :حقانیتِ اسلام

 حقانیتِ اسلام

شیخ العرب والعجم عارف بااللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کا  بیان
نَحمَدُہ وَنَستَعِینُہ وَنَستَغفِرُہ وَنُومِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیہِ وَنَعُوذُ بِااللہِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَا وَ مِن سَیِّئٰتِ اَعمَالِنَا وَمَن یَّھدِہِ االلہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہ وَمَن یُّضلِلہُ فَلاَھَادِیَ لَہ وَنَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ االلہُ وَحدَہ لاَ شَرِیَکَ لَہ وَنَشھَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَولاَ نَا مُحَمَّدًا عَبدُہ وَرَسُولُہ

فَاَعُوذُ بِااللہ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ بِسمِ االلہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

oالٓمٓ
 oغُلِبَتِ الرُّومُ
o فِی اَدنَی الاَرضِ وَہُم مِن مْ بَعدِ غَلَبِہِم سَیَغلِبُونَ
o فِی بِضعِ سِنِینَ لِللّٰہِ الاَمرُ مِن قَبلُ وَمِن مْ بَعدُ وَیَومَئِذٍ یَّفرَحُ المُومِنُونَ
(سورة الروم، آیات:۱-۲-۳-۴)

دین سے دوری …….. عقل سے محرومی

آج کل ہر وقت، ہر جگہ، ہر سڑک، ہر اسٹیشن پر عریانی اتنی بڑھ گئی ہے اور بے پردگی ایسا فیشن میں داخل ہوگئی ہے کہ اب مسلمان خواتین کو بھی بے پردگی سے شرم نہیں آتی۔ جب میں ناظم آباد میں تھا تو ایک بڑھیا جس کے منہ میں دانت نہیں تھے لیکن پیٹ میں آنت تھی وہ خود تو پورے برقع میں تھی لیکن اس کی اٹھارہ بیس سال کی لڑکی بالکل بے پردہ تھی۔ میں نے کہا کہ بڑی بی تم تو بڈھی ہو تم کو کون دیکھے گا، تمہارے منہ میں د انت نہیں، گال چپٹے ہورہے ہیں لیکن جس کو پردہ کرنا چاہیے اس کو تم نے بے پردہ کررکھا ہے۔ کیا کہیں عقل کھوپڑی سے غائب ہوگئی ہے، عقل بھی بزرگوں کی صحبت سے ملتی ہے

نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

آپ خود بتائیں کہ جوان لڑکی کو پردے کی ضرورت ہے یا بڑھیا کھوسٹ کو جس کے گیارہ نمبر کا چشمہ لگا ہوا ہے، گال پچکے ہوئے ہیں، منہ میں دانت بھی نہیں ہیں، اس کو کون دیکھے گا؟ جس کو کوئی نہ دیکھے وہ تو پردے میں ہے اور جس ( کوسب دیکھیں وہ بے پردہ ہے، کیا حماقت کی بات ہے۔ بتائیے! جس کی جیب میں ایک پیسہ نہیں ہے وہ تو زپ  لگائے  ہوئے ہے اور جیب پر ہاتھ بھی رکھے ہوئے ہے اور جس کی جیب میں نوٹوں کی گڈیاں ہیں وہ ململ کے باریک کرتے کی جیب سے اپنے نوٹوں کی نمائش کررہا ہے کہ اے جیب کترو! اے ڈاکوو! دیکھ لو یہ ہے مال۔

میرے شیخ ومرشد مولانا شاہ ابرار الحق صاحب فرماتے ہیں کہ تم آدھا کلو گوشت لے کر چلتے ہو تو تھیلے میں اندر رکھتے ہو تاکہ چیل اس کو اُڑا نہ لے جائے، گھر میں آدھا کلو دودھ رکھتے ہو تو ڈھک کے رکھتے ہو کہ بلی نہ پی جائے اور روٹیاں رکھتے ہو تو ڈھک کے رکھتے ہو کہ چوہے نہ کتر لیں۔ تو چوہوں سے روٹیوں کی حفاظت ضروری، بلی سے دودھ کی حفاظت ضروری، چیلوں سے گوشت کی حفاظت ضروری اور جیب کتروں سے نوٹوں کی حفاظت ضروری ہے تو کیا جوان بیٹیوں اور جوان بہووں کی حفاظت ضروری نہیں ہے؟

ناظم آباد کے ایک کالج کے باشرع پرنسپل نے بتایا کہ ایک لڑکی تین دن سے اپنے گھر نہیں گئی، ایک دن اس کے ابا نے آکرمجھ سے پوچھا کہ وہ پڑھنے آتی ہے؟ رجسٹر میں اس کی حاضری ہے یا نہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں صاحب ہر روز آتی ہے، پورے وقت پڑھتی ہے لیکن شام کو گھر نہیں جاتی، اپنے کسی کلاس فیلو کے یہاں جاتی ہے تو ابا جان کہتے ہیں کہ نوپرابلم(No Problem) پڑھتی تو ہے نا، بس ٹھیک ہے، پڑھنے کے بعد، تعلیم کے ٹائم کے علاوہ جہاں چاہے جائے مجھے کوئی غم نہیں، بس تعلیم میں نقصان نہ ہو۔ یہ ہے بابا جان کی غیرت اور ابا جان کی حیا و شرم کا جنازہ دفن ہونے کا قبرستان۔

جو شخص اللہ سے جتنا دور ہوگا اتنا ہی عقل سے محروم ہوگا کیونکہ عقل کا خالق اللہ ہے جو اس مالک کو راضی کو رکھتا ہے تو اس کے دماغ میں جو عقل ہے اس کا کنکشن اور رابطہ خالقِ عقل سے رہتا ہے اور جو خدا کو بھولے ہوئے ہیں ان کی کھوپڑی عقل سے محروم ہے۔ لہٰذا دیکھ لو جتنی بڈھیاں ہیں وہ خود تو برقع میں ہیں اور اپنی جوان بیٹیوں کی نمائش کر تی ہوئی لے جارہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ عقلِ سلیم عطا فرمائے۔ مشکوٰة شریف کی حدیث ہے، سرو رِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو لڑکیاں اور عورتیں بے پردہ نکلتی ہیں ان پر بھی اللہ کی لعنت ہے:
لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالمَنظُورَ اِلَیہِ (مشکوٰة المصابیح، کتاب النکاح
اللہ لعنت کرے اس پر جو (حرام کو مثلاً نامحرم لڑکی یا امرد کو ) دیکھتا ہے اور جو اپنے کو دِکھاتا ہے یا دِکھاتی ہے یعنی منظور اور منظورات دونوں پر لعنت برستی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو تو مار رہا ہے اوردوسری عورتوں سے دل لگا رہا ہے۔ یاد رکھو! اللہ کی نافرمانی کے ساتھ چین کا تصور کرنے والا بین الاقوامی گدھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:
 وَمَن اَعرَضَ عَن ذِکرِی فِاِنَّ لَہ مَعِیشَةً ضَنکاً (سورة طٰہ،آیت: ۴۲۱)

جو میری نافرمانی کرتا ہے اس کی زندگی تلخ کردی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت پر ایمان لانے کی توفیق دے اور مالک کو ناراض کر کے حرام لذتوں کی چوریوں اور کمینے پن سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

ابھی جو میر صاحب نے پڑھ کے سنایا کہ اللہ کے راستے میں، گناہ سے بچنے میں یعنی اللہ کی نافرمانی سے اپنے کو بچانے میں مثلاً بے پردہ عورتوں سے نظر بچانے وغیرہ جتنے بھی احکامِ شریعت ہیں انہیں بجا لانے میں اگر ایک ذرّہ غم دل کو پہنچ جائے تو سارے عالم کی خوشیوں سے اللہ کے راستے کا وہ ذرّہ غم اعلیٰ ہے
دامنِ فقر میں مرے پنہاں ہے تاجِ قیصری
ذرّہ درد و غم ترا دونوں جہاں سے کم نہیں

اگر اللہ کے راستے میں ایک کانٹا چبھ جائے تو وہ سارے عالم کے پھولوں سے افضل ہے، اللہ کے راستے کا ایک ذرّہ غم سارے عالم کی خوشیوں سے افضل ہے۔

تو میرے دوستو اور عزیزو! آج اللہ کی دوستی کا فقدان، اولیاءاللہ کی کمی کا سبب اللہ کی نافرمانی ہے، آج عبادات میں کمی نہیں ہے، آپ جا کے حرمین شریفین میں دیکھئے، آج سے چالیس پچاس سال پہلے اتنی تعداد نہیں تھی، آج دونوں حرم بھرے ہوئے ہیں، آج حج و عمرہ کرنے والوں کی تعداد جتنی ہے پہلے اتنی نہیں تھی، آج نفلی عبادات کی کمی نہیں ہے، اگر کمی ہے تو گناہوں سے بچنے کی کمی ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنی دوستی کی بنیاد کثرتِ عبادت پر نہیں گناہوں سے بچنے میں رکھی ہے کہ جو گناہوں سے بچے گا، مجھ کو ناراض نہیں کرے گا وہ میرا دوست ہوگا۔

ولی اللہ بننا بہت آسان ہے

اور گناہوں سے بچنا اصل میں کام نہ کرنا ہے، بتائیے! کام نہ کرنا مشکل ہے یا کام کرنا مشکل ہے؟ مالک کا کرم دیکھو کہ کام نہ کرنے پر اپنی ولایت کا تاج عطا فرما رہے ہیں یعنی کوئی نامناسب کام مت کرو، کام نہ کر کے میرے ولی بن جاو، اتنا سستا نسخہ اور کہاں ملے گا؟ دنیا کے لوگ تو کہتے ہیں کہ پاپڑ بیلنے پڑیں گے، اتنے کا م کرنے پڑیں گے تب میں دوست بناوں گا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بس تم نامناسب کام نہ کرو جو تمہارے لیے مضر بھی ہے اور ذلت وخواری کا سبب بھی ہے، تم اپنے کو رُسوا مت کرو، اپنی آبرو کو ذلیل مت کرو، اچھے کام تو کرو مگر برے کام سے بچو، میں تمہیں اپنا دوست بنالوںگا۔

بس تقویٰ کی بنیاد پر ہماری دوستی ہے لیکن لوگ آج کل اُس کو ولی اللہ سمجھتے ہیں جو رات بھر سوتا نہ ہو خواہ دن بھر کوئی عورت چھوڑتا نہ ہو۔ اگر اس کی کپڑے کی دکان ہے تو جو گاہک آتی ہے اس کو سرمہ لگا کر غور سے دیکھتا ہے، کم عمر کو بیٹی، کچھ زیادہ عمر کی ہو تو آپا اور بڑھیا کو خالہ اماں، ہر ایک کے لیے اس نے لقب تیار کر رکھا ہے۔ میں نے جامع کلاتھ مارکیٹ میں یہ الفاظ اپنے کانوں سے سنے، یہ آج سے تیس چالیس سال پہلے کی بات ہے،  اب تو شہر جانا ہی نہیں ہوتا سارے کام اللہ کی رحمت سے یہیں ہوجاتے ہیں۔ تو جو رات بھر سوتا نہیں ہے مگر دن بھر گناہوں کو چھوڑتا نہیں ہے تو بتائیے کیا یہ ”کھوتا“ نہیں ہے؟ کھوتا کے کئی معنیٰ ہیں ایک یوپی والے معنیٰ کہ زندگی کھوتا ہے یعنی ضایع کرتا ہے اور ایک یہاں کراچی کی خاص زبان میں گدھے کو کھوتا کہتے ہیں۔

تو اللہ تعالیٰ نے اپنا راستہ بہت آسان رکھا ہے اور اس راستے میں بہت چین ہے، گناہ سے بچنے میں انتہائی سکون، نہایت عزت ہے اور بڑی مزیدار میٹھی نیند آتی ہے کیونکہ دل ایک ہی ہے اور مولیٰ بھی ایک ہی ہے، ایک مولیٰ پر دل دینا آسان ہے اور لیلاوں کی تعداد بے شمار ہے، انہیں دیکھ کر ہر وقت کاش کاش کر و گے کہ کاش یہ میری بیوی ہوتی اور کاش کاش سے دل پاش پاش ہوتا رہے گا

اک حسیں ہوتو دل اسے دے دوں
سخت مشکل ہے ان ہزاروں میں

دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جس نے ہمارے قلب کو بے سکونی سے بچانے کے لیے غیرتِ جمالِ خدا وندی کے طور پر بدنظری کو حرام فرمایا کہ مجھ سے بھی محبت کرتے ہو اور غیروں کو بھی دیکھتے ہو، شرم نہیں آتی!

ایک عبرتناک فیچر

کل رات میرے قلب میں اللہ تعالیٰ نے ایک فیچر عطا فرمایا جس سے دنیاوی حسینوں سے دل اُچاٹ ہو جائے گا اور جب تک ان حسینوں سے دل اُچاٹ نہیں ہوگا آپ ان کی چاٹ سے بچ نہیں سکتے، جو ان حسینوں کی چاٹ سے بچنا چاہے اس کے دل کا ان سے اُچاٹ ہونا ضروری ہے مگر اپنی بیوی سے خوب محبت کرو، عورتیں گھبرائیں نہیں کہ یہ ہم سے بھی دل اُچاٹ کررہا ہے، میں سٹرکوں والیوں سے، بے پردہ غیر عورتوں سے دل اُچاٹ کررہا ہوں، اپنی بیویوں سے خوب محبت کرو کیونکہ ان کے لیےاللہ تعالیٰ کی سفارش بھی ہے۔

تو اب وہ جغرافیہ سن لو کہ ایک ہزار مربع گز کا پلاٹ ہے اور اس میں تالا لگا دیا گیا کہ کوئی باہر نہیں نکل سکتا اور اس میں چھوٹے چھوٹے خیمے بنے ہوئے ہیں۔ اس پلاٹ میں سو حسین ہیں، پچاس حسین لڑکیاں جو بین الاقوامی طور پر مقابلہ حسن میں اوّل آئیں او رپچاس حسین لڑکے اور سب کے سب اس بلا کے حسین ہیں کہ جن کو دیکھتے ہی اس شعر کو پڑھنا عاشقوں پر لازم ہوجائے

وہ سامنے ہیں نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں سکت ہے نہ عشق میں دم ہے

اور ان کے کھانے پینے کے لیے کباب بریانی تو بہت ہے لیکن قصداً بیت الخلاء(لیٹرین) نہیں بنایا گیا۔ ان کے جغرافیہ کو پیش کرنے کے یہ انتظام کیا گیا تا کہ اللہ کے بندوں کی تاریخ ضائع نہ ہو، اب خیمے میں ان حسینوں نے خوب بریانی کھائی اور ایک ہزار مربع گز میں چاروں طرف جو تھوڑی زمین خالی تھی سو حسین وہیں ہگ رہے ہیں۔ اب ہر دن ایکسپورٹنگ کا مال بڑھ رہا ہے اور جو عاشق بھی اس ایک ہزار مربع گز پلاٹ پر حسینوں کی زیارت کے لیے آرہا ہے تو کہتا ہے اُف کیا بات ہے، اتنی بدبو کیوں ہے؟ معلوم ہوا کہ ایکسپورٹ آفس نہیں ہے لہٰذا سب حسینوں کے پیٹ کا گو پلاٹ پر ہی اسٹاک ہورہا ہے۔ چند مہینے بعد اتنی بدبو بڑھے گی کہ وہاں کوئی داخل نہیں ہوسکتا۔ دیکھا آپ نے ان کے اندر کیا بھرا ہوا ہے، یہ ہے حسن کا انجام۔

ایک شخص نے حضرت حکیم الامت کو سرمہ دیا اور کہا کہ یہ سرمہ آنکھ کے لیے بہت مفید ہے، حضرت نے فرمایا کہ اس کے اجزاءبتاو میں اپنے خاندانی حکیم سے مشورہ لوں گا کہ اس کے اجزاءمیری آنکھوں کے لیے مفید ہیں یا نہیں۔ اس نے کہا کہ مولانا میں یہ سرمہ مفت میں دے رہا ہوں، پیسہ بھی نہیں لے رہا ہوں پھر اتنے ناز ونخرے کہ میں اجزاءبھی بتاوں۔ حضرت نے فرمایا کہ دیکھ تیر اسرمہ مفت کا ہے میری آنکھیں مفت کی نہیں ہیں لہٰذا حسینوں کو مفت بھی پاو تو کہہ دو کہ تمہارا حسن مفت کا ہے مگر میرا ایمان مفت کا نہیں ہے، مجھے جس نے پیدا کیا ہے اگر وہ ناراض ہوگیا تو ساری دنیا کے حسین میرا بلڈ کینسر اچھا نہیں کر سکتے، میرے گردے کا درد اچھا نہیں کر سکتے اور اگر اللہ میری ذلت کا ارادہ کرلے تو سارے عالم میں کوئی میرے کام نہیں آسکتا ۔

نافرمانی کا نقطہ آغاز عذابِ الٰہی کا نقطہ آغاز ہے

اب اختر کی ایک اہم بات سنئے! آدمی جس وقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا زیروپوائنٹ ،ابتداءاور نقطہ آغاز کرتا ہے اسی وقت اس کے دل پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نقطہ آغاز ہوتا ہے، گناہوں کا ماضی اور حال اور استقبال تینوں زمانے بھیانک، لعنتی، خطرناک، پریشان کن اور رسوا کنندہ ہیں۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ حسینوں کو ہینڈل کر نے کی کوشش مت کرو ورنہ کھوپڑی پر سینڈل پڑیں گے اور پھر اسکینڈل بنے گا، ہر وقت اس کا تذکرہ برائیوں کے ساتھ ہوگا کہ شکل دیکھو تو بایزید بسطامی بھی رشک کرے اور حرکتیں دیکھو تو شیطان شرماجائے، لہٰذا اگر چین سے رہنا ہے تو اللہ تعالیٰ کی یاد میں رہو۔

محبت کے دو حق

اور یاد کی دوقسمیں ہیں، نمبر۱۔ اللہ  تعالیٰ کو خوش کرتے رہو، نمبر۲۔اﷲ کو ناراض نہ کرو۔
بتاو! محبوب کے دو حق ہیں یا نہیں؟ جتنا اپنے محبوب کو خوش کرنا عاشقوں کو مطلوب ہوتا ہے اتنا ہی ان کی ناخوشی سے بچنا بھی مطلوب ہوتا ہے ورنہ پھر یہ محبت نہیں ہے، یہ شخص خود غرض اور بے وفاءہے۔ بدایوں کا ایک شاعر تھا فانی بدایونی، اس کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی، ایک دن بیوی ناراض ہوگئی تو اس کی نیند اُڑگئی۔ اس پر ظالم کا شعر دیکھو

ہم نے فانی ڈوبتے دیکھی ہے نبضِ کائنات
جب مزاجِ یار کچھ برہم نظر آیا مجھے

یعنی جب میری بیوی ذرا سی ناراض ہوتی ہے تو میری پوری کائنات اندھیری ہوجاتی ہے۔ کیوں صاحب! بیوی کی ناراضگی سے تو پوری کائنات اندھیری ہو اور مولائے کائنات، خالقِ کائنات اور اپنے پالنے والے کی ناراضگی میں سوال کرتے ہو کہ صغیرہ گناہ ہے کہ کبیرہ گناہ ہے، چھوٹا گناہ ہے کہ بڑا گناہ ہے، بیوی کی تھوڑی سی ناراضگی گوارا نہیں کرتے اور یہاں صغیرہ کبیرہ پوچھتے ہو۔ اللہ  کا عاشق ہر مکروہ کام سے بھی بچتا ہے کیونکہ مکروہ کام کرنے والا محبوب نہیں ہوسکتا اَلمَکرُوہُ ھُوَ ضِدُّ المَحبُوبِ مبارک ہیں وہ بندے جو ہر سانس کو اللہ پر فدا کرتے ہیں، مبارک ہیں وہ بندے جن کی آنکھیں اللہ کی یاد میں اشکبار ہیں، مبارک ہیں وہ لوگ جن کے دل اللہ کی محبت میں تڑپ رہے ہیں

دلِ مضطرب کا یہ پیغام ہے
ترے بن سکوں ہے نہ آرام ہے

تڑپنے سے ہم کو فقط کام ہے
یہی بس محبت کا انعام ہے

جو آغاز میں فکرِ انجام ہے
ترا عشق شاید ابھی خام ہے

بعض لوگ ڈاڑھی کے نقطہ آغاز ہی سے گھبراتے ہیں کہ لوگ کیا کہیںگے۔ ایک صاحب نے حکیم الامت کو لکھا کہ مجھے ڈر ہے ڈاڑھی رکھنے پر لوگ میرا مذاق اڑائیں گے۔ حضرت نے فرمایا کہ ارے ظالم! تو بھی تو لوگ ہے لُگائی تو نہیں ہے تو کیوں لوگوں سے ڈرتا ہے۔ اللہ کے راستے میں ہمتِ مردانہ چاہیے، عورتوں کی شکل بنانا یہ مردوں کے لیے نازیبا ہے، اپنی بیوی کے گال سے اپنے گال کیوں مشابہ کرتے ہو؟ اگریہ بال بیکار ہوتے تو اللہ تعالیٰ پیدا ہی نہ کرتے اور ہمارے گالوں کو عورتوں کے گال کی طرح چکنا پیدا کرتے لیکن اللہ نے عورتوں میں اور مردوں میں فرق رکھا ہے، جو داڑھی منڈاتا ہے وہ گویا اللہ پر اعتراض کرتا ہے کہ یہ بال آپ نے بیکار پیدا کیے ہیں اس لیے میں ان بیکار بالوں کو روزانہ اُڑاتا رہتا ہوں ۔ دیکھو کبھی کسی نبی نے ڈاڑھی نہیں منڈائی، کسی اللہ کے ولی نے ڈاڑھی نہیں منڈائی پھر تم اللہ کے دوستوں کا راستہ چھوڑ کر کہاں جارہے ہو؟ اللہ کے پیاروں کی شکل بناو پھر دیکھو اللہ کا پیار۔

اللہ کے پیاروں کی شکل بنانا اللہ کے پیار کا ذریعہ ہے

حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ قنوج میں ایک وکیل صاحب جارہے تھے، ان کا نام محمد میاں تھا، ایک بڑھیا نے کہا ارے بیٹا سنو! گرمی کا مہینہ ہے،شربت پی لو، انہوں نے شربت پی لیا کہ اسّی سال کی نانی اماں ہے مگر پھر پوچھا کہ آپ نے مجھے شربت کیوں پلایا؟ میری آپ کی تو جان پہچان نہیں ہے، اس نے کہا کہ تیری ہی شکل کا میرا بیٹا ملا یا میں رہتا ہے، دو تین سال ہوگئے وہ آیا نہیں ، اس کی یاد میں دل تڑپتا رہتا ہے، تجھے دیکھ کر میری محبت جوش میں آگئی۔ تو معلوم ہوا کہ جب بیٹا پیارا ہے اور پیارے کی شکل والے کو اس بڑھیا نے شربت پلایا تو جو اللہ کے پیاروں کی شکل میں رہیں گے ان پر بھی اللہ کا پیار جو ش میں آئے گا لہٰذا اللہ کے مغضوب اور نافرمانوں کی شکل مت اختیار کرو، ڈاڑھی منڈانا چوبیس گھنٹے کا گناہ ہے، نماز میں کھڑے ہو نافرمانی کی حالت میں ہو، سور ہے ہو نافرمانی کی حالت میں ہو اور ڈاڑھی رکھنے سے روزانہ کی مصیبت سے بھی چھوٹ جاو گے، روزانہ شیو کرنا، ایک کوٹ، ڈبل کوٹ اور آخر میں کھونٹی اُکھاڑ کوٹ۔ الحمد لللّہ ! اس مجمع میں بہت سے لوگوں نے ڈاڑھی رکھ لی ہے، اگر کسی کو بھی ڈاڑھی رکھنے کے بعد ندامت ہوئی ہو تو مجھے بتاو، جنہوںنے میری گذارش پر ڈاڑھی رکھ لی آج وہ خوشیاں منارہے ہیں۔

حق تعالیٰ کی غیر محدود رحمت

گناہوں کی معافی مانگنے والا ایسا ہے جیسے اس سے خطا ہوئی ہی نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
 اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنبِ کَمَن لاَّ ذَنبَ لَہ (سنن ابن ماجة، کتاب الزھد، باب ذکر التوبة، ص:۳۱۳)

جس نے معافی مانگ لی گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں، ایسے ہی جو ڈاڑھی رکھ لے اور تو بہ کر لے تو گویا اس نے کبھی ڈاڑھی منڈائی ہی نہیں۔ سبحان اللہ! کتنا بڑا انعام ہے، کیا کریم مالک ہے۔ اگر کسی کے ایک کروڑ گناہ بھی ہیں وہ ایک دفعہ کہہ دے کہ یا اللہ مجھے معاف کر دے اب آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا تو اللہ تعالیٰ سب معاف فرمادیتے ہیں، اللہ کی رحمت کا سمندر عظیم الشان ہے۔ اگر کراچی کے سمندر پر ایک چڑیا آئے اور چونچ میں چند قطرے پانی لے لے تو سمندر میں کوئی کمی ہوگی؟ اسی طرح ہمارے گناہوں کو معاف کرنے پر اللہ کی رحمت کا جو نزول ہوگا اس سے اللہ کی رحمت کے سمندر میں اتنی کمی بھی نہیں ہوگی۔ اسی لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا:
 یَا مَن لاَّ تَضُرُّہُ الذُّنُوبُ وَلاَ تَنقُصُہُ المَغفِرَةُ فَھَب لِی مَالاَ یَنقُصُکَ وَاغفِرلِی مَا لاَ یَضُرُّکَ (شعب الایمان للبیھقی)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں یَا مَن لاَّ تَضُرُّہُ الذُّنُوبُ ہمارے گناہوں سے اے خدا آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا وَلاَ تَنقُصُہُ المَغفِرَةُ اور آپ اگر ہم کو بخش دیں تو آپ کے خزانہ بخشش اور مغفرت میں کوئی کمی نہیں ہوگی فَھَب لِی مَالاَ یَنقُصُکَ پس آپ ہمیں بخش دیجئے وہ چیز کہ جس کی آپ کے خزانے میںکمی نہیں وَاغفِرلِی مَالاَ یَضُرُّکَ اور ہمارے ان گناہوں کو معاف فرمادیجیے جو آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچاتے یعنی آپ کے خزانے میں جب کمی نہیں ہے تو ہم کو معاف کر دیجئے او رمعاف کرنا آپ کو محبوب بھی ہے۔


بخاری شریف کی حدیث ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کوئی بندہ معافی مانگتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو فوراً معاف فرمادیتے ہیں کیونکہ معاف کر نے کا عمل اﷲ کو محبوب ترین عمل ہے، معاف کر نے میں ہم لوگوں کو تو تکلیف ہوتی ہے اور ستانے والے کومعاف بھی کر دیتے ہیں کہ چلو معاف کیا مگر دل پر تو غم ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کو کوئی غم نہیں ہوتا کیونکہ وہ تاثر سے پاک ہیں، اللہ تعالیٰ معافی دے کر خوش ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان کا محبوب عمل ہے جیسے کسی کو فاختہ کا شکار پسندہو، وہ جنگل گیا اور اس کے سامنے فاختہ آگئی تو بے ساختہ اس نے چھرّا مار دیا اور فاختہ بھی عجیب تھی کہ حواس باختہ ہو کر آسانی سے اس کے شکار میں آگئی، بھاگی بھی نہیں۔ بس سمجھ لو کہ اللہ کی رحمت عظیم الشان ہے، کوئی معافی مانگ کر تو دیکھے کہ کتنا جلد معاف کردیتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب کوئی گنہگار بندہ روتا ہے تو رحمت سے عرشِ الٰہی ہلنے لگتا ہے


عرش لرزد از انین المذنبین

گنہگاروں کے نالوں سے عرشِ الٰہی ہل جاتا ہے جب وہ رو رو کر اللہ  سے فریاد کرتے ہیں کہ اے اللہ  مجھے معاف کر دے، مجھ سے غلطیاں ہوگئیں، اگر آپ معاف نہیں کریں گے تو میں کہاں جاوں گا، میرا آپ کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے، میں آپ کے حضور میں نالائق ہوں لیکن آپ کے سوا میرا کوئی اللہ  نہیں ہے تو عرشِ الٰہی رحمت سے ہلنے لگتا ہے جس طرح بچے کے رونے سے ماں کانپنے لگتی ہے۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اللہ والوں کی توبہ کو اپنی توبہ کے برابر مت سمجھو، ان کی توبہ سے فرشتے رونے لگتے ہیں۔

تو دوستو! جو سبق آج سنایا گیا میں سارے عالم میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرو، سارے عالم میں اختر کا یہی پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرو مگر محبت کے دونوں حق ادا کرو، نیک عمل بھی کرو اور گناہوں سے بھی بچو، اپنے مالک کو ایک لمحہ کو بھی ناراض نہ کرو۔ اگر آپ کو کسی سے محبت ہے تو آپ اس کے دونوں حق ادا کریں گے یعنی آپ اپنے محبوب کو خوش بھی کریں گے اور اس کی ناراضگی سے بھی بچیں گے تو جو ظالم گناہ سے نہیں بچتا یہ اللہ تعالیٰ کے محبت کے حقوق میں بے وفا ہے اور لفظ بے وفا اہلِ محبت کے نزدیک جرمِ عظیم ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا وفا داری عطا فرمائے، آمین۔


باطل فرقوں کا رد کلام اللہ کا اعجاز ہے

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں الم۔ سارے عالم میں اس کے معنیٰ کوئی نہیں جانتا، تمام مفسرین لکھتے ہیں واللہ اعلم بمراد ذالک اللہ ہی کو اس کے معنیٰ معلوم ہیں۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے معنیٰ بیان نہیں فرمائے، ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ اللہ کے علم میں تھا کہ بعض گمراہ قوم پیدا ہوگی جو قرآنِ پاک کے بارے میں یہ بکواس کرے گی کہ بغیر معنیٰ سمجھے ہوئے تلاوت بیکار ہے، ایسے لٹریچر نویسوں اور گمراہ طبقے کے لیے اللہ نے جگہ جگہ ایسے الفاظ نازل فرمائے جس کے معنیٰ دنیا میں کوئی نہیں بتا سکتا یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے معنیٰ نہیں بتائے لیکن بغیر سمجھے پڑھنے پر بھی الم کے تین حروف پر تیس نیکیاں مل جائیں گی، الف پر دس، لام پر دس اور میم پر دس ۔


یہ اصل میں ردِّ فِرَقِ باطلہ ہے ورنہ اللہ کے لیے کیا مشکل تھا کہ اپنے نبی کو اس کے معنیٰ بتا دیتے چونکہ قرآن قیامت تک کے لیے ہدایت ہے لہٰذا علمِ الٰہی میں جتنے گمراہ فرقے ہیں ان کا رد اور بطلان بھی مقصود تھا۔ اس کی کئی مثالیں ہیں جیسے قرآن میں ایک جگہ ہے:
 اِنَّ اللہَ تَوَّاب رَّحِیم (سورة الحجرات، آیت:۲۱)

اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے توّاب کے بعد رحیم نازل کیا کیونکہ ایک فرقہ گمراہ تھا جو یہ کہتا تھا کہ تو بہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر معاف کر نا ضابطے سے لازم ہے۔ اس کا اللہ نے جواب دیا کہ میں ضابطہ اور قانون سے توبہ نہیں قبول کرتا، شانِ رحمت سے قبول کرتا ہوں۔ اس لیے علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمة اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ توّاب کے بعد فوراً رحیم نازل کیا تاکہ اس فرقہ ضالّہ اور گمراہ کا جواب ہوجائے حالانکہ جب قرآن پاک نازل ہورہا تھا اُس وقت یہ فرقہ نہیں تھا مگر خدا کو تو علم ہے کہ کون کون سے فرقے پیدا ہوں گے اس لیے میرا کلام قیامت تک کے لیے نازل ہورہا ہے اس میں ہر گمراہ فرقہ کا علاج موجود ہے لہٰذا الم سے اس فرقہ کا علاج ہوگیا جو کہتا ہے کہ خالی قرآن رٹنے سے کیا ہوتا ہے، قرآنِ پاک سمجھ کر پڑھنے پر ہی نیکیاں ملیں گی، الم سے اس باطل عقیدہ کا رد ہوگیا کیونکہ الم کے معنیٰ کوئی نہیں جانتا لیکن جب کوئی تلاوت کرے گا تو از روئے حدیث اس کو تیس نیکیاں مل جائیں گی۔

حقانیتِ اسلام کی عظیم الشان دلیل

جو آیت تلاوت کی تھی اب اس کی تفسیر کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
غُلِبَتِ الرُّومُ (سورة الروم، آیت:۲)

روم کے لوگ مغلوب ہوگئے۔ رومیوں پر ایرانیوں کے غالب آنے کا یہ واقعہ قرآنِ پاک، اسلام، اللہ تعالیٰ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و حقانیت کا عظیم الشان واقعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ خبر دے رہے ہیں غُلِبَتِ الرُّومُ اہلِ روم مغلوب ہوگئے، شکست کھا گئے اور اہلِ فارس جیت گئے۔ چونکہ اہلِ روم عیسائی تھے، صاحبِ کتاب تھے چنانچہ مکہ شریف کے مسلمان چاہتے تھے کہ اہلِ کتاب جیت جائیں، اگرچہ وہ بھی کافر تھے مگر مسلمانوں سے نسبتاً قریب تھے، ان کے پاس آسمانی کتاب انجیل تو تھی، مگر کافر چاہ رہے تھے کہ اہلِ فارس جیت جائیں کیونکہ وہ مشرک تھے، آگ کو پوجنے والے تھے۔ چنانچہ جب رومی شکست کھاگئے تو مشرکین نے خوشیاں منائیں اور مسلمانوں کو طعنہ دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے طعنے کا جواب عطا فرمایا کہ یہ شکست چند دن کے لیے ہے، جلد ہی میں رومیوں کو پھر غالب کردوں گا غُلِبَتِ الرُّومُ فِی اَدنَی الاَرضِ وَہُم مِنم بَعدِ غَلَبِہِم سَیَغلِبُونَ اہلِ روم مغلوب ہوگئے لیکن مغلوب ہونے کے بعد عنقریب پھر غالب آجائیں گے۔ اس آیت کی وجہ سے مشرکین نے کتنے دانت پیسے ہوںگے کہ کاش قرآنِ پاک کی یہ آیت سچی نہ ہو، رومی ہمیشہ مغلوب رہیں اور ان کو کبھی فتح نہ ہو، ساری دنیا کے کافروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ قرآن پاک غلط ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت اور قدرت کے سامنے قرآن پاک کو کون غلط کرسکتا تھا چنانچہ قرآنِ پاک کی صداقت ظاہر ہوئی اور پھر کچھ دن کے بعد رومیوں کو اللہ نے فتح دے دی اور مشرکین دانت پیس کے رہ گئے۔ آگے اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں:لِللّٰہِ الاَمرُ مِن قَبلُ وَمِنْھُمْ بَعدُ

اللہ ہی کی حکومت اور اختیار تھا اُس وقت بھی جب ان کو شکست ہوئی اور جب اُنہیں فتح دوں گا تو یہ بھی میری ہی حکومت اور اختیار سے ہوگا، پہلے بھی میرے ہی حکم سے وہ مغلوب ہوئے اور آئندہ میرے ہی حکم سے جیتیں گے۔ اس فتح اور شکست کا راز یہ تھا کہ اُ س زمانے میں فارس اور روم کفار کی دو بڑی طاقتیں تھیں، اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ دونوں کافر آپس میں لڑ کر کمزور ہوجائیں اور میرے نبی کے لیے فتح مکہ کا راستہ ہموار ہوجائے، اللہ تعالیٰ کے یہ سب تکوینی راز ہیں۔


تو جب یہ آیات نازل ہوئیں جن میں پیشین گوئی تھی کہ رومیوں کو اللہ تعالیٰ فتح دے گا تو صدیقِ اکبر نے مارے خوشی کے مجامع الاسواق (بازار) میں جاکر جہاں لوگ بیٹھتے تھے اعلان کردیا کہ اے مشرکو اے کافرو! خوشیاں مت مناو، اللہ تعالیٰ جلد اہلِ روم کو جو اہل کتاب ہیں پھر فتح دیں گے۔

حضرت صدیقِ اکبر کا یہ اعلان سن کر ابی ابن خلف جو مسلمانوں کا بہت ہی شدید دشمن تھا بولا کہ اے صدیق تم جھوٹ بولتے ہو، رومیوں کو ہرگزفتح نہیں ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کے دشمن تو ہی جھوٹا ہے، اگر تین سال کے اندر رومی غالب نہ ہوئے تو میں تم کو دس اونٹ دوں گا اور اگر میرے اللہ کا اعلان صحیح ہواتو دس اونٹ تم کو دینا پڑیں گے۔ چونکہ اس وقت تک قمار یعنی جوا حرام نہیں ہوا تھا اس لیے صدیقِ اکبر نے یہ شرط لگائی۔ جب صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے تو عرض کیا کہ میں نے ایک کافر کو یہ چیلنج کیا ہے۔ آپ نے فرمایاکہ میں نے تو تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تین سال کے اندر فتح ہوگی، اللہ  تعالیٰ نے فِی بِضعِ سِنِینَ نازل فرمایا ہے، بِضعِ تین سال سے نو سال کا زمانہ کہلاتا ہے لہٰذا دوبارہ جاو اور اس سے کہو کہ میں دس اونٹوں کے بجائے سو کی شرط لگاتا ہوں اور مدت تین سال کی بجائے نو سال مقرر کرتا ہوں کہ نو سال کے عرصہ میں رومیوں کو فتح حاصل ہوجائے گی۔ اگر نوسال کے اندر اندر رومیوں کو فتح نہ ہوئی تو ابو بکر تم کو سو اونٹ دے گا اور اگر اس عرصہ میں رومی غالب ہوگئے تو تم کو سو اونٹ دینا پڑیں گے۔ ابی ابن خلف اس معاہدہ پر راضی ہوگیا۔

کچھ عرصہ بعد جب ہجرت کا حکم ہوا تو ابی ابن خلف کافر نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر تم مدینہ چلے گئے اور تمہارا قول غلط ہوگیا اور تمہارے اللہ کاکلام صحیح نہ ہوا تو سو اونٹ کون دے گا؟ آپ نے کہا کہ میرا بیٹا عبد الرحمن دے گا، اس کے بعد ابی ابن خلف نے بھی اپنے بیٹے کو کفیل بنا لیا کہ اگر میں مر گیا تو میرا بیٹا سو اونٹ دے گا۔ اللہ کی شان کہ نو سال پورے نہیں ہوئے تھے کہ ساتویں برس اللہ نے رومیوں کو فتح دے دی جبکہ ساری دنیائے کفر دانت پیس رہی تھی اور سر توڑ کوشش کررہی تھی کہ یہ جنگ میں کبھی نہ جیتیں تا کہ اسلام کا چراغ بجھ جائے لیکن حضور صلی اللہ  علیہ وسلم کا چراغ اللہ کا چراغ ہے۔اللہ نے ساتویں سال رومیوں کو فتح دے دی۔

بتاو! ساری دنیائے کفر کیوں نہ اپنے گھوڑوں اور تلواروں سے ایرانیوں کی مدد کو پہنچی تاکہ رومیوں کو نہ جیتنے دیتی اور قرآن پاک کا دعویٰ غلط کردکھاتی لیکن قیامت تک کسی میں یہ طاقت نہیں جو اللہ کے حکم کو نافذ ہونے سے روک سکے۔ اللہ کے کلام کی زبردست صداقت ہمارے ایمان ویقین کا ذریعہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رومیوں کو جتا دیا تو اس وقت ابی ابن خلف مرچکا تھا۔ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شرط کے مطابق اس کے لڑکے سے سواونٹ وصول کرلیے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اونٹ لے کر حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان اونٹوں کو صدقہ کردو۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس وقت جوا کی حرمت کی آیت نازل نہیں ہوئی تھی لیکن جو چیز آئندہ حرام ہونے والی تھی وہ بھی صدیقِ اکبر کی شان کے مناسب نہیں تھی اور قمار(جوا) کی حرمت سے قبل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی قمار کو پسند نہیں فرمایا۔ جس طرح شراب سابقہ زمانے میں حلال تھی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے اُس زمانے میں بھی جبکہ شراب حرام نہیں تھی کبھی شراب نہیں پی۔ آہ

حسن کا انتظام ہوتا ہے
عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے

آج یہ واقعہ میں نے اس لیے بیان کیاکہ یہ سورة مسلمانوں کے ایمان و یقین بڑھانے کا زبردست ذریعہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ حضرت صدیقِ اکبر کو کلام اللہ کی صداقت اور اسلام کی حقانیت پر کیسا یقین تھا کہ شرط بھی لگا دی کہ ضرور تین سال سے لے کر نو سال کے عرصے میں رومی جیتیں گے، قرآن کیسے غلط ہوجائے گا۔

تو دوستو! اس زمانے میں اسی چیز کی فکر کرلو کہ جو عمرہ کرنے جانے والے ہیں اگر مکہ شریف میں کوئی عورت سامنے اچانک نظر آجائے تو فوراً نظر نیچی کر کے کہو کہ یااللہ مکہ شریف میں، تیرے شہر میں، یہ عورت تیری مہمان ہے لہٰذا یہ میری ماں سے زیادہ معزز ہے، اپنے نفس سے کہو کہ مکہ جانے والی خواتین جو حج و عمرہ کرنے جاتی ہیں میری ماں سے زیادہ محترم ہیں، خدا محترم ہے لہٰذ اس کا مہمان بھی محترم ہے خواہ عورت ہو یا مرد ہو۔ اور مطاف کے قریب نہ بیٹھو کیونکہ طواف میں لڑکیاں بھی ہوتی ہیں اور مرد بھی لہٰذا مطاف سے تھوڑا فاصلے سے بیٹھو تا کہ نظر کے زاوئیے میں کوئی حسن آئے ہی نہیں، قریب بیٹھنے میں اندیشہ ہے کہ نظر اِدھر اُدھر پڑجائے اور حرام کی مرتکب ہوجائے۔ اور جب مدینے شریف جاو تو وہاں بھی کوئی عورت سامنے آئے مصر کی، انڈونیشیا کی، اُردن کی کوئی گذر جائے تو فوراً نظر بچا کر یہی کہو کہ اے اللہ یہ مدینے پاک کی مہمان ہے، اس کو ڈبل عزت حاصل ہے کہ اے اللہ یہ تیری بھی مہمان ہے اور تیرے رسول کی بھی مہمان ہے کیونکہ مدینہ شریف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے۔ بس پھر دیکھو کیسا عمرہ ادا ہوتا ہے اور کیسا نور عطا ہوتا ہے، حلاوتِ ایمانی سے دل بھر جائے گا ان شاءاللہ تعالیٰ۔

جنہوں نے پرچے دیئے ہیں اور جن لوگوں کے دل میں جو حاجت ہے سب لوگ نیت کرلو کہ ان پرچوں میں جو حاجتیں ہیں اور ہم سب کے دل میں جتنی بھی نیک مرادیں ہیں اللہ اپنی رحمت سے سب پورا فرما دے اور جس کو جو پریشانی، جو غم ہے خواہ روحانی بیماری ہو یا جسمانی اللہ تعالیٰ سب کو شفاءدے د ے، جسمانی بیماری کو بھی شفاءدے دے اور روحانی بیماری کو بھی شفاءدے دے۔ جس کو غیر اللہ کے عشق ومحبت کا مرض ہے خدائے تعالیٰ ہمارے قلب کو اس غیر اللہ کے کینسر سے پاک فرماد ے۔ ان حسینوں کے عارضی ڈسٹمپر بول و براز اور گندگی سے بھرے ہوئے ہیں۔ دوستو! اپنی بیوی کے علاوہ کسی کو نظر اٹھا کر مت دیکھو پھر دیکھو دل میں اللہ کیسا چین دیتا ہے۔ آہ! دردِ دل سے کہتا ہوں کہ مالک پر مر کر تو دیکھو، وہ ارحم الراحمین ہے

نیم جاں بستاند و صد جاں دہد
آنچہ در وہمت نیاید آں دہد

اللہ مجاہدے میں آدھی جان لے کر سو جان دیتا ہے۔ یہ کہنے والا جلال الدین رومی ہے، صاحبِ قونیہ شاہ خوارزم کا نواسہ ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار کہنے والا۔ قونیہ کے جس جنگل میں مولانا رومی کے ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار ہوئے اختر نے جاکر اس جنگل کی زیارت کی ہے۔ دوستو! یہ عرض کرتا ہوں کہ اللہ پر آدھی جان دے دو اﷲ سو جان عطا کرے گا اور آدھی جان جو بچی ہے وہ الگ رہی تو آدھی جان جو گئی اس کے بدلے میں سو جان پاگئے اور آدھی جان پلس (Plus) میں رہی، لہٰذا نفع ہی نفع میں رہو گے اور اللہ کو جان دینے کا زمانہ کب ہے؟ کیا مرنے کے بعد جان دو گے؟ مرنے کے بعد جان دینے کی فیلڈ چِھن جائے گی لہٰذا اس کریم مالک پر ابھی اسی زندگی میں اپنی جان فدا کر دو۔ یااللہ ہمیں جسمانی روحانی شفا دے دے، دونوں جہاں کی نعمتیں ہم فقیروں کو بخشش کردے، آمین۔

وَاٰخِرُ دَعوَانَا اَنِ الحَمدُ ِلِللّٰہِ  رَبِّ العٰلَمِینَ۔

وَصَلَّی االلہُ عَلَی النَّبِیِّ الکَرِیمِ۔

05 March 2010

راے عالی اکابر علماءکرام براے تصانیف حضرت والا

راے عالی اکابر علماءکرام براے تصانیف حضرت والا